مولا علی(ع) کی محبت
حجاج: حرہ کیا تم حلیمہ سعدیہ کی بیٹی ہو؟
حرہ: یہ بے ایمان شخص کی ذہانت ہے (یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ میں حرہ ہوں مگر تونے بے ایمان ہوتے ہوئے مجھے پہچان کر اپنی ذہانت کا ثبوت دیا ہے)؟
حجاج: تجھے خدا نے یہاں لا کر میرے چنگل میں پھنسادیا ہے میں نے سنا ہے کہ تو علی کو ابوبکر و عمر و عثمان سے افضل سمجھتی ہے ؟
حرہ: تجھ سے اس سلسلہ میں جھوٹ کہا گیا ہے کیونکہ ان تینوں کی کیا بات میں حضرت علی علیہ السلام کو جناب آدم، جناب نوح، جناب ابراہیم، جناب موسیٰ، جناب عیسیٰ، جناب داوٴد، جناب سلیمان علیہم السلام سے افضل سمجھتی ہوں۔
حجاج: تیرا برا ہو، تو علی کو تمام صحابہ سے بر تر جانتی ہے اور اس کے ساتھ ہی انھیں آٹھ پیغمبروں سے جن میں سے بعض اولوالعزم بھی ہیں افضل وبرتر جانتی ہے اگر تونے اپنے اس دعویٰ کو دلیل سے ثابت نہ کیا تو میں تیری گردن اڑاد وں گا۔
حرہ: یہ میں نہیں کہتی کہ میں علی علیہ السلام کو ان پیغمبروں سے افضل و برتر جانتی ہوں بلکہ خداوند متعال نے خود انھیں ان تمام پر برتری عطا کی ہے قرآن مجید جناب آدم علیہ السلام کے بارے میں فرماتا ہے:
وَعَصیٰ آدمُ رَبَّہُ فَغَویٰ (1)
اور آدم اپنے رب کی نافرمانی کا نتیجہ میں اس کی جزا سے محروم ہو گئے ۔
لیکن خداوند متعال علی علیہ السلام، ان کی زوجہ اور ان کے بیٹوں کے بارے میں فرماتا ہے۔
وَکَانَ سَعْیُکُمْ مَشْکُورًا (2)
اور تمہاری سعی و کوشش مشکور ہے ۔
حجاج: شاباش لیکن یہ بتا کہ تونے حضرت علی علیہ السلام کو نوح و لوط علیہما السلام پر کس دلیل کے ذریعہ فضیلت دی ۔
حرہ: خداوند متعال انھیں ان لوگوں سے افضل و بر تر جانتا ہے جیسا کہ فرماتا ہے:
ضَرَبَ اللهُ مَثَلاً لِلَّذِینَ کَفَرُوا اِمْرَاٴَةَ نُوحٍ وَاِمْرَاٴَةَ لُوطٍ کَانَتَا تَحْتَ عَبْدَیْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَیْنِ فَخَانَتَاہُمَا فَلَمْ یُغْنِیَا عَنْہُمَا مِنْ اللهِ شَیْئًا وَقِیلَ ادْخُلاَالنَّارَ مَعَ الدَّاخِلِینَ (3)
خدانے کافر ہونے والے لوگوں کو نوح و لوط کی بیویوں کی مثالیں دی ہیں۔
یہدونوں ہمارے صالح بندوں کے تحت تھیں مگر ان دونوں نے ان کے ساتھ خیانت کی لہٰذا ان کا ان دونوں سے تعلق انھیں کوئی فائدہ نہ پہنچا سکا اور ان سے کہا گیا کہ جہنم میں جانے والوں کے ساتھ تم بھی چلی جاوٴ ۔
لیکن علی علیہ السلام کی زوجہ، پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم کی بیٹی جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا ہیں جن کی خوشنودی خدا کی خوشنودی ہے اور جن کی ناراضگی خدا کی ناراضگی ہے۔
حجاج: شاباش حرہ! لیکن یہ بتا تو کس دلیل کی بنا پر ابو الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام پر حضرت علی علیہ السلام کو فضیلت دیتی ہے؟
حرہ: خداوند متعال قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ جناب ابراہیم علیہ السلام نے عرض کیا:
رَبِّ اٴَرِنِی کَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتَی قَالَ اٴَوَلَمْ تُؤْمِنْ قَالَ بَلَی وَلَکِنْ لِیَطْمَئِن قَلْبِي (4)
