ڈاؤنلوڈ اورمعرفی کتاب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے توسل اور تبرک مصنف،شیخ الاسلام ڈاکٹرمحمدطاهرالقادری ،ناشرمنهاج القرآن لاهور
قرآن کی آیت میں وارد ہو اہے : ( فلا تدعوا مع اللہ احدا) . خدا کے ساتھ کسی کو بھی نہ پکارو۔ یا ( والذین یدعون من دونہ لایستجیبون لھم بشیئ) وہ لوگ کہ جو خدا کے علاوہ دوسروں کو پکارتے ہیں ، وہ ان کی کوئی بھی مشکل حل نہیں کرسکتے .
بعض مسلمان کا گمان یہ ہے کہ یہ آیت، اولیاء اللہ سے توسل کو منع کرتی ہے ، نیز اگر آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم)کی حیات طیبہ میں روایات کی روسے آپ(صلی الله علیه و آله وسلم)کی ذات سے توسل کے جواز کو مان بھی لیا جائے تب بھی وفات کے بعد اس توسل کے جواز پر ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے ۔
افسوس کا مقام ہے کہ وہابی حضرات ایسے ہی بے بنیاد عقائد کی وجہ سے بہت سے مسلمانوں کو شرک سے متہم کرتے ہیں اور ان کے جان و مال کو مباح قرار دیتے ہیں جس کی وجہ سے آج تک بے شمار لوگوں کے خون بہے ہیں اور نہ جانے کتنے گھر لٹ چکے ہیں ۔
یہاں تک ہم نے آشنائی کی خاطروہابیوں کے اعتقادات کو بیان کیا ہے لہذا اب ہم مسئلہ توسل کو ذکر کریں گے .
اس مسئلہ میں وارد ہونے سے پہلے توسل کو لغت اور روایات کی روشنی میں بیان کریں گے : "" توسل"" لغت میں وسیلہ کے انتخاب اور اس چیز کے معنی میں ہے جو کسی چیز کو دوسری چیز سے نزدیک کرتی ہو ۔
مشہور کتاب لغت "" لسان العرب"" میں لکھا ہے : "" وصل الی اللہ وسیلة اذا عمل تقرب بہ الیہ والوسیلة مایتقرب بہ الی الغیر"" خدا سے توسل اور وسیلہ کے انتخاب کا مطلب یہ ہے کہ انسان ایک ایسا عمل انجام دے جو اسے خد اسے نزدیک کرسکے اور وسیلہ ایک ایسی چیز کے معنی میں ہے جس کے ذریعہ ایک دوسری چیزسے نزدیک ہو اجاسکے .
کتاب "" مصباح اللغة"" میں آیا ہے :
"" الوسیلة مایتقرب بہ الی الشیء والجمع الوسائل"" وسیلہ ایک ایسی چیز کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ انسان کسی چیز یا کسی انسان سے نزدیک ہوتا ہے اور وسیلہ کی جمع "" وسائل "" ہے .
اسی طرح مقاییس اللغہ میں آیا ہے : "" الوسیلة الرغبة والطلب"" وسیلہ رغبت اور طلب کے معنی میں ہے ۔
ان تمام لغات میں وسیلہ کے معنی کی تحقیق کے بعد معلوم یہ ہوتا ہے کہ وسیلہ تقرب کے معنی میں ہے اور اس چیز کے معنی میں ہے جو تقرب کا باعث ہو ، یعنی وسیلہ ایک وسیع معنی سے برخوردار ہے ۔
قرآن مجید میں دو مقام پر لفظ وسیلہ آیا ہے :
سورہ مائدہ آیت ٣٥جس میں خدا فرماتا ہے : ( یا ایھا الذین آمنوا اتقوا اللہ وابتغوا الیہ الوسیلة وجاھدوا فی سبیلہ لعلکم تفلحون) اس آیت کے مخاطب وہ تمام افراد ہیں جو خدا پر ایمان لاچکے ہیں ۔
اس آیت میں تین حکم دئیے گئے ہیں جن میں پہلا تقویٰ کا حکم ہے دوسرا حکم ایسے وسیلہ کا انتخاب ہے جو ہمیں خدا سے نزدیک کرسکے اور تیسرا حکم خدا کی راہ میں جہاد کرنا ہے ،اس آیت کے آخر میں ان احکام( تقوی، توسل ، جہاد) کا مجموعی نتیجہ بیان کیا گیا ہے ""لعلکم تفلحون "" تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ ۔
