امام حسینؑ پر انبیاؑ کا گریہ
امام صادق علیہ السّلام فرماتے ہیں : انبیاء ، صدیقین ، شہداء اور ملائکہ کا امام حسین علیہ السّلام پر گریہ کرنا طولانی ہو چکا ہے[43] ۔ ذیل میں ہم امام حسین علیہ السّلام پر انبیاء علیہم السّلام کے گریہ کے چند نمونے پیش کر رہے ہیں :
١۔حضرت آدم کا گریہ کرنا:
اس آیت مجیدہ ( فتلقٰی آدم من ربّہ کلمات ...) [44] کی تفسیر میں بیان ہوا ہے کہ جب خدا وند متعال نے حضرت آدم علیہ السّلام کی توبہ قبول کرنا چاہی تو جبرائیل علیہ السّلام کو ان کے پاس بھیجا تاکہ انہیں یہ دعا تعلیم دیں :
(( یا حمید بحقّ محمّدۖ ،یا أعلی بحقّ علیّ ، یا فاطر بحقّ فاطمة ، یا محسن بحقّ الحسن ،یا قدیم الاحسان بحقّ الحسین ومنک الاحسان )).
جیسے ہی جناب جبرائیل علیہ السّلام نام حسین پر پہنچے تویہ نام سن کر حضرت آدم علیہ السّلام کے دل پر غم طاری ہوا اورآنکھوں سے اشک جاری ہوئے،جناب جبرائیل علیہ السّلام سے اس کا سبب پوچھا تو انہوں نے جواب میں فرمایا:
((یا آدم ! ولدک ھذا یصاب بمصیبة تصغر عندھا المصائب ))
اے آدم ! آپ کے اس فرزند پر ایسی مصیبت آئے گی کہ ساری مصیبتیں اس کے سامنے حقیر نظر آئیں گی
آدم علیہ السّلام نے فرمایا: وہ کونسی مصیبت ہو گی ؟ عرض کیا :
((یقتل عطشانا غریباوحیدا فریدا لیس لہ ناصرا ولامعین ،ولو تراہ یا آدم یحول العطش بینہ وبین السّماء کالدّخان ، فلم یجبہ أحد الاّ بالسّیوف ،وشرب الحتوف ،فیذبح ذبح الشاة من قفاہ ، وینھب رحلہ وتشھر رأوسھم فی البلدان ، ومعھم النسوان ، کذلک سبق فی علم المنّان ،فبکٰی آدم وجبرائیل بکاء الثکلٰی )) [45]
اسے پیاسا قتل کیا جائے گاجبکہ وہ وطن سے دور ، تنھا اوربے یار ومدد گار ہوگا ۔اگرآپ اسے دیکھتے تو پیاس کی شدّت کی وجہ سے آسمان اس کی آنکھوں میں دھواں دکھائی دے گا ، ( وہ مدد کے لئے پکارے گا ) تو تلواروں اور شربت موت سے اس کا جواب دیا جائے گا ، اسے ذبح کرکے سر تن سے جدا کردیا جائے گا جیسے گوسفند کو ذبح کیا جاتا ہے ، ان کے خیموں کو لوٹ لیا جائے گا اور ان کے سروں کو مختلف شہر وں میں پھرایا جائے گا جبکہ ان کی عورتیں ان کے ہمراہ ہوں گی ، اس طرح کا پہلے ہی سے علم خدائے منّان میں گذر چکا ہے ،پس آدم و جبرائیل نے اس عورت کی مانند گریہ کیا جس کا جوان بیٹا مر گیا ہو ۔
ایک اور روایت میں بیان ہواہے کہ جب حضرت آدم و حوّا کو ایک دوسرے سے دور زمین پراُتارا گیا تو حضرت آدم علیہ السّلام جناب حوّا سلام اللہ علیہا کی تلاش میں نکلے اور چلتے چلتے سر زمین کربلا پہنچے ، وہاں پر دل پہ غم طاری ہوا اور جب قتل گاہ امام حسین علیہ السّلام پر پہنچے تو پاؤں میں لغزش آئی اور گر پڑے جس سے پاؤں سے خون جاری ہونے لگا ،اس وقت آسمان کی طرف سر بلند کیا اور عرض کیا :
((الٰھی ھل حدث منّی ذنب آخر فعاقبتنی بہ ؟ فانّی طفت جمیع الأرض ،وماأصابنی سوء مثل ما أصابنی فی ھذہ الأرض
فأوحی اللہ تعالٰی الیہ : یا آدم ما حدث منک ذنب ،ولکن یقتل فی ھذہ الأرض ولدک الحسین ظلما ،فسال دمک موافقة لدمہ .