ابراہیم نے کہا پالنے والے! تو مجھے یہ دکھا دے کہ تو کیسے مردوں کو زندہ کرتا ہے تو خدا نے کہا کیا تمہارا اس پر ایمان نہیں ہے تو انھوں نے کہا کیوں نہیں مگر میں اطمینان قلب چاہتا ہوں ۔
لیکن میرے مولا علی علیہ السلام اس حد تک یقین کے درجہ پر فائز تھے کہ آپ نے فرمایا:
لوکشف الغطا ء ماازددت یقینا ۔
اگر تمام پردے میرے سامنے سے ہٹا دئے جائیں تو بھی میرے یقین میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا۔
اور اس طرح نہ پہلے کسی نے کہا تھا اور نہ اب کوئی ایسا کہہ سکتا ہے ۔
حجاج: شاباش لیکن تو کس دلیل سے حضرت علی کو جناب موسیٰ کلیم اللہ پر فضیلت دیتے ہے؟ ۔
حرہ: خداوند عالم قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:
فَخَرَجَ مِنْہَا خَائِفًا یَتَرَقَّبُ (5)
وہ وہاں سے ڈرتے ہوئے (کسی بھی حادثہ کی) تو قع میں (مصر)سے باہر نکلے ۔
لیکن حضرت علی علیہ السلام کسی سے نہیں ڈرے، شب ہجرت رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کے بستر پر آرام سے سوئے اور خدا نے ان کی شان میں یہ آیت نازل فرمائی:
وَ مِنْ النَّاسِ مَنْ یَشْرِی نَفْسَہُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاةِ اللهِ (6)
اور لوگوں میں سے کچھ ایسے ہیں جو اپنے نفس کو اللہ کی رضا کے لئے بیچ دیتے ہیں ۔
حجاج: شاباش لیکن اب یہ بتا کہ داوٴد علیہ السلام پر علی کو کس دلیل سے فضیلت حاصل ہے ؟
حرہ: خداوند متعال جناب داوٴد علیہ السلام کے سلسلہ میں فرماتا ہے:
یَادَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاکَ خَلِیفَةً فِی الْاٴَرْضِ فَاحْکُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلاَتَتَّبِعْ الْہَوَی فَیُضِلَّکَ عَنْ سَبِیلِ اللهِ (7)
اے داوٴد! ہم نے تمہیں زمین پر خلیفہ بنا یا ہے لہٰذا تم لوگوں کے درمیان حق سے فیصلے کرو اور اپنی خواہشات کو پیروی نہ کرو کہ اس طرح تم راہ خدا سے بھٹک جاوٴ گے ۔
حجاج: جناب داوٴد کی قضاوت کس سلسلے میں تھی؟
حرہ: دو آدمیوں کے بارے میں کہ ان میں سے ایک بھیڑ وں کا مالک تھا اور دوسرا کسان، اس بھیڑ کے مالک کی بھیڑوں نے اس کے کھیت میں جاکر اس میں کھیتی چرلی، اور اس کی زراعت کو تباہ و برباد کردیا، یہ دونوں آدمی فیصلہ کے لئے حضرت داؤد علیہ السلام کے پاس آئے اور اپنی شکایت سنائی، حضرت داؤد نے فرمایا: بھیڑکے مالک کو اپنی تمام بھیڑوں کو بیچ کر اس کا پیسہ کسان کو دے دینا چاہئے تاکہ وہ ان پیسوں سے کھیتی کرے اور اس کا کھیت پہلے کی طرح ہو جائے لیکن جناب سلیمان نے اپنے والد سے کہا۔ آپ کو یہ فیصلہ کرنا چاہئے کہ بھیڑوں کا مالک کسان کو دودھ اور اون دےدے تاکہ اس کے ذریعہ اس کے نقصان کی تلافی ہوجائے ۔
اس سلسلہ میں خداوند عالم نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے: ففہمنا سلیمان (8)
ہم نے حکم (حقیقی) سلیمان کو سمجھا دیا ۔
لیکن حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
سلونی قبل ان تفقدونی ۔
مجھ سے سوال کرلو قبل اس کے کہ تم مجھے کھو دو ۔
جنگ خیبر کی فتح کے دن جب حضرت رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کی خدمت میں تشریف لے آئے تو آنحضرت نے لوگوں کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا:
