من کنت مولاہ فھذا علی علیہ السلام مولا
محدثین اور مورخین نے زمانہ قدیم اور صدر اسلام سے اس حدیث کو اپنی اپنی مجامع احادیث اور تاریخ کی کتابوں میں درج کیا ہے ۔
شیعہ اور سنی کے ہاں معتبر احادیث کی کتابوں میں اس حدیث کا برابر تذکرہ موجود ہے اورایسے واسطوں سے یہ حدیث دونوں کے ہاںایسے واسطوں سے ہوتی ہے کہ جن واسطوں کو قبول کیاجاتا ہے اس حدیث کے بعض حصے اتنے تسلیم شدہ ہیں کہ اس پر پوری امت کا اتفاق ہے اور سب نے ان حصوں کا ذکر کیاہے.... ان جملوں سے بلاشبہ حضرت علی علیہ السلام کی ولایت اور خلافت بلافصل کا مسئلہ ثابت ہوتا ہے ۔
حضرت پیغمبراکرم نے اپنے خطاب میں لوگوں سے فرمایا خطاب سے پہلے سوال کیا الست اولیٰ بکم من انفسکم؟ قالو بلی!کیا میں تمہاری نسبت تمہاری جانوں پر زیادہ حق نہیں رکھتا ہوں ؟ سب نے جواب میں کہا جی ہاں! آپ کا ہمارے اوپر خود ہم سے زیادہ حق ہے ....اس جواب کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو بلند کیا اور آپ کا ہاتھ پکڑ کر سب کو حضرت علی علیہ السلام دیکھا کر واضح اعلان فرمایا :فمن کنت مولاہ فھذا علی مولاہ اللھم وال من والاہ دعادمن عاداہ وانصر من نصرہ واخذل من خزلہ ۔
پس جس شخص کا میں مولا ہوں تو اسکے یہ علی علیہ السلام مولا ہیں .... اے اللہ تو اس سے ولایت رکھ جو علی علیہ السلام سے ولایت رکھے تو ا س سے دشمنی رکھ جو علی علیہ السلام سے دشمنی رکھے .... اے اللہ ! تو اس کی نصرت فرما جو علی علیہ السلام کی مدد کرے اور تواسے رسوا کر جو علی علیہ السلام کو چھوڑ جائے اور علی علیہ السلامکی نصرت نہ کرے ۔
یہ الفاظ اہل سنت کی کتابوں میں واقعہ غدیر کے بیان کے ساتھ نقل ہوئے ہیں ان جملوں کے ہمراہ جو قراائن اور شواہد موجود ہیں وہ ہمیں حضرت علی علیہ السلامکی ولایت اور خلافت بلافصل کے مسئلہ میں ہر دوسری دلیل سے مستغنی وبے نیاز کردیتے ہیں۔ان شواہد میں سے جناب حسان بن ثابت کے وہ اشعار ہیں جو آپ نے حضوراکرم کے خطاب کے فوراً بعد انہی جملوں کی روشنی میں ارشاد فرمائے۔
حسان بن ثابت کا واقعہ غدیر کے بارے پہلا قصیدہ
حافظ ابونعیم اصفہانی وفات ۰۳۴ہجری قمری اپنی کتاب ”مانزل من القران فی علی علیہ السلام“ کے ص ۹۵ پر حدیث غدیر کا ایک حصہ نقل کر تے ہوئے اس مقام پر پہنچتے ہیں کہ حضور اکرم کے خطاب کے بعدحسان بن ثابت کھڑے ہوتے ہیں اور حضورر اکرم سے عرض کرتے ہیں اے رسول خدا ! مجھے اجازت دیں میں علی علیہ السلام کے بارے میں کچھ اشعار کہہ دوں پیغمبراکرم نے فرمایا اللہ کے نام کی برکت سے کہو۔
