کربلا اور خواتین
تحریر: ہما مرتضٰی
خواتین نے اس دنیا کی بہت سی تحریکوں میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ اگر پیغمبروں کے واقعات پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ خواتین کا کردار بہت موثر رہا ہے۔ حضرت ابراہیم اور اسماعیل (ع) کی تاریخ جناب ہاجرہ (س) کے بغیر نامکمل ہے۔ جناب عیسیٰ (ع) کا نام جناب مریم (ع) کے بغیر نہیں آتا۔ ہمارے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جناب خدیجہ (س) کی قربانی نظر آئے گی۔ اس کے علاوہ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا بھی ہر مشکل میں ہر جگہ اپنے بابا بزرگوار اور اپنے شوہر نامدار حضرت علی (ع) کے ساتھ ساتھ نظرآتی ہیں۔
اسی طرح کربلا کے واقعات کو زندہ و جاوید بنانے میں بھی حضرت زینب سلام اللہ علیہا، حضرت کلثوم، حضرت سکینہ، اسیران اہل بیت اور کربلا کے دیگر شہدا کی بیویوں اور ماؤں کا اہم کردار رہا ہے۔ کسی بھی تحریک کے پیغام کو عوام تک پہنچانا بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ کربلا کی تحریک کے پیغام کو عوام تک کربلا کی اسیر خواتین نے پہنچایا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ معرکہ کربلا میں اگر خواتین نہ ہوتیں تو مقصد قربانی امام حسین کی اہمیت کا اندازہ نہ لگایا جا سکتا۔ جناب زینب کے بےمثل کردار اور قربانیوں سے تاریخ کربلا روشن نظر آتی ہے۔ واقعہ کربلا میں صرف عاشورامیں نہیں بلکہ انہوں نے شہادت امام حسین علیہ السلام کے بعد مختلف مقامات پر اپنا کردار پیش کرکے یہ بات ثابت کی ہے کہ امام حسین (ع) اپنے ساتھ معاشرے کی رہتی دنیا تک اپنے کردار سے تربیت کرنے والی مثالی خواتین کو مدینے سے ساتھ لے کر نکلے تھے۔ اس لیے بجا طور پر کہا جاتا ہے کہ:
حدیث عشق دو باب است کربلا و دمشق
یکی حسین رقم کرد و دیگری زینب
عاشورا کو وجود دینے والے امام کے دلیر مجاہدین در حقیقت انہی عظیم ماؤں کی گود کا سرمایہ تھے۔ واقعہ کربلا اس چیز کی بھی عکاسی کرتا ہے کہ معاشرے کو اگر شجاع و جانثار افراد کی ضرورت ہو تو اس کے لیے ہر مردِ مومن کو ہمسری کے لیے ایسی زوجہ کا انتخاب کرنا چاہیے جو با ایمان، بہادر اور پاکیزہ کردار کی مالک ہوتا کہ اس کے دامن تربیت سے تاریخ ساز افراد پرورش پاسکیں۔ کربلا میں امام کے انصار و مجاہدین کو ان کی ماؤں اور بیویوں نے ہمت اور حوصلہ دیا کہ تم سے زیادہ قیمتی جناب فاطمہ زہرا علیہا السلام کے فرزند ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ تمہارے ہوتے ہوئے دشمن ان کو نقصان پہنچا دے اگر ایسا ہوا تو ہم روز محشر سیدہ زہرا (س) کو کیا منہ دکھائیں گے۔
