عُلما سُو اور امام حسینؑ

سانحۂ کربلا دُنیا بھر میں ، خاص طور پر برصغیر پاک و ہند میں اشاعت ِ اسلام کا باعث بن گیا۔ ہندوستان میں سب سے زیادہ ہندوئوں

 اثر چوہان

عُلما سُو کو موضوع بناتے ہُوئے علّامہ اقبالؒ نے کہا ہے…
یہی شیخِ حرم ہے جو چرا کر بیچ کھاتا ہے
گلیمِ بُوزرؓ و ، دلقِ اویسؓ اور چادرِ زہرا ؓ
نامور صوفی شاعر حضرت سُلطان باہوؒ (-1690 1629ئ) نے کہا تھا…
جے کر دین، علِم وچّ ہوندا ہُو
تاں سِر نیزے، کیوں چڑھدے ہُو
اٹّھاراں ہزار جے، عالم آہا
اگیّ حسینؓ دے مَردے ہُو
یعنی اگر دین اسلام علِم میں ہوتا تو پھر (کربلا کے میدان میں اہل بیت) سروں کو نیزوں پر کیوں چڑھایا جاتا؟ اور (سانحۂ کربلاکے وقت، یزید کی سلطنت میں 18 ہزار دین کے عُلماء تھے، وہ امام حسینؓ کے ساتھ ہی اپنی جانیں قربان کر دیتے۔
حضرت سُلطان باہوؒ نے سانحۂ کربلا کو منفرد انداز میں پیش کِیا ہے۔ یزیدیت اپنی پوری قوت، جاہ و حشم اور سارے وسائل کے ساتھ موجود تھی اور خوف اور لالچ میں ڈوبے مسلمانوں نے اپنے ایمان کا سودا کر لیا تھا، یہاں تک کہ اُس دُور کے عُلماء نے بھی اپنی زبانیں اور آنکھیں بند کر لی تھیں۔ پیغمبرِ انقلابؐ نے فرمایا تھا کہ ’’عُلمائے اسلام بنی اسرائیل کے پیغمبروں سے افضل ہیں‘‘۔ سوال یہ ہے کہ اُس دُور کے ’’بنی اسرائیل کے پیغمبروں سے افضل، عُلمائے اسلام‘‘ اُس وقت کہاں تھے جب نواسہ ٔ رسولؐ اور اُن کے 72 ساتھیوں کو شہید کِیا جا رہا تھا؟
حضرت امام حسینؓ کی جنگ ملوکیت، جور، جبر، خیانت، بربریت، جہالت اور نجاست کے خلاف تھی۔ اُس جنگ میں صِرف اُن کے قبیلے کے لوگ تھے جن میں پردہ دار خواتین، چھوٹی عمر کے لڑکے اور دودھ پیتے بچے تھے۔ پھر اُن سب کی شہادت کے بعد چشمِ فلک نے وہ مناظر بھی دیکھے کہ اہلِ بیت اور اُن کے ساتھیوں کا خون بہانے والوں کا بہت ہی بُرا حال ہُوا اور انہیں دُنیا و آخرت میں رسُوائی ہُوئی۔ حضرت امام حسینؑ نے اپنی، اپنے رشتہ داروں ، دوستوں اور عقیدت مندوں کی قربانی دے کر فی الحقیقت اسلام کو زندہ کر دیا۔ شہید ہونے والوں میں حضرت ابوذر غفاری ؓکے عیسائی غلام جناب جون بن حوی بھی تھے۔ جب انہوں نے امامِ عالی مقامؓ سے اذنِ شہادت طلب کیا تو آپؓ نے فرمایا ’’جون! مَیں نہیں چاہتا کہ تمہیں قتل ہوتا دیکھوں!‘‘ تو جنابِ جون نے کہا ’’آقا! میرا حسب خراب، رنگ کالا اور پسینہ بدبو دار سہی لیکن میرا عزمِ شہادت پختہ ہے۔ مجھے اجازت دیں تاکہ مَیں سُرخُرو ہو سکوں!‘‘۔ جنابِ جون شہید ہو گئے تو امامِ عالی مقام ؓنے دُعا کی ’’پروردِگار! جون کے پسینے کو مُشک بار‘ رنگ کو سفید اور حسب کو آلِ محمد ؐ کے انتساب سے ممتاز کر دے!‘‘۔
سانحۂ کربلا دُنیا بھر میں ، خاص طور پر برصغیر پاک و ہند میں اشاعت ِ اسلام کا باعث بن گیا۔ ہندوستان میں سب سے زیادہ ہندوئوں نے نائب رسولؐ‘ سُلطان اُلہند غریب نواز حضرت خواجہ معین الدّین چشتی اجمیری ؒ کے دست مبارک پر اسلام قبول کیا۔ خواجہ معین الدّین چشتی اجمیریؒ نے اپنی رباعی میں حضرت امام حسینؓ کی عظمت کو بیان کرتے ہُوئے کہا…
شاہ ہست حسینؓ، پادشاہ ہست حسینؓ
دِیں ہست حسینؓ، دِیں پناہ ہست حسینؓ
سر داد، نداد دست، در دست ِ یزید
حقّا کہ، بِنائے لااِلہ ہست حسینؓ
