علماء اہل سنت کے نزدیک حدیث غدیر کی سند
علماء اہل سنت کے نزدیک حدیث غدیر کی سند
علماء اہل سنت کے نزدیک حدیث غدیر کی سند صحیح نہیں ہے جبکہ شیعہ عقیدہ کے مطابق مسئلہ امامت صرف متواتر احادیث سے قابل اثبات ہے؟
ایک روایت سے استدلال کرنے کے لیے سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ اس کی سند صحیح ہو دوسرے الفاظ میں، صرف اس روایت کو اس مسئلہ میں دلیل کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے جس کا پیغمبر اسلام [ص] سے صادر ہونا یقینی ہو۔ خاص کر کے شیعہ عقیدہ کے مطابق جو مدعی ہیں کہ امامت کے مسئلہ میں ایک شخص کی روایت پر عمل کرنا کافی نہیں ہے۔ بلکہ اس مہم مسئلہ پر دلالت کرنے والی دلیل کو متواتر ہونا چاہیے۔ اس اعتبار سے بعض اہل سنت کے علماء نے حدیث غدیر کو غیر متواتر سمجھتے ہوئے اسے استدلال کے قابل نہیں سمجھا۔ جیسے قاضی عضد الدین ایجی مواقف میں کہتے ہیں:
ہم اس روایت کی صحت کا انکار کرتے ہیں اور اس کے متواتر ہونے کا دعوی، بے دلیل ہے۔ کیسے یہ روایت متواتر ہے جبکہ اکثر اصحاب نے اسے نقل نہیں کیا ہے۔[1]
ابن حجر ھیثمی
ابن حجر ھیثمی کا کہنا ہے: شیعہ فرقے اس بات پر متفق ہیں کہ جو چیز امامت کے اوپر دلیل کے عنوان سے پیش ہونا چاہیے اسے متواتر ہونا چاہیے۔ حالانکہ اس حدیث کا متواتر نہ ہونا معلوم ہے۔ جیسا کہ اس حدیث کی صحت کے بارے میں اختلاف پہلے گزر چکا ہے بلکہ وہ جنہوں نے اس حدیث کی صحت میں اشکال کیا ہے علماء حدیث میں سے ابو داود سجستانی، ابو حاتم رازی اور دوسرے لوگ ہیں پس یہ " خبر واحد" ہے جس کی صحت کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔[2]
ابن حزم اور تفتازانی نے بھی یہی بات کہی ہے۔[3]
جواب:
یہ اشکال ہر اس شخص کی نظر میں جو تھوڑی بہت تاریخ اسلام اور احادیث سے آشنائی رکھتا ہے واضح ہے کہ تعصب اور کینہ کی وجہ سے ہے۔ ورنہ حدیث غدیر کا انکار کرنا ان سوفسطائیوں کی طرح ہے جنہوں نے واقعیت کے موجود ہونے کا انکار کیا، یا ان لوگوں کی طرح ہے جنہوں نے جنگ بدر اور احد کا انکار کیا۔ جو اسلام کے مسلمات میں سے ہیں۔
ہم مختصرا یہاں پر اس روایت کے مصادر اور اس کی صحت کے اصولوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور اس کی تفصیل کوجاننے کے لیے تین تحقیقی کتابوں "الغدیر" علامہ امینی، " عبقات الانوار، علامہ میر حامد حسین اور " احقاق الحق و ملحقاتہ" شہید قاضی نور اللہ شوشتری کی طرف ارجاع دیتے ہیں۔
کتاب احقاق الحق میں علماء اہل سنت کے چودہ افراد پر مشتمل ایک فہرست نقل ہوئی ہے جن میں علامہ سیوطی، جزری، جلال الدین نیشاپوری، ترکمانی ذہبی شامل ہیں ان سب نے حدیث غدیر کے تواتر کا اعتراف کیا ہے۔[4]
ابن حزم نے بھی منھاج السنہ میں یہی کہا ہے۔[5]
