میں ۱۶ دسمبر کو کیسے بھول جاوں؟
۔۔۔۔۔۔۔عبداللہ طارق سہیل۔۔۔۔۔۔
جوبچّے مر جاتے ہیں یا قتل ہو جاتے ہیں وہ جنّت میں جاتے ہیں۔ اور ان کے ماں باپ سے کیا ہوتا ہے؟دوزخ اُتر کر ان کے صحن میں آجاآتی ہے۔
پاکستان کا بھی کیا نصیب ہے۔ دنیا کی تاریخ میں سب سے زیادہ دہشت گردی یہیں ہو رہی ہے۔ اور اب دہشت گردی کے بدترین واقعے کا ریکارڈ بھی یہیں بننا تھا۔
اور وہ لوگ بھی خدا ہی نے بنائے ہیں جو بچوں کو مارتے ہیں۔ کوئی آپ سے کہے کہ یہ بچّہ جو آپ کے سامنے کھیل رہا ہے۔ یہ لوہے کا راڈ پکڑو اور اس کا سر کچل دو۔ آپ کا کیا حال ہوگا؟ ایسا تو تصّور کرنا بھی آپ کا دل چھلنی دینے کے لئے کافی ہوگا اور جو سچ مچ مار دیتے ہیں‘ وہ اپنے دل کہاں سے لاتے ہیں؟
اور وہ حکمران ایسے دل کہاں سے لاتے ہیں جو ان کو یہ کہنے کا حوصلہ دیتے ہیں کہ ’’ایسے واقعات سے ہمارا عزم اور مضبوط ہوتا ہے ‘‘ کیا وہ اپنی یہ خواہش بتانا چاہتے ہیں کہ ایسے واقعات ہوتے رہنے چاہئیں تاکہ عزم مضبوط ہوتا رہے۔ کیا موت کی بارش رک جانے سے ان کے عزم کی صحت خراب ہو جائے گی؟ اپنا عزم مضبوط رکھنے کے بجائے یہ قوم کو امن دینے کا ارادہ کیوں مضبوط نہیں بتاتے؟ ایسا کوئی ارادہ ہے بھی کہ نہیں۔ خدا جانے!
دہشت گردوں نے کوئی جگہ نہیں چھوڑی۔ مسجدوں تک میں انہوں نے بم مارے۔ لیکن سکول پر حملے کا واراور وہ بھی اس مہیب پیمانے کا‘ انہوں نے پہلی بار کیا ہے۔ کچھ برس پہلے راولپنڈی کی مسجد کو نشانہ بنایا تھا جس میں بہت سے بچے شہید ہوئے تھے لیکن یہ سکول کا واقعہ تو اب تک کی سب سے بڑی قیامت بن کر ٹوٹا۔ بچّے کی لاش پر رونے والی ماں کے بین سن کر سننے والے کا کلیجہ پھٹتا ہے‘ تو ماں کے کلیجے کا کیا حال ہوگا۔ یہاں تو سوا سو ڈیڑھ سو کے لگ بھگ ماؤں کے دل قبرستان بن گئے۔المیوں کی ایسی برسات پاکستان پر ہو رہی ہے کہ ایک سے بڑھ کر ایک سانحہ چند روز میں لوگ بھول جاتے ہیں۔ کسی ٹی وی پر کوئی صاحب شکوہ کر رہے تھے کہ ہماری قوم سانحات بھلا دیتی ہے۔ خاصا ملامتی انداز تھا۔ اسی قوم کا یہ خود بھی حصّہ ہیں اور قوم اگر تین چار روز میں واقعات کو بھلا دیتی ہے تو یہ خوشحال تجزیہ کار تین چار گھنٹے بھی کسی سانحے کو بھلانے میں نہیں لیتے ہوں گے ۔قوم کی کیا خطا ہے۔ پہلی بارش ہوتی ہے تو یاد رہتا ہے‘ کس پہر شروع ہوئی تھی۔ ساون میں کسے خیال رہتا ہے کہ دوپہر گیارہ بجے رم جھم ہو رہی تھی یا بادل تھم گئے تھے۔