دوسرا مقام سورہ اسراء کی آیت ہے ٥٧لیکن اس آیت کو سمجھنے کے لئے اسی سورہ کی آیت ٥٦کو پہلے بیان کرنا ضروری ہے : ( قل ادعوا الذین زعمتم من دونہ فلا یملکون کشف الضرعنکم ولا تحویلا) اے پیغمبر(صلی الله علیه و آله وسلم)! کہہ دیں:انہیں لوگوں کو پکارو جنہیں تم اپنے گمان میں خدا کے علاوہ معبود سمجھتے ہو حالانکہ وہ نہ تو تمہاری کوئی مشکل حل کرسکتے ہیں اور نہ ہی کوئی تبدیلی لاسکتے ہیں ۔
اس آیت میں موجود جملہ ( قل ادعوا الذین ) سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد بت وغیرہ نہیں ہیں اس لئے کہ "" الذین "" ذوی العقول کے لئے استعمال ہوتا ہے بلکہ یہاں پر مراد وہ فرشتے ہیں جنہیں وہ لوگ معبود سمجھتے تھے یا حضرت مسیح جو عیسائیوں کے گمان میں معبود ہونے کی وجہ سے مورد پرستش واقع ہوئے ہیں ۔
پس اس آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ نہ فرشتے اور نہ ہی مسیح کوئی بھی تمہاری مشکل حل نہیں کرسکتا ۔
اس کے بعد کی آیت میں وارد ہوا ہے : ( اولئک الذین یدعون یبتغون الی ربھم الوسیلة ) بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو خود خدا کی بارگاہ میں جاتے ہیں اور اس سے ایساتقرب مانگتے ہیں ( ایھم اقرب) جو اس سے زیادہ نزدیک ہو، ( یرجون رحمتہ) اور اس کی رحمت سے امید باندھے ہوئے ہیں ، ( ویخافون عذابہ) اور اس کے عذاب سے خائف ہیں اس لئے کہ ( ان عذاب ربک کان محذورا) آپ کے پروردگار کا عذاب ایسا ہے جس سے ہر ایک وحشتناک ہے ۔
وہابیوں کو سب سے بڑا اشتباہ یہ ہوا ہے کہ ان لوگوں نے اولیاء اللہ سے توسل کو ""کاشف الضر"" کے معنی میں سمجھ لیاہے یعنی جو مشکلوں اور بلاؤں کو ٹال سکتا ہے اور بطور مستقل یہ تمام امور انجام دے سکتا ہے جب کہ توسل کا مطلب یہ نہیں ہے ، ان لوگوں نے نفی توسل کے سلسلہ میں ان آیتوں کا سہارا لیا ہے جو عبادت سے متعلق ہیں اور ہر ایک کو معلوم ہے کہ توسل کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کوئی اولیاء اللہ کی عبادت کرے ۔
جب ہم پیغمبر(صلی الله علیه و آله وسلم)اکرم سے متوسل ہوتے ہیں تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ان کی عبادت کررہے ہیں؟ کیا ہم پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله وسلم)کو بطور مستقل بلاؤں کو ٹالنے والا سمجھتے ہیں؟ جب کہ قرآن نے ایک ایسے توسل کی طرف دعوت دی ہے جس کے ذریعہ ہم خدا سے نزدیک ہوسکتے ہیں یعنی یہ وہ لوگ ہیں جو خدا کی بارگاہ میں شفاعت کرسکتے ہیں جسے ہم نے شفاعت کے مسئلہ میں بطور مفصل بیان کیا ہے .
حقیقت میں توسل اور شفاعت ایک ہی معنی میں ہیں ، قرآن میں توسل کے متعلق دو آیتیں ہیں لیکن شفاعت کے متعلق بے شمار آیتیں موجود ہیں ۔
اس مقام پر توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ جملہ ( ایھم اقرب) کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ فرشتوں اور حضرت مسیح کو وسیلہ بناتے ہیں اس لئے کہ انہیں وہ خدا سے نزدیک سمجھتے ہیں ، اس جملہ میں "" ھم "" ضمیر جمع عاقل ہے یعنی وہ لوگ ایسے صلحاء اور اولیاء اللہ سے متوسل ہوتے ہیں جو خدا سے نزدیک ہیں ۔
بہرحال اس بحث کے آغاز میں ضروری ہے کہ پہلے یہ واضح ہوجائے کہ اولیاء اللہ سے توسل کا مطلب کیا ہے ؟ کیا اس سے مراد ان کی پرستش ہے ؟
ہرگزنہیں! کیا انہیں بلاؤں کو ٹالنے میں مستقل سمجھا جاتا ہے ؟ہرگز نہیں!
