معرفت امام حسین علیہ السلام پر ایک مقالہ

معرفت امام حسین علیہ السلام پر ایک مقالہ

 

ٹی وی شیعہ(ریسرچ سیکشن)اس سے پہلے کہ اصلی گفتگو میں وارد ہوں اور شخصیت امام حسین (ع) کے بارے میں کچھ لکھیں اپنے فہم و ادراک کے مطابق سید الشہداء امام حسین (ع) کی معرفت کے سلسلے میں کچھ باتیں مقدمہ کے طور پر پیش کرتے ہیں:

۱: ا س بات میں کسی اسلامی مذہب کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے کہ تمام آئمہ معصومین (ع)، مولائے کائنات سے لیکر امام مھدی (ع) تک ایک ہی نور سے ہیں کہ جو حقیقت محمدیہ ہے۔اس بنا پر اصل خلقت کے اعتبار سے کسی کو کسی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے۔ یہ سب انوار الٰہیہ ہیں اور نور محمدیہ سے ہیں۔ اور کمالات و فضائل میں سب برابر ہیں۔ یعنی جو فضیلت کسی ایک امام کے لئے ثابت ہو دوسرے آئمہ کے لیے بھی خودبخود ثابت ہے۔ اور اگر ایسا نہ ہو تو امامت میں نقص لازم آئے گا کہ جو عقلا باطل اور محال ہے۔
۲: بعض آئمہ (ع) کی زندگی میں کچھ خاص مواقع اور فرصتیں پیش آتی رہی ہیں کہ دوسرے اماموں کی زندگی میں پیش نہیں آئی تھیں۔ لہٰذا بہت سارے آئمہ کو بعض کام انجام دینے کی فرصت اور موقع نصیب نہیں ہوتا رہا ہے۔ جیسے بنی امیہ کے سقوط اور بنی عباس کے برسر اقتدار آنے کے دوران امام صادق علیہ السلام کو فرصت ملی کہ آپ نےاس سے مکمل فائدہ اٹھایا اور علمی کارنامہ انجام دینا شروع کئے کہ جس کے نتیجہ میں چار ہزار سے زیادہ شاگردوں کو تربیت کیا۔ اسلام واقعی کی دنیا میں پہچان کروائی اور مذہب تشیع کو عروج دیا۔ لیکن زندگی کے آخر میں بنی عباس کی ظالمانہ حکومت نے ان پر مصائب ڈھانا شروع کر دئے اور آخر کار منصور نے زہر دے کر شہید کردیا۔
اب اگر یہ کہا جاتا ہے کہ امام جعفر صادق (ع) مذہب تشیع کے رئیس اور اسلام کو دوباره زندگی دینے والے ہیں اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ باقی آئمہ کے اندر معاذ اللہ اس کام کو انجام دینے کی صلاحیت نہیں تھی۔ یا امام حسین (ع) نے قیام کیا اور حیرت انگیز کارنامہ انجام دے کر اسلام کو حیات جاودانہ عطا کی تو دوسرے امام یہ کام نہیں کر سکتے تھے۔ یا امام حسن (ع) تکوینی طور پر قیام کرنے سے عاجز تھے۔ تاریخ کا دقیق مطالعہ کرنے سے یہ تمام مشکلات حل ہو جاتی ہیں کہ امام حسین کا قیام پہلے مرحلے پر حسنی ہے دوسرے مرحلے پر حسینی ہے۔
پہلی فصل
امام حسین (ع) کی خصوصیات
۱: پروردگار عالم نے امام حسین (ع) کےلیے ایک خصوصی حساب و کتاب رکھا ہے جو کسی نبی یا معصوم کے لیے نہیں رکھا۔
کیوں اور کیسے امام حسین (ع) نے اتنا بڑاانعام جیتا ہے؟ اس کا جواب آپ کی زندگی کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہو جاتا ہے۔
حضرت امام حسین (ع) نہ صرف شیعوں کے دلوں میں مقام و منزلت رکھتے ہیں بلکہ تما م مذاہب اسلامی اور غیر اسلامی آپ کو ایک مرد آزاد کے عنوان سے پہچانتے ہیں۔اور آپ کے لیے کچھ خاص خصوصیات کے قائل ہیں۔ ہم یہاں پر بعض غیر اسلامی دانشوروں اور مورخین کے اقوال امام حسین (ع) سلسلے میں نقل کرتے ہیں:
ع۔ ل۔ پویڈ لکھتے ہیں:
"امام حسین (ع) نے یہ درس دیا ہے کہ دنیا میں بعض دائمی اصول جیسے عدالت، رحم، محبت وغیرہ پائے جاتے ہیں کہ جو قابل تغییر نہیں ہیں۔ اور اسی طریقے سے جب بھی کوئی برائی رواج پھیل جائے اور انسان اس کے مقابلے میں قیام کرے تو وہ دنیامیں ایک ثابت اصول کی حیثیت اختیار کر لے گا۔ گذشتہ صدیوں میں کچھ افراد ہمیشہ جرأت ،غیرت اور عظمت انسانی کو دوست رکھتے رہے ہیں ۔اور یہی وجہ ہے کہ آزادی اور عدالت، ظلم و فساد کے سامنے نہیں جھکی ہے ۔امام حسین بھی ان افراد میں سے ایک تھے جنہوں نے عدالت اور آزادی کو زندہ رکھا۔ میں خوشی کا احساس کر رہا ہوں کہ میں اس دن ان لوگوں کے ساتھ جن کی جانثاری اور فداکاری بے مثال تھی شریک ہوا ہوں اگرچہ ۱۳ سو سال اس تاریخ کو گزر چکے ہیں۔
امریکہ کا مشہور ومعروف مورخ اپرونیک، واشنگٹن سے لکھتا ہے:
"امام حسین(ع) کے لیے ممکن تھا کہ یزید کے آگے جھک کر اپنی زندگی کو بچا لیتے۔ لیکن امامت کی ذمہ داری اجازت نہیں دی رہی تھی کہ آپ یزید کو ایک خلیفۃ المسلمین کے عنوان سے قبول کریں انہوں نے اسلام کو بنی امیہ کے چنگل سے نجات دلانے کے لیے ہر طرح کی مشکل کو خندہ پیشانی سے قبول کرلیا۔ دھوپ کی شدت طمازت میں جلتی ہوئی ریتی پر حسین نے حیات ابدی کا سودا کر لیا ، اے مرد مجاہد، اے شجاعت کے علمبردار، اور اے شہسور، اے میرے حسین"۔