اٴفضلکم و اٴعلمکم و اٴقضاکم علي ۔
تم میں سے افضل اور سب اچھا فیصلہ کرنے والے علی ہیں ۔
حجاج: شاباش لیکن اب یہ بتاوٴ کہ کس دلیل سے علی جناب سلیمان علیہ السلام سے افضل ہیں‘۔
حرہ: قرآن میں جنا ب سلیمان کا یہ قول نقل ہوا ہے:
رَبِّ اغْفِرْ لِی وَہَبْ لِی مُلْکاً لاَیَنْبَغِی لِاٴَحَدٍ مِنْ بَعْدِی (9)
پالنے والے! مجھے بخش دے اور مجھے ایسا ملک عطا کردے جو میرے بعد کسی کے لئے شائستہ نہ ہو ۔
لیکن میرے مولا علی علیہ السلام نے دنیا کو تین طلاق دی ہے جس کے بعد آیت نازل ہوئی:
تِلْکَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُہَا لِلَّذِینَ لاَیُرِیدُونَ عُلُوًّا فِی الْاٴَرْضِ وَلاَفَسَادًا وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِینَ (10)
وہ آخرت کا مقام ان لوگوں کے لئے ہم قرار دیتے ہیں جو زمین پر بلندی اور فساد کو دوست نہیں رکھتے اور عاقبت تو متقین کے لئے ہے ۔
حجاج: شاباش اے حرہ اب یہ بتا کہ تو کیوں حضرت علی کو جناب عیسیٰ علیہ السلام سے افضل و برتر جانتی ہے؟
حرہ: خداوند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا:
وَإِذْ قَالَ اللهُ یَاعِیسَی ابْنَ مَرْیَمَ اٴَاٴَنتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِی وَاٴُمِّی إِلَہَیْنِ مِنْ دُونِ اللهِ قَالَ سُبْحَانَکَ مَا یَکُونُ لِی اٴَنْ اٴَقُولَ مَا لَیْسَ لِی بِحَقٍّ إِنْ کُنتُ قُلْتُہُ فَقَدْ عَلِمْتَہُ تَعْلَمُ
مَا فِی نَفْسِی وَلاَاٴَعْلَمُ مَا فِی نَفْسِکَ إِنَّکَ اٴَنْتَ عَلاَّمُ الْغُیُوبِ ...
مَا قُلْتُ لَہُمْ إِلاَّ مَا اٴَمَرْتَنِی بِہِ (11)
اور جب (روز قیامت) خدا کہے گا:
اے عیسیٰ بن مریم ! کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ کو چھوڑ کر مجھے اور میری ماں کو خدا قرار دو، تو وہ کہیں گے تو پاک و پاکیزہ ہے میں کیسے ایسی بات کہہ سکتا ہوں جس کا مجھے حق نہیں اگر میں نے کہا ہوتا تو تو ضرور جان لیتا تو جانتا ہے میرے نفس میں کیا ہے لیکن میں نہیں جانتا کہ تیرے نفس میں کیا ہے تو عالم الغیب ہے میں نے ان سے صرف وہی کیا ہے جو تونے مجھے حکم دیا تھا ۔
اسی طرح جناب عیسی ٰ کی عبادت کرنے والوں کا فیصلہ قیامت کے دن کے لئے ٹال دیا گیا مگر نصیروں نے حضرت علی علیہ السلام کی عبادت شروع کردی تو آپ نے انھیں فوراً قتل کردیا اور ان کے عذاب و فیصلہ کو قیامت کے لئے نہیں چھوڑا ۔
حجاج: اے حرہ! تو قابل تعریف ہے تو نے اپنے جواب میں نہایت اچھے دلائل پیش کئے اگر تو آج اپنے تمام دعووٴں میں سچی ثابت نہ ہوتی تو میں تیری گردن اڑادیتا ۔
اس کے بعد حجاج نے حرہ کو انعام دیکر با عزت رخصت کردیا۔(12)
حوالہ جات
1. سورہٴ طہ، آیت ۱۲۱
2. سوره انسان، آیت ۲۲
3. سورہٴ تحریم آیت ۱۰
4. سورہ ٴ بقره آیت ۲۶۰
5. سورہٴ قصص، آیت ۲۱
6. سورہٴ بقرہ آیت ۲۰۷
7. سورہٴ ص۔آیت ۲۶
8. سورہ انبیاء، آیت ۷۹
9. سورہٴ ص آیت ۳۵
10. سورہ ٴ قصص،آیت ۸۳
11. سورہٴ مائدہ آیت ۱۱۷۔۱۱۶
12. فضائل ابن شاذان ص۱۲۲۔بحار۴، ص۱۳۴ سے ۱۳۶ تک
Add new comment