بلکہ یہ لوگ خدا کی بارگاہ میں ان لوگوں کی شفاعت کرتے ہیں جنہوں نے انہیں وسیلہ بنا رکھا ہے اس کی مثال بالکل ایسی ہے کہ میں کسی بزرگ ہستی کے پاس جانا چاہتا ہوں لیکن وہ مجھے نہیں پہچانتا لہذا شرفیابی کیلئے کسی ایسے شخص کو تلاش کروں گا جسے وہ پہچانتے ہوں تاکہ وہ میری شفاعت کرسکے، اس کامطلب نہ عبودیت ہے اور نہ ہی تاثیرات میں استقلال ہے .
اس مقام پر بڑا مناسب ہے کہ ہم "" بن علوی"" کی کتاب "" مفاہیم یجب ان تصحح"" میں اس مسئلہ سے مربوط مطالب کو بیان کردیں :وہ کہتے ہیں: بہت سے لوگ توسل کا مطلب سمجھنے میں خطا سے دوچار ہوئے ہیں لہذا اس مسئلہ کو واضح کرنے سے پہلے چند نکتہ کی طرف اشارہ لازم ہے :
١۔ توسل دعا کا ایک طریقہ ہے ، حقیقت میں یہ خدا سے نزدیک ہونے کے ابواب میں سے ایک باب ہے ، پس اس مسئلہ میں حقیقی مراد خداوند متعال ہے لہذا جس کا اعتقاد اس کے علاوہ کچھ اور ہو تو وہ واقعا ً مشرک ہے ۔
٢۔ کسی بھی شخص کا کسی سے متوسل ہونا اس محبت اور اعتقاد کی وجہ سے ہوتا ہے جو اس کی نسبت وہ اپنے دل میں رکھے رہتا ہے اور اسے یقین رہتا ہے کہ خدا اسے چاہتا ہے اسی وجہ سے اگر اسے معلوم ہوجائے کہ وہ خد اکے نزدیک محبوب نہیں ہے تو فوراً اس سے دور ہوجاتا ہے اور اس کی مخالفت پر اتر آتاہے ، ہاں! اس مسئلہ میں معیار یہ ہے کہ خدا اس کو دوست رکھتا ہو ۔
٣۔ اگر کوئی شخص ""متوسل بہ ""یعنی جس فرد کو وسیلہ بنا رہا ہے ، اسے سود و زیاں میں خدا کی طرح مستقل سمجھے تو وہ مشرک ہوگا ۔
٤۔ توسل کوئی ضروری فعل نہیں ہے اور نہ ہی دعا کی اجابت کا واحد راستہ ہے بلکہ دعا کے وقت فقط دعا اہمیت رکھتی ہے جس میں انسان خدا سے مرادیں مانگتا ہے جیسا کہ خداوند متعال فرماتا ہے : ( واذا سالک عبادی عنی فانی قریب ) .