فقال آدم : یا ربّ أیکون الحسین نبیّا ؟ قال : لا ، ولکنّہ سبط النّبیّ محمّد ، وقال: من القاتل لہ؟ قال: قاتلہ یزید لعین أھل السّمٰوات والأرض .فقال آدم:أیّ شیء أصنع یا جبرائیل ؟فقال: العنہ یا آدم ! فلعنہ أربع مرّات ومشیٰ خطوات الی جبل عرفات فوجد حوّا ھناک )) [46]
اے پروردگار! کیا میں کسی نئے گناہ کا ارتکاب کر بیٹھا جس کی تو نے مجھے سزا دی ؟میں نے پورے روئے زمین کی سیر کی لیکن کہیں پہ اس طرح کی کوئی مصیبت پیش نہ آئی جو اس سر زمین پرپیش آئی ہے ۔
خدا وند متعال نے حضرت آدم پر وحی نازل کی : اے آدم ! تو نے کوئی گناہ نہیں کیا ،لیکن اس سر زمین پر تمہارے فرزندحسین کو ظلم وجفا کے ساتھ قتل کیا جائے گا،لہذا آپ کا خون ان کے خون کی حمایت میں جاری ہوا ہے۔
حضرت آدم نے عرض کیا : اے پالنے والے ! کیا حسین نبی ہوں گے ؟فرمایا: نہیں ،لیکن محمّد ۔۔ۖ۔ کے نواسے ہوں گے ۔
حضرت آدم نے عرض کیا : اسے کون قتل کرے گا ؟فرمایا یزید جو زمین وآسمان میں ملعون ہوگا ۔آدم نے جبرائیل سے کہا : میں کیا کر سکتا ہوں ؟ اس(جبرائیل ) نے عرض کیا : اے آدم ! اس پر لعنت بھیجو ،پس انہوں( آدم علیہ السّلام) نے اس پر چار مرتبہ لعنت بھیجی ۔اور چند قدم چلنے کے بعد کوہ عرفات میں حضرت حوّا سے جا ملے ۔
٢۔ حضرت نوح کا گریہ کرنا:
جب حضرت نوح علیہ السّلام کی کشتی گرداب میں آئی توانہوںنے خداوند متعال سے اس کا سبب پوچھا، جواب ملا : یہ سرزمین کربلا ہے اور جبرائیل علیہ السّلام نے امام حسین علیہ السّلام کی شہادت اور ان کے اہل وعیال کے اسیربنائے جانے کی خبر دی تو کشتی میں گریہ وماتم برپا ہوگیا اور آنحضرت نے بھی گریہ کیا[47] .
