واقعہ غدیر کی لافانیت کے مزید دلائل

اس تاریخی واقعہ کی اھمیت کےلئے اتنا ھی کافی ھے کہ 110 صحابیوں نے اسے نقل کیا ھے ۔ لیکن اس کا مطلب یہ نھیں ھے کہ اتنی بڑی جمعیت میں سے صرف ان ھی افراد نے غدیر کے واقعہ کو نقل کیا ھے، بلکہ سنی علماء کی کتابوں میں اس واقعہ کے صرف 110 راوی ذکر ھوئے ھیں

واقعہ غدیر کی لافانیت کے مزید دلائل

اس تاریخی واقعہ کی اھمیت کےلئے اتنا ھی کافی ھے کہ 110 صحابیوں نے اسے نقل کیا ھے ۔ لیکن اس کا مطلب یہ نھیں ھے کہ اتنی بڑی جمعیت میں سے صرف ان ھی افراد نے غدیر کے واقعہ کو نقل کیا ھے، بلکہ سنی علماء کی کتابوں میں اس واقعہ کے صرف 110 راوی ذکر ھوئے ھیں ۔ یہ بات صحیح ھے کہ پیغمبر اسلام صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے ایک لاکھ کے مجمع میں تقریر فرمائی، لیکن ان میں بھت سے لوگ حجاز سے دور دراز کے علاقوں سے تعلق رکھنے والے تھے ، جن سے کوئی حدیث نقل نھیں ھوئی ھے ، یا اگر نقل ھوئی بھی ھو تو ھم تک نھیں پھنچی ھے۔ ان میں سے اگر کسی جماعت نے اس واقعہ کو نقل بھی کیا ھے تو تاریخ ان کے نام درج کرنے میں کامیاب نھیں ھوئی۔ 

دوسری صدی ھجری میں  جو عصر تابعین کے نام سے مشھور ھے  نواسی افراد نے اس حدیث کو نقل کیا ھے۔

بعد والی صدیوں میں حدیث کے بہت سے راوی سنی علماء تھے ان میں سے تین سو ساٹہ راویوں نے اس حدیث کو اپنی کتابوں میں نقل کیا ھے اور ان میں سے بھت سے لوگوں نے اس حدیث کے صحیح اور محکم ھونے کا اعتراف بھی کیا ھے۔ 

تیسری صدی ھجری میں 92 (بانبے) سنی علماء نے، چوتھی صدی میں تینتالیس( 43)، پانچویں صدی میں جوبیس(24)  چھٹی صدی میں بیس (20)، ساتویں صدی میں اکیس (21) ، آٹھویں صدی میں اٹھارہ (18) ، نویں صدی میں سولہ (16) ، دسویں صدی میں (14) چودہ ، گیارھوں صدی میں بارہ (12) ، بارھویں صدی میں تیرہ (13) ، تیرھویں صدی میں بارہ (12) اور چودھویں صدی میں بیس (20) سنی علماء نے اس حدیث کو نقل کیا ھے۔

مذکورہ علماء کی ایک جماعت نے اس حدیث کی نقل پر ھی اکتفاء نھیں کی ھے بلکہ اس کے اسناد اور مفھوم پر مخصوص کتابیں لکھی ھیں۔ 

عالم اسلام کے عظیم اور نامور تاریخ دان ، طبری نے ” الولایة فی طرق حدیث الغدیر “ کے موضوع پر کتاب لکھی ھے اور اس میں اس حدیث کو ستر(70) سے زیادہ طریقوں سے ، پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا ھے۔

ابن عقدہ کوفی نے اپنے رسالہ ” ولایت“ میں اس حدیث کو ایک سو پچاس (10) افراد سے نقل کیا ھے۔

جن افراد نے اس تاریخی واقعہ کی خصوصیات کے بارے میں مخصوص کتابیں لکھی ھیں ، ان کی تعداد چھبیس (26) ھے ۔ ممکن ھے اس سے زیادہ افراد ھوں جنھوں نے اس موضوع پر کتابیں یا مقالات لکھے ھیں لیکن تاریخ میں ان کا نام درج نھیں ھوا ھے یا ھماری رسائی ان تک نھیں ھے۔ 

شیعہ علماء نے بھی اس تاریخی واقعہ پر گراں بھا کتابیں لکھی ھیں کہ ان تمام کتابوں میں جامع ترین اور تاریخی کتاب علامہ مجاھد مرحوم آیت اللہ امینی ۺ کی کتاب ” الغدیر“ ھے۔

ھم نے امام (ع) کی زندگی کے اس پھلو کے بارے میں ان کی اس کتاب سے کافی استفادہ کیا ھے۔

18 ذی الحجة کی دوپھر کا وقت تھا ، سورج کی تمازت نے غدیر خم کی سرزمین کو جھلسا رکھا تھا ۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد جس کے بارے میں 70 ھزار سے 120 ھزار تک لکھا گیا  پیغمبر کے حکم سے وھاں پر پڑاؤ ڈالے ھوئے تھی اور یہ لوگ اس دن رونما ھونے والے تاریخی واقعہ کا انتظار کر رھے تھے۔ گرمی کی شدت کا یہ عالم تھا کہ ، لوگوں نے اپنی ردائیں تہ کرکے آدھی سر پر اور آدھی پاؤں کے نیچے رکھی تھیں ۔

………………………………………..

حواله:

http://www.shiastudies.com

Add new comment