عزاداری امام حسینؑ کی قدر کیجئے

عزاداری کی زندہ و جاوید حقیقت کا آغاز اس وقت ہوا جب کربلائے معلٰی کی ریت میں پہلے شہید جناب حر بن یزید ریاحی کا پاکیزہ لہو جذب ہوا۔ معرکۂکربلا ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اپنی منزلیں طے کرتا رہا اور بالآخر

عزاداری کی زندہ و جاوید حقیقت کا آغاز اس وقت ہوا جب کربلائے معلٰی کی ریت میں پہلے شہید جناب حر بن یزید ریاحی کا پاکیزہ لہو جذب ہوا۔ معرکۂکربلا ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اپنی منزلیں طے کرتا رہا اور بالآخر وہ وقت آیا جب سید الشہداء علیہ افضل السلام کی شہادت کی خبر بذریعۂراہوار آپکے پسماندگان تک پہنچی اور خیموں میں پہلی مجلس ِ عزا کا آغاز ہوا۔ امام علیہ السلام کی شہہ رگ کے قطع ہوتے ساتھ ہی دین ِ خدا کو ابدی زندگی مل گئی اور اسی شہہ رگ کے کٹنے کا ذکر اس امت کی حیات ِ جاودانی کا باعث بن گیا۔ 
عصر ِ عاشور سے شام ِ غریباں، شام ِ غریباں سے گیارہ محرم کی سیاہ رات، اس سیاہ رات کے اختتام پر طلوع ہونے والے دن کو ریگزار کربلا سے کوفہ اور کوفہ سے شام تک کا ہولناک سفر، شام کے زندان کی کربناک قید اور شام سے کربلا اور پھر کربلا سے مدینہ تک سید الشہداء علیہ السلام کی شہادت کا ذکر، عزاداری کی وہ ٹھوس اور لازوال بنیاد تھی جسے خانوادہءاہلبیت کی مخدرات، بیمار امام اور کم سن بچوں نے ایسی انمول قیمت دے کر رکھی جسکا اندازہ صرف اللہ رب العزت کو ہے۔ ذکر ِ کربلا کا یہ سورج تدریجا” بلند ہوتا رہا اور کچھ ہی عرصے میں اسکے نور نے کل کائنات کا احصاء کر لیا۔ اور آج خدا کے فضل و کرم سے ہفت آسمان سے لیکر اس مادی زمین کا چپہ چپہ ذِکر ِ حسین سے گونج رہا ہے۔ تیرہ سو بہتر سالوں کی مسافت پر مشتمل یہ سفر آج بھی جاری ہے، تاقیامت اور روایات کے مطابق زندگانیءبہشت میں بھی جاری رہیگا۔ کیونکہ یہ وہ ابدی حقیقت ہے جو شاید وجہہ ِ تخلیق کائنات تھی۔ خدا کو منظور تھا کہ حسین کی سپاہ ِ بینظیر کے ذریعے حق کو باطل سے یوں جدا کرے کہ حقیقت عیاں ہوجائے۔ خدا کا یہ وعدہ تھا کہ "فاذکرونی ازکرکم" یعنی تم میر ذکر کرو، تمہارا ذکر کرنا میرا کام ٹھہرا۔ 10 محرم 61ھ کو امام ِ عالی مقام نے خدا کا ذکر اس جدا انداز میں کیا کہ آج چہاردانگ ِ عالم میں ذکر ِ حسین کا چرچا ہے۔ عزاداران ِ حسین دنیا کے تمام خطوں میں اس عبادت کو اپنے اپنے انداز میں ادا کررہے ہیں جو یقینا” ان عزادارن کے لئے پیغام ِ حیات و نجات ہے۔   
جہاں یہ دنیا سمٹ کر ایک عالمی دیہات کی صورت اختیار کرگئی ہے وہیں نہ صرف ہر موجود کے اسلوب پر نمایاں تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں بلکہ تقاضے بھی تبدیل ہو رہے ہیں۔ ہمارا سلام ہو ان ہستیوں کے حضور جنہوں نے اپنی جان، مال، عزت، آبرو اور سب کچھ دے کر اس عظیم نعمت کی حفاظت کرکے ہم تک پہنچا دی۔ اموی، عباسی اور مغلیہ ادوار میں جب کہ اہلبیت اطہار علیہم السلام کا نام تک لینا قابل ِ تعزیر جرم تھا، ہمارے اسلاف نے نہایت جانفشانی سے سینہ بہ سینہ ذکر ِ حسین کو ہم تک پہنچا دیا اور آج یہ عالم ہے کہ ہم ڈنکے کی چوٹ پر شہروں کی شاہراہوں پر یاحسین کی صدائیں بلند کرتے ہیں۔ آج جس آزادی اور بے خوفی سے ہم اس عبادت کو انجام دے رہیں ہیں، یہ سب ہمارے بزرگوں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ اب یہ ذمہ داری ہمارے کاندھوں پر عائد ہوتی ہے کہ جس حفاظت کے ساتھ یہ نعمت ِ عظمٰی ہم تک پہنچی، ہم بھی حفاظت کا حق ادا کرتے ہوئے یہ امانت اگلی نسلوں تک منتقل کریں۔