۲:امام حسین (ع) کی ولادت سے پہلے اور ولادت کے بعد شہادت تک تمام موجودات عالم نے آپ پر گریہ کیا ہے۔ اور شہادت کے بعد قیامت تک گریہ کرتے رہے گے ایسا حادثہ کسی کے لیے نہ پیش آیا ہے اور نہ پیش آ ئےگا۔ ہاں حضرت یحیی (ع) کے لیے بھی آسمان نے گریہ کیا تھا۔ تفسیر مجمع البیان میں اس آیت " فما بکت علیھم السماء وا لارض " کے ضمن میں مرحوم طبرسی نے فرمایا: دو آدمیوں جناب یحیی اور حضرت امام حسین (ع) کے لیے آسمانوں اور فرشتوں نے چالیس دن تک گریہ کیا ہے۔ اور اسی تفسیر میں آیا ہے: سورج طلوع اور غروب کے وقت چالیس دن تک سرخ حالت میں رہا ہے ۔ ابن شہر آشوب کے مناقب میں یوں آیا ہے:
بکت السماء علی الحسین (ع) اربعین یوماً۔( تفسیر صافی ، سورہ دخان)۔
۳: امام حسین (ع) تمام کمالات اور فضائل میں تمام انسانوں سے برتر تھے۔ کیوں آپ کی کنیت ابا عبدا للہ ہے ۔ کیا یہ ایک معمولی سی کنیت ہے؟ بظاہر اس کنیت کے اندر ایک ایسی خصوصیت ہے جو آپ کو تمام کمالات کا محور اور مرکز قرار دیتی ہے۔
ابو عبد اللہ یعنی اللہ کے بندے کا باپ۔ باپ کا ایک خاندان میں بنیادی رول ہوتا ہے۔وہ اس خاندان کے لیے نمونہ ہوتا ہے۔ باپ ایک مربی ہوتا ہے۔ پس امام حسین (ع) بھی تمام اللہ کے بندوں کے باپ ہیں یعنی تمام عبادتگذار کمالات کو حاصل کرنے کے لیے آپ کے در پہ آتے ہیں ۔ وہ ہر کمال کا نمونہ ہیں اور ہر کمال آپ میں خلاصہ ہوتا ہے۔
۴: امام حسین (ع) کی زیارت حج اور عمرہ کے مترادف ہے۔ بہت ساری روایات میں آیا ہے کہ اگر کسی دن ایسا ہو کہ خانہ خدا حجاج سے خالی ہو جائے تو اس وقت تمام مسلمانوں پر واجب کفائی ہو جاتا ہے کہ بیت اللہ کی زیارت کرنے جائیں۔ اگر چہ مستطیع نہ بھی ہوں یا حج واجب ادا کر چکے ہوں۔ مرحوم صدوق رضوان اللہ علیہ نے یہی بات امام حسین (ع) کے روضے کے بارے میں لکھی ہے۔ اگر کبھی ایسا ہو امام حسین (ع) کا روضہ زائرین سے خالی ہو جائے تو تمام شیعوں پر واجب کفائی ہو جائے گا کہ امام کی زیارت کرنے جائیں۔ امام کی زیارت زائرین سے خالی نہیں رہنا چاہیے۔( نقل از آیت اللہ مرعشی نجفی)
کیا امام حسین (ع) کی زیارت عرفہ کے دن خانہ خدا کی زیارت کے برابر ہے؟
یا یہ کہا جائے کہ امام کی زیارت کا ثواب خانہ خدا کی زیارت سے زیادہ ہے یا برابر ہے؟۔ سب سے بڑی دلیل اس سلسلے میں یہ ہے : اس میں کوئی شک نہیں کہ خانہ خدا جو مکہ مکرمہ میں واقع ہے اس کی عظمت، حرمت، اور اس کا احترام جناب ابراہیم کی وجہ سے ہے کہ انہوں نے اس کو تعمیر کیا ہے۔ اور یہی ابراہیم جب حکم خدا سے اپنے فرزند اسماعیل کو ذبح کرنے لگتے ہیں آنکھوں پر پٹی باندھ لیتے ہیں لیکن امام حسین (ع) اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے کئی اسماعیل راہ خدا میں ٹکڑے ٹکڑے ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں لیکن آنکھوں پر پٹی نہیں باندھتے۔ پس زمین کربلا کہ جو فخر اسماعیل علی اکبر اور علی اصغر اور فخر ابراہیم امام حسین(ع) کو اپنی آغوش میں سلائے ہوئے ہے اس کی زیارت خانہ خدا کی زیارت سے اگر زیادہ ثواب نہیں رکھتی تو کسی قیمت پر کم بھی نہیں رکھتی۔
۵: امام حسین (ع) اپنے والد بزرگوارمولاے متقیان(ع) کی طرح رات کی تاریکی میں اپنے دوش پر اناج حمل کرتے تھے اور فقراء کے گھروں میں پہنچاتے تھے۔ حتیٰ آپ کی شہادت کے بعد بھی آپ کی پشت پر کچھ ایسے زخم تھے جو نہ تلوار کے زخم تھے اور نہ نیزہ کے بلکہ اناج کی بوریاں اٹھانے کی وجہ سے یہ زخم پڑے تھے۔ لہذا جب امام زین العابدین (ع) سے پوچھا گیا فرماٰیا: یہ زخم فقراء اور مساکین کے گھروں تک غذا پہنچانے کے ہیں۔ اس حدیث کو دوسروں نے بھی اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے۔ جیسے ابن جوزی نے کتاب تذکرۃ الخواص اور ابو نعیم اصفہانی نے حلیۃ الاولیاء میں۔
امام حسین (ع) اور دینی حکومت
الٰہی نمائندوں اورآسمانی راہنماؤں نے دینی حکومت قائم کرنے کی آخری سانسوں تک کوشش کی ہے۔ اورظلم و ستم سے بشریت کو نجات دلانے کے لیے کچھ قوانین مقرر کیے ہیں ۔ امام علی (ع) کی شہادت کے بعد بنی امیہ کے بر سر اقتدار آنے سے اسلامی حکومت استعماری حکومت میں تبدیل ہو گئی۔ حکام نے اسلامی خلیفہ کے عنوان سے اسلام کو کھلونہ بنا لیا۔
