عزاداری امام حسینؑ کے آداب

حرم الحرام کی مجالس اور جلوسوں میں کچھ اصولوں کا خیال رکھنا چاہئیے : الف): معصوم ؑ کی حدیث ہے کہ عزاداری کی مجالس میں اہلبیت ؑ کی تعلیمات اجاگر کیا جائے " قال جعفر بن محمد الصادق ع‏ تلاقوا و تحادثوا و تذاكروا فإن في المذاكرة إحياء أمرنا رحم‏ الله‏ امرأ أح

آداب عزاداری امام حسین ؑ
تحریر:اجمل حسین قاسمی

ہم اس مختصر سے مقالے میں ہم اپنے قارئین اور عزاداروں کی خدمت میں چند ایک آداب عزاداری امام حسین ؑ کو ذکر کرتے ہیں۔ امید ہے تمام مؤمنین عزاداری کی مجالس میں ان آداب کا خیال رکھیں گے انشاء اللہ ۔
۱۔ اہلیبیت ؑ کی ثقافت کو زندہ رکھنا ؛
محرم الحرام کی مجالس اور جلوسوں میں کچھ اصولوں کا خیال رکھنا چاہئیے :
الف): معصوم ؑ کی حدیث ہے کہ عزاداری کی مجالس میں اہلبیت ؑ کی تعلیمات اجاگر کیا جائے " قال جعفر بن محمد الصادق ع‏ تلاقوا و تحادثوا و تذاكروا فإن في المذاكرة إحياء أمرنا رحم‏ الله‏ امرأ أحيا أمرنا.

[1]

