ڈاؤنلوڈ اورمعرفی کتاب اقبال کا خواب اور آج کا پاکستان مصنف،شیخ الاسلام ڈاکٹرمحمدطاهرالقادری ،ناشر منہاج القرآن پبلیکیشنز لاهور
تحریک پاکستان میں اقبال کا کردار
حصول پاکستان کی جدوجہد کا باقاعدہ آغاز قرار داد لاہور (1940ئ) سے ہوتا ہے۔ علامہ اقبال اس سے دو سال قبل1938ءہی میں فوت ہو چکے تھے۔ اس اعتبار سے پاکستان کی تحریک اور اس کے حصول کی سات سالہ جدوجہد میں بظاہر علامہ اقبال کا کوئی کردار نظر نہیں آتا لیکن یہ بات تسلیم کرنی پڑے گی کہ براعظم کی ملت اسلامیہ کی بھلائی، بیداری اورآزادی کے سلسلے میں اقبال کا ذہن ابتدا ہی سے بہت صاف تھا۔ ایک آزاد مسلم مملکت میںوہ ہندوستان کو اسلام کا گہوارہ بنانے کے آرزو مند تھے.... لکھتے ہیں:
” مسلمان ہونے کی حیثیت سے انگریز کی غلامی کے بند توڑنا اور اس کے اقتدار کا خاتمہ کرنا ہمارا فرض ہے اور اس آزادی سے ہمارا مقصد یہی نہیں کہ ہم آزاد ہو جائیں بلکہ ہمارا اول مقصد یہ ہے کہ اسلام قائم رہے اور مسلمان طاقت ور بن جائیں۔
علامہ مرحوم کی انہی دو آرزوﺅں کو بعد میں تحریک پاکستان کا نام ملا جو آخر کار قیام پاکستان پر منتج ہوئی۔
علامہ اقبال نے اگرچہ عملی سیاست میں بھرپور حصہ نہیں لیا لیکن ان کے دل میں آزادی کی تڑپ موجود تھی جس کیلئے ان کا نظری اور فکری حصہ بمقابلہ عملی اور سیاسی رول کے بہت نمایاں ہے۔
برعظیم میں احیائے اسلام کے سلسلے میں علامہ کے کام کے تین مرحلے ہیں اوران کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ ان میں پہلا مرحلہ وہ ہے جب اقبال نے مسلمانوں میں ”مسلمان“ ہونے کا احساس پیدا کرنے اور انہیں خواب غفلت سے جگانے کی کوشش کی۔ دوسرے مرحلے میں انہوں نے دو قومی نظریے کو ایک مستقل اصول کے طور پر پیش کر کے پاکستان کےلئے ٹھوس نظریاتی بنیادیں فراہم کیں۔ تیسرے مرحلے میں علامہ نے خطبہ الہ آباد کے ذریعے مسلم لیگ کو ایک علیحدہ اسلامی مملکت کی راہ سجھائی اور خود لیگ میں شامل ہو کر براہ راست اسے فیض پہنچایا۔
تحریک پاکستان کے پہلے اور ابتدائی مرحلے میں اقبال نے مسلمانوں کو ان کا مسلمان ہونا یاد دلایا۔ ان کی اس دور کی شاعری اور نثر میں مسلمانوں کے شاندار ماضی کے تذکرے اور عظمت رفتہ کے قصے ملتے ہیں
ملت کے اندر احساس زیاں کے خاتمے کا ایک بڑا سبب مغرب کی فکری اورمادی غلبہ و استیلا تھا۔بیسویں صدی کے آغاز میں جب سلطنت برطانیہ پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا اور بحیثیت مجموعی یورپی استعمار پوری دنیا پر اپنے استبدادی پنجے گاڑے ہوئے تھا۔ اقبالؒ مسلمانوں کے تعلیم یافتہ طبقے کے دل و دماغ سے انگریزی پرستی اور اسلام کے بارے میں ان کے معذرت خواہانہ رجحانات کو کھرچ کھرچ کر صاف کر رہے تھے۔ ان کی پوری شاعری اس کی آئینہ دار ہے۔
شب گریزاں ہو گی آخر جلوہ¿ خورشید سے
یہ چمن معمور ہو گا نغمہ توحید سے
اس کے ساتھ ہی علامہ نے اسلام کے حقیقی تصور کو اجاگر کیا جس میں دین و سیاست کی ہم آہنگی سب سے اہم نکتہ تھا۔ دین کے جامد تصورات کا طلسم ٹوٹ گیا۔ اقبال کے طرز فکر نے ان کے ہاں ملی تشخص کو اور گہرا کر دیا جس کی نشان دہی1876ء میں سر سید احمد خاں نے کی تھی۔ مسلم لیگ کے نزدیک ا بھی دو قومی نظریہ ایک قابل مصالحت چیز تھی۔ اسی لئے 1927ءکی دہلی تجاویز میں مسلم لیگ بھی جداگانہ انتخاب کے اصول سے (مشروط طور پر) دستبردار ہو گئی تھی۔