سماج میں طبقہ بندی شروع گئی حضرت علی(ع) کے چاہنے والوں کو تمام اسلامی اور سماجی حقوق سے محروم رکھا جانے لگا۔ شعیوں پر زندگی نہات تنگ کر دی گئی۔ علی (ع) اور ان کے خاندان سے محبت عظیم جرم شمار ہونے لگا کہ جو شیعوں کی محرومیت کا سبب بن گیا۔ معاویہ اور اسکے تمام اہلکاروں کو قتل و غارت کے سوا کوئی کام نہیں تھا۔ مختصر یہ کہ اسلام کومکمل طور پر صفحہ ہستی سے مٹانے کی سازش رچائی گیئ۔
بعض لوگ اشکال کرتے ہیں کہ کیوں امام حسین (ع) نے زندگی کو خطرے میں ڈال دیا اور حکومت کے ساتھ صلح نہیں کی؟
مگر چین کی زندگی کیاہے؟ راحت کی زندگی الٰہی رہبروں کے نزدیک یہ ہے کہ معاشرہ چین سے زندگی گذارے۔ لوگ اپنی زندگی پر راضی ہوں۔ آزادی ہو ظلم وستم نہ ہو۔ قومی اور طبقاتی تعصب نہ پایا جاتا ہو۔
امام حسین (ع) اس وقت آرام کی زندگی گذار سکتے ہیں کہ لوگوں کے حقوق پامال نہ ہوں اور لوگ اپنے مذہب پر آزادی سے عمل پیرا ہو سکیں نہ یہ کہ لوگوں کے حقوق کو پامال کیا جائے اور وہ تنگ ماحول میں زندگی گذار رہے ہوں ایسا ہر گز نہیں ہونا چاہیے کہ ایک گروہ دوسروں کے حقوق مار کر شان و شوکت کی زندگی جی رہا ہو اور خوشیوں سے مزے اڑا رہا ہو اور دوسرا گروہ ایک لقمہ نان کے لیے ترس رہا ہو۔
حسین (ع) اس کا بیٹا ہے جسے ہمیشہ بے کسوں اور بے بسوں کی فکر لاحق رہتی تھی۔ اور محروم اور مظلوم لوگوں کوظالموں اور ستمگروں سے نجات دلانے میں کوشاں رہتا تھا۔ راتوں کو اناج اپنے کاندھوں پر حمل کرتا تھا اور فقراء کے گھروں تک پہنچاتا تھا اور کبھی بھی ایک ساتھ دوقسم کی غذا تناول نہیں کی۔اور فرماتے تھے: میں کیسے نیا لباس پہنوں اور پیٹ بھر کے کھانا کھاؤں حالانکہ ممکن ہے اسلامی ممالک میں کوئی بھوکا اور برہنہ ہو۔
امام حسین (ع) اور آزادی
حریت اور آزادی ہر نظام کی بقاء کے لیے ایک بنیادی اصل اور اساسی رکن ہے۔ آزادی پیغمبروں کے اہداف میں سے ایک اہم ہدف تھا۔ وہ آئے تاکہ بشریت کو آزادی دلائیں۔ انسانی سماج کو سپر پاور اور ڈکٹیٹر شپ سے نجات دلائیں۔ آزادی ایسی چیز ہے جسے دنیا کا ہر انسان چاہتا ہے حتیٰ حیوانات اور دیگر موجودات بھی آزادی کو دوست رکھتے ہیں۔
امام حسین (ع) دنیائے اسلام پر ایک گہری نگاہ ڈالتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ بنی امیہ کے اقتدار سنبھالنے اور دین اسلام کو کھلواڑ بنانے سے اسلام کا نام ونشان بھی مٹ رہا ہے۔ اسلامی احکام اور قوانین انحراف کا شکار ہو گئے ہیں شیعہ جو اسلام کے واقعی ماننے والے تھے محرومیت کی زندگی گذار رہے ہیں۔
اس حالت کودیکھ کر فرزند علی (ع) جگر گوشہ بتول (س) اپنے آپ کو اجازت نہیں دیتا کہ خاموشی سے بیٹھ جائے اور تماشہ دیکھتا رہے۔ وہ علی (ع) کا لال ہے اسے میدان میں نکلنا پڑے گا اور طاغوت اور یزدیت کو صفحہ ہستی سے نابود کرنا پڑے گا۔
آپ بار بار یہ کہتے ہوئے جارے رہے تھے: اذا بلیت الامۃ علی مثل یزید بن معاویہ فعلی الاسلام السلام۔ یعنی جب بھی امت اسلامی یزید جیسے ملعون کے ہاتھوں گرفتار ہو گی تو اس وقت اس اسلام پر فاتحہ پڑھنی پڑے گی۔ لہذا امام حسین (ع) نے امت اسلام کی آزادی کی خاطرقیام کر کے ایک عظیم انقلاب رونما کر دیا۔

دوسری فصل
امام حسین علیہ السلام کے فضائل
امام حسین (ع) کی زیارت کا ثواب
شیخ صدوق نے کتاب " امالی" میں عبد اللہ بن فضل سے روایت کی ہے ان کا کہنا ہے : میں امام صادق (ع) کے پاس تھا کہ ایک طوس کا رہنے والا آدمی گھر میں داخل ہوا اور امام سے سوال کیا : اے فرزند رسول! جو شخص امام حسین (ع) کی قبر کی زیارت کرے اسے کیا ثواب ملے گا؟۔
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
اے طوس کے رہنے والے! جو شخص امام حسین (ع) کی قبر کی زیارت کرے گا اس معرفت کے ساتھ کہ امام واجب الاطاعت ہیں یعنی خدا وند عالم نے تمام انسانوں پر واجب کیا ہے کہ ان کی اطاعت کریں ، خدا اس کے گذشتہ اور آئندہ کے تمام گناہوں کومعاف کر دے گا۔ اس کی شفاعت کو ستر(۷۰) گناہگاروں کے حق میں قبول کرے گا اور امام حسین (ع) کی قبر کے پاس انسان جو حاجت بھی طلب کرے گا خدا اسے بھر لائے گا۔(امالي صدق، ص 684، ح 11، مجلس 86).
امام حسین علیہ السلام کی عفو و گذشت
بعض اخلاقی کتابوں میں وارد ہوا ہے کہ عصام بن مصطلق نے کہا: میں مدینہ میں داخل ہوا امام حسین (ع) کو دیکھا کہ عجیب طرح کی چہرہ پہ نورانیت اور ہیبت تھی۔ میں حسد سے جل گیا اور ان کے باپ کی نسبت جو میرے سینے میں بغض و کنہ تھا ابھر آیا میں نے ان سے کہا: پس ابوترابی آپ ہی ہیں؟ انہوں نے کہا : ہاں ۔ جب انہوں نے جواب میں ہاں کہا، میں نے جوکچھ میری زبان پر آیا انہیں اورا ن کے باپ کو کہااور گالیاں دی۔امام حسین (ع) نے ایک محبت بھری نگاہ سے میری طرف دیکھا اور فرمایا:
" آعوذ باللہ من الشیطن الرجیم، بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ عفو اور بخشش کو اپنا پیشہ بنا لو اور نیکی اور صبر کی تلقین کرو، اور جاہل لوگوں سے منہ موڑ لو۔ اور جب شیطان تمہیں وسوسہ میں ڈالنا چاہے تو خدا کی پنا لو بتحقیق وہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔ صاحبان تقویٰ جب شیطانی وسوسوں اور توہمات میں گرفتار ہوتے ہیں خدا کو یاد کرتے ہیں اور فورا آپے سے باہر آتے ہیں اور باخبر ہو جاتے ہیں لیکن شیاطین اپنے بھائیوں کو ضلالت اور گمراہی کی طرف کھینچتے ہیں اور اس کے بعد انہیں گمراہ کرنے میں کوئی دریغ نہیں کرتے۔( سورہ اعراف، ۱۹۹،۲۰۲ )
ان آیات کی تلاوت کے بعد مجھے فرمایا:
تھوڑا دھیرے اور حواس میں رہو، میں اپنے لیے اور تمہارے لیے خدا سے مغفرت طلب کرتا ہوں۔ اگر تمہیں مدد کی ضرورت ہے تو تمہاری مدد کرتا ہوں اور اگر کسی چیز کی ضرورت ہے تو عطا کرتا ہوں اور اگر راستہ بھول گئے ہو رہنمائی کی ضرورت ہے تو رہنمائی کرتاہوں ۔
عصام کہتا ہے: میں اپنے کئے پہ پشیمان ہوا اور امام نے جب میرے چہرے پہ شرمندگی کے آثار دیکھے تو فرمایا:
کوئی اشکال اور ملامت آپ پر نہیں ہے خدا آپ کو معاف کر دے گا۔ وہ سب سے زیادہ مہربان ہے۔( سورہ یوسف ۹۲)
اس کے بعد فرمایا: کیا تم شام کے رہنے والے ہو؟ عرض کیا: جی ہاں
اس کے بعد امام حسین (ع) نے فرمایا: حیانا اللہ و ایاک۔ یعنی خدا ہمیں اور آپ کو زندہ رکھے۔ اور اسکے بعد فرمایا: شرم مت کرو جو تمہیں چاہیے ہے مجھ سے مانگو۔ اور اگر ہم سے کچھ طلب کیا ہمیں اپنے گمان سے بھی زیادہ عطا کرنے میں بڑا پاؤ گے۔
عصام کہتا ہے : زمین مجھ پر تنگ ہو گئی میں سوچ رہا تھا زمین پھٹے اور میں دفن ہو جاؤں اس لیے کہ شرم سے پانی پانی ہو رہا تھا۔ دھیرے دھیرے امام سے دور ہوتا ہوا دور ہو گیا، لیکن اس کے بعد روۓ زمین پر امام حسین (ع) اور ان کے باپ سے زیادہ میرے نزدیک کوئی محبوب نہیں تھا ۔(سفينة البحار، ج 2، ص 116)
ایک سائل کے ساتھ امام کی رفتار
شیخ ابو محمد حسن بن علی بن شعبہ صاحب کتاب " تحف العقول" نقل کرتے ہیں :
انصار کا ایک آدمی امام حسین (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سےاپنی حاجت طلب کرنا چاہتا تھا، امام نے اس سے فرمایا:
اے بھائی ، اپنی عزت کا خیال رکھو، اپنی حاجت کو ایک کاغذ پہ لکھو اور مجھے دو انشا ء اللہ تمہیں راضی کروں گا۔
اس آدمی نے لکھا: میں فلاں شخص کےپانچ سو دینار کا مقروض ہوں اوروہ اس کے واپس لینے میں اصرار کر رہا ہے۔ آپ سے تقاضا کر رہا ہوں کہ اس سے کہیں کہ مجھے اتنی مہلت دے جب تک میں آمادہ کرتا۔
جب امام حسین (ع)نے اس کے نوشہ کو پڑھا فورا گھر تشریف لے گئے اور اس تھیلی کو جس میں ہزار دینار تھے لا کے اسے دیا اور فرمایا:
پانچ سو دینار سے اپنا قرض ادا کرو اور پانچ سو کو اپنے پاس محفوظ رکھو تاکہ مشکلات میں تمہاری مدد ہو سکے۔ اور یاد رکھو اپنی حاجت کو ان تین آدمیوں کے علاوہ کسی سے طلب نہ کرنا جن کو میں پہچنوا رہا ہوں:
۱: متدین اور دیندار، ۲: سخی اور اہل کرامت، ۳: وہ شخص جو شریف خاندان سے تعلق رکھتا ہو۔( تحف العقول ، ص 245)
امام حسین (ع)کا تواضع اور انکساری
روایت میں ہے کہ عاشورا کے دن امام علیہ السلام کے پشت مبارک پر کچھ اثرات رونما تھے۔ امام زین العابدین (ع) سے ان کی وجہ معلوم کی گئی۔ آپ نے فرمایا: هذا مما كان ينقل الجراب علي ظهره إلي مناز الأرامل و اليتامي و المساكين یہ اثرات اس بوجھ کے ہیں جو آپ اپنی پشت پر اٹھا کر بیواؤں ، یتیموں اور بیکسوں کے گھروں میں پہنچاتے تھے۔( مناقب ابن شهر آشوب، ج4، ص 66).
امام حسین (ع) کا احسان
انس کہتے ہیں: میں امام حسین (ع) کی خدمت میں تھا ایک کنیز داخل ہوئی اور پھولوں کا دستہ امام کو ہدیہ دیا۔ امام نے فرمایا:
تم راہ خدا میں آزاد ہو۔
عرض کیا: اس نے آپ کے لئے پھولوں کا ایک دستہ لایا کہ جس کی اتنی قیمت نہیں ہے کہ آپ اس کو آزاد کر دیں۔ امام نے فرمایا:
خدا نے اسی طرح کا ہمیں ادب سیکھایا ہے۔ اور قرآن میں فرمایا: و إذا حُييتُم بِتَحِية فَحَيوا بِأَحسَن مِنها أو رُدُّوها." ( نساء/86 جب تمہیں کوئی سلام کرے یا تمہارے ساتھ احسان کرے تم یا تو اس کا ویسا ہی جواب لوٹا دو یا اس سے بہتر جواب دو۔ اور اس کے احسان سے بہتر اس کو آزاد کرنا ہی ہے۔(كشف الغمة، ج 2، ص 31.)

