واقعه غدیر اور اس سلسله میں کتابیں

غدیر کا واقعہ بھت سے نقل و روایات اور وسعت اور شھرت نیز، تاریخ، تفسیر، حدیث و غیرہ کی کتابوں اور، اصحاب و تابعین، اور شعر و ادب کے ذریعہ اظھر من الشمّس ھے اور امت اسلامیہ کی ایک متواتر اور مسلّم حدیث و خبر کی حیثیت سے ثابت ھوچکا ھے۔ اس کے باوجود بعض کتابو

۱۔ ابن تیمیّہ کی منھاج السنّۃ[1]

علامہ امینی: کهتے ھیں کہ "اگر تم کسی کتاب کو دیکھنا چاھتے ھو جو اس کے نام و موضوع کے بر عکس ھو تو وہ ابن تیمیّہ کی "منھاج السنۃ" ھے۔

حقیقت میں یہ کتاب اس بات کی سزاوار ھے کہ اس کا نام "منھاج بدعت" رکھا جائے۔ یہ ایک ایسی کتاب ھے جو ضلالت، جھوٹ، مسلّمات کے انکار، تکفیر مسلمین اور اھل بیت علیهم السلام کی دشمنی سے بھری پڑی ھے۔ اس کتاب کے مؤلف نے اس میں حقائق کی تحریف کی ھے۔ بد گوئی اور ناروا باتوں سے کام لیا ھے۔ اس کے مطالب کا ایک نمونہ ملاحظہ ھو:

۱۔ ابن تیمیہ نے لکھا ھے: "شیعوں کی بیوقوفیوں میں سے ایک یہ ھے کہ وہ "عدد ۱۰" کو کراھت کے ساتھ زبان پر جاری کرتے ھیں۔ حتی عمارتیں وغیرہ بھی دس ستونوں کی تعمیر نھیں کرتے ھیں" ج۲، ص۱۴۳ میں لکھا ھے: شیعہ "عدد ۱۰" کو زبان پر جاری نھیں کرتے بلکہ کهتے ھیں نو ۹ اور ایک (مثلاً دس تومان کے بجائے کھتے ھیں ۹ تومان اور ایک تومان)

جواب: کیا یہ ایسے شخص کے لئے شرم کی بات نہیں جو اپنے آپ کو شیخ الاسلام جانتا ھو اور اپنی کتاب میں ایسی چیزیں مسلمانوں کے لئے لکھے اور نشر کرے؟!! اسے کتاب کے اندر مکرّر ذکر کرے اور اسے ایسے بیان کرے جیسے امت اسلامیہ کے لئے ایک تحقیق یا فلسفہ و عالی حکمت پیش کرتا ھو۔!!

قارئین کرام، حیرت کی بات یہ ھے کہ یہ شخص اپنے آپ کو صاحب علم و فضیلت بتاتے ھوئے ایسے سفید جھوٹ پولتا ھے۔ کیا کروڑوں شیعہ تمام دنیا میں زندگی بسر نھیں کرتے ھیں؟کیا دنیا بھر کی لائبریریاں شیعوں کی کتابوں سے بھری پڑی نھیں ھیں؟ شیعوں میں کون شخص اور ان کی کون سی کتاب اس مسخرہ پن کی تائید کرتی ھے؟

بلا شبہ شیعوں کے قرآن میں (وھی رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قرآن مجید جو تمام مسلمانوں کے ھاتھ میں ھے) درج ذیل آیات اور ان جیسی دیگر آیات موجود ھیں جن کی شب و روز تلاوت کی جاتی ھے:

(تلک عشرة کاملۃ)

(من جاء بالحسنۃ فلہ عشر امثالھا)

(و الفجر ولیال عشر)

(فأتوا بعشر سور مثلہ)

یہ دعائے عشرات ھے جسے شیعہ ھر جمعہ کو پڑھتے ھیں۔

یہ مستحب نمازین ھیں جن میں دس مرتبہ سورہ پڑھنے کا حکم دیا گیا ھے۔

اس کے علاوہ مختلف انداز میں شیعہ اس کلمہ کا استعمال کرتے ھیں:

"پیغمبروں کے نام دس ھیں"

"خدائے تعالیٰ نے عقل کو دس چیزوں سے تقویت بخشی ھے"

"امام کے صفات میں دس عدد ھیں"

"علی(ع) میں رسول خدا (ص) کی دس خصلتیں تھیں"

شیعہ کو دس خصلتوں کی بشارت دی گئی ھے"

"مکارم اخلاق کی دس خصلتیں ھیں"

"قیامت نہ آئے گی جب تک دس نشانیاں پوری نھیں ھوں گی"

مؤمن دس خصلتوں کے بغیر عاقل نھیں ھوسکتا ھے"

کھانے کی اشیاء میں سے دس چیزیں کھائی نھیں جاتی

"میت کی دس چیزیں پاک ھیں"

دس جگھوں پر نماز نھیں پڑھی جاسکتی ھے"

"ایمان کے دس درجے ھیں"

"دس خصلتوں میں عافیت ھے"

"زھد کے دس حصے ھیں"

شھرت کے دس حصے ھیں

برکت کی دس قسمیں ھیں

حیاء کے دس قسم ھیں

شیعہ میں دس صفتیں ھیں

اسلام کے دس حصے ھیں

مسواک کرنے میں دس خصلتیں ھیں

شیعوں کی تعمیرات، تاریخی عمارتیں اور آبادیاں سب کی سب زبان حال سے اس امر کی گواہ ھیں کہ ابن تیمیہ جھوٹا ھے اور شیعوں میں سے کوئی ایک فرد بھی ابن تیمیہ کے ان افسانوں کے بارے میں سوچ بھی نھیں سکا ھے۔

اس کے علاوہ صرف عدد دس میں کیا ایسی خصوصیت ھے جو حبّ و بغض کا سبب بنے؟!! کیا واقعاً دنیا میں آج تک کسی نے یہ سنا ھے کہ شیعہ دس کھنے کی جگہ پر نو اور ایک کھتے ھیں؟ خدا بچائے اس جھالت اور حماقت سے!!

۲۔ ابن تیمیہ کهتا ھے: "شیعوں کی حماقتوں میں سے ایک یہ ھے کہ انھوں نے منتظر کے لئے چند زیارت گاہیں مقرر کی ھیں اور وھاں پر اس کا انتظار کرتے ھیں جیسے سامرا کا سرداب اور دوسری جگھیں۔ شیعوں نے خچر یا گھوڑا یا دوسری کوئی چیز (گدھے کے مانند) کو اس سرداب یا زیارت گاہ کے سامنے کھڑا کر رکھا ھے تا کہ جب منتظر ظھور کریں تو اس پر سوار ھوجائیں اور وقت بے وقت اسے پکارتے ھیں کہ باھر نکل۔ حتی شیعوں کے درمیان ایسے افراد بھی پائے جاتے ھیں کہ جو اس ڈر سے نماز بھی نھیں پڑھتے ھیں کہ کہیں ایسا نہ ھو کہ وہ نماز میں مشغول ھوں اور منتظر ظھور کریں اور وہ نماز پڑھنے کی حالت میں ھوں اور منتظر کی خدمت کرنے سے محروم ھوجائیں۔ لهذا ھمیشہ اور مسلسل حتی نماز کے وقت بھی اس کا انتظار کرتے رھتے ھیں۔

وہ شیعہ جو منتظر کی زیارت گاہ سے دور جیسے مدینہ میں زندگی کرتے ھیں، ماہ رمضان کے آخری دس دنوں میں روبہ مشرق کھڑے ھو کر بلند آواز سے پکارتے ھیں: "نکل آ"!

جواب: حقیقت میں حیف ھے کہ انسان اپنے وقت اور کتاب کو ایسی چیزوں سے آلودہ اور ملوث کرے۔ یہ وہ پست اور شرمناک مطالب ھیں جنھوں نے ابن تیمیہ، اس کی کتاب بلکہ اس کی قوم (وھابیت) کو بھی رو سیاہ کر کے رکھ دیا ھے۔ لیکن اس ڈر سے کہ کھیں سادہ لوح انسان دنیا کے گوشہ و کنار میں ابن تیمیہ کے ان افسانوں، جھوٹ، توھمات سے متاثر نہ ھوں، میں مجبور ھوا کہ ان جھوٹ کے پلندوں اور افسانوں کو یهاں پر نقل کردوں[2] اور اعلان کروں کہ یہ چیزیں صرف ابن تیمیہ کی خیالی دنیا کی پیداوار ھیں۔

۳۔ ابن تیمیہ کھتا ھے: "تمام علماء کا اس بات پر اتفاق ھے کہ اھل قبلہ کے تمام فرقوں میں شیعہ سب سے زیادہ جھوٹے ھیں حتٰی صحاح کے مصنفوں جیسے بخاری نے، قدمائے شیعہ میں سے کسی ایک سے بھی روایت نھیں کی ھے"

جواب: ابن تیمیہ کا یہ فتویٰ کہ "تمام علماء، شیعوں کے جھوٹے ھونے پر اتفاق رکھتے ھیں" اس مطلب کی غمازی کرتا ھے کہ علماء اور دانشوروں نے اپنی کتابوں میں اس مسئلہ کے بارے میں کہ "اھل قبلہ میں سے کون فرقہ سب سے زیادہ جھوٹ بولنے والا ھے" مفصل بحث و تمحیص کی ھے اور نتیجہ نکالا ھے کہ "شیعہ سب سے زیادہ جھوٹ بولنے والے ھیں" اور جب اس اجماع علماء کی یہ بحث اختتام کو پہنچی تو صرف جناب ابن تیمیہ اس اجماع سے آگاہ ھوئے ھیں اور خوشی سے پھولے نہ سمائے اور خوشی سے رقص کرتے ھوئے یہ فتویٰ صادر کردیا ھے۔

حق یہ ھے کہ اس مرد (ابن تیمیہ) کی ھر کتاب اس کے جھوٹ اور لغو بیانی کی بھترین نا قابل انکار سند کی حیثیت رکھتی ھے اور ھمارے لئے بھترین دلیل اس کی اسی کتاب کا مطالعہ ھے تا کہ واضح ھوجائے کہ کون شخص اور کون سا فرقہ سب سے زیادہ جھوٹ بولنے والا ھے!!