خطیب کے منبر پر جانے سے یا ایک نوحہ خواں کے نوحہ پڑھنے سے سامعین کی فکری سطح اور سوچ میں تبدیلی آنی چاہئے ؟ اگرخطیب کی تقریر سے لوگوں کے علم میں اضافہ ہوتا ہو اور لوگوں کی فکری سطح اور سوچ میں تبدیلی آتی ہو اور لوگوں کے اخلاق ، کردار اور گفتار میں مثبت تبدیلی آتی ہے تو اس خطیب اور نوحہ خواں نے اہلبیتؑ کے امر کو زندہ کیا ہے ۔اسی طرح سامعین کو بھی چاہیئے کی خطیب کے نصائح پر عمل کرکے اہلبیت ؑ کے امر کو زندہ کریں ۔
ب ) معرفت و بصیرت :
مجالس عزاداری میں جو افراد شرکت کرتے ہیں وہ وہاں سے کوئی نئی بات ، علمی ، تاریخی ،فقہی معلومات یا دور جدید کے حوالے سے کچھ حاصل کرکے جائیں اور یہ تب ہی ممکن ہے کہ جو خطیب مجلس پڑھ رہا ہے وہ اپنے مطالعات کو وسعت دے اور ساتھ ساتھ اخلاص کے ساتھ گفتگو کرے تاکہ لوگوں کی معرفت و بصیرت میں اضافہ کرسکے ۔
ج) احکام کی تعلیم :
ہر خطیب کو چاہیئے کہ وہ اپنی مجالس میں فقہی احکام بھی بیان کرے ۔اور سامعین کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ فقہی احکام پر عمل کریں خصوصا مجالس عزاداری میں عزاداری کے احکام پر عمل ہونا چاہیئے ۔
د ) اعترضات کا جواب دینا :
معاشرے میں ، لوگوں کے ذہن میں بعض اوقات کچھ سوالات پیش آتے ہیں یا مخالفین کی طرف سے کچھ اعتراضات کئے جاتے ہیں ، خطیب کو چاہیئے کہ ان کا منطقی ،عقلی و نقلی دلائل سے جواب دے ۔البتہ سامعین کو بھی چاہیئے کہ ان کے ذہنوں میں موجود شبہات اور اعتراضات علماء کے حضور پیش کریں تاکہ ان کے اذہان باطل چیزوں سے پاک ہوجائیں ۔
۲۔ عزاداری میں شرعی مسائل کا رعایت کرنا :
امام حسین ؑ جب کربلاء پہنچے توسب سے پہلےفقہی مسئلے کو مد نظر رکھتے ہوئے کربلا ء کی زمین کو خرید ا ؛ کیونکہ امام حسین ؑ نہیں چاہتے تھے کہ غصبی زمین پر شہید ہوں ۔ اور امام حسین ؑ چاہتے تھے کہ ان کا مقدس خون غصبی زمین پر نہ گرے ۔ امام حسین ؑ کی سیرت سے درس لیتے ہوئے ہمیں بھی عزاداری میں شرعی مسائل کا خیال رکھنا چاہیئے ۔ خصوصا ً خواتین کو پردے کا خیال رکھنا چاہیئے اور تمام عزاداروں کو عزاداری کی مجالس میں جھوٹ ، تہمت ، بد اخلاقی اور دیگر غیر اخلاقی کاموں سے دوری اور اجتناب کرنا چاہیئے ۔
۳۔ ایک دوسرے کو تعزیت پیش کرنا :
کسی انسان کو پیش آنے والی مصیبت کے وقت تعزیت پیش کرنا اسلام میں مستحب ہے ۔ پیغمبر اکرم ﷺ نے فرمایا ہے کہ : " ہر شخص مصیبت میں مبتلاء انسان کو تعزیت پیش کرے تو اس کا اجر و ثواب اس مصیبت میں مبتلاء انسان کے برابر ہوگا [2]۔
یہ سنت شیعیان اہلبیت ؑ میں رائج ہے جیسے ماہ محرم اور عزاداری کے دنوں میں "عظم اللہ اجورکم " کہہ کر ایک دوسرے کو تعزیت و تسلیت پیش کرتے ہیں ۔
امام محمد باقر ؑ نے فرمایا ہے کہ : جب شیعہ ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو اباعبداللہ الحسین ؑ کی مصیبت میں یوں تسلیت عرض کریں: " اعظم اللہ اجورنا بمصابنا الحسین ؑ و جعلنا و ایاکم من الطالبین بثارہ مع ولیہ الامام المہدی من آل محمد علیہم السلام "[3]
یعنی خداوند متعال امام حسین ؑ کی سوگواری اور عزاداری کی برکت سے ہمارے اجر میں اضافہ فرمائے اور ہم اور آپ کو امام مہدی (عج) کے ہمراہ امام حسین ؑ کے خون کا بدلہ لینے والوں میں سے قرار دے۔
۴۔ کالے کپڑے پہننا :
فقہی اعتبار سے کالے کپڑے پہننا مکروہ ہے لیکن امام حسین ؑ اور ائمہ معصومین ؑ کی عزاداری میں اس لباس کو کراہت سے مستثنی قرار دیا گیا ہے ؛کیونکہ یہ لباس حزن و اندوہ اور غم و الم کی نشانی اور عظیم شعائر میں سے ہے ۔
۵۔ زیارت امام حسین ؑ کا پڑھنا :
علقمہ ابن حضرمی نے حضرت امام محمد باقر ؑ سے درخواست کی کہ : یابن رسول اللہ ﷺ مجھے ایسی دعا تعلیم فرما ئیں کہ عاشورا کے دن دور اور نزدیک سے یا اپنے گھر سے پڑھ لیا کروں ۔