تیسری فصل
عاشورا کی تعلیمات
کربلا ایک ایسی عظیم درسگاہ ہے جس نے بشریت کو زندگی کے ہر گوشہ میں درس انسانیت دیا ہے اور ہر صاحب فکر کو اپنی عظمت کے سامنے جھکنے پر مجبور کردیا ہے۔ روز عاشورا کی تعلیمات ہر انسان کے لیے ابدی زندگی کا سرمایا ہیں کہ جن میں سے چند ایک کی طرف ذیل میں اشارہ کیا جاتا ہے:
۱: حریت اور آزادی
تحریک کربلاکا سب سے اہم درس آزادی ، حریت اور ظلم و استبداد کے آگے نہ جھکنا ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: موت فی عز خیر من حیاۃ فی ذل۔ عزت کی موت ذلت کی زندگی سے بہتر ہے۔ اور ظالم کی بیعت قبول نہ کرتے ہوئے فرمایا: لا و اللہ ، لا اعطیھم یدی اعطاہ الذلیل و لا اقر اقرار العبید۔خدا کی قسم، اپنا ہاتھ ذلت کے ہاتھوں میں نہیں دوں گا اور غلاموں کی طرح تمہارے آگے نہیں جھکوں گا۔
اسی طریقے سے کربلا میں جب آپ کو جنگ اور بیعت کے درمیان مقید کر دیا تو آپ نے فرمایا: الا و انّ الدعی بن الدعی قد رکزنی بین اثنین ،بین السلۃ و الذ لۃ، ھیھات منا الذلۃ۔۔۔ ناپاک کے بیٹے ناپاک نے مجھے دوچیزوں کے درمیان ،شمشیر اور ذلت کے درمیان مخیر قرار دیا ہے تو یاد رکھنا ذلت ہم سے کوسوں دور ہے۔
نہضت عاشورا نے تمام مظلومان عالم کو مقاومت اور ظالموں کا مقابلہ کرنے والوں کو ثابت قدمی کا درس دیا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کے مصلح اعظم جناب گاندھی جی یہ تاریخی جملہ کہنے پر مجبور ہو گئے: میں ہندوستان کے لوگوں کے لیے کوئی نئی چیز نہیں لے کر آیا۔ میں صرف اس نتیجہ کو جومیں نے کربلا کے بہادروں کی زندگی کا مطالعہ کرنے کے بعد اخذ کیا ہے تمہارے لیے تحفہ کے طور پر لایا ہوں ۔ اگر تم لوگ ہندوستان کو ظلم سے نجات دلاتا چاہتے ہوتو حسین بن علی علیہ السلام کی سیرت پر عمل کر پڑے گا۔
۲: امر بالمعروف اور نہی عن المنکر
تاریخ عاشورا میں یزید کی حکومت سب سے بڑا منکر اور برائی ہے اور حق و صداقت کو حاکم بنانے کے لیے اور ظلم کی بیخ کنی کرنے کے لیے جنگ کرنا سب سے بڑا معروف اور نیکی ہے۔ لہٰذا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر واقعہ کربلا کا سب سے اہم فلسفہ ہے۔ حضرت سید الشہداء (ع) اپنے وصیت نامہ میں جو اپنے بھائی محمد حنفیہ کو لکھتے ہیں یہ بیان کرتے ہیں: «اِنّى ما خَرَجتُ اَشراً و لا بَطراً و لا مُفسداً و لا ظالماً، اِنّما خرجتُ لِطلَبِ الاِصلاح فى اُمَّهِ جدّى، اُريدُ اَن آمُرَ بالمعروفِ و اَنهى عن المنكر و اُسير بسيرهِ جدّى و اَبى علىّ بن اَبيطالب‏»؛میں سرکشی اور مقام طلبی کی خاطر یا ظلم و فساد پھیلانے کی خاطر نہیں چلا ہوں بلکہ میرا مقصد صرف نانا کی امت کی اصلاح کرنا، اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا اور بابا کی سیرت پر عمل پیرا ہونا ہے۔
امام(ع) کے یہ کلمات امام(ع) کی تحریک میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کےضروری ہونے کو روز روشن کی طرح واضح کرتے ہیں۔ امام کے زیارت نامہ میں بھی یہ موضوع بیان ہوا ہے: اشھد انک قد اقمت الصلاۃ و آتیت الزکاۃ و امرت بالمعروف و نہیت عن المنکر و جاھدت فی سبیل اللہ حتی اتاک الیقین۔
زیارت کے یہ کلمات اس فریضہ الہی کی گہرائی کو میدان جہاد میں جلوہ نما کرتے ہیں ۔ امام حسین (ع) نے عصر عاشورا اس فریضہ الہی پر عمل کر کے یہ پیغام دیا ہے کہ انسانی سماج قائم کرنے کے لیے امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکرنا ،واجبات کی تلقین اور محرمات سے روکنا، حتی عدل و انصاف کی خاطر قیام کرنا اور ظلم و استبداد کو سرنگوں کرنا کرہ ارض کے ہر خطہ میں بسنے والے ہر انسان پر ضروری ہے ۔سید الشہداء امام حسین علیہ السلام نے یزید کی بیعت کا انکار کر کے ولید اور مروان کو منہ توڑ جواب دے دیا اور اس کے بعد نانا رسول خدا(ص) کی قبر پر تشریف لے گئے۔ نانا سے مناجات کرنا شروع کیا۔ اور اپنی مناجات میں معرو ف اور نیکی سے محبت کا اظہار کیا۔ اور خدا سے اس سلسلے میں طلب خیر کرتے ہوئے فرمایا: خدایا میں نیکیوں کو دوست رکھتا ہوں اور منکرات سے متنفر ہوں اے خداۓ عز و جل میں تجھے اس قبر اور صاحب قبر کا واسطہ دیتا ہوں کہ میرے لیے اس راستہ کا انتخاب کر جس میں تیری رضا ہو۔
۳: وفاداری
وفاۓ عہد، ایمان کی نشانی ہے۔ روایت میں ہے: من دلائل الایمان ، الوفاء بالعھد۔ ایمان کی ایک نشانی وعدہ کا وفا کرنا ہے۔
جب ہم واقعہ عاشورا کی طرف دیکھتے ہیں ایک طرف وفاداری کے مجسم پیکر نظر آتے ہیں اوردوسری طرف بے وفائی اور عہد شکنی کے بت۔
کوفیوں کا ایک اہم نکتہ ضعف یہی بے وفائی تھی۔چاہے وہ مسلم بن عقیل کے ساتھ بیعت میں بے وفائی ہو چاہے وہ امام حسین (ع) کی طرف خط لکھنے اور دعدہ نصرت کرنے کو بعد بے وفائی ہو۔ اور یہ نہ صرف بے وفائی کا ثبوت دیتے ہوئے امام کی مدد نہیں کی بلکہ برعکس دشمنوں کی صفوں میں آکر امام کے ساتھ معرکہ آرا ہو گئے۔ امام نے جو جناب حر کے ساتھ گفتگو کی اس میں بیان کیا: اگر تم نے میرے ساتھ وعدہ کو وفا نہیں کیا اور عہد شکنی کی، یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہے اس لیے کہ تم لوگوں نے میرے باپ علی (ع)، میرے بھائی حسن(ع) اور میرے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل کے ساتھ بھی یہی کیا ہے۔