٣۔حضرت ابراہیم کا گریہ کرنا:
جب حضرت اسماعیل علیہ السّلام کوذبح کرنے سے بچالیا گیا تو جناب جبرائیل علیہ السّلام نے واقعہ کربلا بیان کیا اور اس پر گریہ کرنے کا اجر وثواب بتایاتو جناب ابراہیم علیہ السّلام نے کربلا میں ہونے والے مصائب پر گریہ کیا[48] ۔
اسی طرح جب خداوند متعال نے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے سامنے زمین وآسمان کو رکھا تو انہوں نے زیر عرش پانچ نور دیکھے ،جیسے ہی پانچویں نور یعنی امام حسین علیہ السّلام پر نظر پڑی تو آنکھوں سے آنسو جاری ہو پڑے[49]۔
٤۔ حضرت موسٰی کاگریہ کرنا :
جب حضرت موسٰی علیہ السّلام کوہ طور پر گئے تو وحی خدا ہوئی اے موسٰی ! تم جس جس کی بخشش طلب کرو گے ہم بخش دین گے سوا قاتل حسین کے ۔حضرت موسٰی نے عرض کیا : پالنے والے وہ بزرگ ہستی کون ہے؟امام حسین علیہ ا لسّلام کا تعارف کروایا گیا ،یہاں تک کہ بتایا گیا کہ ان کا بدن بے گور و کفن زمین پر پڑا رہے گا ،ان کا مال واسباب لوٹ لیا جائے گا ،ان کے اصحاب کو قتل کردیا جائے گا، ان کے اہل وعیال کو قیدی بنا کر شہر بہ شہر پھرایا جائیگا ،ان کے سروں کو نیزوں پر بلند کیا جائے گا اور ان کے بچے پیاس کی وجہ سے جان دے بیٹھیں گے ،وہ مدد کے لئے پکاریں گے لیکن کوئی مدد کرنے والا نہ ہوگا ۔
حضرت موسٰی نے یہ سن کر گریہ کیا ۔خداوند متعال نے فرمایا: اے موسٰی ! جان لے جو شخص اس پر گریہ کرے یا گریہ کرنے والی صورت بنائے تو اس پر جہنّم کی آگ حرام ہے[50] ۔
روایات میں نقل ہواہے کہ حضرت موسٰی علیہ السّلام نے اپنے پروردگار کے ساتھ مناجات کرتے ہوئے عرض کیا
((یا ربّ لم فضّلت أمّة محمّد علی سایرالأمم ؟قال اللہ تعالٰی : فضّلتھم لعشر خصال .قال: وماتلک الخصال الّتی یعملونھا حتٰی أمر بنی اسرائیل یعملونھا ؟قال اللہ تعالٰی:الصلاة والزکاة والصوم والحجّ والجھاد والجمعة والجماعة والقرآن والعلم والعاشوراء ،قال موسٰی: یاربّ وما العاشورائ؟قال: البکاء والتباکی علی سبط محمّدصلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم والمرثیة والعزاء علی مصیبة ولد المصطفٰی )) [51].
اے پروردگار! تو نے کس لئے اُمّت محمّد ۖ کو تمام امّتوں پر فضیلت دی ؟خداوندمتعال نے فرمایا:میں نے انہیں دس خصلتوں کی بناپر فضیلت دی ہے ۔حضرت موسٰی نے عرض کیا : وہ کونسی خصلتیںہیں تاکہ میں بنی اسرائیل کوان کے بجالانے کا حکم دوں ؟فرمایا: وہ نماز ، روزہ ، زکات،حجّ ، جھاد ، نماز جماعت و جمعہ ،قرآن ،علم اور عاشورہ ہے ۔حضرت موسٰی نے عرض کیا : یہ عاشورہ کیا ہے ؟آواز آئی :وہ محمّد ۖ کے نواسے پر گریہ کرنا اور گریے والی صورت بناناہے ،فرزند مصطفٰی ۖ کی مصیبت پر مرثیہ پڑھنا اور عزاداری کرنا ہے ۔
٥۔ حضرت خضر کا گریہ کرنا:
جب حضرت موسٰی اور حضرت خضر نے مجمع البحرین میں ملاقات کی تو آل محمد علیہم السّلام او ران پر ڈھائے جانے والے مصائب کے بارے میں گفتگو کی تو ان کے گریہ کی آواز بلند ہوئی [52]۔اور جیسے ہی کربلا کا تذکرہ ہو اتو گریہ اور بلند ہوا[53]۔
ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: امیرالمؤمنین علیہ السّلام صفین سے واپسی پر جب کربلاسے گذرے تو کربلا کی خاک کی ایک مٹھی بھر کر مجھے دی اور فرمایا: جب اس سے تازہ خون جاری ہو تو سمجھ جاناکہ میرے فرزند حسین شہید کردیئے گئے ہیں۔ ابن عباس کہتے ہیں :میرے ذہن میں یہ بات ہمیشہ باقی رہی ،یہاں تک کہ ایک دن نیندسے اٹھا تو دیکھا اس خاک سے تازہ خون جاری ہے جس سے سمجھ گیا کہ امام حسین علیہ السلام شہید کر دیئے گئے ۔میں گریہ وزاری میں مشغول تھا کہ گھر کے ایک گوشے سے آواز آئی:
اصبروا یا آل الرّسول
قتل فرخ البتول
نزل الرّوح الأمین
ببکاء و عویل
اے آل رسول ۖ! صبر کرو ،فرزند بتول شہید کردیا گیا ۔جبرائیل امین گریہ وزاری کرتا ہوا نازل ہوا۔
میں نے گریہ کیا ،وہ دس محرم کا دن تھا لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ یہ آواز باقی جگہوں پر بھی سنی گئی اور وہ ندادینے والے حضرت خضر علیہ السّلام تھے[54] ۔
٦۔ حضرت زکریا کا گریہ کرنا:
حضرت زکریا علیہ السّلام جب بھی رسول خدا ۖ ، حضرت علی ، حضرت زہرائ اور امام حسن کا نام لیتے تو ان کا غم برطرف ہوجاتا لیکن جیسے ہی نام حسین لیتے تو ان پر گریہ طاری ہ وجاتا۔جناب جبرائیل علیہ السّلام نے آنحضرت کے سامنے امام حسین علیہ السّلام کی شہادت کا ماجر ابیان کیا تو انہوں نے گریہ کیا[55] ۔
٧۔ حضرت عیسٰی کا گریہ کرنا :
جب حضرت عیسٰی علیہ السّلام اور ان کے حواری کربلا سے گذرے تو انہوں نے گریہ کیا [56]۔
٨۔ پیغمبر ۖ کا گریہ کرنا:
جب جبرایئل علیہ السّلام نے امام حسین علیہ السّلام کی شہادت کی خبر دی توآپ نے گریہ کیا [57]۔اور اسی طرح جب سید الشہداء کی تربت ان کے سامنے ظاہر کی گئی تو اس وقت بھی گریہ کیا[58] ۔
راہب کاامام حسین پر ماتم کرن
ابو سعید کہتا ہے : میں اس لشکر کے ہمراہ تھا جو سر امام حسین علیہ السّلام کو شام کی جانب لے کر جا رہا تھا ۔جب ایک منزل پر نصرانیوں کی بستی کے پاس پہنچے تو شمر نے بستی والوں سے بلا کر کہا : میں ابن زیاد کے لشکر کا سردار ہوں اور ہم عراق سے شام جارہے ہیں ۔عراق میں ایک باغی نے یزید کے خلاف بغاوت اور خروج کیا تو یزید نے ایک لشکر بھیج کر انہیں قتل کروادیا ،یہ ان کے سر اور ان کی عورتیں ہیں ہمیں یہاں پر رات ٹھہرنے کے لئے جگہ دی جائے ۔
راوی کہتا ہے : راہب نے اس سر کی طرف نگاہ کی تو دیکھا کہ اس سر سے نور بلندہو رہا ہے ۔اس نے شمر سے کہا : ہماری بستی میں آپ کی فوج کو ٹھہرانے کی جگہ نہیں ہے لہذا ان سروں اور قیدیوں کو ہمارے حوالے کردو ،ان کے بارے میں مت پریشان ہو اور تم لوگ بستی سے باہر رکو تاکہ اگر دشمن حملہ کردے تو دفاع کر سکو۔