جب کہ ھم دیکھتے ھیں کہ صحاح ستہ کے مصنفین نے بھت سے شیعہ اصحاب و تابعین سے روایات نقل کی ھیں اور اس قسم کے تقریباً ایک سو افراد ھیں جن میں سے بعض اشخاص بخاری، مسلم، نسائی اور ترمذی وغیرہ کے مشائخ و استاد بھی تھے اور ان کے نام صحاح ستہ میں جگہ جگہ پر نظر آتے ھیں۔[3]

۴۔ ابن تیمیّہ نے لکھا ھے: "بعض جھوٹ بولنے والوں نے اس آیۂ شریفہ: (انما ولیکم اللہ و رسولہ و الذین آمنوا الذین یقیمون الصلوة و یؤتون الزکاة وھم راکعون) کے بارے میں ایک حدیث جعل کی ھے اور کها ھے کہ یہ آیہ علی علیہ السلام کے بارے میں نازل ھوئی ھے کیونکہ انھوں نے نماز کی حالت میں انگھوٹھی صدقہ کے طور پر دی ھے۔ اس بات کے جھوٹ ھونے میں اھل علم کا اجماع ھے"۔[4]

جواب: سچ ھے جب انسان اتنا گر جائے کہ روشن اور ثابت حقائق کو نہ دیکھ سکے تو کیا کھا جائے؟!! انگوٹھی کو صدقہ کے طور پر دینے کے واقعہ کی روایت نامور علماء، ماھرین فن، اور حفاظ، جیسے امیر المؤمنین علیہ السلام، ابن عباس، ابوذر، عمار، جابر بن عبد اللہ انصاری، اور ابو رافع وغیرہ نے کی ھے، یہ کیسے جھوٹ ھوسکتا ھے؟!!

ابن تیمیہ کا ادعا ھے کہ "یہ حدیث اھل علم کے اجماع کی بناء پر جھوٹ ھے" یهاں پر ھم بعض محدثین، مؤرخین، و مفسرین کے نام ذکر کرتے ھیں جنھوں نے مذکورہ حدیث کو نقل کیا ھے اور ان میں سے ایک بڑی تعداد نے اس حدیث کو واضح اور صاف الفاظ میں صحیح اور حسن کھا ھے تا کہ یہ معلوم ھوجائے کہ کوئی اجماع نھیں تھا اور یہ خود جناب ابن تیمیہ کے جھوٹ کی پوٹ ھے۔

۱۔ واقدی (وفات ۲۰۷ ھجری)۔

۲۔ صنعانی (وفات ۲۱۱ ھجری)

۳۔ ابی شیبہ کوفی (وفات ۲۳۹ ھجری)

۴۔ ابو جعفر اسکافی (وفات ۲۴۰ ھجری)

۵۔ ابو محمد الکشی (وفات ۲۴۹ ھجری)

۶۔ ابو سعید کوفی (وفات ۲۵۷ ھجری)

۷۔ ابو عبد الرحمٰن نسائی (وفات ۳۰۳ ھجری)

۸۔ ابن جریر طبری (وفات ۳۱۰ ھجری)

۹۔ ابن ابی حاتم رازی (وفات ۳۲۷ ھجری)

۱۰۔ ابو القاسم طبرانی (وفات ۳۶۰ ھجری)

۱۱۔ ابو محمد انصاری (وفات ۳۶۹ ھجری)

۱۲۔ جصّاص رازی (وفات ۳۷۰ ھجری)

۱۳۔ زمانی ابن علی، (وفات ۳۸۴ ھجری)

۱۴۔ حاکم نیشا بوری (وفات ۴۰۵ ھجری)

۱۵۔ ابو بکر شیرازی (وفات ۴۰۷ ھجری)

۱۶۔ ابن مردویہ اصفھانی (وفات ۴۲۶ ھجری)

۱۷۔ ثعلبی نیشابوری (وفات ۴۱۷ ھجری)

۱۸۔ ابو نعیم اصفھانی (وفات ۴۳۰ ھجری)

۱۹۔ ماوردی فقیہ شامی (وفات ۴۵۰ ھجری)

۲۰۔ ابو بکر بیھقی (وفات ۴۵۸ ھجری)

۲۱۔ خطیب بغدادی (وفات ۴۶۳ ھجری)

۲۲۔ ابن ھوازن نیشابوری (وفات ۴۶۵ ھجری)

۲۳۔ واحدی نیشابوری (وفات ۴۶۸ ھجری)

۲۴۔ ابن مغازلی شافعی (وفات ۴۸۳ ھجری)

۲۵۔ ابو یوسف قزوینی (وفات ۴۸۸ ھجری)

۲۶۔ حاکم حسکانی (وفات ۴۹۰ ھجری)

۲۷۔ طبری شافعی (وفات ۵۰۴ ھجری)

۲۸۔ فراء بغوی (وفات ۵۱۶ ھجری)

۲۹۔ عبدری اندلسی (وفات ۵۳۵ ھجری)

۳۰۔ جارالہ زمخشری (وفات ۵۳۸ ھجری)

۳۱۔ سمعانی شافعی (وفات ۵۶۲ ھجری)

۳۲۔ ابو الفتح نطنزی (ولادت ۴۸۰ ھجری)

۳۳۔ قرطبی (وفات ۵۶۷ ھجری)

۳۴۔ اخطب خوارزمی (وفات ۵۶۸ ھجری)

۳۵۔ ابن عساکر (وفات ۵۷۱ ھجری)

۳۶۔ ابو الفرج ابن جوزی (وفات ۵۹۷ ھجری)

۳۷۔ فخر الدین رازی (وفات ۶۰۶ ھجری)

۳۸۔ ابن اثیر شیبانی خسروی (وفات ۶۰۶ ھجری)

۳۹۔ ابن طلحہ شافعی (۶۶۲ ھجری)

۴۰۔ سبط ابی جوزی (وفات ۶۵۴ ھجری)

۴۱۔ ابن ابی الحدید (وفات ۶۵۵ ھجری)

۴۲۔ گنجی شافعی (وفات ۶۵۸ ھجری)

۴۳۔ بیضاوی شافعی (وفات ۶۵۸ ھجری)

۴۴۔ محبّ الدین طبری (وفات ۷۰۱ ھجری)

۴۵۔ نسفی (وفات ۷۰۱ ھجری)

۴۶۔ شیخ الاسلام حموینی (وفات ۷۴۱ ھجری)

۴۷۔ خازن بغدادی (وفات ۷۴۱ ھجری)

۴۸۔ شمس الدین اصفھانی (وفات ۷۴۶ ھجری)

۴۹۔ جمال الدین زرندی (وفات ۷۵۰ ھجری)

۵۰۔ ابو حیّان اندلسی (وفات ۷۵۴ ھجری)

۵۱۔ احمد بن جزی کلبی (وفات ۷۵۸ ھجری)

۵۲۔ قاضی ایجی (وفات ۷۵۶ ھجری)

۵۳۔ نظام الدین نیشابوری

۵۴۔ سعد الدین تفتازانی (وفات ۷۹۱ ھجری)

۵۵۔ شریف جرجانی (وفات ۸۱۶ ھجری)

۵۶۔ مولی قوشچی (وفات ۸۷۹ ھجری)

۵۷۔ ابن صبّاغ مالکی (وفات ۸۵۵ ھجری)

۵۸۔ جلال الدین سیوطی (وفات ۹۱۱ ھجری)

۵۹۔ ابن حجر انصاری (وفات ۹۷۴ ھجری)

۶۰۔ مولی حسن چلبی۔

۶۱۔ مولی شیروانی۔

۶۲۔ قاضی شوکانی (وفات ۱۲۵۰ ھجری)

۶۳۔ شھاب الدین آلوسی (وفات ۱۲۷۰ ھجری)

۶۴۔ شیخ سلیمان قندوزی (وفات ۱۲۹۳ ھجری)

۶۵۔ سید مؤمن شبلنجی۔

۶۶۔ شیخ عبد القادر کردستانی (وفات ۱۳۰۴ ھجری)[5]

۵۔ ابن تیمیہ نے لکھا ھے: "شیعہ علی علیہ السلام کے ایمان و عدالت کو ثابت نھیں کرسکتے ھیں، تاکہ کہہ سکیں کہ وہ اھل بھشت میں، امامت کی بات تو دور کی ھے۔ اگر وہ خلافت کو ابوبکر، عمر و عثمان کے لئے ثابت نہ کریں" اور صفحہ ۱۶۳ پر لکھتا ھے: "شیعہ جب تک شیعیت پر باقی ھوں، علی علیہ السلام کے لئے ایمان و عدالت ثابت نہ کرنے میں ناکام ھیں"۔

جواب: کاش مجھے پتہ چلتا علی علیہ السلام کا ایمان کب دلیل اور برھان کا محتاج تھا؟،!!! اور وہ کب کافر تھے کہ ایمان لالنے کی ضرورت پیش آتی؟!! کیا اسلام کے ابتدائی ایام میں علی علیہ السلام کے بغیر پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی اور مدد گار، بھائی اور دوست و یاور تھا؟!! اور کیا اسلام علی علیہ السلام کی تلوار کے بغیر وجود میں آیا ھے؟!!

۲۔ ابن عبدر بہ مالکی کی "العقد الفرید"

جب کوئی اس کتاب کو دیکھتا ھے تو ابتداءاً ایسا لگتا ھے کہ یہ ایک ادبی کتاب ھے اور اس کا مذھبی کتابوں کے ساتھ دور کا بھی واسطہ نھیں۔ لیکن افسوس کا مقام ھے کہ جب اس کتاب کا مصنف مذھبی مسائل پر پہنچتا ھے تو ھوا و ھوس کے پھندے میں ایسا پھنستا ھے کہ ایک دم ایک جھوٹے افتراء پرداز، بیھودہ گو اور مجرم کی شکل میں نمودار ھوتا ھے۔

۱۔ ابن عبدر بہ نے لکھا ھے: "شیعہ، امت اسلامیہ کے یہودی ھیں، وہ اسلام سے اسی طرح بغض رکھتے ھیں جیسے یھودی نصرانیوں سے بغض رکھتے ھیں"

جواب: معلوم نھیں اس نے یہ تلخ اور ڈسنے والی بات کھاں سے بیان کی ھے جب کہ آپ دیکھتے ھیں کہ قرآن مجید فرماتا ھے: (ان الذین آمنوا و عملوا الصالحات اولئک ھم خیر البریۃ)[6] اور اس آیت کے بارے میں یہ ثابت ھوچکا ھے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی علیہ السلام سے فرمایا: "یہ لوگ تم اور تمھارے شیعہ ھیں" ابن عبدر بہ نے شیعوں کو یھودیوں سے تشبیہ دینے کی جرات کیسے کی؟ جب کہ وہ خود احادیث میں پڑھتا ھے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی علیہ السلام سے فرمایا "انت و شیعتک فی الجنۃ"[7]

پیغمبر اسلام نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا: "یا علی علیہ السلام خدائے تعالیٰ نے تمھیں، تمھاری ذریت، تمھاری اولاد، تمھارے خاندان، شیعوں اور تمھارے دوستوں کو بخش دیا ھے"۔

آپ(ص)نے مزید فرمایا: اے علی علیہ السلام تم میری امت کے وہ پهلے شخص ھو جو سب سے پهلے بھشت میں داخل ھوں گے اور تمھارے شیعہ خوشحالی کی حالت میں میرے ارد گرد نور کے منبروں پر جلوہ افزوز ھوں گے۔"۔

آپ(ص) نے مزید فرمایا: "بے شک یہ علی علیہ السلام اور اس کے شیعہ قیامت کے دن خوش قسمت ھوں گے"

اس کے علاوہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھت سے کلمات فرمائے ھیں جن میں امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے شیعوں کی تجلیل و تحسین کی گئی ھے۔ کیا اب یہ کھا جاسکتا ھے کہ شیعہ امت کے یھودی ھیں؟!! یہ سب جھوٹ، تھمت اور گالیاں کس لئے ھیں؟!!