بن علوی مالکی اس مقدمہ کو پیش کرنے کے بعد توسل کے مسئلہ کو روشن کرنے کے لئے اہلسنت کے متکلمین کے نظریات کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: مسلمانوں کے درمیان توسل کی مشروعیت کے متعلق کوئی اختلاف نہیں ہے "" توسل الی اللہ بالاعمال الصالحة ""یعنی انسان اعمال صالحہ کے ذریعہ خدا کا تقرب حاصل کرتا ہے مثلاً : جو شخص روزہ رکھتا ہے ، نماز پڑھتا ہے ، قرآن کی تلاوت کرتا ہے اور خدا کی راہ میں صدقہ دیتا ہے تو وہ ایسے اعمال کے ذریعہ خدا سے توسل اور اس کا تقرب حاصل کرتا ہے ، یہ مسئلہ مسلمات میں سے ہے کہ جس میں کوئی اختلاف نہیں ہے ۔
توسل کو اس معنی میں سلفیوں نے بھی قبول کیا ہے ، جیسا کہ ابن تیمیہ نے اپنی مختلف کتابوں جیسے "" القاعدة الجلیلة فی التوسل والوسیلة"" میں آشکارا قبول کیا ہے ۔
ابن تیمیہ نے اعمال صالحہ کے ذریعہ توسل کو مانا ہے ، پس محل اختلاف کہاں ہے ؟
کیا اختلاف غیر اعمال صالحہ سے توسل کے متعلق ہے ؟یعنی اولیاء اللہ سے توسل کے مسئلہ میں اختلاف ہے کہ اگر وہ کہے کہ"" اللھم انی اتوسل الیک بنبیک محمد (صلی الله علیه و آله وسلم) "" ؛خدایا! میں تیرے نبی محمد (صلی الله علیه و آله وسلم)کو وسیلہ قرار دیتا ہوں ۔
اسکے بعد مطلب کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں: اس معنی میں اختلاف اور وہابیوں کا اولیاء اللہ سے توسل کا انکار کرنا ایک شکلی اور لفظی اختلاف ہے کوئی جوہری اختلاف نہیں ہے، یعنی یہ ایک لفظی جھگڑا ہے ، اسلئے کہ اولیاء اللہ سے توسل حقیقت میں ان کے اعمال صالحہ سے توسل ہے جو جائز ہے لہذا اگر توسل کے مخالفین منصف ہوکر اس مسئلہ کو حل کرنا چاہیں تو ان کے لئے بھی یہ مسئلہ قابل حل ہے اور آسانی سے یہ فتنہ خاموش ہوسکتا ہے تاکہ اس طرح مسلمان، شرک اور ضلالت سے متہم نہ ہوسکیں ۔
اس کے بعد اس مطلب کی مزید وضاحت کے لئے فرماتے ہیں: جو بھی کسی ولی خدا سے متوسل ہوتا ہے تو کیا اس وجہ سے ہے کہ وہ اسے چاہتا ہے ؟اسلئے کہ اسے معلوم ہے کہ اسکے اعمال نیک ہیں اور وہ خدا کو دوست رکھتا ہے یا خدا اسے دوست رکھتا ہے یا خود انسان اس وسیلہ کو پسند کرتا ہے ،پس جب اس طرح توسل کے مسئلہ کی چھان بین کرتے ہیں تو اس مسئلہ کا محور نیک اعمال کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے یعنی خدا کی بارگاہ میں توسل، نیک اعمال کے ذریعہ ہوتا ہے اور یہ وہ چیز ہے جسے تمام مسلمین نے قبول کیا ہے ۔
البتہ ہم آئندہ اس سے زیادہ وضاحت کریں گے کہ لوگوں سے توسل اگر ان کے بلند درجات کی وجہ سے ہو اور اس میں ان کے نیک اعمال کی دخالت بھی نہ ہوبلکہ اگر توسل صرف اس وجہ سے ہو کہ وہ خدا کی بارگاہ میں عزیز اور آبرومند ہیں یا تاثیرات میں عدم استقلال کا انکار کرنے کے ساتھ انہیں خدا کی بارگاہ میں شفیع مان لیں تب بھی نہ کفر ہے اور نہ ہی یہ مورد اختلاف مسئلہ ہے ۔
جیسا کہ اسی معنی میں توسل کے متعلق قرآن میں جابجا اشارہ ہوا ہے ، ہاں ! یہ شرک ہے کہ ہم خدا کے مقابلہ میں کسی کو تاثیرات میں مستقل سمجھیں ، اس مسئلہ میں وہابیوں کو آیہ شریقہ :( ما نعبدھم الا لیقربونا الی اللہ زلفی) کی وجہ سے عبادت اور شفاعت میں اشتباہ ہوگیا ہے اور انہیں یہ گمان ہوگیا ہے کہ شفاعت بھی شرک ہے جب کہ واسطوں کی عبادت شرک ہے نہ کہ ان سے شفاعت اور توسل کرنا شرک ہو۔(غور کریں!)
1) سورة زمر آیة 3_
2) سورہ جن ، آیة 18_
3) سورة رعد، آیہ 14_
4) سورہ بقرة آیہ 186 (ترجمہ )جب میرے بندے مجھ سے سوال کرتے ہیں تو میں قریب ہوں"" _
5) کتاب مفاہیم یجب ان تصحّح ص 116، 117_
6) سورہ زمر، آیت 3_
Add new comment