حضرت خواجہ غریب نوازؒ کو شایدکربلا میں جنابِ جون بن حوی کی قربانی یاد تھی چنانچہ جب سُلطان شہاب الدّین غوری نے ہندوستان فتح کر لیا اور دہلی اور اجمیر کا راجا پرتھوی راج چوہان بھی قتل ہو گیا تو خواجہ صاحب نے شہاب الدّین غوری سے کہا کہ ’’پرتھوی راج چوہان کے بیٹے گووند راج چوہان کو اجمیر کا حاکم مقرر کر دو! تاکہ مفتوح ہندو قوم فاتح مسلمان قوم کا اقتدار دِل سے قبول کر لے!‘‘- شہاب الدّین غوری نے حُکم کی تعمیل کی۔ بین المذاہب ہم آہنگی کے سلسلے میں حضرت خواجہ غریب نوازؒ کی یہ پہلی کارروائی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ خواجہ غریب نوازؒ کے مزارِ اقدس پر ہر مذہب کے لوگ حاضری دیتے ہیں۔
-11 اگست 1947 ء کو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ نے بھی پاکستان میں عیسائیوں، ہندوئوں، سکھوں اور دوسرے مذاہب کے لوگوں کو مساوی، سیاسی، سماجی اور معاشی حقوق دینے کا اعلان کر کے ’’بین المذاہب ہم آہنگی‘‘ کا سنگ بنیاد رکھ دِیا تھا لیکن گذشتہ ماہ خودکش حملے کے نتیجے میں پشاور کے چرچ میں مصروفِ عبادت 83 عیسائیوں کے قتل پر تبصرہ کرتے ہُوئے طالبان کے ترجمان نے کہا تھا کہ ’’پشاور کے چرچ پر حملہ ہم نے نہیں کِیا لیکن یہ حملہ شریعت کے عین مطابق ہُوا ہے‘‘۔ کیا قیامت ہے کہ دُورِ حاضر میں ہر دہشت گرد اور دہشت گردوں کا سرپرست ’’امیرِ شریعت‘‘ ہونے کا دعویدار ہے۔ حکمران اور سیاسی جماعتوں کے مختلف قائدین بھی صِرف اپنی جانوں کو ہی قیمتی سمجھتے ہیں۔ جنوری میں ’’شیخ اُلاسلام ‘‘ علّامہ طاہر اُلقادری نے لاہور سے اسلام آباد تک اپنی قیادت میں لانگ مارچ کو بیک وقت مائوزے تنگ کے لانگ مارچ اور قافلۂ حسینؓ کے مترادف قرار دِیا اور لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز نے بھی کچھ دِن پہلے ایک پرائیویٹ نیوز چینل پر -6 اپریل 2007 ء کو امیر المومنین کی حیثیت سے مُلک بھر میں شریعت کے نفاذ اور شرعی عدالتوں کے قیام کو بھی امام حسینؓ کی تقلید کا دعویٰ کِیا اور جب مولانا عبدالعزیز سے پوچھا گیا کہ ’’آپ آپریشن کے دوران برقع پہن کر لال مسجد سے فرار کیوں ہو گئے تھے؟‘‘ تو مولانا نے کہا ’’نبی کریمؐ بھی تو خاموشی سے ہجرت کر گئے تھے!‘‘ مولانا کے اِس جُملے پر کتنی بار لاحول پڑھی جائے؟۔ علّامہ اقبالؒ نے کہا تھا؎
’’اے مُسلماں اپنے دِل سے پُوچھ مُلّا سے نہ پُوچھ
ہو گیا، اللہ کے بندوں سے کیوں خالی حرم ‘‘
حضرت امام حسینؓ نے فرمایا ’’بعض لوگ دُنیا کے غلام ہیں اور دین کو اپنی زندگی کے وسائل فراہم کرنے کے لئے ایک لعاب کے طور پر استعمال کرتے ہیں جو اُن کی زبانوں سے چمٹا ہُوا ہے‘‘۔ علّامہ اقبالؒ کہتے ہیں… ؎
’’اِک فقر ہے شبّیری ، اِس فقر میں ہے میری
میراثِ سلمانی ، سرمایۂ شبّیری‘‘
سُلطان شہاب الدّین غوری باغیرت مسلمان بادشاہ تھا۔ وہ پرتھوی راج چوہان سے شکست کھا کر غزنی واپس چلا گیا تھا لیکن اُس نے اور اُس کے جرنیلوں، عُلماء اور دوسرے سرداروں نے اپنے لئے دِن کا چَین اور رات کی نیند حرام کر لی تھی یہاں تک کہ اُس نے ہندوستان فتح کر لیا۔ پاکستان کو دو لخت ہُوئے 42 برس بیت گئے، جب ڈھاکہ میں ہمارے ایک لاکھ فوجیوں نے اپنے سپہ سالار امیر عبداللہ خان نیازی کی قیادت میںہتھیار ڈال دئے تھے۔ مرحوم شاعر عدیم ہاشمی نے کیا ہی خوبصورت شعر کہا ہے…
’’ہم ایک لاکھ تھے، ہم نے تو سر جُھکا ڈالے
حسینؓ تیرے بہتّر سروں کو، لاکھ سلام ‘‘

http://www.nawaiwaqt.com.pk/columns/15-Nov-2013/257628

Add new comment