پس اس اجازت کے بعد حسان بن ثابت کھڑے ہوئے اور فی البدیہہ یہ اشعار کہے
۱۔ ینادیھم یوم الغدیرتبیھم بخم فاسمع بالرسول منادیا۔
غدیر کے دن انکے نبی ان سب کو آواز دیتے ہیں خم کے میدان میںجو رسول اللہ نے فرمایا اسے تم سنو۔
۲۔ یقول فمن مولا کم واولیکم فقالو اولم یبدواہناک التعامیا
آپ ان سے پوچھتے ہیں بتاﺅ کہ آپ کے مولا اورآپ کے اوپر سب سے اولیٰ کون ہیں؟ سب نے اس سوال کا جواب دیا اورجواب دیتے وقت لاعلمی کا اظہار نہیں کیا۔
۳۔ الہک مولانا وانت ولینا ولم ترمنا فی الولایة عامیا
آپ کا معبود، الہ، ہمارا مولا ہے اورآپ ہمارے ولی ہیں اورآپ ہمیں ولایت کے امر میں نافرمان نہ پائیں گے ۔
۴۔ فقال لہ قم یا علی فاننی رضیتک من بعدی اماما وہادیا
پس رسول اللہ نے انکے لئے (علی علیہ السلام کیلئے )فرمایا اے علی علیہ السلام تم کھڑے ہو جاﺅ ....بتحقیق میں نے اپنے بعدآپ کو ہادی اور امام چن لیا ہے اورمیں اس پرراضی ہوں۔
۵۔ ہناک دعااللھم وال ولیہ وکن للذی عادی علیا میعادیا۔
اسی مقام پر آپ نے یہ دعامانگی ....اے اللہ جو علی کا ولی ہو تو اس سے ولایت رکھ اور جو علی علیہ السلام سے دشمنی کرے اے اللہ تو اس سے دشمنی رکھ۔
ان اشعار کے اختتام پر حضور اکرم نے حسان بن ثابت کو شاباش دی اور دعافرمائی کہ ہمیشہ اے حسان روح ال القدس آپ کی مدد کرے گا جب تک تم اپنی زبان سے ہماری نصرت کرتے رہو گے
ان اشعار کو سلیم بن قیس ہلالی نے اپنی کتاب کی ج ۲ ص ۸۲۸ پر پہلی والی حدیث کے ضمیمہ کے ساتھ نقل کیا ہے ۔اورمرحوم امینی نے غدیر کے موضوع پراپنی عمدہ ترین کتاب الغدیر ج ۲ ص ۶۳ پر نقل کیا ہے ۔ان اشعار کو اہل سنت کی دسیوں کتابوں میں نقل کیا گیا ہے
محمد بن عمران خراسانی نے مرقات الشعر میں ،ابو سعید خر کوشی نے اپنی کتاب شرف المصطفیٰ میں،ابن مردویہ ابونعیم اصفہانی ”مانزل من القرآن فی علی“ میں، ابوسعید السجستانی نے اپنی کتاب الولایة میں،خوارزمی نے مناقب میں، الولفتح ن نطنزی نے الخصائص العلویہ میں،ابن حوزی نے تذکرہ الخواص میں،گنجی شافعی نے کفایة الطالب میں، حموینی نے فرائدالسمطین میں، محمد بن یوسف زرندں نے نظم در سمطین میں اور جلال الدین سیوطی نے اپنے اشعار کے رسالہ میں بیان کیا ہے ۔اس سب کے باوجود اگرکوئی مسلمان حضرت کی ولایت کا انکار کرے اورآپ کی خلافت بلافصل کو نہ مانے تو پھر اس کیلئے سورہ یونس کی آیت ۲۳ ہی پڑھ سکتے ہیں
فما بعد الحق الاالضلال
