شہادت عبداللہ بن الحسنؑ

شہادت عبداللہ بن الحسنؑ

اقتباس از کتاب سحاب رحمت

تدوین زاھد حسین بلوچ ترابی

جب دشمنان خدا نے امام حسین(ع) کو آخری وقت میں گھیر لیا تو اس دوران میں ایک نابالغ بچہ عبداللہ بن حسن ؑ بن علی ؑ خیمہ حرم سے باہر نکلا اوردوڑتا ہوا اور لشکر کو چیرتاہوا اپنے چچا کے پہلو میں جا پہنچا۔حضرت زینب ؑ اس کے پیچھے نکلیں کہ اسے میدانِ جنگ میں جانے سے روک سکیں۔ امام حسین ؑ نے بھی فرمایا: میری بہن اس کی حفاظت کرو لیکن وہ بچہ نہ رکا اور سخت اصرار سے کہنے لگا : خدا کی قسم ! میں اپنے چچا سے جدا نہیں ہوں گا۔

اس اثناء میں بحرین کعب ( اور ایک قول کے مطابق حرملہ بن کاہل نزدیک پہنچا اور امام کو تلوار مارناچاہی۔ اس شہزادے نے کہا : اے ناپاک عورت کے بیٹے وائے ہو تجھ پر تو مرے چچا کو قتل کرناچاہتا ہے ؟ اس ملعون نے تیزی سے تلوار چلائی تو اس بچے نے اپنا ہاتھ تلوار کے آگے سپر کردیا ( تاکہ تلوار چچا کونہ لگے ) تلوار کے وارسے بچے کا ہاتھ جسم سے جدا ہوکر کھال سے لٹکنے لگا۔

بچے نے آوازدی : اماں جان( یایہ آواز دی : چچا جان ) امام حسین ؑ نے اسے پکڑ کر سینے سے لگا لیا: اور فرمایا : میرے بھائی کے بیٹے !جو تمہارے ساتھ ہواہے ا س پر صبر کرو۔ اوراسے نیکی جانوکہ خدائے متعال نے تمہیں شائستہ اورنیک آباؤ اجداد سے ملحق کردیا ہے۔

اس کے بعد یہ ہاتھ آسمان کی طرف بلند کرکے عرض کیا !خدایا ! اگر تونے ان لوگوں کو ایک زمانے تک زندگی سے بہرہ ور کیا ہے تو تو انہیں متفرق کردے‘ اور پراگندہ گروہ بنادے اور ہرگز ان سے حکومت کو خوش نہ رکھ کیونکہ انہوں نے ہم سے کہا تھا کہ ہم آپ کی نصرت کریں گے لیکن یہ ہمارے دشمن بن گئے اور ہمیں قتل کیا۔

سید بن طاؤس اور ابن نما کی روایت کے مطابق : حرملہ بن کاہل نے تیر چلایا جو چچا کی آغوش میں بیٹھے اس بچے کے حلق مبارک کو ذبح گیا۔=1

منتخب میں تحریر ہے : جب جناب زینب ؑ نے یہ منظر دیکھا تو فریاد بلند کی : افسوس میرے بھائی کے بیٹے !کاش میں مرگئی ہوتی اور یہ دن نہ دیکھتی۔ کاش !آسمان زمین پرگر پڑتا اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوگئے ہوتے۔2=

مقرم مرحوم نے اس شہزادے کا سن گیارہ سال تحریر کیا ہے۔=3

یکی طفلی برون آمدز خرگاہ

سوی سہ شد روان چون قطعہ ماہ

ہوای دیدن شہ داشت بر سر

بدی شہزادہ قاسم ؑ را برادر

درآندم خواہران را گفت آن شاہ

کہ این کودک برون نایدز خرگاہ

ندارند این جماعت رحم برما

نہ بر کودک نہ بر پیرو نہ برنا

گریزان از حرم گردید آن ماہ

دوان تا رفت در آغوش آن

شہش گرفت ھمچون جانِ شیرین

بگفت ای یادگار یار دیر بن

چرا بیرون شدیازخرگہ ای جان

نمی بینی مگر پیکان پراں

بہ ناگہ کافری زان قوم گمراہ

حوالت کرد تیغی بر سر شاہ

زبہر حفظ شہ کودک حذر کرد

برآن تیغ دست خود سپرکرد

جدا گردید دست کودک از بن

بشہ گفتا ببین چوں کرد با من

چہ دیدش حرملہ آن کفر بدبخت

بزد برسینہ اش تیری چناں سخت

کہ کودک جان بداد و بی مہابا

پرید از دست شہ تا نزد بابا

(عمان سامانی)

(ان اشعار میں امام ؑ کی مظلومیت‘ شہزادہ عبداللہ بن حسن ؑ کی قربانی اور وفاداری نیز شہزادے کی شہادت کے مظلومانہ بیان منظوم صورت میں پیش کیا گیا ہے)۔

حوالاجات

=1(ارشاد : ۲/۱۱۴،لہوف /۱۲۲،مثیر الاحزن

=/۷۳،تاریخ طبری : ۵/۴۵۰)

=2( وقایع الایام خیابانی /۴۸۰)

=3(مقتل مقرم /۳۵۴)

http://www.shiaarticles.com/index.php/2011-11-25-17-33-27/2539-2012-11-2...

Add new comment