ڈاؤنلوڈ اورمعرفی کتاب فلسفہ تسمیہ مصنف،شیخ الاسلام ڈاکٹرمحمدطاهرالقادری ،ناشرمنهاج القرآن لاهور
تسمیہ کی ترکیب نحوی اور ایک لطیف نکتہ
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم میں ’’حرف باء،، جار ہے، ’’اسم،، مجرور اور مضاف، ’’لفظ اللہ،، مضاف الیہ اور موصوف ہے، لفظ ’’الرحمن الرحیم،، دونوں یکے بعد دیگرے موصوف یعنی اللہ کی صفات ہیں۔ موصوف (اللہ) اپنی دونوں صفات (الرحمن الرحیم) کے ساتھ مل کر اسم کا مضاف الیہ بن گیا اور مضاف (اسم) اپنے مضاف الیہ (اللہ الرحمن الرحیم) سے مل کر جار یعنی ’’حرف باء،، کا مجرور ہو گیا۔ اب اس حرف باء (جار) کا ایک متعلق ہے جو فعل محذوف ہے۔ وہ یہاں أشرع، أبدا يا أقراء وغیرہ ہو سکتا ہے۔ چنانچہ جار و ’’مجرور،، اور ’’فعل محذوف،، جس میں فاعل بھی ہے۔ سب مل کر ’’جملہ فعلیہ خبریہ،، پر منتج ہو گئے۔ اس کی دوسری صورت یہ بھی ہے کہ یہاں فعل محذوف صیغہ امر أبدا يا أقراء کو مانا جائے۔ اس طرح تسمیہ، ’’جملہ فعلیہ انشائیہ،، قرار پائے گا۔
یہاں ایک لطیف نکتہ قابل غور ہے کہ تسمیہ کا ’’جملہ فعلیہ خبریہ یا جملہ فعلیہ انشائیہ،، ہونا فعل محذوف کی نوعیت پر مبنی تھا۔ اگر فعل محذوف کی بجائے زیادہ توجہ حرف باء کے مفہوم اور اس کی نوعیت کے تعین پر کی جائے جیسے کہ بعد میں بیان کیا جائے گا تو تسمیہ کا کلام ہر صورت میں ’’دعائیہ،، قرار پا جاتا ہے کیونکہ یہاں حرف باء تین حالتوں میں سے یقیناً کسی نہ کسی ایک حالت کا حامل ہے اور وہ ہیں۔ ’’الصاق و مصاجت،، ’’استمداد و استعانت،، اور ’’تبرک و تیمن،، لہذا ’’بائ،، مذکورہ بالا میں سے جس حالت پر بھی دلالت کرے۔ کلام تسمیہ ایک ’’دعا،، بن جاتی ہے اور یہی مقصود الٰہی ہے۔
Add new comment