ابن عبدر بہ نے لکھا ھے: "یہودی عورتوں کے لئے عدہ کے قائل نھیں ھیں۔ شیعہ بھی عورتوں کے لئے عدہ کی رعایت نھیں کرتے ھیں"

جواب: شیعہ قرآن و سنت پر عمل کرتے ھیں اور شیعہ کی فقھی کتابیں اور تفسیر قدیم ھوں یا جدید سے واضح اور عیاں ھے کہ شیعہ عدہ کے قائل ھیں یا نھیں؟!!

جب ان کی کتابوں کا مطالعہ کیا جائے تو واضح ھوگا:

(والمطلقات یتربصن بانفسھنّ ثلاثۃ قروءٍ) ان کن ذوات الاقراء تعتّد زوات الشھور ثلاثۃ اشھر

اولات الا حمال اجلھنّ ان یضعن حملھنّ

و الّلائی توفی عنھا زوجتھا یتربصن بانفسھنّ اربعۃ اشھر و عشرا اذا کانت حاملاً

و الحامل تعتدّ بابعد الأجلین …… وغیرہ

جو کچھ شیعہ کھتے ھیں اور شیعوں کی کتابوں میں موجود ھے، اوپر بیاں ھوچکا معلوم نھیں جناب ابن عبدر بہ نے یہ چیز کھاں سے دریافت کی ھے کہ شیعہ یہودیوں کی طرح عورتوں کے لئے عدہ کے قائل نھیں ھیں؟!! یہ سب ابن عبدر بہ اور ابن تیمیہ جیسوں کے افسانے اور جھوٹ کے پلند ھیں۔

۳۔ ابن عبدر بہ نے لکھا ھے: "یہودی ھر مسلمان کے خون کو حلال جانتے ھیں اور شیعہ بھی اسی اعتقاد کے قائل ھیں"

جواب: معلوم نھیں ابن عبدر بہ نے اس تھمت کو کھاں سے لاکر شیعوں سے منسوب کیا ھے؟

کیا شیعہ علماء اور شیعوں کی کتابوں سے اسے نقل کیا ھے؟!! آخر کیوں اتنی دشمنی اور احمقانہ تعصب برتا جاتا ھے؟!!

۴۔ ابن عبدر بہ نے لکھا ھے: "یہودیوں نے توریت میں تحریف کی ھے اور شیعوں نے بھی قرآن میں تحریف کی ھے"

جواب: یہ بھی ان بھت سے جھوٹ اور افتراء کا ایک جزو ھے۔ شیعہ تفسیر و تاویل قرآن کے بارے میں ان معتبر احادیث پر اعتماد کرتے ھیں جو خاندان رسالت(ص) سے روایت کی گئی ھوں نہ کہ ان روایتوں جو قتادہ، ضحاک اور سدی جیسوں سے روایت کی گئی ھوں جو تفسیر بالرائے کرتے تھے۔ اگرا بن عبدربہ جاننا چاھتا ھے کہ کس نے قرآن میں تحریف کی ھے؟ تو اسے اپنی کتابوں کی طرف رجوع کرنا چاھئے تب اسے پتہ چلے گا کہ کس قسم کے مسلمات سے انکار کیا گیا ھے اور کیسے ضعیف نظریات قرآن کے نام سے پیش کئے گئے ھیں؟

۵۔ ابن عبدر بّہ لکھتا ھے: "یہودی جبرئیل کو پسند نھیں کرتے اور اسے فرشتوں کے درمیان اپنا دشمن سمجھتے ھیں۔ شیعہ بھی کھتے ھیں کہ جبرئیل نے غلطی کی ھے، کیونکہ طے یہ تھا کہ وہ دین خدا کو علی علیہ السلام کی خدمت میں پہنچائے، لیکن اس نے غلطی سے محمد(ص) کو پہنچادیا۔

جواب: اس بد بخت نے خیال کیا ھے کہ امت اسلامیہ کے ایک بڑے حصے یعنی شیعوں کا کھیں وجود ھی نھیں ھے اور وہ سب کے سب نیست و نابود ھوچکے ھیں اور ان میں سے کوئی باقی نھیں رھا ھے تاکہ اپنی حیثیت، عزت و آبرو کا دفاع کرے۔ اسی لئے ایسی تھمتیں اور افسانے ان کے خلاف گڑھ لئے ھیں!! وہ شاید تصور تک نھیں کرتا تھا کہ کسی دن کوئی آئے گا اور اس سے یہ کھے گا کہ: یہ کیسے ممکن ھے کہ جو کتاب خدا کو پڑھتا ھو: (من کان عداً للہ و ملائکتہ و رسلہ و جبرئیل و میکال فان اللہ عدو للکافرین) وہ خدا کے جبرئیل کو اپنا دشمن جانے؟!!! یہ سب تھمتیں اور افتراء پر دازیاں کیوں ھیں؟؟!!

اگر شیعہ جبرئیل پر غلطی کی نسبت دیتے ھیں اور وحی و دین کو محمد(ص) سے متعلق نھیں جانتے ھیں تو کیسے ھر روز ھر واجب اور مستحب نمازوں میں ھر اذان و اقامت اور بھت سی دعاؤں اور مناجات میں شھادت اور گواھی دیتے ھیں کہ اشھد ان محمداً رسول اللہ (محمد ابن عبد اللہ رسول خدا ھیں)؟!!

کیا یہ تصور ممکن ھے کہ اگر جبرئیل نے غلطی کی ھے تو خدا بھی اس کی غلطی کی تائید کرے؟!! (فما لکم کیف تحکمون) لعنتوں کی بھر مار ھو ان ظالمانہ تھمتوں اور جھوٹ کے پلندے، باندھنے والوں پر۔ ستم ظریفی کا مقام یہ ھے کہ بعض مصری مصنفین نے بھی شیعوں کے خلاف ابن عبدر بہ جیسوں کی انھیں تو ھمات کا سھارا لیا ھے۔

۶۔ ابن عبدر بہ لکھتا ھے: "یہودی بھیڑ کا گوشت جیسا کہ ھر قسم کا حلال گوشت نھیں کھاتے ھیں شیعہ بھی یہودیوں کی طرح حلال گوشت نھیں کھاتے ھیں"

جواب: معلوم نہیں یہ چیزیں پڑھ کر انسان ھنسے یا روئے (واہ! واہ! کیا علماء ھیں اور کیا اھل قلم؟!!) ھم نہیں جانتے کہ یہ مصنف کس بلند فلسفہ اور منطق کے ذریعہ اس نتیجہ پر پہنچا ھے کہ اس قسم کا سفید جھوٹ اور تھمت شیعوں پر لگائے؟!! کاش کہ ابن عبدر بہ شیعوں کے قصا بخانوں کا مشاھدہ کرتا تو ان ناروا بھتان تراشیوں کے ذریعہ ھمیشہ کے لئے اپنی آبرو کو ملیا میٹ نہ کرتا۔

۷۔ ابن عبدر بہ نے لکھا ھے:

ابو عثمان جاحظ نے مجھے خبر دی کہ ایک بڑے تاجر نے مجھ سے بیان کیا کہ ھم سمندری جھاز میں سفر کر رھے تھے اور ایک بد اخلاق شیخ بھی ھمارے ساتھ تھا جب یہ شیخ "شیعہ" کا لفظ سنتا تھا تو ایک دم آگ بگولا ھوتا تھا اور اس کا چھرہ سیاہ پڑ جاتا تھا۔ ایک دن میں نے اس سے پوچھا: تمھیں لفظ "شیعہ" سے اتنی نفرت کیوں ھے؟ اس نے جواب میں کھا: مجھے کسی چیز سے اتنی نفرت نھیں ھے جتنی "شیعہ" کے "ش" سے ھے۔ کیونکہ یہ "ش" ھر لفظ "شر"، "شوم"، "شیطان" شتم"، شرور، شقا، شح وغیرہ کے ابتدا میں پایا جاتا ھے۔ ابو عثمان کھتا ھے: "اس کے بعد شیعہ کی کوئی حیثیت ھی نھیں رھی"۔

جواب: اس بد اخلاق شیخ کی بے وقوفی پر حیرت اور تعجب ھے کہ صرف لفظ شیعہ کے "ش" سے اتنا بغض و کینہ رکھتا تھا۔ اگر طے پائے کہ ایسی ھی پوچ باتوں اور بیھودہ استدلال سے کام لیا جائے گا تو یہ بات کھیں سے کھیں پہنچ سکتی ھے!!! اور اس کی زد میں بھت سے مقدس نام بھی آجائیں گے قرآن مجید میں ارشاد ھے (وان من شیعتہ لا براھیم)

اور اس بد اخلاق شیخ سے بیوقوف ابو عثمان ھے، کیونکہ اس نے خیال کر لیا ھے کہ اس مسخرہ پن اور بیہودہ بات کے ذریعہ شیعوں کا وجود ھی ختم ھوگیا، جیسے کہ آسمان سے بجلی گری اور انھیں نیست و نابود کر کے رکھ دیا، یا زمین نے ان کو نگل لیا یا پھاڑ آپس میں ٹکرا گئے یا اس کے زعم ناقص کے مطابق حکمت و عقل کی بنیاد پر منطقی استدلال و برھان کے ذریعہ انھیں مجرم قرار دے کر سزا سنادی گئی ھے!!۔

ابو عثمان کی کم عقلی نے اسے اس حد تک گرادیا ھے کہ اس عقل و منطق سے دور اور بد اخلاق شیخ کی تقلید کر بیٹھا۔ اگر اس بد اخلاق شیخ اور ابو عثمان میں ذرہ برابر عقل ھوتی تو اسی مسئلہ کو دوسرے انداز میں پیش کر سکتے تھے مثلاً کھتے کہ ھمیں شیعہ کا "ش" پسند ھے کیوں کہ یہ "شریعت" "شھادت" شجاعت"، شرف "شکر"، "شفق۔ "شفاعت" وغیرہ میں آیا ھے۔