علامہ امینی " الغدیر" میں اہل سنت کے تینتالیس بڑے اور بزرگ علماء [منجملہ: ثعلبی، واحدی، فخر رازی، سیوطی، قاضی شوکانی] کی عبارتوں کو نقل کرتے ہیں جو حدیث غدیر کے صحیح السند ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ [6]نیز اہل سنت کے تیس بڑے مفسرین[ منجملہ: ترمذی، طحاوی، حاکم نیشاپوری، قرطبی، ابن حجر عسقلانی، ابن کثیر، ترکمانی] کی عبارتوں کو ان کے ناموں کے ساتھ نقل کرتے ہیں کہ ان سب نے اس آیت "یا ایھا الرسول بلغ ما انزل الیک و ان لم تفعل۔۔۔" کے ذیل میں حدیث غدیر کو ذکر کرتے ہوئے اس آیت کو اس حدیث سے واضح ربط دیا ہے۔ [7]
کتاب " احقاق الحق" میں حدیث غدیر کو اہلسنت کے پچاس معتبر مصادر اور منابع سے نقل کیا ہے۔جیسے سسن المصطفی، مسند احمد، خصائص نسائی، عقد الفرید، حلیۃ الاولیاء وغیرہ۔[8]
یہاں پر ہم اہل سنت کے بعض بزرگان کے حدیث غدیر کے بارے میں اقوال کو الغدیر سے نقل کرتے ہیں:
ضیاء الدین مقبلی کا کہنا ہے: اگر حدیث غدیر قطعی اور یقینی نہیں ہے تو کچھ بھی دین اسلام میں قطعی اور یقینی نہیں ہے۔
غزالی کہتے ہیں: جمہور مسلمین کا اجماع ہے حدیث غدیر کے متن پر۔
بدخشی کہتے ہیں: حدیث غدیر صحیح حدیث ہے کوئی اس کی صحت پر شک نہیں کرتا مگر یہ کہ اس کے اندر تعصب کی آگ جل رہی ہو کہ ایسے شخص کی بات کا کوئی اعتبار نہیں۔
آلوسی کا کہنا ہے: حدیث غدیر، صحیح حدیث ہے جس کی سند میں کوئی مشکل نہیں ہے اور ہمارے نزدیک اس کی صحت ثابت ہے ۔ رسول خدا [ص] سے بھی اور حضرت علی [ع] سے بھی تواتر کے ساتھ نقل ہوئی ہے۔
حافظ اصفہانی کہتے ہیں: حدیث غدیر صحیح حدیث ہے کہ صحابہ میں سے سو افراد نے اسے نقل کیا ہے اور " عشرہ مبشرہ" بھی انہیں سو آدمیوں میں سے ہیں۔[9]
حافظ سجستانی کا کہنا ہے کہ حدیث غدیر ایک سو بیس صحابیوں کے ذریعے نقل ہوئی ہے اور حافظ اب العلاء ھمدانی نے ایک سو پچاس افراد کو بیان کیا ہے۔[10]
حافظ ابن حجر عسقلانی " تہذیب التھذیب" میں حدیث غدیر کے بعض راویوں کو بیان کرنے کے ضمن میں اس کے طرق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
ابن جریر طبری
ابن جریر طبری نے حدیث غدیر کی اسناد کو ایک کتاب کے اندر جمع کیا ہے اور اسے صحیح السند حدیث شمار کیا ہے اور ابو العباس ابن عقدہ نے بھی اسے صحابہ میں سے ستر افراد کے ذریعے سے نقل کیا ہے۔ [11]
نیز کتاب" فتح الباری بشرح صحیح البخاری" میں آیا ہے:
حدیث" من کنت مولاہ فعلی مولاہ" کو ترمذی اور نسائی نے نقل کیا ہے اور اس کے نقل کے راستے اور سندیں بہت زیادہ ہیں کہ ان سب کو ابن عقدہ نے ایک مستقل کتاب میں ذکر کیا ہے اور اس کی بہت ساری سندیں صحیح اور حسن ہیں۔ اور ہمارے لیے امام احمد حنبل سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: جو کچھ علی [ع] کے فضائل کے سلسلے میں مجھ تک پہنچا ہے صحابہ میں سے کسی ایک کے بارے میں نہیں ملتا۔ [12]
قندوزی حنفی حدیث غدیر کو مختلف اسناد سے نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