پاکستان پر موت کا ساون برس رہا ہے اور بارہ چودہ برس سے جھڑی لگی ہے۔ قوم آخر کتنے سانحے یاد رکھ سکتی ہے اور سانحے بھی وہ جو تقدیر نے ڈیزائن نہیں کئے‘ ہمارے ناخداؤں کا تحفہ ہیں۔ وارسک سکول کا یہ بدترین المیہ16دسمبر کو ہوا‘ کوئی پوچھتا کہ 16 دسمبر کا سانحہ کتنوں کو یاد ہے؟ یاد سبھی کو ہے لیکن ذلّت اور توہین کے اس لمحے کے سامنے سے بچنے کے لئے فراموشی کی ایک چادر قوم نے اوڑھ لی ہے۔ ایسے سانحوں کا سامنا وہی قومیں کیا کرتی ہیں جنہیں یقین نہ سہی‘ یہ امید تو ہو کہ ان کے ناخدا انہیں ذلّت کے اس احساس سے کبھی نہ کبھی نکال لیں گے۔ جس قوم کو یہ ’’حقّ الیقین‘‘ ہو جائے کہ ان کے ناخدا ان کے کسی کام کے نہیں(صرف امریکہ کے کام اور اسی کے دام کے ہیں)‘ وہ چادر نہ اوڑھے تو کیا کرے۔ یہ16دسمبر کا سانحہ بھی قوم کا قصور نہیں تھا جیسا کہ اُس وقت کے کچھ مذہبی مبلّغین بتایا کرتے تھے اور آج بھی بتاتے ہیں کہ یہ قوم کے گناہوں کی سزا ہے۔ یہ سارا سانحہ ہمارے ناخداؤں نے ڈیزائن کیا تھا اور انہی نے اسے عملی شکل بھی دی ۔ قوم کا قصور صرف اتنا تھا کہ اس نے اُس وقت کے ناخداؤں کے دعوے سچ مان لئے تھے کہ دشمن کے ایجنٹوں کا قلع قمع کر دیاہے اورآخری فتح تک لڑیں گے۔ آج قوم ایسے دعوؤں پر شک کرتی ہے تو اسے یہ طعنہ ملتا ہے کہ وہ بے حس ہے۔ وہ بے حس نہیں لیکن اس نے خواب دیکھنے چھوڑ دیئے ہیں۔ وہ حکمرانوں کے ان دعوؤں پر روتی ہے نہ ہنستی ہے‘ بلکہ ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتی ہے کہ ہم نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے اور دہشت گردوں کے ناپاک عزائم پورے نہیں ہونے دیں گے۔
ناخدا سنجیدہ ہوتے تو یہ اطلاع قوم کو دینا ضروری نہ سمجھتے کہ دہشت گردانسان نہیں‘ جانور ہیں۔ قوم ان سے زیادہ جانتی ہے کہ دہشت گرد انسان نہیں ہیں۔ لیکن انہیں جانور کہہ کر جانوروں کا دل کیوں دکھایا جاتا ہے۔وہ شیطان ہیں اس لئے کہ جانور ایسے ظلم کہاں کرتے ہیں۔ برسبیل تذکرہ ‘ پاکستان کی سرزمین میں شیطانوں کی کمی کبھی نہیں تھی لیکن ایسے شیطان تو بہرحال نہیں تھے۔ یہ کس نے پیدا کئے‘ ان کی تخلیق کا ذمہ دار کون ہے۔ یہ پہلے کیوں نہیں تھے‘ اب کیوں ہوگئے؟ یہ سوال تاریخ ہی حل کرے گی۔مسلمانوں نے دوسری قوموں سے بھی جنگیں لڑیں اور خانہ جنگیوں میں بھی جی بھر کے الجھے لیکن بچّوں کو مارنے کا خیال تک کسی کو نہیں آیا۔ مسلمانوں کا اس نبیؐ پر ایمان ہے جس نے کہا تھا جو بچوں پر شفقت نہ کرے‘ وہ ہم میں سے نہیں‘ یعنی مسلمان ہی نہیں لیکن آج کے دور میں مسلمانی بدل گئی ہے۔ بچوں پر شفقت کجا‘ انہیں ماتھے اور سینے میں گولیوں کے برسٹ مار کر مارا جاتا ہے۔ ان پر بم برسائے جاتے ہیں لیکن جنگ کا ماجرا تو رہا ایک طرف‘ کیا ہر روز غیر جنگی بنیادوں پر بھی بچوں کو قتل نہیں کیا جا رہا۔ ریاست ایک بچے کے قتل پر بھی بے حس رہتی ہے اور اتنے بڑے سانحہ پر بھی اس کے حواس لرزش پروف رہتے ہیں۔ یہ جو غل مچ جاتا ہے کہ ریاست حرکت میں آگئی تو وہ اس لئے آگئی کہ پھر دنیا کیا کہے گی۔ ورنہ یہاں کسے وطن کی اور وطن والوں کی پرواہ ہے۔یہاں کے ناخداؤں پر تو امریکہ کی بھی ہنسی نکل جاتی ہوگی کہ ملک کی تو کوئی پروا تھی نہ ہے لیکن امریکہ سے شاباش کی سندیں لینے کی دوڑ لگی ہے۔ حضور‘ وہ آپ سے مخلص نہیں‘ آپ کا اصلی تابعدار میں ہوں۔ حکم دو‘ اپنی قوم کو آن کی آن پھونک کے رکھ دوں‘ فاقوں تو مار ہی رہا ہوں۔
کہا جاتا ہے چور نہیں‘ چور کی ماں کو پکڑو۔ یہ محاورہ ٹھیک نہیں۔ چور کو بھی پکڑو اور چور کی ماں کو بھی نہ چھوڑو۔ دہشت گردوں کو مارنے کا مطالبہ ایک سو ایک فیصد ٹھیک لیکن دہشت گردی کی بدباطن ماں‘ مشرف کی شکل میں آرام سے اپنے گھر عیش کر رہی ہے‘ اس اُمّ الجنائث کی طرف کسی کا خیال کیوں نہیں جاتا۔ قوم کے زیر مطالعہ یہ باب المصائب اسی بدبخت ہی نے تو لکھا ہے۔
اور یہ ایک ہی نہیں‘ کتنی ہی اور خرابیاں ہیں جن کا ذکر کرنے سے خوف فساد خلق سے ہر کوئی گریزاں ہے۔ ابھی ایک صاحب ٹی وی پر دہائی دے رہے تھے کہ منتخب حکومت کیا کر رہی ہے۔ یہ وہی صاحب ہیں جو مہینہ ڈیڑھ بھر پہلے ٹی وی پر خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے کہ عمران اور قادری کے بے ہنگم دنگوں کے نتیجے میں خارجہ اور سکیورٹی امور حکومت کے ہاتھ سے پوری طرح نکل کر حق بحق دار رسید ہوگئے ہیں۔ اب کیا بات ہوگئی کہ اپنی کہی گئی بات بھول گئے۔
جن ماؤں کے بچّے انہیں دوزخ کے سپرد گئے ہیں‘ خدا کے سوا کون ہے جو انہیں صبر دے سکے ۔ بچّوں کے لئے یہ دعا کرنے میں ہرج نہیں کہ خدا انہیں زیادہ اجر دے۔ صرف اجر کی دعا اس لئے بے ضرورت ہے کہ انہوں نے ہماری دعا کے بغیر بھی جنّت ہی جانا ہے۔ بچے معصوم ہوتے ہیں‘ مسلمان کے ہوں یا کافر کے۔اور خدا معصوموں سے وہی کرے گا جو وہ معصوموں سے کرتا ہے۔
http://www.naibaat.pk/archives/sp_cpt/%D8%A8%D8%A7%D8%A8-%D8%A7%D9%84%D9...
Add new comment