کربلا میں خواتین کا کردار ۔قسط سوم
تحقیق:۔۔۔۔۔ غلام مرتضیٰ انصاری
وہب بن عبداللہ کی ماں وہب بن عبداللہ اپنی ماں اور بیوی کے ساتھ امام حسین (ع) کے لشکر میں شامل تھا ۔ اس کی ماں اسے شھادت کی ترغیب دلاتی تھی کہ میرے بیٹے اٹھو، اور فرزند رسول (ع) کی مدد کرو ۔ وہب کہتے ہیں : اس معاملے میں میں کوتاہی نہیں کروں گا ، آپ بےفکر رہیں ۔ جب میدان جنگ میں جاکر رجز پڑھا اور دشمنوں پر حملہ کرنے کے بعد ما ں اور بیوی کے پاس واپس آیا اور کہا: اماں جان! کیا آپ راضی ہوگئیں؟وہ شیر دل خاتون کہنے لگی : اس وقت میں تم سے راضی ہونگی کہ تم امام حسین ؑ کی راہ میں شہید ہوجائے۔ اس کی بیوی نے اس کے دامن پکڑکے کہا: مجھے اپنے غم میں داغدار چھوڑ کر نہ جائیں ۔
ناسخ التواریخ نے لکھا ہے کہ شب زفاف کو ۱۷ دن ہی گزر ے تھے کہ کربلا میں پہنچے ۔ شوہر کی جدائی اس خاتون کیلئے بہت سخت تھی ،کہا اے وہب مجھے یقین ہوگیا کہ اب تو فرزند رسول (ص) کی راہ میں شہید ہونگے اور بہشت میں حورالعین کے ساتھ بغل گیر ہونگے اور مجھے فراموش کروگے ۔ میں ضروری سمجھتی ہوں کہ فرزند رسول (ع) کے پاس جا کر تجھ سے عہد لے لوں کہ قیامت کے دن مجھے فراموش نہیں کروگے۔دونوں امام حسین (ع)کی خدمت میں پہنچے۔ وہب کی بیوی نے عرض کیا : یابن رسول اللہ(ع)! میری دو حاجت ہے :
١. جب میرا شوہر شھید ہونگے تو میں اکیلی رہ جاونگی ،مجھے اہلبیت اطہار(ع) کے ساتھ رکھیں گے ۔
٢. وہب آپ کو گواہ رکھنا چاہتا ہے کہ قیامت کے دن وہ مجھے فراموش نہیں کریگا ۔
یہ سن کر امام حسین (ع) نے آنسو بہاتے ہوئے فرمایا : تیری حاجتیں پوری ہونگی اور اسے اطمینان دلایا-١-
ماں نے کہا :اے بیٹا ان کی باتوں پر تو کان نہ دھریں اور پلٹ جا ،فرزند رسول (ص) پر اپنی جان کا نذرانہ دو۔تاکہ قیامت کے دن خدا کے سامنے تیری شفاعت کرے ۔
وہب میدان میں گیا اور پے درپے حرم رسول خدا (ص) کی دفاع میں جنگ کرتے رہے، یہاں تک کہ ۱۹گھوڑا سوار اور ۱۲ نفر پیدل آنے والوں کو جہنم واصل کیا ۔ دشمنوں نے ان کی دونوں ہاتھوں کو قطع کیا ۔ آپ کی ماں نے خیمہ کا ستون ہاتھ میں لیکر میدان کی طرف نکلی اور اپنے بیٹے سے مخاطب ہوکر کہا: اے میرے بیٹے میرے ماں باپ تجھ پر فدا ہو ۔حرم رسول خدا(ص)کی دفاع میں جہاد کرو ۔ بیٹے نے چاہا کہ اپنی ماں کو واپس کرے ،ماں نے بیٹے کی دامن پکڑ کے کہا:جب تک تو شہید نہ ہوگا ،میں کبھی واپس نہیں جاوں گی۔ اور جب وہب شھید ہوئے تو اس کی تلوار اٹھا کر میدان کی طرف روانہ ہوگئی ۔
-٢-اس وقت امام حسین (ع) نے فرمایا: یا ام وھب اجلسی فقد وضع اللہ الجھاد عن النساء انک وابنک مع جدی محمد (ص) فی الجنۃ
اے وہب کی ما ں !بیٹھ جائیں کہ خدا تعالی نے عورتوں پر سے جہاد کی تکلیف اٹھالیا ہے ۔بیشک تو اور تیرے بیٹے دونوں بہشت میں میرے جد امجد (ص) کے ساتھ ہونگے۔ خدا تمھیں اہلبیت رسول (ص) کی طرف سے جزای خیر دے ،خیمے میں واپس جائیں اور بیبیوں کے ساتھ رہیں۔ خدا تجھ پر رحمت کرے ۔امام کے حکم پر وہ کنیز خدا خیمہ میں واپس آگئی اور دعا کی : خدایا مجھے نا امید نہ کرنا ۔ امام حسین (ع) نے فرمایا:خدا وند تمھیں ناامید نہیں کریگا۔ -٣-
وہب جب جہاد کرتے کرتے شہید ہوگئے تو ان کی بیوی سرانے آکر اس کے چہرے سے خون کو صاف کیا ۔ شمر ملعون نے اپنا غلام بھیجا جس نے اس خاتون کے سر پر وارد کیا اور وہ بھی شہید ہوگئی ۔ اور وہ پہلی خاتون تھی جو امام حسین ؑ کے لشکر میں سے شہید ہوگئی۔ -٤-
امام صادق (ع) سے روایت نقل ہوئی ہے کہ وہب بن عبداللہ نصرانی تھا جو امام حسین (ع) کے دست مبارک پر مسلمان ہوگئے۔
وہب بن عبداللہ کی شجاعت کو دیکھ کر عمر سعد ملعون نے کہا: ما اشدّ صولتک ؟ یعنی تو کتنا شجاع ہے؟ دستور دیا کہ اس کا سر الگ کرکے لشکر گاہ حسینی کی طرف پھینک دیا جائے ۔ اس کی شیر دل ماں نے اپنے بیٹے کے سر کو دوبارہ لشکر عمرابن سعد کی طرف پھینکا ،جس سے ایک اور دشمن واصل جہنم ہوگیا۔
---------
١ ۔ فرسان الھیجاء ،ج۲ ، ص۱۳۷
٢ ۔ امالی الصدوق ،ص ۱۶۱
٣ ۔ بحار ج۴۵، ص ۱۷۔
٤ ۔ بحار ج۴۵، ص ۱۶۔
جاری ہے۔۔۔۔
بشکریہ:۔
Add new comment