آخر یہ کون سا طرز استدلال و برھان ھے؟ اگر یہی طے پائے اور حروف کو اھمیت دی جائے تو برھان و منطق اور فلسفہ کے لئے کوئی گنجائش ھی باقی نھیں رھتی، مثلاً کوئی شخص اس بد اخلاق شیخ کو یوں جواب دے دے کہ: مجھے لفظ سنی کے "س" سے نفرت ھے کیونکہ یہ "سم"، "سقر"، "سرقت"، سفاھت"، "سقم"، سموم و سرطان" وغیرہ کے ابتداء میں پایا جاتا ھے!! تو………

ابن عبدر بہ نے اس داستان کو اس بد اخلاق شیخ اور اس سے بیوقوف تر ابو عثمان سے نقل کر کے اور اسے اپنی کتاب میں لاکر یہ خیال کیا ھے کہ اس نے ایک عالی فلسفہ اور ایک قوی استدلال بیان کیا ھے۔

حقیقت یہ ھے کہ شیعہ اس قسم کی بیہودہ باتوں پر دھیان ھی نھیں دیتے اور دین کے بنیادی مسائل اور حقایق مذھب کے سلسلے میں دو گراں قیمت منابع، یعنی قرآن و حدیث کے علاوہ عقل و حکمت پر اعتماد کرتے ھیں۔

یہ تھا ابن عبدر بہ کے افسانوں کا ایک نمونہ جو امت اسلامیہ میں فتنہ و تفرقہ انگیزی کا سبب بنے ھیں۔ اس کے علاوہ ابن عبدر بہ نے بھت سی تاریخی خطائیں بھی کی ھیں۔ مثلاً اس نے لکھا ھے کہ: زید نے خراسان میں خروج کیا اور قتل کئے گئے [8]

یهاں پر ایک مطلب کی طرف توجہ مبذول کرانا ضروری ھے اور وہ یہ ھے کہ، ابن تیمیہ نے اپنی کتاب "منھاج السنۃ" میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ھے کہ اس کا علم و معلومات ابن عبدر بہ جیسوں سے بیشتر ھے۔ یہی وجہ ھے کہ وہ جھوٹ اور افتراء کو اس کی نسبت زیادہ منظّم طور سے بیان کرتا ھے تا کہ باور کرائے کہ صدق و امانت کو مد نظر رکھنے میں وہ ابن عبدر بہ سے بالاتر ھے۔ اس لئے اس نے اپنے جھوٹ کے پلندوں میں اضافہ کیا ھے اس کے چند نمونے ذیل میں ملاحظہ ھوں:

۱۔ یہودی، لوگوں کے مال کو حلال جانتے ھیں، شیعہ بھی اسے حلال جانتے ھیں۔

۲۔ یہودی لوگوں کو دھوکہ اور فریب دینا جائز جانتے ھیں، شیعہ بھی لوگوں کو دھوکہ دینا جائز جانتے ھیں۔

۳۔ یہودی سلام کرتے وقت مخاطب کی موت کو قصد کرتے ھیں اور "سام علیک" کھتے ھیں، شیعہ بھی مخاطب کی موت کا قصد کرتے ھیں۔

اسی طرح تفرقہ انگیزیاں، تھمتیں اور جھوٹ کے پوٹ کہ اگر کسی کو محدود حد تک بھی کروڑوں کی تعداد میں تمام دنیا میں پھیلے ھوئے شیعوں اور ان کی عقائد و فقہ کی قدیم و جدید کی کتابوں سے واسطہ پڑے تو ابن تیمیہ کی اس بے شعوری اور بیوقوفیوں پر ھنس پڑے گا!!

۳۔ ابو حیسن عبد الرحیم خیاط معتزل کی "الانتصار"

حقیقت میں اگر کوئی اس کتاب کا نام "مصدر الاکاذیب" رکھے تو کوئی خطا نھیں ھے۔ یہ کتاب جھوٹ، بناوٹی اور جعلی نسبتوں اور تھمتوں اور افتراء پردازیوں سے بھری پڑی ھے۔

ھم یهاں پر اس کتاب کے تمام جزئیات پر بحث کرنا نھیں چاھتے اور اپنی کتاب کے صفحات کو ان افسانوں اور توھمات سے آلودہ نھیں کرنا چاھتے۔ صرف کچھ نمونوں کا ذکر، ان پر بحث کئے بغیر کریں گے، کیوں کہ یہ باتیں اتنی بیھودہ اور بے بنیاد ھیں کہ ان کے جواب کی ضرورت ھی نھیں۔

۱۔ خیاط لکھتا ھے: "شیعہ اس بات کے معتقد ھیں کہ خدائے تعالٰی ایک ھیکل و صورت رکھتا ھے، چلتا ھے، رُکتا ھے، اترتا ھے اور پهلے ان پڑھ تھا"

۲۔ خیاط لکھتا ھے: "شیعہ اس کو جائز جانتے ھیں کہ ایک سو مرد ایک ھی دن کے اندر ایک عورت سے بدون استبراء اور عدہ کی رعایت کے بغیر ھمبستری کر سکتے ھیں جو امت محمدیہ(ص) کے نظریہ کے سراسر خلاف ھے[9]

۴۔ ابن طاھر بغدادی کی "الفرق بین الفرق"

اس کا مصنف اپنی کتاب کے صفحہ ۳۰۹ پر لکھتا ھے: "کسی بھی زمانے میں فقہ، حدیث، لغت اور نحو میں شیعوں کا کوئی امام نہ تھا اور اس کے علاوہ سیرت، تاریخ اور تاویل و تفسیر میں بھی ان میں سے کوئی صاحب نظر نھیں گذرا ھے"۔

جواب: کیا ایسے لوگ یہ تصور نھیں کرتے تھے کہ اس قسم کی باتوں کا کوئی خریدار نھیں ھے اور چار دن گزرنے کے بعد ان باتوں کا بے بنیاد ھونا مختلف نسلوں کے لئے واضح ھوجائے گا خصوصاً یہ آدمی خود بغدادی ھوتے ھوئے کس طرح ان باتوں کو زبان پر لاسکا ھے؟ تعجب خیز ھے کیوں کہ اس بغدادی کی آنکھوں کے سامنے اسی بغداد میں کئی نامور علماء اور ان تمام فنون کے ماھر جن کا اس نے اشارہ کیا ھے شیعوں کی قیادت کو سنبھالے ھوئے تھے۔ جیسے شیخ امت "محمد بن محمد شیخ مفید" و سید مرتضی علم الھدیٰ، شریف رضی، سلار، نجاشی، کراجکی، ابی یعلی، وغیرہ اور یہ ایسے اشخاص نہ تھے کہ بغداد میں گمنام ھوتے، اس کے باوجود اس بغدادی کو یہ لوگ کیوں دکھائی نھیں دئے؟ کیا اس کے ھوش و حواس میں کسی قسم کا نقص و خلل پایا جاتا تھا؟

۵۔ ابن حزم اندلسی کی "الفصل فی الملل و النحل"

جو کوئی بھی فرق و مذاھب کے بارے میں کتاب لکھے، اسے چاھئے سب سے پهلے صداقت و امانت داری کا پابند و مقید ھو تاکہ مختلف مذاھب و ملتوں کے بارے میں اپنے ذھن کی ایجاد پر مبنی بے اساس نسبتیں نہ دے بلکہ جو کچھ کسی فرقہ یا مذھب کے بارے میں لکھے وہ اس مذھب کے معتبر مصادر و منابع کے مطابق ھو۔ لیکن افسوس کہ ابن حزم نے اس کے بر عکس کام کیا ھے اور مذاھب نیز بھت سے اقوال کو کسی معتبر سند کے بغیر اپنی کتاب میں ذکر کیا ھے اور ان کے خلاف بیہودہ نسبتیں دی ھیں چند نمونہ ملاحظہ ھوں:

۱۔ ابن حزم لکھتا ھے: "شیعہ مسلمان نھیں ھیں بلکہ یہ ایک ایسا فرقہ ھے جو پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے ۲۵ سال بعد وجود میں آیا ھے یہ فرقہ کفر و کذب میں یہود و نصاری کے مانند ھے"۔

جواب: کاش کہ مجھے پتہ چلتا کہ ان لوگوں سے کیسے اسلام سلب ھوجاتا ھے جو اپنے واجبات کی ادائیگی میں رو بقبلہ کھڑے ھوتے ھیں شھادتین پڑھتے ھیں قرآن مجید اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کرتے ھیں اور ان کے احکام و اعتقادات کی کتابوں سے دنیا بھری پڑی ھے؟!!

اور ابن حزم نے کس طرح قطعی طور ان کو کافر کھنے کی جرات کی ھے جب کہ ان ھی شیعوں کے سیکڑوں علماء اور امام (جو بقول ابن حزم کافر ھیں) علمائے اھل تسنن کے اساتید اور صحاح ستہ کے راوی تھے؟!! نمونہ کے طور پر چند بزرگوں کے نام ملاحظہ ھوں:

۱۔ ابان بن تغلب کوفی[10]

۲۔ ابراھیم بن زید کوفی۔

۳۔ ابو عبد اللہ جلالی۔

۴۔ اسماعیل ابن ابان۔

۵۔ اسماعیل بن خلیفہ کوفی۔

۶۔ اسماعیل بن زکریا کوفی۔

۷۔ اسماعیل بن عبد الرحمٰن

۸۔ اسماعیل بن موسٰی

۹۔ ثابت ابو حمزہ ثمالی

۱۰۔ جابر بن یزید جعفی۔

۱۱۔ جعفر بن زید کوفی۔

۱۲۔ خالد بن مخلد۔ [11]

جناب ابن حزم!اگر شیعہ مسلمان نھیں تھے تو اس لحاظ سے آپ کی صحاح ستہ جن کو بعض لوگ قرآن کے ھم پلہ اور برابر جانتے ھیں ان کی کیا قدر و وقعت رہ جاتی ھے؟!!

اگر صحاح ستہ میں موجود احادیث کے مطالب کفار اور غیر مسلمانوں سے نقل شدہ ھیں تو اس کی کیا قیمت ھے؟!!

پروردگارا! تو خود فیصلہ کر!!