محمد بن جریر الطبری نے حدیث غدیر کو پچھتر طریقوں سے نقل کیا ہے اور ایک مستقل کتاب بنام " الولایۃ" اس کے بارے میں تالیف کی ہے۔ نیز ابو العباس احمد بن محمد بن سعید بن عقدہ نے ایک کتاب تالیف کی جس میں ایک سو پچاس طریقوں سے حدیث غدیر کو نقل کیا ہے۔[13]
حافظ محمد بن محمد الجزری الدمشقی نے امیر المومنین[ع] کے حدیث غدیر سے احتجاج کرنے کو نقل کرتے ہوئے یوں لکھاہے:
یہ حدیث حسن ہے اور یہ روایت تواتر کے ساتھ حضرت علی علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے جیسا کہ رسول اسلام سے بھی تواتر کے ساتھ نقل ہوئی ہے بہت سارے گروہ نے بہت سارے دوسرے گروہوں سے اس حدیث کو نقل کیا ہے پس جو لوگ اس حدیث کی سند کو ضعیف کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کی باتوں کی طرف توجہ دینا فضول ہے۔ اس لیے کہ وہ علم حدیث سے بے خبرہیں۔[14]
حدیث غدیر کو بخاری اور مسلم نے اپنی صحیحوں میں نقل نہیں کیا لیکن یہ چیز یعنی ان کا اپنی کتابوں میں نقل نہ کرنا ہر گز حدیث غدیر کی سند کے ضعیف ہونے پر دلالت نہیں کرتا۔ اس لیے کہ بہت ساری روایتیں جو خود بخاری اور مسلم کی نظر میں صحیح ہیں اور ان کی سندوں میں کوئی مشکل نہیں ہے انہوں نے اپنی صحیحوں میں نقل نہیں کیا۔ اسی وجہ سے ان کی کتابوں کے بعد کئی مستدرک لکھی گئیں۔ اگر تمام صحیح روایات صحیح بخاری یا صحیح مسلم میں نقل ہو جاتی تو صحاح ستہ کی ضرورت نہ تھی۔ حالانکہ آپ جانتے ہیں کہ کوئی عالم اور دانشمند اپنے پاس صحیح بخاری اور صحیح مسلم رکھنے کے بعد دوسری صحاح سے بے نیاز نہیں ہو جاتا۔
دوسری طرف سے خود بخاری اور مسلم نے بیان کیا ہے کہ جو کچھ ہم ان کتابوں میں لائے ہیں وہ صحیح ہے نہ یہ کہ جو کچھ صحیح تھا ہم نے ذکر کر دیا۔ بلکہ بہت ساری صحیح احادیث کو دوسری وجوہات کی بنا پر ذکر نہیں کیا۔[15]
مذکورہ مطالب کے علاوہ، علامہ امینی [رہ] حدیث غدیر کو بخاری اور مسلم کے اساتید اور بزرگان میں سے انتیس افراد سے نقل کرتے ہیں۔[16]
گفتگو کے اس حصہ کے آخر میں اس سلسلے میں کئے جانے والے ایک اشکال کو ذکر کرتے ہیں:
ابن حجر لکھتے ہیں:
حدیث غدیر، صحیح حدیث ہے کہ جس میں کسی قسم کے شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں پائی جاتی۔ اور اسے ترمذی، نسائی او احمد حنبل جیسوں نے نقل کیا ہے اور بہت سارے طریقوں سے یہ حدیث نقل ہوئی ہے منجملہ اصحاب میں سے سولہ افراد نے اسے نقل کیا ہے اور احمد بن حنبل کی روایت میں آیا ہے کہ اسے تیس صحابیوں نے رسول اسلام [ص] سے سنا اور جب امیر المومنین کی خلافت پر جھگڑا ہوا تو انہوں نے گواہی دی۔[17]
پھر دوسری جگہ تکرار کرتے ہوئے کہتے ہیں:
حدیث غدیر کو تیس صحابیوں نے رسول خدا[ص] سے نقل کیا ہے اور بہت سارے اس کے نقل کے طریقے صحیح یا حسن ہیں۔[18]