حدیث غدیر کی اسناد کتب شیعہ میں
کوئی حدیث مسلمانوں میں اتنے زیادہ واسطوں سے بیان نہیں ہوئی جس قدر حدیث غدیر بیان ہوئی ہے کیونکہ غدیر کے میدان میں ایک لاکھ بیس ہزار سے زائد افراد اس حدیث کو تمام تفصیلات سمیت سننے والے تھے اور ولایت علی علیہ السلام کے اعلان کے سامع بھی تھے اور شاہد وناظر بھی تھے سب نے علی علیہ السلام کا مقام پیغمبر اکرم کے پہلو میں دیکھا اور تمام اصحاب سامنے بیٹھے تھے اور پھر سب نے بیعت کا منظر بھی دیکھا اورخود بیعت کرنے والوں میں تھے اور حارث بن نعمان نے جب ولایت علی علیہ السلام کا کھلے الفاظ میںانکار کیاتو ا س کے اوپر نازل ہونے والا عذاب بھی سب نے دیکھا ۔
حضورپاک کی رحلت کے بعد جو گھٹن کا ماحول تھا اسکی وجہ سے اس حدیث کو عام کرنا حکمرانوں کے مفاد میں نہ تھا اور احادیث نبویہ کو بیان کرنے کی پابندی کا قانون پوری قوت سے نافذ تھا منافقین بھی سرگرم عمل تھے اس سب کے باوجود اس حدیث کو اتنی کثیر تعداد میں بیان کرنے والے موجود ہیں کہ جن کے بارے جھوٹ کا احتمال تک نہیں دیا جاسکتا اور یہی بات اس کے ب برحق ہونے کی دلیل ہے ۔
ہم اس جگہ سے شیعہ کتب کا تذکرہ کرتے ہیں اور پھر اہل سنت کی کتابوں کا ذکر کریں گے ۔
علماءشیعہ کی احادیث سے متعلق کتابوں کے نام جس میں حدیث غدیر کا ذکر ہے ۔
..........................................................
حواله جات:
۱۔احتجاج طبرسی ج ۱ص ۶۶
۲۔ الصراط المستقیم شیخ علی بن یونس بیاضی ج ۱ ص ۱۰۳
۳۔ العدد القویہ شیخ علی بن یوسف حلی ص ۹۶۱
۴۔ التحصین سید بن طاوﺅس ص ۴۵۴
۵۔ عبقات الانوار میر حامد حسین ہندی جلد غدیر
۶۔ عوالم العلوم شیخ عبداللہ بحرانی ج ۵۱ ص ۷۰۳
۷۔روضة الواعظین ابن فتال نیشاپوری ج ۱ ص ۹۸
۸۔ کتاب شریف الغدیر نوشتہ علامہ امینی ج ۱ از صفحہ ۲۱ تا ۱۵۱ واز ص ۴۹۲تا ۲۲۳ برای حدیث۔
علماءاہل سنت کی کتب
اسکے بعد علماءاہل سنت کی کتب احادیث جن میں حدیث غدیرکا تذکرہ ہے۔
۱۔ تاریخ خطیب بغدادی ج ۸ ص ۰۹ ۲ ۲۔ الدر المنثور سیوطی ج ۲ ص ۹۵۲ ۳۔ البدایہ والنہایة نوشتہ ابن کثیر دمشقی ج ۵ ص ۴۱۲ ،ص ۹۰۲
۴۔ اسد الغابة ج ۳ ص ۷۰۳ وج ۵ ص۵۰۲ نوشتہ ابن اثیر ۵۔ شمس الدین جزری درکتاب اسنی المطالب ص ۴ ۶۔ ینابیع المودہ ص ۰۴ نوشتہ قندوزی حنفی
۷۔ ابن قتیبہ دینوری در المعارف ص ۱۹۲ ۸۔ مسند احمد بن حنبل ج ۴ ص ۱۸۲ ۹۔ سنن ابن ماجہ ج ۱ ص ۸۲ ،۹۲
۰۱۔خصائص نسائی ص ۶۱۔ ۱۱۔ مناقب خوارزمی ص ۰۳۱ ۲۱۔تاریخ الخلفاءسیوطی ص ۴۱۱۔۳۱۔ تفسیر طبری ج ۳ ص ۸۲۴
