غدیر اور ہماری ذمہ داریاں(امام خمینی ره کی نظر میں
حضرت علی علیہ السلام اسمائے الٰھیہ کے مظھر ہیں اور آپ کی شخصیت میں سب سے عجیب بات یہ ہے کہ آپ کی زندگی کے مخفی پھلو آپ کے نمایاں پھلوئوں سے کھیں زیادہ ہیں حتیٰ آپ کی زندگی کا وہ پھلو بھی جس تک بشر پھنچ سکا ہے یا پھنچے گا مکمل طور پر قابل فھم نھیں ہے آپ کی زندگی کا ایک پھلو دوسرے پھلو سے متضاد نظر آتا ہے ۔انسان سوچنے پر مجبور ہے کہ ایک انسان جو زھد کے عظیم ترین مقام پر فائز ھو وہ کیوں کر عظیم تر ین جنگجو بھی ھو سکتا ہے ۔ اس لئے کہ عام انسانوں میں دیکھنے میں آتا ہے جو جنگجو ھوتا ہے وہ زاھد نھیں ھوتا ۔ جب کہ آپ کے زھد کا عالم یہ تھا کہ خوراک و غیرہ کے معاملے میں بھی کمترین چیز پہ اکتفا کرتے تھے لیکن اس کے باوجود آپ کے بازوئوں میں قوت و طاقت تھی ۔
آپ کو مختلف علوم پر اس قدر دسترس تھی کہ ھر شعبے کا ماھر انسان آپ کو اپنے ہی شعبہ سے وابستہ سمجھتا ہے ۔ فقھاءآپ کو اپنا ھم صف قرار دیتے ہیں اور جو دوسرے فنون میں ماھر ہیں وہ آپ کو اپنے فن سے متعلق بتاتے ہیں جب کہ آپ کی ذات وہ ذات ہے جو تمام اوصاف و کمالات کی حامل ہے اور آپ کو کسی ایک شعبے سے مخصوص نھیں کیا جاسکتا ۔
میں کبھی سوچتا ھوں کہ کس شباھت کی بنا پر ھم اپنے بارے میں اس عظیم شخصیت کے شیعہ ھونے کا دعویٰ کرتے ہیں اگر مفکر ین، اھل قلم اور صاحب نظر افراد حضرت علی علیہ السلام کے روحانی اور مادی پھلوئوں کے علاوہ دوسرے تمام زندگی سے وابستہ امور کا جائزہ لیں جو کہ ابتدائی عمر سے بستر شھادت تک آپ کی شخصیت میں موجود رھے ہیں تو کیا ھم تب بھی اپنے بارے میں آپ کے شیعہ ھونے کا دعویٰ کر سکتے ہیں ؟
در حقیقت اگر ھم اپنی حالت پر حقیقت پسندی سے غور کریں تو ھم اپنے اور حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے درمیان ایک بھی شباھت پیدا نھیں کر سکتے۔
حضرت علی علیہ السلام خدا کی عبادت کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔
۱۔غلاموں کی طرح ڈر ڈر کر عبادت ۔
۲، بھشت کی لالچ میں عبادت ۔
۳۔ خدا کی محبت کی بنا پر عبادت ۔
اور پھر تینوں کی وضاحت کرتے ھوئے فرماتے ہیں کہ پھلی والی عبادت غلاموں کی ہے دوسری عبادت تاجروں کی ہے اور تیسری عبادت خدا سے محبت رکھنے والوں کی عبادت ہے ۔
اب آپ یہ بتایئے کہ اگر آپ سے یہ وعدہ کر لیا جائے کہ آپ میں سے کوئی بھی دوزخ نھیں جائے گا اور سب کے سب بھشت میں جائیں گے تو بھی کیا آپ خدا کی عبادت کریں گے ؟
اگر آپ سے کھا جائے کہ تم پر دوزخ کے دروازے بند ہیں لیکن میری محبت کی خاطر عبادت کرو تو کیا آپ اپنی ذات میں ایسی محبت پاتے ہیں جو آپ کو عبادت پر مائل کر سکے ؟
جھاں نہ خوف ھو نہ امید ھو اور نہ ھی کوئی دوسری نفسانی جھت ،میں عرض کر چکا ھوں اس طرح کے دعوے تو بھت ھو سکتے ہیں لیکن عمل مشکل ہے ۔اس لئے کہ ھمارے اندر اگر کھیں محبت ہے تو وہ جب نفس ہے ھم ابھی تک نفسانی مدارج سے ایک قدم بھی آگے نھیں بڑھ سکے ہیں حتیٰ وہ پھلا قدم بھی نھیں بڑھا سکے ہیں جسے اھل سلوک لفظ " یقظہ"یعنی بیداری کھتے ہیں ھم ابھی تک بھی ظاھر ی دنیا کے حجاب میں گرفتار ہیں اور شاید آخرت تک بھی گرفتارھی رھیں مگر یہ کہ خدا وند عالم کی خاص عنایات ھمارے شامل حال ھو جائیں ۔
آج کے اس مبارک موقع پر روایات میں وارد ہے کہ ھمیں اس ذکر کا ورد کرنا چاھئے " الحمد للّٰہ الَّذی جعلنا من المتمسکین بولایة امیر المومنین و اھل بیت علیھم السلام"میں پوچھنا چاھوں گا کہ تمسک کا مطلب کیا ھوتاہے ؟ تمسک کا مطلب آیا یھی ہے کہ ھم ان کے کلمات کو پڑھ لیں اور آگے بڑھ جائیں جب کہ ھم جس تمسک کو اپنی زبان سے کھہ رھے ہیں اور وہ محبت سے بھی مربوط نھیں ہے بلکہ حضرت علی علیہ السلام کی ولایت سے تمسک کرنا ہے اور ولایت حضرت علی علیہ السلام سے تمسک اس وقت تک نھیں ھو سکتا جب تک ھم ان مقاصد کی پیروی نہ کریں جو حضرت علی علیہ السلام کے مقاصد تھے ۔
صرف یہ کھنا کہ ھم حضرت علی علیہ السلام کے شیعہ یا ان کی ولایت سے متمسک ہیں ھمارے لئے کافی نھیں ہے اس لئے کہ وہ لفظی امور نھیں ہیں کہ جو لفظ کھنے سے تحقق پاجائیں بلکہ یہ تمام امور عملی ہیں ۔
پس جو لوگ بھی یہ ادعا کرتے ہیں کہ ھم حضرت علی علیہ السلام کے شیعہ ہیں اور ان کے تابع ہیں انھیں اپنے قول سے نھیں بلکہ اپنے فعل سے ثابت کرنا ھوگا کہ وہ شیعہ علی ابن ابی طالب علیھما السلام ہیں اور اپنے فعل سے ھم اس وقت ثابت کر سکتے ہیں جب آپ کی پیروی کریں اور جب تک یہ پیروی اور اتباع نہ ھو ھم خود کو حضرت علی علیہ السلام کا شیعہ نھیں کھہ سکتے اور اگر بغیر آپ کی تبیعت کئے ھم پھر بھی کھہ رھے ہیں کہ ھم حضرت علی علیہ السلام کے شیعہ ہیں تو یہ ایک عبث بات ہے جس کی کوئی حقیقت نھیں ہے ۔
خدا ھم سب کو حضرت علی اور ائمہ علیھم السلام کے دوست داروں اور موالیوں اور شیعیان حیدر کرار میں سے قرار دے۔
Add new comment