شمر کو راہب کی تجویز پسند آئی ،سراور قیدی ان کے حوالے کئے اور خود بستی سے باہر رک گئے ۔راہب نے سروں کو ایک گھر میں جاکر رکھا اور وہیں پر قیدیوں کو بھی ٹھہرادیا ۔جب رات ہوئی تو اس نے دیکھا کہ گھر کی چھت پھٹی اور ایک نورانی تخت اترا، جس پر نورانی خواتین سوار ہیں اور کوئی شخص منادی دے رہا ہے کہ راستہ چھوڑ دو، یہ خواتین حضرت حوّا، صفیہ ، سارہ ، مریم ،راحیل مادر یوسف، مادر موسٰی ،آسیہ ،اور ازواج پیغمبر ۖ تھیں۔
راوی کہتا ہے : سرامام حسین علیہ السّلام کو صندوق سے نکالا اور ایک ایک بی بی نے اس کا بوسہ لینا شروع کیا ،جب فاطمہ زہرا کی نوبت آئی تو راہب کہتا ہے: مجھے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا بس ایک آواز آرہی تھی اے میرے مظلوم لال! اے میرے شہید لال! ماں کاسلام ہو ۔
جسیے ہی راہب نے یہ آوازسنی غش کھا کرگرا اور جب ہوش آیاتو سر مبارک کو اٹھایااور کافور،مشک وزعفران سے اسے دھویااور اسے اپنے سامنے رکھ کر گریہ کرتے ہوئے یہ کہنے لگا:اے بنی نو ع آدم کے سردار !میں یہ سمجھتا ہوں کہ تو ہی وہ ذات ہے جس کی تعریف تورات وانجیل میں کی گئی، اس لئے کہ دنیا و آخرت کی خواتین تجھ پر گریہ کناں ہیں[59]۔
نبی ۖ کی آل سے جس شخص کو محبّت ہے
اسے نجات ملے گی یہ اک حقیقت ہے
غم حسین میں رونا ہماری فطرت ہے
وہ کیا بہائیں گے آنسو جنہیں عداوت ہے
جو شہر علم کو ان پڑھ کہیں معاذ اللہ
بنی اُمیہ میں اب تک وہی جہالت ہے
غم حسین کو دنیا مٹا سکتی نہیں
بقائے دین محمّد ۖ کی یہ ضمانت ہے
نثار ہوتے ہیں انصار شہ پہ مہدی دیں
فضیلتوں کی میسر انہیں ریاست ہے
وجود انکا نہ ہو تو جہاں فناہوجائے
بقائے مہدی سے دنیا ودیں سلامت ہے
امام وقت کو جانے بغیر مر جائے
تواس کی موت حقیقت میں اک ہلاکت ہے
نماز فجر پڑھیں ترک راحتوں کو کریں
جہاد نفس ہی سب سے بڑی عبادت ہے
چمن جو کرب وبلا کا سجا ہے اکبر
جناب فاطمہ زہراء کی یہ ریاضت ہے
حوالاجات
بحار الأنوار ٤٥:٢٠٨.[43]
. سورہ بقرہ : ٣٧.[44]
. بحار الأنوار ٤٤:٢٤٥؛ عوالم العلوم ١٧:١٠٤.[45]
. بحارالأنوار ٤٤:٢٤٢؛عوالم العلوم ١٧:١٠١.[46]
. عوالم العلوم ١٧:٢٩؛بحارالأنوار ٤٤:٢٤٣.[47]
. بحار الأنوار ٤٤:٢٢٦.[48]
. الخصائص الحسینیة :١٧٨.[49]
. بحار الأنوار ٤٤:٣٠٨.[50]
. مجمع البحرین ٣:٤٠٥؛مستدرک الوسائل ١٠:٣١٨.[51]
. بحارالأنوار ٣:٣٠١؛ تفسیر قمی ٢: ٣٨.[52]
. تذکرة الشّہداء :٣٣.[53]
. بحار الأنوار ٤٤:٢٥٢؛ امالی صدوق :٤٧٨و٤٨٠.[54]
. بحار الأنوار ٤٤:٢٢٣.[55]
. معالی السبطین ١:١٧٦؛ بحار الأنوار ٤٤:٢٥٣.[56]
. بحارالأنوار١٨: ١٢٥.[57]
. بحار الأنوار ٣٦:٣٤٩.[58]
. البکاء للحسین :٣٩٥.[59]
بشکریہ:۔http://www.ahl-ul-bayt.org/ur.php/page,17391A114812.html?PHPSESSID=1ebf0...
Add new comment