۴۱۔ فصول المھمہ ابن صباغ مالکی ص ۵۲ ۵۱۔ تفسیر فخر رازی ج ۳ص ۶۳۶ ۶۱۔ کنز العمال ج ۶ ص ۸۹۳
۷۱۔ مجمع الزوائد حافظ ہیثمی ج ۹ ص ۶۰۱ ۸۱۔ کتاب الاصابہ ابن حجر ج ۱ص ۲۷۳ ۹۱۔کتاب نوادر الاصول ترمذی
ان کے علاوہ سینکڑوں کتابیں ہیں جن میں اس واقعہ کو بیان کیا گیا ہے جن کا اس جگہ ذکر صفحات کی قلت کے باعث نہیں کررہے ہیں۔
ناقابل انکار حقیقت
سینکڑوں کتابیں ہیں جن میںواقعہ غدیر بیان ہوا ہے اسی طرح سینکڑوں شخصیات ہیں جنہوں نے واقعہ غدیر کے زمانہ سے لیکرآج تک اسے بیان کیا ہے سینکڑوں شعراءہیں جنہوں نے دس ہجری قمری سے لیکر آج تک اس واقعہ کو اپنے اشعارکے ذریعہ بیان کیا ہے اس واقعات کی اسناد کو جاننے کیلئے ’الغدیر‘کتاب کی جلد اول کا آپ مطالعہ کرسکتے ہیں۔
واقعہ غدیر کا انکار ناممکن ہے
مسلمانوں کاکوئی بھی فرقہ اس واقعہ کا انکار نہیں کرسکتا جب انکے پاس اس واقعہ کے انکار کا کوئی راستہ نہیں ملا تو انہوں نے حضرت پیغمبراکرم کے حضرت علی علیہ السلام کی ولایت وخلافت سے متعلق واضح اور روشن بیانات کی توجیہ اور تاویل کرکے خود کو تسلی دی ہے جبکہ حضوراکرم کے حضرت علی علیہ السلام کی ولایت وخلافت بلافصل کے متعلق واضح جملے ہیں جوآپ نے ہزاروں اصحاب کے سامنے بولے ہیں.... حقیقت امر یہ ہے کہ اصل واقعہ غدیراور اسکی کیفیت.... مقام غدیر خم پر حضوراکرم کا خطاب، ان سب کے بارے توجیہات کرنا ان واضح مطالب کا انکار ہے اوریہ بہت بڑی ناانصافی ہے۔ایسا اقدام قرآنی آیات کے مفاد کے بھی خلاف ہے اور اطاعت رسول کا مطلق فرمان الٰہی ہے،اسکے بھی خلاف ہے سورہ حشر آیت ۷ میں ہے مااتاکم الرسول فخدوہ ومانہاکم عنہ فانتھوا جوکچھ تمہارے پاس رسول لے آئیں تو تم سب اسکو لے لو اورجس سے وہ آپ کو روک دیں تو تم سب اس سے رک جاﺅ۔
واقعہ غدیر قرآنی آیات میں
پہلی آیت سورہ مائدہ کی آیت ۷۶ اس واقعہ کے مقدمات فراہم کرنے پر دلالت کر رہی ہے اس میں جو کچھ بیان کیا جاتا ہے اس اہمیت کو اجاگر کیا جارہا ہے۔
یا ایہا الرسول بلغ ماانزل الیک من ربک وان لم تفعل فما بلغت رسالتہ واللہ یعصمک من الناس۔
”اے رسول ! وہ کام جوآپ سے کہا گیا ہے اسے کرڈالو اور جو فرمان آپ کو دیا گیا ہے اسے پہنچا دو کیونکہ اگرآپ نے اس فرمان کو نہ پہنچایا تو گویاآپ نے کار رساکو پہنچایا ہی نہیں اللہ تعالیٰ لوگوں کے شر سے آپ کو محفوظ رکھے گا “۔