امام باقر ؑ نے فرمایا : " اے علقمہ ! جب بھی دعا پڑھنا چاہو تو اٹھ کھڑے ہوکر دو رکعت نماز بجا لاؤ اور اس کے بعد زیارت عاشورا پڑھ لیا کرو ۔ پس اگر زیارت پڑھ لو گے تو گویا تم نے ان کلمات و الفاظ سے دعا کی ہے جو ملائکہ ، امام حسین ؑ کے زائر کے لئے دعا کرتے ہوئے استعمال کرتے ہیں اور خداوند متعال تمہارے لئے سو ہزار ہزار ( سو ملین یا دس کروڑ) درجات لکھے گا یا بلند کرے گا ، اور تم اس شخص کے مانند ہونگے جو امام حسین ؑ کے ہمراہ شہادت پاچکا ہو ، تاکہ امام حسین ؑ کے اصحاب و انصار کے درجات میں شریک ہوجائیں اور تم صرف اور صرف ان شہیدوں کے زمرے میں قرار پاؤ گے اور انہی شہیدوں کے عنوان سے پہچانے جاؤ گے جو امام حسین ؑ کے ہمراہ شہید ہوئےہیں ، تمہارے لئے ہر نبی اور ہر رسول کی زیارت کا ثواب لکھا جائے گا اور ان تمام لوگوں کا ثواب آپ کے لئے لکھا جائے گا جنہوں نے امام حسین ؑ کی شہادت کے دن سے اب تک آپ ؑ کی زیارت کی ہے [4]۔
اگر ممکن ہو تو زیارت عاشورا معروفہ " سو لعن و سو سلام " کے ہمراہ ہونی چاہیئے اور اگر انسان کے پاس فرصت نہ ہوتو زیارت عاشورا غیر معروفہ کو ہر روز پڑھا لیا کرے جو اس کا اجر و ثواب زیارت عاشورا معروفہ کے برابر ہے ۔( زیارت عاشورا معروفہ و غیر معروفہ دونوں مفاتیح الجنان میں نقل ہوئیں ہیں )
۶۔ عاشورا کے دن دنیاوی کاموں سے پرہیز کرنا :
امام صادق ؑ نے فرمایا ہے : " جو شخص عاشورا کے دن دنیاوی کاموں سے پرہیز کرے[یعنی پیسوں اور تجارت یا کسب کار کے لئےاور اپنی روزانہ کی معیشت کے لئے بھی کوشش نہ کرے ؛ کیونکہ یہ کام بنی امیہ نے کیا ہے جو عاشورا کے دن کو بابرکت سمجھتے تھے]، تو خداوند متعال اس کی دنیاوی و اخروی حوائج پوری کرے گا ، عاشورا کے دن جو شخص مصیبت و الم و عزاء کرےگا توقیامت کے روز اس کا چہرہ مسرور ہوگا ، جس دن تمام لوگوں کے اوپر وحشت اور خوف طاری ہوگا [5]۔
۷۔ گریہ و بکاء عزاداری کا افضل ترین رکن :
حدیث قدسی میں مذکور ہے کہ خداوند متعال نے حضرت موسی ؑ سے ارشاد فرمایا : " اے موسیٰ ! جو بھی عاشورا کے دن میرے حبیب مصطفی ﷺ کے فرزند کے لئے گریہ کرے یا رونے کی صورت بنائے اور سبط مصطفی ﷺ کی مصیبت پر تعزیت پیش کرے ، وہ ہمیشہ کے لئے جنت میں ہوگا [6]۔
رسول اکرم ﷺاپنی بیٹی سیدہ فاطمہ زہراء (س) سے خطاب کرتےہوئے فرماتے ہیں : بیٹی فاطمہ (س) ! بے شک میری امت کی خواتین میرے خاندان کی خواتین کے مصائب پر روتی ہیں اور ان کے مرد میرے خاندان کے مردوں کے مصائب پر روتے ہیں اور نسل در نسل ہر برس ہماری عزاداری کی تجدید کرتے ہیں اور جب قیامت ہوگی تو آپ(س) ( اہلبیت ؑ کی خواتین کے مصائب پر گریہ و بکاء کرنے والی ) خواتین کی شفاعت کریں گی اور میں ( اہلبیت ؑ کے مردوں پر گزرنے والے مصائب پر گریہ و بکاء کرنے والے ) مردوں کی شفاعت کروں گا اور ان میں سے جس نے بھی امام حسین ؑ کے مصائب پر گریہ و بکاء کیا ہوگا ،ہم اس کا ہاتھ پکڑ لیں گے اور اس کو جنت میں داخل کریں گے ۔ یا فاطمہ (س) ! قیامت کے دن تمام آنکھیں رو رہی ہونگی سوائے ان آنکھوں کے جو امام حسین ؑ کے مصائب پر اشکبار ہوئی ہیں [7]۔
۸۔ عزاداری پیغام زینب (س) :
ہم جانتے ہیں کہ حضرت زینب (س) پہلی عزادار ہیں جنہوں نے کربلاء میں ہی امام حسین ؑ کے جسم مبارک کے قریب آکر فرمایا : اے میرے جدامجد رسول اللہ ﷺ آسمان کے ملائکہ آپ پر درود و سلام بھیجتے ہیں جبکہ آپ کے حسینؑ خون میں لت پت ، ریت اور مٹی پر پڑے ہوئے ہیں جبکہ ان کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے گئے ہیں ، یا اللہ ہماری یہ قربانی اپنی بارگاہ میں قبول فرما [8]۔ حضرت زینب (س)نے اس طرح عزاداری کی تہذیب کی بنیاد ڈالی اور حضرت زینب (س)نے بنی امیہ کی ایک عظیم سازش کو یہیں ناکام بنادیا جو عاشورا کا پیغام کہیں بھی نہیں پہنچنے دینا چاہتے تھے ۔ سیدہ نے یہ سلسلہ شام تک اسیری کی حالت میں بھی جاری رکھا اور عزاداری کو پیغام حق کا بہترین اور مؤثر ترین ذریعہ ثابت کرکے دکھایا ۔ چنانچہ ہمیں بھی عاشورا کے دن اور عزاداری کے دوسرے ایام میں اس بات کا خیال رکھنا چاہیئے کہ ہر عزادار کے کندھے پر نئی ذمہ داریاں عائد کرتی ہے؛ کیونکہ عزاداری احیائے دین کا نام ہے جس طرح انقلاب عاشورا اور تحریک حسینی ؑ اور واقعہ کربلاء دین اسلام کے احیاء کے نام ہیں ۔