ھاں در اصل ابن حزم اندلسی کی نظر میں شیعوں کا ناقابل بخش جرم و گناہ یہی ھے کہ وہ علی علیہ السلام اور اولاد علی علیہ السلام کے ساتھ دوستی رکھتے ھیں۔

ابن حزم نے عبد اللہ ابن سبا کی طرف ایک اشارہ کیا ھے البتہ ابن حزم کو جانتا چاھئے کہ عبد اللہ ابن سبا اپنے الحاد کی خاطر امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے حکم سے آگ میں ڈالدیا گیا اور شیعہ بھی اس پر لعنت کرتے ھیں[12]

۲۔ ابن حزم لکھتا ھے: "جو یہ کھتا ھے کہ علی علیہ السلام کا علم تمام صحابہ سے زیادہ تھا سراسر جھوٹ ھے۔"جواب: مجھے معلوم نھیں اس بات پر ھنسوں یا گریہ کروں! یہ شخص کس قدر جاھل یا غافل ھے! کیا اس نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول مندرجہ ذیل احادیث میں سے ایک کو بھی نھیں دیکھا ھے۔

"اعلم امتی من بعدی علی بن ابی طالب"

"اقضاکم علی"

"اقضی امتی علی"

"علی باب علمی"

"قسمت الحکمۃ عشرة اجزاء فاعطی علی تسعۃ و الناس جزء واحد" [13]

کیا احادیث "لو لا علی لھلک عمر" اور "اللّھم لا تبقنی لمعضلۃ لیس لھا ابن ابی طالب" و… کو نھیں دیکھا ھے۔؟! [14]

۳۔ ابن حزم لکھتا ھے: "شیعہ عورت اور ماں کے شکم میں موجود بچے کی امامت کو جائز جانتے ھیں"۔

جواب:کیا واقعاً اس شخص نے یہ بیہودہ باتیں لکھتے وقت کسی اعتقادی کتاب کو دیکھا ھے؟! سبحان اللہ! افتراء، جعل اور دھوکہ و فریب کی بھی کوئی حد ھوتی ھے؟!!

شیعوں کی پوری تاریخ میں جو بات نمایاں ھے وہ یہی مسئلہ امامت ھے۔ شیعہ امامت کو بارہ اماموں تک محدود جانتے ھیں اور ان کے نام و حالات تاریخ کی سیکڑوں کتابوں میں درج ھیں اور کوئی بھی ان میں سے عورت نھیں ھے۔ لهذا ابن حزم کی یہ بات بھی اس کے باقی خرافات اور جھوٹ کی طرح بے بنیاد ھے۔

اس کے علاوہ اگر کوئی اس سے یہ سوال کرے کہ کس دلیل اور سند کی بنا پر شیعوں پر یہ تھمت لگاتے ھو کہ شکم مادر میں موجود بچہ بھی ان کا امام ھوسکتا ھے؟! تو وہ کیا جواب دے گا؟۔ بے شک شیاطین اپنے دوستوں کے کانوں میں کچھ نہ کچھ پھونکا کرتے رھتے ھیں۔

اگر ھم ابن حزم کی گالی گلوچ، جھوٹ اور توھمات کو ایک ایک کر کے ذکر کرنے کے بعد تنقید کا نشانہ بنائیں تو ایک مستقل اور ضخیم کتاب بن سکتی ھے۔ بھت کم لوگ ابن جزم کی نیش زنی اور بد زبانی سے محفوظ رھے ھیں، حتی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی اس گستاخ نے معاف نھیں کیا ھے۔

وہ کتاب "الاحکام" ج۵، ص۱۷۱ پر لکھتا ھے: شیعوں سے یہ بات مخفی رہ گئی ھے کہ سردار انبیاء(ص) کا فرماں باپ کے بیٹے ھیں (معاذ اللہ)، یعنی ان کے باپ اور ماں دونوں کافر تھے"، کیا یہ ادب ھے؟ کیا یہی تھذیب ھے؟!! کیا یہی کلام و سخن کی عفت ھے؟!!

۶۔ عبد الکریم شھرستانی کی "ملل و نحل"

اگر چہ کتاب ابن حزم کی "الفصل" جیسی نھیں ھے۔ اس کے باوجود اس نے بھی تھمتیں لگائی ھیں اور اپنے کچھ نظریات جعل کئے ھیں اور بھت جھوٹ بولا ھے، لھذا اس پر بھی کچھ تنقید کرتے ھیں۔

۱۔ شھرستانی کھتا ھے: "شیعوں کے متکلم ھشام بن حکم کھتا ھے کہ خدا جسم والا ھے اور اپنے بالشت کے اندازہ میں سات بالشت کا ھے اور ایک خاص جگہ پر ھے۔"

۲۔ وہ مزید کھتا ھے: "ھشام نے کھا علی علیہ السلام خدا ھے اور اس کی اطاعت واجب ھے۔"

جواب: یہ باتیں اور ایسے عقائد باطل ھیں اور شیعوں و شیعوں کے علما نے کبھی ایسی بات نھیں کھی ھے۔ شیعوں کے علمائے حق، صحیح مطالب کو ائمہ اھل بیت علیهم السلام سے حاصل کرتے ھیں جو ھمیشہ برھان و دلیل پر مبنی ھوتے ھیں۔ معلوم نھیں ھے شھرستانی نے ان باتوں کو کھاں سے نکالا ھے؟! شیعوں کی تمام کلامی اور عقائد کی کتابیں عام لوگوں کی دسترس میں ھیں، وہ ھر گز ان بیھودگیوں کی تائید نھیں کرتے ھیں بلکہ ان سے بیزار ھیں۔

۳۔ شھرسانی کھتا ھے: "علی(ع) ابن محمد عسکری علیہ السلام کی وفات کے بعد شیعوں میں اختلاف پیدا ھوا، بعض لوگوں نے جعفر ابن علی کی امامت کو قبول کیا اور بعض دیگر نے حسن ابن علی علیہ السلام کی امامت کو قبول کیا ان کا رئیس علی ابن فلان طاحن تھا اور وہ اھل کلام تھا اور اس نے جعفر بن علی کی حمایت کی اور لوگوں کو ان کی طرف راھنمائی کرتا تھا اور فارس بن حاتم بن ماھویہ نے اس کی مدد کی، اس لئے کہ محمد(ص) کا انتقال ھوگیا تھا اور اس سے حسن عسکری باقی رھے تھے…

جواب: بعض لوگ رقص و تفریح کے مراکز میں جاتے ھیں تاکہ ھنسانے والی باتیں (جوک) سن کر ھنیسں اور خوش ھوں۔ ایسے افراد اس سے بے خبر ھیں کہ شھرستانی کی کتاب ان مراکز سے بھتر ھنسانے والی چیز ھے۔"

کاش مجھے پتہ لگتا کہ امام حسن عسکری علیہ السلام اور ان کے بھائی جعفر۔۔۔۔ جس نے اپنے بھائی کی وفات کے بعد امامت کا ادعا کیا تھا۔۔۔۔۔۔ کے درمیان کب اختلاف پیدا ھوا تھا؟!!

اور یہ علی بن فلاں طاحن کہ جس نے جعفر کی حمایت اور تقویت کی اور لوگوں کو اس کی طرف ترغیب دیتا تھا، کب پیدا ھوا ھے؟ اور کب مرا ھے؟ اور کس طرح فارس بن حاتم بن ماھویہ نے جعفر کی مدد کی ھے جب کہ حبنید نے اس کو اس کے والد، امام ھادی(ع) کے حکم سے قتل کیا؟!

اور یہ محمد، جس نے امام حسن عسکری(ع) کو باقی رکھا کیا وھی امام محمد جواد ھیں؟ جب کہ امام محمد جواد علیہ السلام کے اکلوتے بیٹے امام ھادی علیہ السلام تھے۔ یا اس سے مراد ابو جعفر بن محمد بن علی علیہ السلام ھیں جن کا شھر بلد (عراق) میں ایک با عظمت روضہ ھے؟ جب کہ انھوں نے اپنے والد بزرگوار کی زندگی میں ھی رحلت کی تھی اور ان کے والد کی امامت کا سلسلہ جاری تھا۔ وہ کب امام تھے یا کب انھوں نے ادعائے امامت کیا تھا؟ تا کہ کسی دوسرے کو اپنے بعد امامت پر منصوب کریں؟!!

۷۔ ابن کثیر دمشقی کی "البدایہ و النھایہ":

یہ کتاب جھوٹ، تھمت، گالی گلوج، نا سزا باتوں، جاھلانہ تعصب اور قومی رسومات سے بھری پڑی ھے اس کے علاوہ مصنف اھل بیت علیهم السلام سے ایک خاص عناد رکھتا ھے اور امویوں کی نسبت اس کی محبت و رغبت کسی سے پوشیدہ نھیں۔ نمونہ ملاحظہ ھو:

۱۔ ابن کثیر لکھتا ھے: "ابن اسحاق اور تمام تاریخ نویسوں نے ذکر کیا ھے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی علیہ السلام کے ساتھ اخوت و برادری کا رشتہ باندھا۔ اس سلسلہ میں بھت سی احادیث نقل ھوئی ھیں لیکن ان میں سے ایک بھی صحیح نھیں ھے کیونکہ یا ان حدیثوں کی سندیں ضعیف ھیں یا ان میں سے بعض کا متن نا زیبا اور سست ھے۔"

جواب: اگر کوئی ان احادیث کے بھت سے طرق اور ان کے صحیح ھونے پر نگاہ ڈالے اور ان کے اسناد کے رجال کے ثقہ ھونے پر توجہ کرے کہ بھت سے ائمہ علیهم السلام حدیث اور ارباب سیرت و تاریخ و حفّاظ نے انھیں صحیح قرار دیا اور توثیق کے طور پر درج کیا ھے، تو اس وقت اس کو پتہ چلے گا کہ در اصل ابن کثیر دمشقی نےا پنی نفسانی خواھشات، ھوا پرستی اور امویوں کی محبت میں ان کے دار الخلافہ میں بیٹھ کر ایسے مستحکم حقائق کا انکار کیا ھے۔

۲۔ ابن کثیر لکھتا ھے: "مختصر یہ کہ اس حدیث (حدیث متواتر و صحیح و ثابت "طیر" ) کے بارے میں میرے دل میں کچھ ھے۔ اگر چہ اس کے طرق بھت ھیں۔"

جواب: یقیناً اگر کسی دل کو خدائے تعالی نے سر بمھر کردیا ھو تو وہ حقائق۔۔۔۔۔ وہ بھی اگر مولائے کائنات علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے فضائل ھوں۔۔۔۔ کو نھیں دیکھ سکے گا۔۔ اگر اس کا دل بیمار نھیں ھے تو وہ کیوں ایسی حدیث کو قبول کرنے سے اجتناب کرتا ھے، جس کے صحیح ھونے کے تمام شرائط موجود ھیں۔ اور ایسی چیز کے ذریعہ شک پیدا کرنے کی کوشش کرتا جس کی کوئی بنیاد نہیں ھے" میرے دل میں کچھ ھے۔" یقیناً مردہ دل اور کثیف اموی خاندان کی محبت اس بات کی اجازت نھیں دیتی کہ اتنی کثیر احادیث سے ثابت شدہ امیر المؤمنین علیہ السلام کے مسلّم فضائل کو قبول کرے۔