ایک طرف بے وفائی کی انتہاء تھی اور دوسری طرف امام حسین (ع) وفاداری کا مجسم نمونہ اور نہ صرف امام حسین (ع) بلکہ ان کے بہتر(۷۲) جانثار بھی وفاداری کی آخری منزل پر فائز ہیں۔ جب شب عاشور کو امام حسین (ع) ان کے ایک ایک کے قتل ہو جانے کی خبر دے رہے ہیں نہ صرف انہوں نے سر نہیں جھکائے بلکہ حیرت کن جملات پیش کر کے امام کے قدموں میں اپنی جانیں قربان کرنے کی آمادگی کا اظہار کیا حالا نکہ امام (ع) نے اپنی بیعت کو ان کے کاندھوں سے اٹھا لیا تھا۔ آخر کار امام کو یہ کہنا پڑا: میں اپنے اصحاب سے زیادہ وفادار اصحاب کو نہیں جانتا۔
حضرت ابوالفضل العباس اور ان کے بھائیوں کو دشمن نے امان دی لیکن انہوں نے ان کی امان کو قبول نہیں کیا اور ایسا کردار پیش کیا کہ وفاداری کی مثال بن گئے۔ تاریخ بشریت میں عباس جیسا باوفا انسان نظر نہیں آ سکتا۔ وہ عباس کہ جس کا دوسرا نام ہی وفا ہو گیا ہو۔ جناب عباس کے زیارت نامہ میں وارد ہوا ہے: «أشهدُ لکَ بِالتسليمِ و التّصديقِ و الوفاءِ و النَّصيحهِ لِخَلَفِ النّبيِّ»؛ یہ گواہی ہے عباس کی بھائی کے سامنے اطاعت ،تسلیم، تصدیق اور وفاداری پر۔
عاشورا کے پیغامات میں سے ایک پیغام ، پیغام وفا ہے جو کبھی بھی دنیا کے وفا دار اور وفا دوست افراد کے ذہنوں سے محو نہیں ہو سکتا۔
۴: رضا اور تسلیم
عرفان کے بلند ترین مراتب میں سے ایک مرتبہ رضا کا ہے۔ رضا ، خدا کی نسبت انتہائی محبت اور عشق کی علامت بھی ہے اور کمال اخلاص اور استحکام ارادہ و عمل کی دلیل بھی ہے۔
اہلبیت علیھم السلام نے بر بنائے رضا ہر بلا اور مصیبت کو خندہ پیشانی سے تحمل کر لیا اور اگر ایسا نہ ہوتا تو ہر گز شجرۂ دین استوار اور پر ثمر نہ ہو پاتا۔
واقعہ کربلا رضا اور تسلیم کا کامل نمونہ ہے۔ امام حسین (ع) کوفہ کے راستے میں فرزدق سے ملاقات کرنے کےبعد فرماتے ہیں: میں قضاۓ الٰہی کو دوست رکھتا ہوں خدا کا اس کی نعمات پر شکریہ ادا کرتا ہوں اور اگر قضائے الٰہی نے ہمارے درمیان اور ہماری امید کے درمیان فاصلہ ڈال دیا تب بھی ہم رضائے الٰہی کو مقدم رکھیں گے۔
اسی طریقے سے امام اپنے ان اشعار میں جو اس سفر کے دوران رنج و مصائب کی بنا پر ان کی زبان پر جاری ہوئے فرماتے ہیں: رضا اللہ رضان اھل البیت۔ یعنی جو اللہ کی رضا ہے وہی اہم اہلبیت کی رضا ہے۔
آپ نے زندگی کے آخری لمحوں میں پیشانی کو تپتی ہوئی ریت پر رکھ کر قضائے الٰہی پر رضا اور تسلیم کا ثبوت دیتے ہوئے فرمایا: «إلهي رضاً بِقضائکَ تَسليماً لِأمرِکَ لا معبودَ سِواک يا غياثَ المُستغيثينَ ۔
البتہ یہ یاد رہے کہ صبر و رضا کا دعویٰ کر لینا تو بہت آسان ہے اپنے آپ کو صابر اور تسلیم حق کہہ دینا تو بہت آسان ہے لیکن حسین بن علی (ع) کی طرح ثبوت پیش کرنا اور تسلیم و رضا کے درجۂ کمال کو پا لینا صرف حسین (ع) کا کام ہے۔
۵: اخلاص
اخلاص مکتب عاشورا کا ایک آشکارجلوہ اور گراں قیمت گوہر ہے۔
تحریک عاشورا کی بقا کاایک اہم ترین راز یہ گوہر اخلاص ہے اور خدا نے وعدہ کیا ہے کہ مخلصین کے عمل کو ضائع نہیں کرے گا۔ اور انہیں دنیا اور آخرت میں اجر کامل عطا کرے گا۔
تاریخ بشری اور تاریخ اسلام میں جنگ اور جہاد کے بہت سے واقعات پائے جاتے ہیں۔ لیکن ان میں سے بعض واقعات تاریخ کے صفحوں میں جاویدانی زندگی اختیار کر لیتے ہیں اور دنیا کی کوئی طاقت انہیں مٹا نہیں سکتی یہ وہ واقعات ہیں جو اخلاص اور للٰہیت کے سمندر میں غوطہ ور ہوں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں قرآن کریم صبغۃ اللہ یعنی رنگ خدائی سے یاد کرتاہے۔ واقعہ عاشورا اس لازوال رنگ الٰہی میں رنگین ہے۔
امام حسین علیہ السلام نے اپنی ان تقاریر میں جو انہوں نے مدینہ سے نکلنے سے پہلے فرائیں، ہرطرح کی دنیا طلبی اور حکومت خواہی کو محکوم کیا اور اپنے سفر کے خالص ارادہ کو کہ جو وہی دین اور سماج کی اصلاح ہے بیان کیا: خدایا تو جانتا ہے کہ جو کچھ میں انجام دے رہا ہوں ہر گز دنیوی حکومت اور دنیوی مال ومنال کے لیے نہیں ہے۔ بلکہ میں چاہتا ہوں کہ دین اسلام کی تعلیمات سے باخبر کروں اور خدا کی نشانیوں کو دکھلاؤں اورسماج کی اصلاح کروں تاکہ مظلوم امن و آمان سے رہیں اور تیرا حکم اور تیری سنت اجرا ہو۔
یہی الٰہی تصمیم تھا کہ جس کی وجہ سے کوئی چیز امام اور ان کے اصحاب کو اس مقصد سے روک نہ سکا۔ اس خالصانہ نہضت اور تحریک میں جو ناخالص افراد تھے دھیرے دھیرے راہ کربلا میں امام سے جدا ہو گئے۔ یہاں تک کہ عاشورا میں وہی افراد باقی تھے جو مجسمہ اخلاص تھے۔ خلوص ایسی چیز ہے جسے صرف خدا ہی پرکھ سکتا ہے۔ اور خدا کا خالص بندہ صرف خدا کے بارے میں سوچتا ہے اور اپنی جان کو اس کی راہ میں نچھاور کرنے کو آسان اور معمولی بات سمجھتا ہے۔
درس عاشورا یہ ہے کہ ہم اپنے ہر کام میں مقصد اور ہدف کو خالص کریں۔ اور یہ جان لیں کہ خدا کی بارگاہ میں وہی عملی جاودانہ ہے جو رنگ خدائی رکھتاہو اور یہی راز ہے تاریخ بشریت میں کربلا کی بقا کا۔ اس طریقے سے کہ زمانے کے گذرنے کے ساتھ ساتھ اس میں نہ صرف کوئی کمی واقع نہیں ہو پا رہی ہے بلکہ دن بدن اس نہضت اور تحریک کے دامن وسعت میں اضافہ ہی ہورہا ہے۔