پس خود اشکال کرنے والوں کی نظر میں جیسے ابن حجر غیرہ کہ جنہوں نے اس حدیث کی صحت پر اشکال کیا ہے توجہ نہیں کرنا چاہیے اس لیے کہ ابن حجر خود دوسری جگہ کہتے ہیں: ولا التفات لمن قدح فی صحتہ۔[19][ اس شخص کی بات پر کوئی توجہ نہیں کی جائے گی جو حدیث غدیر کے صحت پر شک کرے]۔
استاد محمد رضا حکیمی اپنی کتاب " حماسہ غدیر" میں اہل سنت کے ۱۵ معاصر علماء کے نام بیان کرتے ہیں جنہوں نے حدیث غدیر کو اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے ان میں سے بعض یہ ہیں: احمد زینی دحلان، محمد عبدہ مصری، عبد الحمید آلوسی، احمد فرید رفاعی، عمر فروخ۔[20]
قابل توجہ ہے کہ شیعہ امامت سے مربوط روایات میں تواتر اور یقینی ہونےکو شرط سمجھتے ہیں اور حدیث غدیر شیعہ کتب روائی میں متواتر اور قطعی ہے۔ جیسا کہ بہت سارے سنی مصادر میں بھی اس کا قطعی الصدور ہونا ثابت ہے۔ اور سنی علماء کے عقیدہ کے مطابق کسی حدیث سے امامت کو ثابت کرنے کے لیے دوسرے فروع دین کی طرح اس کا صحیح السند ہونا کافی ہے اس کے تواتر کو ثابت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ لہذا یہ اشکال خود بخود رفع دفع ہو جاتا ہے۔
……………………………………………………….
حواله جات:
[1] ابن حبان، عبدالله؛ البداية و النهاية؛بيروت: دارالحياء التراث العربي، [بيتا].
[2] ، ________تقريب التهذيب؛ بيروت، دارالمكتبة العلميه، 1995م.
[3] ، ________تهذيب التهذيب؛ بيروت: دارالفكر، 1984م.
[4] ، ________ طبقات المحدثين؛ بيروت: مؤسسه الرساله، 1992م.
[5] ، ________غريب الحديث؛ بيروت: دارالكتب العلميه، [بيتا].
[6] ابن حبان، علي بن بلياني؛ صحيح ابن حبان؛ الطبعة الثانيه، [بينا]،[بيتا] 1993م.
[7] ابن حجر عسقلاني، شهابالدين؛ فتح الباري؛ بيروت: دارالمعرفة، [بيتا].
[8] ابن حزم، ابومحمد علي؛ الفصل في الملل والاهواء؛ بيروت: [بينا]۔[ بی تا].
[9] ابنخلدون؛ تاريخ ابن خلدون؛ بيروت: مؤسسه الاعلمي، [بيتا].
[10] ابن خلكان، احمد بن محمد؛ وفيات الاعيان؛ بيروت: داراحياء التراث العربي، 1397م.
[11] ابن سعد، محمد؛ الطبقات الكبري؛ بيروت: دار صادر، [بيتا].
[12] ابن عساكر، ابوالقاسم؛ تاريخ مدينه دمشق؛ بيروت: دارالفكر، 1995م.
[13] ابن قتيبه دينوري؛ الامامة والسياسة؛ قم: شريف رضي، [بيتا].
[14] ابن كثير، اسماعيل؛ تفسير القرآن الكبير؛ بيروت: دارالمعرفة، 1992م
[15] ابن ماجه، محمد بن يزيد قزويني؛ سنن ابن ماجه؛ بيروت: دارالفكر، [بيتا].
[16] ابن نجار، محمد؛ ذيل تاريخ بغداد؛ بيروت: دارالكتب العلميه، [بيتا].
[17] ابن هشام، محمد؛ سيرة النبي؛ مصر: مكتبة محمد، [بيتا].
[18] ابن مزاحم منقري، نصر؛ واقعة الصفين؛ قاهر: مدني، [بيتا].
[19] ابي داوود، ابن اشعث؛ سنن ابي داوود؛ بيروت: دارالفكر، [بيتا].
[20] احمد بن حنبل؛ فضائل الصحابه؛ بيروت: دارالكتب العلميه، [بيتا].
Add new comment