۳۔ ابن کثیر لکھتا ھے: "احمد ترمذی نے امیر المؤمنین علیہ السلام کے اسلام کے بارے میں ایک حدیث روایت کی ھے اور کھا ھے کہ اس کی سند صحیح ھے۔ حدیث یہ ھے: "انہ اول من اسلم" یہ حدیث کسی صورت میں صحیح نھیں ھے۔

جواب: کیوں ابن کثیر! یہ حدیث کس صورت میں صحیح نھیں ھے؟ جب کہ روایت کے طرق صحیح ھوں، رواة ثقہ ھوں، حفّاظ اور فن کے ماھروں نے اس کے صحیح ھونے کی تائید کی ھو اور صحابہ و تابعین کے درمیاں بالاتفاق صحیح و سالم ھو تو کیوں اسے قبول نہ کیا جائے اور کیوں یہ کس صورت میں صحیح نھیں ھے؟!! ملاحظہ ھوں اس حدیث کے چند منابع و مصادر:

۱۔ حاکم نے اس مستدرک، ج۳، ص۱۳۶ پر صحیح جانا ھے۔ اس کے علاوہ خطیب بغدادی نے اپنی تاریخ کے ج۲، ص۸۱ پر، استیعاب، ج۲ ص۴۵۷، شرح ابن ابی الحدید ج۳، ص۲۵۸، مناقب ابن مغازی اور مناقب خوارزمی اور سیرۂ حلبیہ، ج۱، ص۲۵۸ و……

البتہ امینی نے اس کے علاوہ اھل سنت کے دسیوں منابع مستند و مشھور ذکر کر کئے ھیں۔[15]

۸۔ محمد رضا رشید رضا صاحب المنار کی "السنۃ و الشیعۃ"۔

یہ کتاب بھی دیگر کتابوں کی طرح ھتک، بے احترامی، جھوٹ اور تھمتوں سے بھری ھوئی ھے اگر چہ ان جیسی کتابوں کی تنقید ھمارا کام نھیں ھے مگر کیا کیا جائے؟ مجبور ھیں کہ ان جھوٹ کے پلندوں اور افسانوں میں سے بعض کا جواب دیں۔!!

۱۔ رشید رضا لکھتا ھے: ایک سنی سیاح نے مجھے لکھا کہ میں نے ایران کے ایک شھر میں جمعہ کے دن سنا کہ: ایک خطیب نے ایک سورہ پڑھا جو شیعوں اور اھل بیت علیهم السلام سے مخصوص ھے۔ بعض مسیحی مبلغین نے ان لوگوں سے نقل کیا تھا۔ یہ لوگ شیعہ اثنا عشری ھیں اور بنام جعفری مشھور ھیں۔

جواب: رشید رضا سے پوچھنا چاہئے کہ: کیا وہ خطیب جس نے ایران میں جمعہ کے دن منبر سے اس مخصوس سورہ کو پڑھا ھے، کیا در اصل پیدا بھی ھوا ھے؟ ! اور کیا واقعاً وہ سنّی سیاح جس نے "المنار" کو خط لکھا ھے اس دنیا میں موجود بھی ھے؟! گمان یہ ھے کہ وہ سرے سے پیدا ھی نھیں ھوا ھے۔ وہ کون سا فرضی سورہ اور کون سا فرضی خطیب تھا؟!!

کاش کہ رشید رضا نے تفسیر علامہ بلاغی "آلاء الرحمٰن" کے مقدمہ کا مطالعہ کیا ھوتا اور وہ دیکھتا کہ شیعہ کی زبان اور اھل بیت علیهم السلام کے پیروؤں کے عقائد کی وضاحت کرنے والوں نے اس خیالی سورہ کے بارے میں کیا کھا ھے اور کیا لکھا ھے اور اس کے بعد اس خیالی سورہ کے بارے میں کچھ لکھتا۔

ھم جناب رشید صاحب کو مبارک پیش کرتے ھیں کہ شیعوں کے بارے میں دلیل و گواھی پیش کرنے میں بعض مسیحی مبلغوں سے استناد کرتے ھیں، اور یہ عجیب، محکم، مستند اور قابل ستائش استدلال ھے؟!

حیرت کی بات یہ ھے کہ اس نے بحث کے ضمن میں، بابیہ و بھائیہ کو بھی شیعوں میں شمار کیا ھے۔ جب کہ شیعوں نے ھابیہ و بھائیہ کے پیدائش کےدن سے ھی اعلان کیا ھے کہ یہ دین اسلام سے خارج، کافر، ضالّ اور نجس ھیں اور شیعوں کے نامور علماء نے ان کے بیہودہ و باطل باتوں اور کفریات کے بارے میں بے شمار کتابیں لکھی ھیں۔ کاش کہ رشید رضا نے ان کتابوں میں سے چند ایک کو پڑھا ھوتا تو اسے پتہ چل جاتا کہ ھابیہ و بھائیہ شیعہ نھیں ھیں۔ اور اس طرح وہ جھوٹ بولنے کا مرتکب نہ ھوتا۔

۲۔ رشید رضا: "اھل بیت علیهم السلام کے بعض افراد سے شیعوں کا بغض" کے عنوان سے لکھتا ھے: "شیعہ یہودیوں کی طرح بعض کے بارے میں مؤمن اور بعض کے بارے میں کافر ھیں…… بھت سی اولاد فاطمہ علیهم السلام سے دشمنی رکھتے ھیں بلکہ انھیں برا بھلا کھتے ھیں جیسے زید بن علی بن اور یحیٰ بن زید۔

جواب: حقیقت میں یہ اسی افسانوی داستان اور کذب و افتراء کا سلسلہ ھے جسے رشید رضا اور آلوسی جیسوں نے حقائق کے روپ میں پیش کرنے کی کوشش کی ھے۔

جھاں تک زید ابن علی کا تعلق ھے وہ شھدائے اھل بیت علیهم السلام میں سے ھیں اور شیعوں کے ھاں ان کا تقدس و احترام اور مقام و منزلت ایسی چیز نھیں جو وضاحت و تشریح کی محتاج ھو۔

اور یحییٰ، شھید اور فرزند شھید ھیں۔ خاندان امامت کی نامور شخصیتوں میں شمار ھوتے ھیں اور ایک دلیر مجاھد ھیں۔ شیعہ ان کا احترام اور قدر دانی کرتے ھیں۔ شیعوں میں سے ایک فرد بھی ایسا نھیں ھے جو ان سے بغض رکھتا ھو، یہ وھی بزرگ ھیں جو اپنے مقدس والد سے روایت کرتے ھیں کہ امام بارہ ھیں اور ایک ایک کرکے ان کے نام گناتے ھیں اور اس کے بعد کھتے ھیں: یہ وھی معاھدہ ھے جسے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ھمارے سپرد کیا ھے اور مشھور شاعر اھل بیت علیهم السلام دعبل خزاعی نے اسے اپنے اشعار میں بیان کیا اور انھیں حضرت علی ابن موسی الرضا علیہ السلام کے سامنے پڑھا ھے۔

۳۔ رشید رضا لکھتا ھے: "محمد ابن نعمان، مسیلمۂ کذاب سے زیادہ جھوٹا ھے"۔

ھم اس کے جواب میں یافعی کا نظریہ جو اس نے مرآة، ج۳ ص۲۸ میں بیان کیا ھے ذیل میں نقل کرتے ھیں تاکہ معلوم ھوجائے کہ حتی اھل سنت شیخ مفید کے بارے میں کیا نظریہ رکھتے ھیں؟

یافعی لکھتا ھے: "وہ عالم، شیعوں کے پیشوا اور بھت سی تالیفات کے مالک ھیں۔ وہ شیعوں کی عظیم شخصیت ھیں اور "مفید" و "ابن معلم" کے نام سے مشھور ھیں۔ وہ کلام، جدل اور فقہ میں کمال رکھتے تھے۔ ھر عقیدہ کے لوگوں سے مناظرہ کرتے تھے اور حکومت "بویھیہ" میں محترم اور صاحب عظمت تھے۔ اور ابن طی نے کھا ھے: بھت صدقات دیتے تھے، صاحب خشوع تھے، نماز و روزہ بھت کرتے تھے اور کھر درے کپڑے پھنتے تھے۔"

اس کے علاوہ ابن کثیر اپنی تاریخ کے ج۱۲ ص۱۵ میں لکھتا ھے: "ان (شیخ مفید) کی مجلس میں مختلف فرقوں کے علماء حاضر ھوتے تھے، جیسے کہ وہ امت اسلامیہ کے شیخ تھے صرف امامیہ کے شیخ نہ تھے! لھذا جو کوئی بھی دین سے وابستہ ھے اسے ان کی تعریف و تجلیل کرنی چاھئے۔"

اب کھئے جناب رشید رضا صاحب! جو بات آپ نے شیخ مفید کے بارے میں بیان کی ھے کیا وہ علم و دین اور ادب سے تعلق رکھتی تھی؟! یا شریعت و اخلاق نے آپ کو اس کی اجازت دی ھے؟!

۹۔ عبد اللہ قصیمی کی "الصراع بین الاسلام و الوثنیۃ"

اس کتاب میں جھوٹ، تھمت، فحش اور ناروا نسبتوں کی اتنی بھتات ھے کہ شاید خود کتاب کے صفحات کی تعداد (۱۶۰۰) سے زیادہ ھو۔

۱۔ قصیمی لکھتا ھے: "ستم ظریفی کی حد ھے کہ شیعوں کی ایک شخصیت کا نام "بیان" تھا اور وہ خیال کرتا تھا کہ خدائے تعالی نے آیۂ "و ھذا بیان للناس" میں اس کو مراد لیا ھے ایک اور شیعہ کا لقب "کسوق" تھا اور وہ گمان کرتا تھا کہ آیۂ "و ان یروا کسفاً من السماء" میں مقصود وھی ھے۔

جواب: یہ وہ قدیمی بے بنیاد افسانے اور پرانے لوگوں کی من گڑھت باتیں ھیں جیسی ابن قنیبہ نے کتاب "تاویل مختلف الحدیث" میں درج کی ھیں۔ یہ وہ زبانیں ھیں جو تعصب کے ضمیر سے بنی ھیں جیسے جاحظ اور خیاط کہ ان لوگوں نے ایسے ھی مجعولات اور بے سرو پا افسانوں کو شیعوں سے نسبت دی ھے۔ قصیمی نے بھی اپنے بزرگوں کی تقلید کرتے ھوئے دس صدیاں گزرنے کے بعد عصر جدید کے شیعوں پر وھی پرانی تھمتیں لگائیں ھیں۔

فرض کریں کہ یہ دونوں آدمی (بیان اور کسوف) حقیقت میں موجود ھوں اور بد گمان قصیمی کے بقول دونوں شیعہ بھی ھوں تو کیا حقیقت میں قصیمی کے لئے یہ باتیں ثابت ھوچکی ھیں؟! کیا انصاف و عدل کا یہی تقاضا ھے کہ ایک عظیم امت دو آدمیوں کی باتوں سے جب کہ ان کا وجود بھی مشکوک ھے۔ تنقید کا نشانہ قرار پائے؟!

