خُطبہ جناب امام حُسینؑ ابن علیؑ حج کے موقع پر کربلا روانگی سے قبل
خُطبہ جناب امام حُسینؑ ابن علیؑ
حج کے موقع پر کربلا روانگی سے قبل
قمر بخاری
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَ مٰاشٰاءَ اللّٰہِ وَلاٰ قُوَّةَ اِلاّٰ بِاللّٰہِ
وَ صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی رَسُوْلِہِ،
خُطَّ الْمَوْتُ عَلٰی وُلْدِ آدَمَ مَخَطَّ الْقِلاٰدَةِ عَلٰی جیدِ الْفَتٰاةِ وَمٰا اَوْلَھَنی اِلٰی اَسْلاٰفی اِشْتِیٰاقُ یَعْقُوْبَ اِلٰی ُیوْسُفَ وَ خْیِّرَلی مَصْرَعٌ اَنَا لاٰقیہَ کَاَنّیْ بِاَوْصٰالی تَتَقَطَّعُھٰا عَسَلاٰنُ الْفَلَوٰاتِ بَیْنَ النَّوٰایسِ وَ کَرْبَلاٰ فَیَمْلَأُنّ مِنّی اَکْرٰاشاً جَوْفاً وَ اَجْرِبَةً سُغْبًا لاٰ مَحیصَ عَنْ یَوْمٍ خُطَّ بِالْقَلَمِ رِضَا اللّٰہِ رِضٰانٰا اَھْلِ الْبَیْتِ نَصْبِرُ عَلٰی بِلاٰئِہِ وَ یُوَفِّیْنٰا اُجُورَ الصَّابِرِیْنَ لَنْ تَشُذَّ عَنْ رَسُولِ اللّٰہِ لُحْمَتُہُ بَلْ ھِیَ مَجْمُوْعَةٌ لَہُ فی حَظیرَةِ الْقُدْسِ تَقِرُّبِھِمْ عَیْنُہُ وَ یُنْجَزُ بِھِمْ وَعْدُہُ اَلاٰ وَمَنْ کٰانَ فینٰا بٰاذِلاً مُھْجَتَہُ مُوَطِّناً عَلٰی لِقَاءِ اللّٰہِ نَفْسَہُ فَلْیَرْحَلْ مَعَنٰا فَاِنّی رٰاحِلٌ مُصْبِحًا
اِنْ شٰاءَ اللّٰہُ۔۱
حج کے ایام تھے۔ مسلمان گروہ در گروہ مکہ میں وارد ہو رہے تھے۔ اوائل ذی الحجہ میں ہی امام کو یہ اطلاع مل گئی کہ یزید ملعون بن معاویہ ملعون کے حکم سے عمر بن سعید بن وقاص ظاہراً تو امیر کارواں کے عنوان سے لیکن درحقیقت ایک خطرناک ذمہ داری لیے مکہ ارد ہوا ہے۔ یزید لع کی طرف سے اسے حکم ہے کہ مکہ میں جس جگہ بھی ممکن ہو وہ امام کو شہید کر دے۔ چنانچہ امام نے مکہ کا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے مراسم حج میں شرکت کیے بغیر حج کے اعمال کو عمرہٴ مفردہ میں تبدیل کیا اور سوموار کے دن ۸ ذی الحجہ کو مکہ سے عراق کی طرف روانہ ہوگئے۔ مکہ سے روانہ ہونے سے پہلے خاندان بنی ہاشم اور ان شیعہ افراد کے درمیان امام نے خطبہ ارشاد فرمایا جو مکہ میں ہی امام کے حلقہ بگوش ہوگئے تھے۔ فرمایا:
”تمام تعریفیں خدا کے لئے ہیں۔ وہ جو چاہتا ہے وہی ہوگا اور خدا کے ارادے کے علاوہ کوئی دوسری طاقت حکم فرما نہیں ہے۔ خدا کے درود و سلام ہوں اس کے بھیجے ہوئے (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر“۔ ”موت انسانوں پر اسی طرح لازم اور حتمی ہے جس طرح لڑکیوں کی گردنوں پر ہار پہننے رکھنے کا نشان۔ میں خدا کے نیک بندوں کے دیدار کا اسی طرح مشتاق ہوں جس طرح حضرت یعقوبں حضرت یوسفں کے دیدار کے مشتاق تھے۔
میرے لئے قتل گاہ معین کر دی گئی ہے جہاں پر میں قیام کروں گا اور گویا کہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ صحراؤں کے درندے (لشکر کوفہ مراد ہے) اس سر زمین نینوا میں میرے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے سر زمین نینوا میں میرے جسم کو ٹکڑے ٹکڑے کر رہے ہیں اور اپنے اوجھڑی بھر رہے ہیں۔ قضا کے قلم سے جو کچھ لکھا جا چکا ہے اس سے جائے فرار نہیں ہیں۔ جس بات میں خدا کی خوشنودی ہے ہم اسی پر راضی ہیں۔ مصائب اور امتحان کے مقابلے میں ہم صبر و استقامت سے کام لیں گے۔ خداوند عالم صبر کرنے والوں کا اجر ہمیں عنایت فرمائے گا۔
پیغمبر اور اس کے جگر گوشوں کے درمیان ہرگز جدائی نہیں ڈالے گا۔ پیغمبر بہشت برین میں اپنے فرزندوں کے ساتھ ہوں گے اس لئے کہ یہ فرزند پیغمبر کے نور چشم اور ان کے دل کی ٹھنڈک ہیں اور خدا کا وعدہ (اسلامی حکومت کا قیام) انہی کے توسط سے وقوع پذیر ہوگا“۔ آخر میں فرمایا: ”تم میں سے جو بھی ہمارے راستے میں خون کا نذرانہ پیش کرنے، اپنی جان راہ شہادت اور خدا سے ملاقات کے لئے نثار کرنے کا آرزومند ہے وہ کل ہمارے ساتھ چلنے کو تیار رہے کیونکہ میں انشاء الله کل صبح روانہ ہو جاؤں گا“۔
Add new comment