۹۔ اخلاص کا خیال رکھنا :
ہمیں عزاداری کو عادت اور رسم کے طور پر نہیں منانا چاہیئے بلکہ اس عمل کو خالص نیت اور خدا کی رضا و خوشنودی کے لئے انجام دینا چاہیئے اور ساتھ ہی خلوص میں بھی ہمیں صادق و سچا ہونا چاہیئے؛ حتی ایک چھوٹا سا عمل بھی اگر خلوص نیت کے ساتھ انجام پائے تو یہ ان کثیر اعمال سے کہیں زیادہ بہتر ہے جن میں خلوص اور صداقت کا لحاظ نہ رکھا گیا ہو ، خواہ وہ اعمال کئی ہزار گنا زیادہ ہی کیوں نہ ہوں ۔ چنانچہ یہ بات حضرت آدم ؑ اور شیطان کی عبادات سے بخوبی سمجھ میں آتی ہے ؛ کیونکہ شیطان کی کئی ہزار سالہ غیر مخلصانہ عبادت اسے دوزخ کی آگ سے نجات نہیں دے سکی ۔ جبکہ حضرت آدم ؑ کی عبادت شیطان کی نسبت بہت کم تھی مگر چونکہ ان عبادات میں اخلاص کا عنصر شامل تھا ، خداوند متعال نے حضرت آدم ؑ کا ترک اولیٰ بخش دیا اور آپ ؑ کو نبوت عطا ء فرمائی ۔ ان کے علاوہ اعمال کی انجام دہی میں بھی خیال رہے کہ کہیں ریاء اور لوگوں کی تعریف و تمجید کی خواہش و تمنا ہماری نیت میں رسوخ نہ کرے ۔
۱۰ ۔ نماز اور امام حسین ؑ :
سیدا لشہداء ؑ اور آپ ؑ کے باوفاء اصحاب سب کے سب اس نماز کی راہ میں شہید ہوئے ہیں ۔ اسی وجہ سے ہم امام حسین ؑ کی "زیارت مطلقہ " میں امام ؑ کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں : ( اشہد انک قد اقمت الصلوۃ و آتیت الزکاۃ و امرت بالمعروف و نہیت عن المنکر ) ( یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ ؑ نے نماز قائم کی ، زکات ادا کی ، بھلائیوں کا حکم دیا اور برائیوں سے منع کیا ) ۔
ہم سب جانتے ہیں کہ نو محرم الحرام کو محاصرہ شدید ہوا اور لشکر یزید نے جب حملے کا منصوبہ بنالیا تو امام حسین ؑ نے اپنے بھائی عباس ؑ سے فرمایا : " یزیدی لشکر کے پاس جائیں اور اگر ممکن ہو تو ان سے آج کی رات کی مہلت لیں اور جنگ کو کل تک ملتوی کرائیں تاکہ ہم آج کی رات نماز ، استغفار اور اپنے پروردگار کے ساتھ مناجات اور راز و نیاز میں گزاریں ۔ خدا جانتا ہے کہ میں نماز ، تلاوت قرآن اور دعا و استغفار کو بہت پسند کرتا ہوں ۔ امام سجاد ؑ فرماتے ہیں : میرے والدگرامی ؑ ہر رات ایک ہزار نماز پڑھا کرتے تھے ۔ روز عاشورا امام حسین ؑ نے نماز ظہر و عصر کا خاص طور پر اہتمام کیا اور یزیدی دشمن کے تیروں کی بوچھاڑ میں بھی نماز عشق کی داستان رقم کی ۔ یقینا امام ؑ اپنے پیروکاروں سے بھی توبہ و استغفار اور دعا و عبادت کی توقع رکھتے ہیں، چنانچہ اگر نماز کا وقت ہوجائے تو عزاداری کے دوران بھی نماز بجالانا ضروری ہے اور تعزیت و تسلیت پیش کرتے وقت اور مجالس کے انعقاد کے دوران اس طرح شیڈول بنانا چاہیئے کہ یہ تمام عناصر شامل رہیں ؛ کیونکہ بہترین عزاداری کی توقع صرف بہترین عزادار سے ہی کی جاسکتی ہے ۔
ہمیں چاہیئے کہ عزاداری کی مجالس میں ان آداب کا خیال رکھتے ہوئے مجالس و عزاداری کو مزید بہتر اور اچھے انداز میں قائم کریں تاکہ امام حسین ؑ اور دیگر معصومین ؑ کے بتائے ہوئے راستے پہ چلتے ہوئے حقیقی مؤمن اور عزادار ہونے کا ثبوت دیں ۔

[1] ۔ بحار الانوار ، ج۱ ، ص ۲۰۰
[2] ۔ سفینۃ البحار ، ج۲ ، ص ۱۸۸
[3] ۔ مستدرک الوسائل ، ج ۲ ، ص ۲۱۶
[4] ۔ مصباح المتہجد ، ص ۷۱۴
[5] ۔ امالی شیخ صدوق ، ص ۱۲۹
[6] ۔ مستدرک سفینۃ البحار ، ج۷ ، ص ۲۳۵
[7] ۔ بحار الانوار ، ج۴۴ ، ص ۲۹۳
[8] ۔ عوالم العلوم والمعارف ، ج۱۱ ، ص

Add new comment