۲۔ قصیمی لکھتا ھے: "شیعوں کی کتابوں میں بھت سی روایتیں نقل ھوئی ھیں کہ امام منتظر تمام مسجدوں کو مسمار کردیں گے اسی لئے شیعہ ھمیشہ مسجدوں کے دشمن رھے ھیں اور جس کسی نے بھی شیعوں کے شھروں میں سفر کیا ھے کم ھی مسجدوں کو وھاں پایا ھے۔"

جواب: قصیمی نے جعل کرنے اور داستان کو گھڑنے تک ھی اکتفا نھیں کی ھے بلکہ اپنے جھوٹ کے پلندوں کو شیعوں سے نسبت دی ھے۔ اگر قصیمی سچ کھتا تھا تو اس نے کیوں شیعوں کی کتابوں کا نام نھیں لیا ھے؟

کیا واقعاً شیعوں کے شھروں میں مسجدیں نھیں ھیں؟

اگر قصیمی نے شیعوں کے شھروں کا سفر کیا ھوتا قطعاً جان لیتا کہ اس نے جھوٹ لکھا ھے کہ شیعوں کے شھروں میں مساجد کم پائی جاتی ھیں اور اگر سفر نھیں کیا ھے تو بھر حال اس نے یہ جھوٹ اور بھتان ھی باندھا ھے۔

قصیمی کو جاننا چاہئے کہ تمام دنیا کو معلوم ھے کہ شیعہ نشین شھروں، قصبوں حتی چھوٹی چھوٹی بستیوں تک میں بھت سی مسجدیں موجود ھیں اور مسجدوں کے گنبد و مینار ایسی چیزیں نھیں ھیں کہ کوئی ان کو دیکھ نہ سکے! البتہ اگر قصیمی اور ان جیسوں کی آنکھیں نہ دیکھ سکیں تو اس کا کیا کیا جائے؟!

۱۰۔ موسی جار اللہ کی "الوثنیۃ فی نقد الشیعہ"

میں نھیں چاھتا تھا کہ اس کتاب میں سے کسی چیز کا ذکر کروں کیونکہ اس کتاب کی خرابیاں اور بیھودگیاں دیگر تمام کتابوں سے بیشتر ھیں۔ لیکن چونکہ یہ چیزیں چھپ کر شایع ھوچکی ھیں اس لئے مجبور ھوں کہ ایک حد تک اس کی کتاب کی آلودگیوں کے چند نمونوں کی طرف اشارہ کروں:

۱۔ جار اللہ کھتا ھے: "عصر حاضر میں قرآن و سنت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں امت کا علم، علی علیہ السلام کے علم اور تمام آل علی علیہ السلام کے علوم سے زیادہ اور کامل ھے"

جواب: غور کا مقام ھے کہ یہ شخص علم علی علیہ السلام سے کیسے واقف ھوا جو کھتا ھے کہ امت کا علم اس سے زیادہ ھے! اس نے یہ قطعی حکم کیسے صادر کیا ھے؟!

۲۔ وہ کھتا ھے: جو کوئی بھی حادثہ پیش آتا ھے خدائے تعالی نے اس کا حقیقی اور صحیح جواب امت کو بتا دیا ھے۔

جواب: اگر امت کی حیثیت یہ ھے اور در حقیقت امت معصوم اور اشتباہ و خطا سے پاک ھے، تو پھر علی علیہ السلام اور ان کی اولاد اس امت کے جزو کیوں نھیں ھوسکتے؟!! اگر امت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وارث ھوسکتی ھے تو علی علیہ السلام اور ان کی اولاد آنحضرت(ص) سے وراثت کیوں نھیں پاسکتے؟

۳۔ جار اللہ نے متعہ کو زمانہ جاھلیت کی شادی بیان کرتے ھوئے کھا ھے کہ "متعہ کا کوئی حکم شرعی نھیں تھا اور قرآن مجید میں متعہ کے سلسلے میں کوئی چیز نازل نھیں ھوئی ھے اور شیعوں کی کتابوں کے علاوہ کھیں پر کوئی قول نھیں ملتا ھے جو یہ ثابت کرے آیۂ (فما استمتعتم بہ منھن) متعہ کے بارے میں نازل ھوئی ھے۔ شیعوں کی کتابیں متعہ کے قول کو باقر و صادق علیہ السلام سے لیتی ھیں۔ یہ احتمال کہ اس کی سند جعلی ھوگی احسن ھے ورنہ باقر و صادق علیہ السلام جاھل ھیں (نعوذ باللہ)

جواب:یہ جار اللہ کے سلسلہ وار ظلم و جور کی کڑیاں ھیں جو اس نے قرآن اور اس کے حکم کے خلاف روا رکھی ھیں اور یہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لائے ھوئے دین کی تکذیب ھے جب کہ اس کے اسلاف جیسے صحابہ،           تابعین اور مختلف فرقوں کے اسلامی علماء نے اس مسئلہ کو (متعہ کی صحت) کا اقرار کیا ھے۔ اس کی وضاحت حسب ذیل ھے:

۱۔ متعہ قرآن میں:

اھل سنت کے علماء نے صراحت سے بیان کیا ھے کہ آیۂ (فما استمتعتم منھن فأتوھن اجورھن…) متعہ کے بارے میں نازل ھوئی ھے اوریہ چیز معروف و قوی ترین تفسیروں میں بیان ھوئی ھے:

۱۔ صحیح بخاری                                     ۲۔ صحیح مسلم

۳۔ مسند احمد: ۴/ ۴۳۶۔                          ۴۔ تفسیر رازی: ۳/ ۲۰۰، ۲۰۲۔

۵۔ تفسیر ابی حیان: ۳/ ۲۱۸۔                    ۶۔ تفسیر طبری: ۵/ ۹۔

۷۔ احکام قرآن جصاص: ۲/ ۱۷۱۔                 ۸۔ سنن بیھقی: ۷/ ۲۰۵۔

۹۔ تفسیر بغوی: ۱/ ۴۲۳۔                         ۱۰۔ تفسیر زمخشری: ۱/ ۳۶۰۔

۱۱۔ احکام القرآن قاضی: ۱/ ۱۶۲۔        ۱۲۔ تفسیر قرطبی: ۵/ ۱۳۰۔

۱۳۔ تفسیر رازی: ۳/ ۲۰۰۔             ۱۴۔ شرح صحیح مسلم، نووی: ۹/ ۱۸۱۔

۱۵۔ تفسیر خازن: ۱/ ۳۵۷۔               ۱۶۔ تفسیر بیضاوی: ۱/ ۲۶۹۔

۱۷۔ تفسیر ابی حیان: ۳/ ۲۱۸۔          ۱۸۔ تفسیر ابن کثیر: ۱/ ۴۷۴۔

۱۹۔ تفسیر سیوطی: ۲/ ۱۴۰۔          ۲۰۔ تفسیر ابی سعود: ۳/ ۲۵۱۔

جار اللہ سے پوچھا جانا چاھئے کہ کیا یہ سب علماء اور علم و حدیث و تفسیر کے ماھر تمھاری نظر میں عالم نھیں ھیں؟!یا یہ کہ یہ کتابیں سنیوں کی نھیں ھیں؟! جو تم نے کھا ھے کہ متعہ صرف شیعوں کی کتابوں میں پایا جاتا ھے۔ تو تم نے دیکھ لیا کہ ان سب علماء اھل سنت نے بھی اسے اپنی کتابوں میں ذکر کیا ھے اور ان میں سے زیادہ تر علماء صراحت سے کھتے ھیں کہ متعہ کا ذکر قرآن میں آیا ھے اگر چہ اس کے قرآن میں موجود ھونے کے اعترافات کے بعد ان لوگوں نے اس کے نسخ ھونے یا نہ ھونے پر بعد میں بحث کی ھے۔

اس بنا پر جو بد زبانی تم نے شریعت محمدی(ص) کے مروج حضرت امام محمد باقر علیہ السلام و حضرت امام صادق علیہ السلام کے سلسلے میں کی ھے، ان اصحاب، تابعین اور اھل سنت کے ائمہ تفسیر و حدیث کے بارے میں بھی ویسی ھی بد زبانی کی جرات رکھتے ھو؟ پس یہ نتیجہ نکلتا ھے کہ جو تم نے کھا کہ متعہ قرآن میں نھیں آیا ھے جھوٹ تھا۔ اس کے گواہ اتنے سارے اصحاب، تابعین و علمائے اھل سنت کے آراء و اقوال ھیں۔ اس کے علاوہ جو تم نے کھا ھے کہ "صرف شیعہ کھتے ھیں" یہ بھی جھوٹ تھا۔ کیوں کہ سنیوں کی دسیوں کتابوں میں اس کا ذکر آیا ھے۔

لیکن جو تم نے کھا ھے کہ متعہ نکاح جاھلیت ھے وہ بھی تمھارا جھوٹ اور خیال بافی ھے کیوں کہ اسلاف میں سے کسی ایک نے آج تک متعہ کو نکاح جاھلیت نھیں کھا ھے اصولی طور پر متعہ اپنی خصوصیات و شرایط کے ساتھ قبل از اسلام کے نکاحوں سے کوئی ربط ھی نھیں رکھتا ھے۔

اس لئے علمی لحاظ سے تمھاری بات کی کوئی قدر و قیمت ھی نھیں ھے اور اگر متعہ کے حدود و قیود کو جاننا چاھتے ھو اور اپنی جھالت و نادانی کو علم و معلومات میں تبدیل کرنا چاھتے ھو تو اھل سنت علماء اور بزرگوں کی درج ذیل کتابوں کا ضرور مطالعہ کرو:

۱۔ سنن دارمی: ۲/ ۱۴۰۔                   ۲۔ صحیح مسلم: ج۱ باب المتعہ۔

۳۔ تفسیر طبری: ج۵/۹                      ۴۔ احکام قرآن جصاص ۲/ ۱۷۸

۵۔ سنن بیھقی: ۷/ ۲۰۰                    ۶۔ تفسیر بغوی: ۱/ ۴۱۳۔

۷۔ تفسیر قرطبی: ۵/ ۱۳۲۔                 ۸۔ تفسیر رازی: ۳/ ۲۰۰۔

۹۔ شرح صحیح مسلم، نووی: ۹/ ۱۸۱۔  ۱۰۔ تفسیر خازن: ۱/ ۲۵۷۔

۱۱۔ تفسیر ابن کثیر۱/ ۴۷۴۔                ۱۲۔ تفسیر سیوطی: ۲/ ۱۴۰۔

۱۳۔ الجامع الکبیر سیوطی: ۸/ ۲۹۵۔

۱۴۔ اور بھت ساری اھل سنت کی کتابیں جو موضوع فقہ میں لکھی گئی ھیں۔

اے جار اللہ: کھیں کوئی تمھاری تالیف سے متاثر ھوکر غلطی کا مرتکب نہ ھوجائے اور تمھارے باطل، جھوٹ اور بے علمی پر مبنی بات کو کھیں نقل نہ کرے، اس لئے ھم یهاں پر چند اصحاب، تابعین اور بزرگ علماء کے نظریات کو نمونہ کے طور پر ذکر کرتے ھیں۔ یہ امر قابل ذکر ھے کہ ان افراد نے یہ جاننے کے باوجود کہ عمر ابن خطاب نے متعہ کو ممنوع قرار دیا ھے پھر بھی صراحت سے کھا ھے کہ متعہ کا شرعی جواز قرآن مجید میں آیا ھے، پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اسے امت تک پھنچایا ھے اور مدتوں تک اس کا رواج بھی تھا اور کسی قسم کا نسخ خدا کی جانب سے اس حکم شرعی کے بارے میں نھیں آیا ھے۔ اس بناء پر متعہ کے حلال اور شرعی ھونے کا حکم برقرار ھے۔ اور عمر کی بات اور اقدام یہ طاقت نھیں رکھتے کہ حکم خدا میں رکاوٹ پیدا کریں۔ ملاحظہ ھوں اس سلسلے میں چند اصحاب، تابعین اور علماء کے نام:

۱۔ امیر المؤمنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام      ۲۔ ابن عباس

۳۔ عمر ابن الحصین خزاعی                    ۴۔ جابر بن عبد اللہ انصاری

۵۔ عبد اللہ بن مسعود ھزلی۔                  ۶۔عبد اللہ بن عمر عدوی۔

۷۔ معاویۃ ابن ابی سفیان۔                      ۸۔ ابو سعید خدری۔

۹۔ سلمۃ بن امیۃ۔                                ۱۰۔ معبد ابن امیہ

۱۱۔ زبیر بن عوام قرشی۔                       ۱۲۔ حکم۔

۱۳۔ خالد بن مھاجر مخزومی۔                 ۱۴۔ عمر و بن حریث قرشی۔

۱۵۔ ابی بن کعب انصاری۔                       ۱۶۔ ربیعۃ بن امیۃ ثقفی۔

۱۷۔ سعید بن جبیر۔                              ۱۸۔ طاووس یمانی۔

۱۹۔ ابو محمد عطاء یمانی۔                     ۲۰۔ سدی۔

۲۱۔ یمن اور مکہ کے فقھاء اور اھل بیت علیهم السلام۔[16]

قارئین کرام! آپ نے مشاھدہ فرمایا کہ کس طرح یہ قلم اسلام و مسلمین کے دشمنوں کے ھاتھ میں آئے ھیں اور یہ لوگ کن منصوبوں کے تحت تفرقہ، نفاق، دشمنی، بغض، کینہ و عناد پھیلانے پر مأمور ھوئے ھیں اور وہ اپنے ظالم اسلاف کی طرح خاندان رسالت کی مظلومیت کو روز بروز شدت بخشنے میں کوئی دقیقہ فرو گزار نھیں کرتے۔

جیسے یہ لوگ قرآن مجید کی اس آواز کو نھیں سنتے ھیں کہ "اھل بیتِ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت سب پر فرض اور واجب ھے اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس ندا کو نھیں سنتے ھیں کہ آپ(ص) نے فرمایا: "میں تمھارے درمیان قرآن اور عترت کو چھوڑ کر جارھا ھوں۔ اور میں دیکھوں گا کہ ان کے ساتھ کیسا برتاؤ کرتے ھو؟!!" جیسے انھوں نے یہ نھیں دیکھا ھے اور نہ سنا ھے کہ مظلوموں کے سردار حضرت علی علیہ السلام کے پیروؤں نے پوری تاریخ اسلام میں ثابت کر کے دکھایا ھے کہ وہ اسلام کی بقاء اور اس کی عزت کے دفاع میں جان و مال کی قربانی دینے سے دریغ نھیں کرتے۔

شیعوں کی پوری زندگی اپنے امام حسین بن علی علیہ السلام کی اطاعت  میں جھاد سے سرشار ھے اور ان کا قیام و مقصد کلمۃ اللہ کی سر بلندی اور لا الہ الا اللہ کے پرچم کو اونچا کرنا ھے۔

اس کے باوجود کیا یہ عظیم امت اس کی سزاوار ھےکہ اس پر شرک و کفر کی تھمت باندھی جائے؟! یا ان کے ساتھ بدترین گستاخی کی جائے؟

آپ لوگوں نے مشاھدہ فرمایا کہ ابن تیمیہ وھابیوں کے "شیخ الاسلام" نے کھا ھے: "شیعہ سب سے زیادہ جھوٹ بولنے والے ھیں، خرو خچر کو سرداب کے باھر آمادہ رکھتے ھیں تاکہ منتظر ظھور فرمائے اور اس پر سوار ھوں اور یہ لوگ نماز بھی نھیں پڑھتے ھیں"

بھر حال ھم اسلام اور اھل بیت علیهم السلام کے معارف حقہ اور ان کے حیات بخش تعلیمات کی نشر و اشاعت میں ھر قسم کے زخم زبان، ناسزا تھمتوں اور ناروا نسبتوں سے خائف نھیں ھیں اور صرف یہ کھتے ھیں۔

"الی اللہ المشتکی"

تم بالخیر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حواله جات

[1] ابن تیمیّہ افکار وھابیت کا بانی ھے۔ معاصر وھابی اسے شیخ الاسلام کھتے ھیں۔ مزید تفصیلات کے لئے اسی کتاب کا صفحہ ۱۳۴ ملاحظہ ھو۔

[2] وھابیوں کو چاھئے اس سٹیلائیٹ، اطلاع رسانی، انٹرنیٹ، فلیمبرداری، اور ٹٰیلکس کے ترقی یافتہ زمانے میں اپنے شیخ الاسلام کی وفاداری میں اس کی کتاب "منھاج السنۃ" میں بیان کئے گئے گدھے اور خچر" کی فلم اور انٹریو کے ذریعہ تمام دنیا میں نشر کریں تاکہ وھابیت کے بانی اور ان کے شیخ الاسلام کی اس سے بیشتر آبرو ریزی نہ ھونے پائے۔

[3] الغدیر ج۳ ص۹۲ پر ملاحظہ ھو۔

[4] الغدیر ج۱ ص۱۵۶ ملاحظہ ھو۔

[5] بھتر یہ ھے کہ ابن تیمیّہ اور اس کے پیروؤں (وھابیوں) سے پوچھا جائے کہ: وہ اجماع علماء کھاں ھے جسے آپ بتا چکے ھیں؟!! یا زمخشری، فخر رازی، طبری، نسائی، خطیب، جصاص، بیضاوی، حاکم، ابو نعیم وغیرہ جیسے اشخاص ابن تیمیہ کی نظر میں اھل علم نھیں ھیں؟!!

[6] اور بے شک جو لوگ ایمان لائے ھیں اور انھوں نے نیک اعمال انجام دئے ھیں وہ بھترین خلائق ھیں (بینہ/۷)

[7] تاریخ بغدادم، ج۱۲، ص۲۸۹۔

[8] عقد فرید ج۲۔ ص۱۴۶۔

[9] خیاط لوگ اغلب قدر و قیافہ کے مطابق پیمائش اور ناپ لیتے ھیں۔، لیکن اس خیاط نے جو ناپ لی ھے وہ شیعوں کے اندازہ کے مطابق نھیں ھے۔ شاید اس نے شیعوں کے عقائد اور ان کی کتابوں کو دیکھے بغیر یہ پیمائش کرلی ھے اور یہ اندازہ صرف اس کے اپنے مریض بدن کے مطابق ھے۔

[10] ذھبی "میزان الاعتدال" میں شاگرد امام صادق علیہ السلام ابان ابن تغلب کی زندگی کے حالات بیان کرتے ھوئے لکھتا ھے: اگر ایسے افراد کی حدیث رد کی جائے تو آثار نبویہ نابود ھوجائیں گے اور یہ ایک بڑا فتنہ ھوگا۔

[11] علامہ امینی نے الغدیر کے ج۳ ص۹۲ پر ۹۰ سے زائد افراد کا نام لیا ھے جو صحاح ستہ لکھنے والوں کے استاد اور راوی ھیں۔ ھم نے اختصار کی وجہ سے ان سب کا نام ذکر کرنے سے پرھیز کیا ھے۔

[12] سلمان، ابوذر اور مقداد وغیرہ جن کو پیغمبر کے زمانے میں بارھا شیعیان علی علیہ السلام کھا جاتا تھا اور اھل سنت کی تاریخ کی تمام کتابوں میں اس کا ذکر آیا ھے۔ کیا یہ حضرات بھی پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے ۲۵ سال بعد شیعہ ھوئے تھے؟!!

[13] مسند احمد: ۵/ ۲۶، الاستیعاب: ۳/ ۳۶، الریاض النضرة: ۲/ ۱۹۴، مجمع الزواید: ۹/ ۱۰۱، المناقب: ۴۹، کفایۃ الگنجی ۷۰ شرح نھج البلاغہ: ۲/ ۴۴۸، فتح الباری :۸/ ۱۳۶، حلیۃ الاولیاء: ۱/ ۶۵، تاریخ ابن عساکر اور کنز العمال ملاحظہ ھو۔)

[14] الغدیر، ج۳، ص۹۷ ملاحظہ ھو۔ اھل سنت کے منابع سے دسیوں منابع نے ان احادیث کو درج اور روایت کیا ھے۔

[15] الغدیر، ج۳ ص۲۲۰ ملاحظہ ھو۔

[16] مزید وضاحت کے لئے الغدیر کی جلد ۶ ملاحظہ ھو۔

Add new comment