غدیر خم میں پیغمبر (ص) کا خطبہ

اس تاریخی واقعہ کی اھمیت کےلئے اتنا ھی کافی ھے کہ 110 صحابیوں نے اسے نقل کیا ھے ۔ لیکن اس کا مطلب یہ نھیں ھے کہ اتنی بڑی جمعیت میں سے صرف ان ھی افراد نے غدیر کے واقعہ کو نقل کیا ھے، بلکہ سنی علماء کی کتابوں میں اس واقعہ کے صرف 110 راوی ذکر ھوئے ھیں ۔ یہ ب

غدیر خم میں پیغمبر (ص) کا خطبہ 

حمد وثناء اللہ کی ذات سے مخصوص ہے ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں ، اسی پر توکل کرتے ہیں اور اسی سے مدد چاہتے ہیں ۔ہم برائی اور اپنے برے کاموں سے بچنے کے لئے اس کی پناہ چاہتے ہیں۔ وہ اللہ جس کے علاوہ کوئی دوسرا ہادی و راہنما نہیں ہے ۔اور جس نے بھی گمراہی کی طرف ہدایت کی وہ اس کے لئے نہیں تھی ۔میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے ،اور محمد اس کا بندہ اور رسول ہے۔

ہاں اے لوگو! وہ وقت قریب ہے کہ میں دعوت حق کو لبیک کہوں اور تمھارے درمیان سے چلا جاؤں تم بھی جواب دہ ہو اور میں بھی جواب دہ ہوں ۔

اس کے بعد فرمایا کہ : میرے بارے میں تمھارا کیا خیال ہے  ؟کیا میں نے تم سے متعلق پنی ذمہ داری کو پورا کر دیا ہے  ؟یہ سن کر پورے مجمع نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمات کی تصدیق کی اور کہا کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے بہت کوششیں کیںاوراپنی ذمہ داری کو پوراکیا اللہ آپ کو اس کا اچھا اجر دے ۔

پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:” کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اس پوری دنیا کامعبود ایک ہے اور محمد اس کا بندہ اور رسول ہے اور جنت و جہنم وآخرت کی جاویدانی زندگی میں کوئی شک نہیں ہے ؟ سب نے کہا کہ صحیح ہے ہم گواہی دیتے ہیں ۔،،

اس کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:” اے لوگو!میں تمھارے درمیان دو اہم چیزیں چھوڑ رہا ہوں ،میں دیکھوں گا کہ تم میرے بعد میری ان دونوں یادگاروں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہو ۔

اس وقت ایک شخص کھڑا ہوا اور بلند آواز میں سوال کیا کہ ان دو اہم چیزوں سے کیا مراد ہے؟

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ:  ایک اللہ کی کتاب ہے جس کا ایک سرا اللہ کی قدرت میں ہے  اور دوسرا تمھارے ہاتھوںمیں ،اور دوسرے میری عترت اور اہلبیت  ہیں،اللہ نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ ہرگز ایک دوسرے جدا نہ ہوں گے ۔

ہاں اے لوگوں! قرآن اور میری عترت پر سبقت نہ کرنا ،اور دونوںکے حکم کی تعمیل میں کوتاہی نہ کرنا ،ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے ۔

اس وقت حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ پکڑ کر اتنا اونچا اٹھایا کہ دونوںکی بغلوں کی سفیدی سب کو نظر آنے لگی،علی(ع) سے سب لوگوں کو  متعرف کرایا ۔

اس کے بعد فرمایا: ” مومنین پر خود ان سے زیادہ  سزوار کون ہے ؟“

سب نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔

پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :”اللہ میرا مولیٰ ہے اور میں مومنین کا مولا ہوںاور میں ان کے نفسوں پر ان سے زیادہ حق تصرف رکھتا ہوں۔“

ہاں اے لوگو!” من کنت مولاہ فہٰذا علی مولاہ اللہم وال من والاہ،وعاد من عاداہ واحب من احبہ وابغض من ابغضہ وانصر من نصرہ وخذل من خذلہ وادر ا لحق معہ حیث دار “

جس جس ک ا میں مولیٰ ہوں اس اس کے یہ علی مولا ہیں ، اے اللہ اسکو دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے اوراس کودشمن رکھ جو علی کو دشمن رکھے ،اس سے محبت کر جو علی سے محبت کرے اور اس پر غضبناک ہو جو علی پر غضبناک ہو ،اس کی مدد کرجو علی کی مدد کرے اور اس کو رسوا کر جو علی کو رسوا کر ے اور حق کو ادھر موڑ دے جدھر جدھرعلی مڑیں اوپر لکھے خطبہ کو اگر انصاف کے ساتھ دیکھا جائے تو اس میں جگہ جگہ پر حضرت علی علیہ السلام کی امامت کی دلیلیںموجو د ہیں (ہم جلد ہی اس قول کی وضاحت کریں گے)

حدیث غدیر کی جاودانی:

اللہ کا یہ حکیمانہ اردہ ہے کہ غدیر کا تاریخی واقعہ ایک زندہ حقیقت کی صورت میں ہر زمانہ میں باقی رہے اور لوگوں کے دلوں کو اپنی طرف جذب کرتا رہے ،اسلامی قلمکار ہر زمانے میں تفسیر ،حدیث،کلام اور تاریخ کی کتابوںمیں اسکے بارے میں لکھتے رہیں اور مذہبی خطیب اس کو واعظ و نصیحت کی مجالس میں حضرت علی علیہ السلام کے ناقابل انکار فضائل کی صورت میں بیان کر تے رہیں۔

اور فقط خطیب ہی نہیں بلکہ شعراء حضرات بھی اپنے ادبی ذوق ،فکر اور اخلاص کے ذریعہ اس واقعہ کو چار چاند لگائیں اور مختلف زبانوں میں مختلف طریقوں سے بہترین اشعار کہہ کر اپنی یادگار  قائم کریں (مرحوم علامہ امینیۺ نے مختلف صدیوں میں غدیر کے بارے میں کہے گئے اہم اشعار کو شاعر کے زندگی کے حالات کے ساتھ معروفترین منابع اسلامی سے نقل کرکے اپنی کتاب الغدیر میں جو گیارہ جلدوں پر مشتمل ہے بیان کیا ہے ۔)

دوسرے الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ دنیا میں ایسے تاریخی واقعات بہت کم ہیں جو غدیر کی طرح محدثوں ،مفسروں،متکلموں،فلسفیوں،خطیبوں، شاعروں،مؤرخوں اور سیرت نگاروں کی توجہ کا مرکز بنے ہوں۔

اس حدیث کے جاودانی ہونے کی ایک علت یہ ہے کہ اس واقعہ سے متعلق دو آیتیں قرآن کریم میں موجود ہیں لہٰذا جب تک قرآن باقی رہے گا یہ  تاریخی واقعہ بھی زندہ رہے گا ۔

 تاریخ کے مطالعہ سے  ایک بڑی دلچسپ بات سامنے آتی ہے  اور وہ یہ کہ اٹھارویں ذی الحجة الحرام مسلمانوں کے درمیان روز عید غدیر کے نام سے مشہور تھی یہاں تک کہ ابن خلکان ، المستعلی بن المستنصرکے بارے میں کہتا ہے کہ ۴۸۷  ئھ میں عید غدیر خم کے دن جو کہ اٹھارہ ذی الحجة الحرام ہے لوگوں نے اس کی بیعت کی اور المستنصر باللہ کے بارے میںلکھتا ہے کہ ۴۸۷  ئھ میں جب ذی الحجہ ماہ کی آخری بارہ راتیں باقی رہ گئیںتو وہ اس دنیا سے گیا اور جس رات میں وہ دنیا سے گیا ماہ ذی الحجہ کی اٹھارویں شب تھی جو کہ شب عید غدیر ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ابوریحان بیرونی نے اپنی کتاب  ا لآثار الباقیہ میں عید غدیر کو ان عیدوں میں شما رکیا ہے جن کا تمام مسلمان اہتمام کرتے تھے  اور خوشیاں مناتے تھے  -

صرف ابن خلقان اور ابوریحان بیرونی نے ہی اس دن کو عید کا دن نہیں کہا ہے بلکہ اہل سنت کے مشہور ومعروف  عالم ثعلبی نے بھی شب غدیر کو امت مسلمہ کے درمیان مشہور شبوں میں شمار کیا ہے ۔

اس اسلامی عید کی بنیاد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں ہی پڑگئی تھی کیونکہ  آپ نے اس دن تمام مہاجر ،انصار اور اپنی ازواج کو حکم دیا کہ علی علیہ السلام کے پاس جاؤاور امامت و ولایت کے سلسلہ میں ان کو مبارکباد دو ۔

زید ابن ارقم کہتے ہیں کہ : ابوبکر ،عمر،عثمان،طلحہ وزبیر مہاجرین میں سے وہ  افراد تھے جنھوں نے  سب سے پہلے حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھاپر بیعت کی اور مبارکباد  پیش کی۔بیعت اور مبارکبادی کیا یہ سلسلہ مغرب تک چلتا رہا-

حدیث غدیر کوایک سو دس راویوں نے بیان کیا ہے :

اس تاریخی واقعہ کی اہمیت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اس کو پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک سو دس اصحاب نے نقل کیا ہے۔

البتہ اس جملہ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صحابہ کے اتنے بڑے گروہ میں سے صرف انھیں اصحاب نے اس واقعہ کو بیان کیا ہے، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ اہل سنت کے علماء نے جو کتابیں لکھی ہیں ان میں صرف انھیں ایک سو دس افراد کا ذکر ملتا ہے ۔

دوسر صدی میں کہ جس کو تابعان کا دور کہا گیا ہے ان میں سے ۸۹  افراد نے اس حدیث کو نقل کیا ہے ۔