جناب زہیر بن قین کو ان کی زوجہ دیلم بنت عمرو نے ہی تشویق دلائی تھی۔ ابتداء میں وہ امام کے کہنے پر امام کی خدمت میں چلے آئے۔ شب عاشورا انہوں نے امام سے عرض کیا تھا کہ ’’خدا کی قسم میں چاہتا ہوں ہزار مرتبہ قتل کیا جاؤں لیکن آپ اور آپ کے اہل بیت کی جان بچ جائے۔‘‘ اگر آپ کی زوجہ آپ کے جذبے کو بیدار نہ کرتی تو آپ اتنے عظیم مرتبہ پر فائز نہ ہوسکتے۔ اسی طرح جناب امام حسین کی شریک حیات جناب ام لیلی اور جناب ام رباب (س) کے بےمثل کردارآج بھی تاریخ کو خون کے آنسو رلاتے ہیں۔ ایک نے اپنی عمر بھر کی کمائی جناب علی اکبر کو امام کے لیے عظیم مشن پرقربان کیا تو جناب رباب نے اپنے چھ ماہ کے ننھے شیر خوار کو امام کا مجاہد بنا کر پیش کیا۔ تربیت اگر ایسی ماؤں کی ہو تو پھر فرزند تاریخ میں باقی رہ جانے والے سپوت کیوں نہ بنیں۔
کربلا کے ان کرداروں میں جناب سکینہ (س) کا کردار آج بھی اہل قلب کو سسکیاں لینے پر مجبور کر دیتا ہے۔ یہ امام کی سب سے کمسن دختر عزیز تھیں۔ واقعہ کربلا سے لے کر زندان شام میں آخری دم تک تاریخ گواہ ہے کہ مصائب اور پیاس کی شدت کے باوجود اس بچی نے کسی کو تنگ نہ کیا ۔یہ سکینہ (س) اور ان کی والدۂ گرامی ام رباب ہی تھیں جنہیں خراج محبت پیش کرتے ہوئے امام حسین (ع) نے فرمایا تھا کہ مجھے وہ گھر اچھا نہیں لگتا جس میں سکینہ اور ام رباب نہ ہوں۔ اسی طرح کربلا میں انصار حسینی میں سے ایک جوان جناب وہب کلبی بھی تھے، وہ جب شہید ہو گئے تو شمر نے ان کا کٹا ہوا سر ان کی والدہ کی طرف پھینکا، تو اس شیر دل ماں نے اپنے بیٹے کے سر کو یہ کہتے ہوئے واپس یزید کی فوج کی طرف پھینک دیاکہ "خدا کی راہ میں قربان کی ہوئی چیز ہم واپس نہیں لیتے"۔
اسی طرح جناب عباس کی والدہ نے بھی اپنے بیٹوں کو مدینہ سے روانگی کے وقت امام حسین (ع) کے ساتھ روانہ کیا تھا اور اپنے پاس ایک بیٹے کو بھی نہیں رکھا تھا۔ امام کی شریک سفر ان کی عزیز جاں خواہر جناب زینب (س) نے بھی اپنے دونوں بیٹوں عون اور محمد (ع) کو اپنے بھائی کے الٰہی مقصد پر صدقہ کرکے میدان کی طرف روانہ کیا تھا۔ یہ جناب زینب (س) ہی تھیں جن کے خطبوں سے کربلا کی تحریک آج تک زندہ ہے۔ حضرت زینب سلام اللہ علیہا قوت برداشت اور صبر کے اعلیٰ ترین درجے پر فائز تھیں۔ امام کی شہادت کے بعد آپ کی تین اہم ذمہ داریوں کا آغاز ہوا تھا۔ سب سے بڑی ذمہ داری امام وقت جناب سجاد (ع) کی تیمارداری اور دشمن سے ان کی حفاظت، دوسری ذمہ داری ان عورتوں اور بچوں کی حفاظت جو بیوہ ہوچکی تھیں اور بچے یتیم۔ تیسری ذمہ داری کربلا کے پیغام کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچانا تھا۔ دم توڑتی انسانیت کو زندہ کرنے کا جو ارادہ امام حسین (ع) گھر سے لے کر نکلے تھے اس کو انجام تک کردار زینبی اور گفتار زینبی نے پہنچایا۔
جناب زینب کی سربراہی میں امام کے اہل حرم نے کوفہ و شام کے گلی کوچے میں اپنے خطبوں کے ذریعے یزیدیت کا پردہ چاک کیا جس کی وجہ سے یزید اپنے ارادے میں زیادہ دیر تک کامیاب نہ ہو سکا۔ روز بروز ذلت و نفرت اس کا مقدر بنتی رہی اور آج چودہ سو سال گزرنے کے باوجود یزید اور یزیدیت کے مظالم پر کوئی پردہ نہیں ڈال سکا۔
تیری سنت ہے شہیدوں کے لہو کی تشہیر
بنتِ زہرا ترے خطبوں کی صدا باقی ہے
بشکریہ اسلام ٹائمز
Add new comment