چنانچہ الہ آباد میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ دسمبر1930ءمیں علامہ کے کام کا تیسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے اس مرحلے میں علامہ نے ہندوستانی مسلمانوں کے لئے ایک الگ مملکت کا مطالبہ پیش کیا۔ اس تاریخی خطبے میں علامہ اقبال نے فرمایا:
”ہندوستان کی سیاسی زندگی نے ایک نہایت نازک صورت اختیار کر لی ہے.... اسلام پر ابتلا و آزمائش کا ایسا سخت وقت نہیں آیا جیسا کہ آج درپیش ہے۔ .... مسلمانوں کا مطالبہ کہ ہندوستان میں ایک اسلامی ہندوستان قائم کیا جائے، بالکل حق بجانب ہے.... میری خواہش ہے کہ پنجاب، صوبہ سرحد، سندھ، بلوچستان کو ایک ہی ریاست میں ملا دیا جائے۔ خواہ یہ ریاست سلطنت برطانیہ کے اندر حکومت خود اختیاری حاصل کرے خواہ اس کے باہر.... مجھے تو ایسا نظر آ تا ہے کہ اور نہیں تو شمالی مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو آخر ایک منظم اسلامی ریاست قائم کرنی پڑے گی۔ ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا اسلامی ملک ہے اور اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس ملک میں اسلام بحیثیت ایک تمدنی قوت کے زندہ رہے تو اس کےلئے ضروری ہے کہ وہ ایک مخصوص علاقے میں اپنی مرکزیت قائم کر سکے.... میں صرف ہندوستان اور اسلام کی فلاح و بہبود کے خیال سے ایک منظم اسلامی ریاست کا مطالبہ کر رہا ہوں....“۔
مسلمان جب چھ سات برس سے شدید انتشار اور مایوسی کا شکار تھے۔ مسٹر جناح کی غیر حاضری میں الہ آباد میںدسمبر1930ءمیں منعقدہ سالانہ اجلاس نے ان میں نئی روح پھونکی۔ اس زمانے میں عام طور پر اکثر و بیشتر ایسے مسلمان نمائندے منتخب کئے جاتے تھے جو پنشن یافتہ ہوتے یا خطاب یافتہ ہوتے ۔عاشق حسین بٹالوی کے بقول ”مسلمانوں کے بالائی طبقوں کی ایک جماعت “ تھی جس کا پنجاب کے ”عوام کے ساتھ کوئی ربط و ضبط نہیں تھا اور اکثر و بیشتر لوگ، اس کے نام اور کام سے بالکل نا آشنا تھے“۔ علامہ دو سال سے مستقلاً بیمار چلے آ رہے تھے 1936 میں قائداعظم لاہور تشریف لائے تو ان کی درخواست قبول کرتے ہوئے علامہ اقبال نے پنجاب لیگ کی صدارت قبول کر لی اور قائداعظم کو اپنے پورے تعاون کا یقین دلایا۔شاید آج اس کا اندازہ نہ لگایا جا سکے کہ علامہ کا یہ اقدام مسلم لیگ اور تحریک پاکستان کے لئے کس قدر تقویت کا باعث بنا مگر یہ حقیقت ہے کہ پنجاب میں مسلم لیگ کے تعارف اور (بعد ازاں) مطالبہ پاکستان کی مقبولیت میں اقبال کے نام کو ایک کلید کی حیثیت حاصل تھی۔ پنجاب مسلم لیگ کے لئے اپنی وفات سے پہلے دو سال تک علامہ نے جس توجہ، دلچسپی اور جوش و خروش کے ساتھ پارٹی تنظیم اور تحریک پاکستان کے لئے کام کیا، ان کی افتاد طبع اور بیماری کو دیکھتے ہوئے حیرت ہوتی ہے کہ ان کے اندر ایسی تندہی اور مستعدی کہاں سے آ گئی تھی۔
Add new comment