بعد کی صدیوںمیں بھی اہل سنت کے تین سو ساٹھ علماء نے اس حدیث کو اپنی کتابوں میں بیان کیا ہے  اور علماء کی ایک بڑی تعداد نے اس حدیث کی سند اور صحت کو صحیح تسلیم کیا ہے ۔

اس گروہ نے نہ صرف یہ کہ اس حدیث کو بیان کیاا بلکہ اس حدیث کی سند اور افادیت کے بارے میں مستقل طور کتابیں بھی لکھی ہیں۔

عجیب بات یہ ہے کہ عالم اسلام کے سب سے بڑپ مورخ طبری نے ” الولایت فی طرقِ حدیث الغدیر“ نامی کتاب لکھی اور اس حدیث کو ۷۵ طریقوں سے پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا ۔

ابن عقدہ کوفی نے اپنے رسالہ ولایت میں اس حدیث کو ۱۰۵  افرادسے نقل کیا ہے ۔

ابوبکر محمد بن عمر بغدادی جو کہ جمعانی کے  نام سے مشہور ہے  ا نھوں نے اس حدیث کو ۲۵ طریقوں سے بیان کیا ہے ۔

حدیث غدیر اور  مشہورعلما ء اہل سنت :

احمد بن حنبل شیبانی

ابن حجر عسقلانی

جزری شافعی

ابوسعید سجستانی

امیر محمد یمنی

نسائی

ابو الاعلاء ہمدانی

 اور ابو العرفان حبان

 نے اس حدیث کو بہت سی سندوں کے ساتھ نقل کیا ہے ۔

شیعہ علماء نے بھی اہل سنت کی مشہور کتابوں کو منبع وماخذ بنا کر اس تاریخی واقعہ کے بارے میں بڑی اہم کتابیں لکھیں ہیں۔ ان کتابوں میں جامع ترین کتاب ” الغدیر“ ہے جو عالم اسلام کے مشہورمؤلف علامہ ،مجاہد، مرحوم آیة اللہ امینیۺ کے قلم کا بہترین شاہکار ہے  (اس کتابچہ کو لکھنے کے لئے اس کتاب سے بہت زیادہ استفادہ کیاگیا ہے )

بہرحال پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امیر المومنین علی علیہ السلام کو اپناجانشین بنانے کے بعد فرمایا:” اے لوگو! ابھی ابھی جبرئیل امین یہ آیت لے کر نازل ہوئے <الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دیناً> آج میں نے تمھارے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمتوں کوبھی تمام کیا اور تمھارے لئے دین اسلام کو پسند کیا ۔

اس وقت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تکبیر کہی اور فرمایا :” اللہ کاشکرادا کرتا ہوں کہ اس نے اپنے آئین اور نعمتوں کو پورا کیا اور میرے بعد علی علیہ السلام کی وصایت و جانشینی سے خوشنود ہوا ۔

اس کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بلندی سے نیچے تشریف لائے اور حضرت علی علیہ السلام سے فرمایاکہ:” جاؤ خیمے میں جاکر بیٹھو، تاکہ اسلام کی بزرگ شخصیتیں اور سردار آپ کی بیعت کر کے مبارکباد پیش کریں۔

سب سے پہلے شیخین (ابوبکر و عمر) نے علی علیہ السلام کو مبارکباد پیش کی اور ان کو اپنا مولا تسلیم کیا ۔

حسان بن ثابت نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اجازت سے ایک قصیدہ کہہ کر اس کوپڑھا ،یہاں پر اس قصیدے کے صرف دواہم اشعا ر بیان کررہے ہیں :

فقال لہ قم یا علی فاننی

فانی رضیتک من بعدی اماما ً وہادیاً

فمن کنت مولاہ فہٰذا ولیہ

فکونو لہ اتباع صدق موالیا

یعنی علی علیہ السلام سے فرمایا :” اٹھو میں نے آپ کو اپنی جانشینی اور اپنے بعد لوگوں کی امامت و راہنمائی کے لئے منتخب کرلیا ۔“

جس جس کا میں مولا ہوں اس اس کے علی  مولا ہیں۔

 تم ،کہ ان کو دل سے دوست رکھتے ہو ،بس ان کی پیروی کرو۔

یہ حدیث علی علیہ السلام کی تمام صحابہ پرفضیلت اور برتری کے لئے سب سے بڑی دلیل ہے ۔

یہاں تک کہ امیر المومنین علیہ السلام نے مجلس شورائے خلافت میں  (جو کہ دوسرے خلیفہ کے مرنے کے بعد منعقد ہوئی) اور عثمان کی خلافت کے زمانہ میں اور اپنی خلافت کے دوران بھی اس پر احتجاج کیا ۔

اس کے علاوہ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا جیسی عظیم شخصیتوں نے حضرت علی علیہ السلام کی والا مقامی سے انکار کرنے والوں کے سامنے اسی حدیث سے استدلال کیا ۔

Add new comment