۶: ادب، نجات کا عامل
انسان کی نجات اور عاقبت کے بخیر ہونے کا ایک سبب، ادب ہے روایات میں ہے کہ سب سے بہترین چیز جسے اولاد کو اپنے والدین سے ارث میں لینا چاہیے، ادب ہے۔
تحریک عاشورا میں ادب کے بے نظیر نمونہ پائے جاتے ہیں۔
مثال کے طور پر جب حر کے لشکر کو حکم ملا کہ امام حسین (ع) پر راستہ بند کر دیا جائے امام نے حر کی طرف رخ کیا اور فرمایا: ثکلتک امک ما ترید؟یعنی تمہاری ماں تمہارے غم میں بیٹھے ، تو مجھ سے کیا چاہتا ہے؟۔ حر نے جواب میں کہا : اگر آپ کی ماں دختر پیغمبر (ع)کے علاوہ کوئی اور ہوتی تو میں بھی ایسا ہی جواب دیتا۔ لیکن کیا کروں کہ آپ کی ماں فاطمہ زہراء (ع) ہیں۔
یہ ادب و احترام کہ جو جناب حر نے حضرت زہرا (س) کے مقابلے میں کیا ان کی نجات کا ایک سبب بن گیا۔
اسی طریقے سے حضرت ابوالفضل العباس کا بے مثال ادب و احترام امام حسین (ع) کے سلسلے میں اپنی مثال آپ ہے۔ روز عاشورا تک نہیں ملتا ہے کہ حضرت عباس نے امام حسین (ع) کو بھائی کہہ کے آواز دی ہو۔ ہمیشہ امام کو مولا کہہ کے مخاطب کرتے تھے۔ صرف اس وقت امام کو بھائی کہہ کے بلایا جب اپنے دونوں ہاتھوں کو کھو چکے تھے۔ آنکھ میں تیر پیوست تھا اور سر گرز کے وجہ سے شگافتہ ہو چکا تھا۔ جب زین فرس سے زمین پر آ رہے تھے فرمایا:یا اخاک ادرک اخاک۔ اے بھیا، اپنے بھائی کی خبر لیجئے۔
ایک سبب جو تاریخ شہداء میں حضرت عباس کے مقام کو بلند کرتا ہے یہی بے مثال ادب و احترام ہےجو انہوں اپنے زمانے کے امام کے سامنے دکھلایا ہے۔
۷: حجاب اور عفت
عورت کی کرامت اور بزرگی اس کی عفت اور پاکدامنی میں نہفتہ ہے۔ اور حجاب ، عورت کی عفت اور پاکدامنی کو محفوظ رکھنے اور سماج کو اخلاقی برائیوں سے بچانے کا بہترین ذریعہ ہے۔ امام حسین (ع) ، حضرت زینب (س) اور آپ کے خاندان پاک نے کربلا کی تحریک میں اپنے عمل اور اپنی زبان سے حجاب کی رعایت پر بے انتہا تاکید کی۔
شب عاشور کو امام (ع) نے اپنے اہلبیت کے ساتھ گفتگو میں انہیں حجاب اور عفت کی وصیت کی۔
روز عاشورا جب امام حسین (ع) نے بچیوں کے رونے کی بلند آواز سنی جناب عباس اور جناب علی اکبر کو بھیجا تاکہ انہیں صبر و تحمل کی تاکید کریں۔
بعض لوگوں کے گمان کے برخلاف، حضرت زینب روز عاشورا کو بہت کم خیمہ سے باہر نکلیں تاکہ نامحرموں نگاہ ان کے بدن کے حجم پر نہ پڑے۔
منجملہ، جب امام حسین (ع) جناب علی اکبر کے سرہانے پہنچے تو جناب زینب کو یہ لگا کہ کبھی امام اس مصیبت کو تحمل نہ کر پائیں اور اپنی جان دے دیں، لہٰذا خیمہ سے نکل کر بھائی کو سہارا دینے پہنچیں۔
امام سجاد (ع) کربلا کے اسیروں کے کافلہ میں مخدرات عصمت و طہارت کی عفت و حجاب کے محافظ تھے۔ اور کوفہ میں ابن زیاد سے کہا: اگر تمہاے اندر کوئی خوف خدا باقی رہ گیا ہے تو کسی نیک پاکدامن مسلمان کو ان خواتین کے ساتھ مدینہ بھیجو۔
اسی طریقہ سے جب عمر سعد کا اس کاروان کے پاس سے گذر ہوتا تھا تو اہل حرم فریاد بلند کرتے تھے اور اپنی لٹی ہوئی چادریں اس سے طلب کرتے تھے تاکہ ان کے ذریعے اپنے حجاب کے حفاظت کر سکیں۔
یہ تاریخ عاشورا میں عفت اور پاکدامنی کے چند نمونہ تھے لیکن افسوس سے جب ہم اپنے سماج کی طرف نگاہ کرتے ہیں تو جو حجاب اور پردہ ہمیں اپنی خواتین میں نظر آتا ہے وہ کربلا کی خواتین سے کوسوں دور ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو درس ہمیں کربلا کی انسانیت ساز تاریخ سے لینا چاہیے اور ان کے ذریعے اپنی زندگی کو سعادتمند بنانا چاہیے نہیں لے پا رہے ہیں۔
امام حسین(ع) کے قیام کا مقصد صحیح زندگی کی روش اور ڈھگر دکھلانا ہے اور اگر یہ روش اور طریقہ میدان عمل میں نظر نہ آئے تو کل قیامت کے دن امام حسین (ع) کو کیا جواب دیں گے۔ ذراغور و فکر کیجئے۔
چوتھی فصل
زیارت عاشورا کی فضیلت
صرف تین روایتں زیارت عاشورا کی فضیلت کے سلسلے میں حضرت ابا عبد اللہ الحسین (ع) کے عزاداروں اور چاہنے والوں کی خدمت تقدیم کرتے ہیں:
روایت اول
شیخ طوسی کتاب مصباح المجتہد میں محمد بن اسماعیل بن بزیع سے اور وہ صالح بن عقبہ سے اور وہ اپنے باپ سے اور وہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت نقل کرتے ہیں کہ آُ پ نے فرمایا: جو شخص حسین بن علی (ع) کی عاشورا کے دن زیارت کرے اور ان کی قبر پر بیٹھ کر گریہ کرے قیامت کے دن خدا وند عالم اس کو دو ہزار حج ، دو ہزار عمرہ اور دو ہزار جہاد کا ثواب دے گا۔ اور وہ بھی وہ حج،عمرہ اور جہاد جو رسول اکرم(ص) اور آئمہ طاہرین (ع)کے رکاب میں انجام دئے ہوں۔
راوی کہتا ہے : میں نے عرض کیا میری جان آپ پر فدا ہو وہ آدمی جو کسی دوسرے شہر یا ملک میں رہتا ہے اور اس دن آپ(ع) کی قبر تک نہیں پہنچ سکتا وہ کیا کرے؟
امام نے جواب میں فرمایا: اگر ایسا ہو تو صحراء یا اپنے گھر کی چھت پر جائے اور امام حسین (ع) کی قبر کی طرف اشارہ کر کے سلام کرے اور ان کے قاتلوں پر لعنت کرے اس کے بعد دو رکعت نماز پڑھے اور اس عمل کو ظہر سے پہلے انجام دے اور ان کی مصیبت میں گریہ و زاری کرے اور اگر کسی کا ڈر نہ ہوتو اپنے خاندان والوں کو بھی ان پر رونے کا حکم دے اور اپنے گھر میں مجلس عزا برپا کرے اور سید الشہدا (ع) کو یاد کر کے ایک دوسرے کو تعزیت دیں، میں ضمانت دیتا ہوں جو شخص اس عمل کو انجام دے گا خدا یہ تمام ثواب اسے بھی عطا کرے گا ( اس شخص کی طرح جو امام کی قبر پر حاضر ہو کر زیارت کرتا ہے)۔