جہاں ظلم کے تاریک ادوار میں اس نعمت کی حفاظت ایک گراں ذمہ داری تھی، وہیں آزادی کے اس دور میں بھی اسکی حفاظت کسی مشکل سے کم نہیں کیونکہ آزاد معاشروں کے چند عاقبت نااندیش نمائیندگان ِ شیطان، عزاداروں کے بہروپ میں فرش ِ عزا پر براجمان ہوگئے، جنکا مقصد عزائے حسین نہیں اپنے چند مادی فوائد کی حفاظت کرنا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر اس عبادت کو خلوص ِ نیت سے ادا کیا جائے تو ابدی زندگی تو ملتی ہی ہے، اسکے ساتھ ساتھ مادی فوائد بھی میسر آجاتے ہیں۔ آج یہ عام مشاہدے کی بات بن چکی ہے کہ اکثر مقامات پر مجلس ِ حسین کچھ اس انداز میں برپا ہورہی ہے کہ بانیان ِ مجلس کو  ثواب کا لالچ ہے، شرکائے مجلس کو تبرک اور لنگر کی چاہ ہے جبکہ خطیب فیس اور دادوتحسین کے پیچ و خم میں الجھ کر رہ گیا ہے۔ یہ بات عقلوں سے محو ہوگئی کہ ذکر ِ حسین رسم نہیں، شہہ رگ ہے جو ضامن ِ حیات ہوتی ہے۔ اگر شہہ رگ میں خون ہی باقی نہ رہا تو جو باقی ہے وہ محض ایک لاش ہے اور کچھ بھی نہیں۔ آج جہاں ہر چیز کے تقاضے بدل گئے، ہمیں بھی اپنے انداز بدلنے ہوں گے اور اپنے اعمال، افعال اور اقوال کا بغور جائزہ لینا ہوگا کہ آیا ہم عزاداریءسید الشہداء کا حق ادا کررہے ہیں یا اسکا حق پامال کررہے ہیں۔ کیا جو فرش عزاء ہم بچھا رہے ہیں، وہ محض ایک خاندانی رسم ہے یا سیدہ زہرا سلام اللہ علیہا کے استقبال میں بچھایا گیا قالین۔ اس فرش ِ عزا سے متعلق جو افراد ہیں وہ پیغام ِ عاشورہ سے زندگی حاصل کررہے ہیں یا محض دسترخوان سے غذا کے چند ٹکڑے۔ سیاہ چادر تلے محض لکڑی کی ایک مسند ہے یا حقیقتا” منبر۔ اس مسند پر براجمان شخص رہ ِ حسین کا ایک مبلغ ِ بے لوث ہے یا اپنی جیب کو تولنے والا تاجر ِ خون ِ حسین۔ سید الشہداء کی شان میں ادا ہونے والے الفاظ صرف ردیف و قافیہ کی پیشکش ہیں یا پیغام ِ حسینی سے لبریز اشعار۔ ہمارے سینوں پر پڑنے والے ہاتھ کیا صرف ہمارا سینہ پیٹ رہے ہیں یا یزید کے منہ پر طمانچوں کی صورت میں پڑ رہے ہیں۔ مجلس سے کیا ہم محض ثواب حاصل کررہے ہیں یا اپنی روحانی بالیدگی کا سامان اکٹھا کررہے ہیں۔ ان تمام نکات پر ہر ہر عزادار کو ذاتی اور اجتماعی طور پر غور کرنا ہوگا تاکہ اپنی اصلاح کے ساتھ ساتھ معاشرے کی اصلاح کا بھی سامان پیدا ہو اور ہم وہ حقیقی عزاداری بجا لائیں، جسکی بنیاد سیدہ زینب سلام اللہ علیہا اور سید ِ سجاد علیہ السلام نے اپنی کل کائنات خدا کے حضور پیش کرکے کربلا کی ریت پر ڈالی تھی۔ خدا ہمیں وہ توفیق بخشے کہ ہم ایسا فرش ِ عزا بچھائیں کہ بی بی سیدہ سلام اللہ علیہا دیگر ساکنان ِ کساء اور  حاملان ِ عرش کے ہمراہ اس کو رونق بخشیں اور اس مجلس سے ہمیں روحانیت و عرفان کے وہ پر نصیب ہوں جن کے بل پر پرواز کرتے ہوئے ہم سیدالشہداء علیہ السلام کے حضور پیش ہو جائیں اور ہمارا وجود اس بارگاہ ِ اقدس میں شرف ِ قبولیت پا جائے۔

بشکریہ :۔۔۔ابنا:۔۔۔۔

Add new comment