یہ آیت حجة الوداع میں نازل ہوئی اور اس میں جو فرمان دیا گیا وہ حضرت علی علیہ السلام بن ابی طالب علیہ السلام کی ولایت کا بیا ن تھا کہ رسول اللہ کے بعد مسلمانوں کی ولایت حضرت علی علیہ السلام کو حاصل ہے یہ مطلب شیعہ اور سنی تفاسیر میں اس آیت کے ضمن میں بڑی تفصیل کیساتھ بیان ہواہے۔
دوسری آیات
سورہ مائدہ کی آیت نمبر ۳ ہے جس میں یہ الفاظ بیان ہوئے ہیں الیوم یئس الذین کفروافلا تخشوھم واخشونینیآج کے دن (یعنی روز غدیر) کا فرمایوس ہوگئے پس تم مسلمان ان سے مت ڈرو اور اب تم مجھ (اللہ سے ) سے ڈرو۔یہ آیت خطبہ غدیر کے بعدنازل ہوئی اور روز عید غدیر ہی نازل ہوئی یہ سب فرمان جوآیا کہ الیوم اکملت لکم دینکم واتمت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا آج کے دن تمہارے لئے تمہارا دین کا مل ہوگیا اور تم پر میری نعمت پوری ہوگئی اورمیں نے تمہارے لئے اسلام کو بطور دین پسند کرلیا۔
یہ تینوں آیات اس واقعہ پر بخوبی دلالت کررہی ہیں اور اس کے ساتھ سورہ معارج کی آیت نمبر ۳ بھی شامل کرلیں جسکا پہلے بیان ہوچکا ہے کہ جب ولایت علی علیہ السلام کے کافر نے اللہ سے عذاب مانگا تو فوراً اس پر اللہ کی جانب سے عذاب رسول اللہ کی موجودگی میں اترا اور وہ ہلاک ہوگیا یہ اس پر دلیل ہے کہ جو بھی حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کا انکار کرے اس پر عذاب الٰہی ضرور اترے گا دنیا بھی اسکی بربادہوگی اور آخرت میں سخت خسارہ اٹھانے والوں سے ہوگا۔
آیت بلغ کے بارے تفسیری حوالہ جات
۱۔محمد بن جریر طبری درکتاب الولایہ مستوفای ص ۰۱۳
۲۔ فخر الدین رازی شافعی درتفسیر کبیر ج ۳ص ۶۳۶ متوفای س ۶۰۶۔ ۳۔ابواسحاق ثعلبی نیشابوری درالکشف والبیان متوفای ۷۳۴یا ۷۲۴۔ ۴۔حافظ ابونعیم اصفہانی درکتاب مانزل من القران فی علی متوفای س ۰۳۴ ۵۔حاکم حسکانی درکتاب شواہد التنزیل
۶۔ حافظ ابو عبداللہ عاملی در امالی ۷۔ابن مردویہ در کشف الغمہ ج ۱ ص ۴۲۳
۸۔ ابوسعید سجستانی درکتا ب الولایہ ۹۔ ابن عساکر شافعی در تاریخ دمشق ج ۲۱ص ۷۳۲
۰۱۔حموینی درفرائدالسمطین ج ۱ص ۸۵۱ ۱۱۔ہمدانی در مودة القربیٰ مودت خامسہ
۲۱۔ابن صباغ مالکی در فصول المھمة ص ۲۴ ۳۱۔سیوطی درالدر المنثو ر ج ۳ ص۶۱۱
۴۱۔ عبدالوہاب بخاری درتفسیر شوریٰ آیہ مودت
۵۱۔آلوسی بغدادی در تفسیر روح المعانی ۶۱۔ قندوزی حنفی در ینابیع المودة ج ۱ص۹۱
۷۱۔شیخ محمد عبدہ در تفسیر المنار ج ۶ص ۳۶۴
۸۱۔محمد بدخشانی در مفتاح النجیٰ ص۴۳ ۹۱۔قاضی شوکانی در تفسیر القدیر ج ۲ص ۰۶
۰۲۔مرحوم علامہ امینی درکتاب الغدیر ج ۱ص ۴۱۲
Add new comment