راوی نے عرض کیا کیسے ایک دوسرے کو تعزیت کہیں؟
فرمایا: «أعظم الله أجورنا بمصابنا بالحسين عليه‌السلام و جعلنا و إيّاكم من الطالبين بثاره مع وليه الإمام المهدى من آل محمد عليهم السلام»؛
یعنی خدا امام حسین کی عزاداری میں ہمارے اجر میں اضافہ کرے۔ اور ہمیں اور آپ کو انکے خون کا انتقام لینے والوں میں سے امام مھدی (ع) کے ساتھ قرار دے۔
اس کے بعد فرمایا: اس دن کسی کام لیے اپنے گھر سے باہر مت جاؤ یہ دن نحس ہے اور اس دن کسی مومن کی حاجت پوری نہیں ہوتی اور اگر پوری ہو بھی تو اس میں برکت نہیں ہو گی۔
تم میں سے کوئی بھی اپنے گھر میں کچھ بھی ذخیرہ نہ کرے اگر ایسا کیا تو اس میں برکت نہیں ہو گی اگر کوئی اس دستور پر عمل پیرا ہو گا تو اسے ہزار حج، ہزار عمرہ اور ہزار جہاد کا اور وہ بھی رسول خدا (ص) کے ساتھ انجام دینے کا ثواب ملے گا اور ابتدائے خلقت سے اب تک جتنے راہ خدا میں نبی، رسول، اور انکے وصی شہید ہوئے ہیں کا ثواب اسے ملے گا۔
روایت دوم
صالح بن عقبہ اور سیف بن عمیرہ نقل کرتے ہیں کہ علقمہ بن محمد الخضرمی نے کہا: میں نے امام باقر علیہ السلام سے عرض کیا : ایک ایسی دعا مجھے تعلیم دیجۓ کہ اگر نزدیک سے میں کربلا والوں کی زیارت کروں تو اس کے بعد اس دعا کو پڑھوں اور اگر دور سے زیارت کروں تو اسے پڑھوں ۔
امام نے فرمایا: اے علقمہ جب تم زیارت پڑھنا چاہو تو دو رکعت نماز ادا کرو تکبیر کے بعد کربلا کی طرف اشارہ کر کے اس زیارت یعنی زیارت عاشورا کو پڑھو۔
پس اگر تم نے اس زیارت کو پڑھا اور دعا کی جسے ملائکہ بھی جو زائر حسین(ع) ہیں پڑھتے ہیں خدا وند عالم ایک لاکھ نیکیاں تمہارے حق میں لکھے گا اور تم اس شخص کی طرح ہو جو امام حسین (ع) کے ساتھ شہید ہوا ہو اور تمہارے لیے ہر پیغمبر، رسول، اور ہرزائر کا ثواب جس نے امام حسین کی زیارت کی، لکھا جائے گا۔
زیارت کو نقل کرنے کے بعد علقمہ کہتا ہے: امام باقر علیہ السلام نے مجھے کہا اگر ہر روز اس زیارت کو اپنے گھر میں ہی پڑھو گے تو یہ سارا ثواب تمہیں مل جائے گا۔
روایت سوم
شیخ (رہ) کتاب مصباح میں محمد بن خالد طیالسی سے اور وہ سیف بن عمیرہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ اس کے بعد کہ امام صادق (ع) حیرہ سے مدینہ تشریف لائے ہم صفوان بن مھران اور کچھ دوسرے اصحاب کے ساتھ نجف اشرف چلے گئے۔ امیر المومنین علی (ع) کی زیارت کرکے جب فارغ ہوئے صفوان نے اپنا رخ کربلا کی طرف کیا اور ہم سے کہا یہیں سے امام حسین کی زیارت کیجیے کہ میں امام صادق کے ساتھ تھا انہوں نے یہیں سے امام حسین (ع) کی زیارت کی۔
اس کے بعد زیارت عاشورا پڑھنا شروع کیا اور نماز زیارت ادا کرنے کے بعد دعاے علقمہ کہ جو زیارت عاشورا کے بعد پڑھی جاتی ہے کو پڑھا۔
سیف بن عمیرہ کہتے ہیں کہ میں نے صفوان سے کہا جب علقمہ بن محمد نے زیارت عاشورا کو ہمارے لیے نقل کیا اس دعا کو ہمیں نہیں بتایا۔
صفوان نے کہا امام صادق (ع) کے ساتھ ہم یہاں پر آئے جب آپ نے زیارت عاشورا کو پڑھا اس کے بعد دو رکعت نماز ادا کی اور اس کے بعد اس دعا کو بھی پڑھا۔
اس کے بعد امام صادق (ع) نے مجھ سے کہا اے صفوان اس زیارت اور اس دعا کو فراموش نہ کرنا۔ اس کو پڑھتے رہنا میں ضامن ہوں جو شخص اس زیارت اور دعا کو چاہے نزدیک سے چاہے دور سے پڑھے۔ اس کی زیارت قبول ہو گی اور اس کا سلام انہیں پہنچ جائے گا اس کی حاجت خدا کی طرف سے قبول ہوجائے گی۔ وہ جس مقام پر بھی پہنچنا چاہے گا اسے عطا کی جائے گا۔
اے صفوان! میں نے اس زیارت کو اسی ضمانت کے ساتھ اپنے والد سے لیا ہے اور بابا نے اپنے والد علی بن حسین (ع) اوراسی طریقہ سے امیر المومنین علی (ع) نے رسول خدا سے اور انہوں نے جبرئیل سے اور جبرئیل نے اس زیارت کو خدا وندعالم سے اسی ضمانت کے ساتھ لیا ہے۔ خدا وند عالم نے اپنی ذات کی قسم کھائی ہے کہ جو شخص حسین(ع) کی دور سے یا نزدیک سے زیارت کرے گا اور اس کے بعد یہ دعا پڑھے گا اس کی زیارت قبول کروں گا اور اس کی حاجت کو بھر لاؤں گا چاہے جو بھی ہو۔
وہ میرے پاس سے ناامید نہیں لوٹے گا بلکہ خوشی خوشی اپنی حاجت کے ساتھ جنت کی خوشخبری اور آتش جھنم سے رہائی کے ساتھ واپس جائے گا۔ اور اس کی شفاعت کو دشمن اہلبیت کے سوا ہر ایک کے حق میں قبول کروں گا۔
خدا نے قسم کھائی اور ہمیں گواہ رکھا جیسا کہ ملائکہ بھی گواہ تھے اور جبرئل نے کہا یا رسول اللہ خدا نے مجھے آپ کی طرف بھیجا ہے سلام اور بشارت دی ہے آپ کو علی، فاطمہ کو حسن اور حسین کو اور آپ کے خاندان کے تمام آئمہ کو۔
اس کے بعد صفوان نےکہا امام صادق (ع) نے مجھ سے فرمایا: جب بھی کوئی حاجت تمہیں پیش آئے جہاں بھی ہو اس زیارت کو پڑھو اور اپنی حاجت کو خدا سے چاہو وہ بھر لائے گا خدا اور اس کا رسول وعدہ خلافی نہیں کرتے۔

بشکریہ http://www.fazellankarani.com/urdu/works/article/4376/

Add new comment