110صحابی 89 تابعین اور 360 اہل سنت علماء سے منقول "حدیث غدیر"
از قلم:عبدالحسین
اے اﷲ اسکو دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے اور اس کو دشمن رکھ جو علی کو دشمن رکھے ، اس سےمحبت کر جو علی سے محبت کرے اور اس پر غضبناک ہو جو علی پر غضبناک ہو ، اس کی مدد کر جو علی کی مدد کرے او ر اس کو رسوا کر جو علی کو رسوا کرے او ر حق کو ادھر موڑ دے جدھر علی مڑیں ۔
بسمه تعالی
يناديهم، يوم الغدير نبيّهم بخمّ فاسمع بالرّسول مناديا
ہجرت کا دسواں سال ہے پیغمبر خداصلی اللہ علیہ وآلہ مدینہ منورہ میں دس سالہ مجاہدت اور تبلیغ کے بعد خانہ کعبہ کی زیارت کا ارادہ رکھتے ہیں اور یہ خبر مسلمانوں تک آنا فانا پہنچ گئ ، ہر ایک مسلمان کے دل میں اس حج میں شرکت کی تمنا پیدا ہونے لگی ۔ خانہ خدا کی زیارت کرنے والے ہزاروں مشتاق افراداپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ کے انتظار میں ہیں کہ کب ارادہ سفر کریں۔ چھبیس26 ذیقعدہ کا دن ہے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ لوگوں کو حج کے احکام سکھانے میں مصروف ہیں ، مسلمانوں کا نورانی مجمع ہے ہر طرف ایمان اور تقوی کے نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں سب کے سب ایک رنگ میں رنگ کر اﷲ کی بارگاہ میں دست بدعاہیں ۔ حج کی ادائیگی کے بعد لوگ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ کے آخری حج حجۃ الوداع کے معنوی توشہ کے ساتھ اپنے دیار کولوٹ رہے ہیں ۔ عید الاضحی کو آٹھ دن گذر چکے ہیں ، لوگ تییس23 دنوں سے اپنے گھرانوں سے دور ہیں۔مناسک حج مکمل ہو چکے ہیں اب واپسی کا مرحلہ شروع ہوا ہے لوگ غدیر خم کے نذدیک حجفہ نامی علاقے میں داخل ہو گئے جہاں عراق ،مصر اور مدینہ والے اپنا اپنا راستہ اختیار کریں گے جبرئیل امین علیہ السلام وحی لے کے نازل ہوئے؛ تو اچانک پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ کی طرف سے رکنے کا حکم طنین انداز ہوا، لوگوں کی سانسیں سینوں میں بند،آخر ماجرا کیا ہے ایکدوسرے سے پوچھا جارہا ہے کیا بات ہے کیا پیغام ہے کسی کو سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ اﷲ کی طرف سے وحی نازل ہوئی ہے: يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللّهَ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ ؛ مائدہ/ 67، امین وحی فوق الذکر آیت لے کر آئے اور اللہ کی جانب سے آنحضرت کو حکم ہوا کہ علی علیہ السلام کی ولایت اور امامت کا اعلان کریں اور اس سلسلے میں جو کچھ ان کی اطاعت اور پیروی کیلئے خدا کی طرف سے واجب ہوا ہے اسکا تبلیغ کریں ۔
لوگوں کو جمع کیا گیا ، جو آگے نکل چکے تھے ان کو واپس لوٹنے کو کہا گیا اور جو ابھی راستے میں تھے ان کا انتظار کرنا پڑا۔ اس دوران ظہر آپہنچا ، اذان ہوئی نماز ظہر با جماعت ادا ہوئی ۔ نماز ظہر کے بعد حضرت نے اونچی آواز میں خطبہ ارشاد فرمایا:
حمد و ثناء،اﷲ کی ذات کے لئے مخصوص ہے ہم اس پرایمان رکھتے ہیں ، اسی پر توکل کرتے ہیں اور اسی سے مدد چاہتے ہیں ۔ ہم برائی اور اپنے برے کاموں سے بچنے کے لئے اس کی پناہ چاہتے ہیں ۔ و ہ اﷲ جس کے علاوہ کوئی دوسرا ہادی اور رہنما نہیں ہے ، اور اس نے جس کی رہنمائی کی وہ کبھی گمراہ کرنے والا نہیں بن سکتا ۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ اﷲکے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے ، اور محمد( صلی اللہ علیہ وآلہ) اس کا بندہ اور رسول ہے۔
خدا کی حمد و ثنا اور شھادت توحید کے بعد فرمایا! اے لوگو! اللہ نے مجھے خبر دی ہے کہ میں جلدی دعوت حق کو لبیک کہوں اور تمہارے درمیاں سے چلا جاؤں۔ تم لوگ بھی اپنی مسئولیت کے حساب سے جواب دہ ہو اور میں بھی جواب دہ ہوں ۔ اس کے بعد فرمایاکہ :
یا ایھا الناس! واﷲ ما من شیئٍ یقرّبکم من الجنۃ و یباعدکم من النار الا وقد امرتُکم به،و ما من شیئٍ یقرّبکم من النار و یباعدکم من الجنۃ الا وقد نھیتکم عنه۔
(اے لوگو! کوئی چیز نہیں ہے جو آپ کو جنت کے نذدیک اور جہنم سے دوررکھ سکے ،مگر یہ کہ میں نے آپکو اسکا حکم دیا ہو اور کوئی چیز نہیں ہے جو آپ کو جنت سے دور رکھے اور جہنم کے نذدیک کر لے مگر یہ کہ میں نے اس سے آپکو منع کیا ہو۔)
لوگوں سے سوال کرتے ہوئے فرمایا:
میرے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے ؟! کیا میں نے آپ لوگوں کے نسبت اپنی ذمہ داری کو پورا کردیا ہے ؟
یہ سن کر پورے مجمع نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کی خدمات کی تصدیق کی اور کہا کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے بہت کوشش کی اور اپنی ذمہ داری کو پورا کیا ، اﷲ آپ کو اس کا اچھا اجر دے ۔
حبیب خدا پیغمبر آخرالزمان صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا: ” کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اس پوری دنیا کا معبود ایک ہے اور محمد اس کا بندہ اور رسول ہے اور جنت ، جہنم اور آخرت کی جاودانی زندگی میں کوئی شک نہیں ہے ؟! اور اللہ مردوں کو زندہ کرے گا اور سب سچ اور آپکا اس پر اعتقاد ہے ؟
سب نے کہا کہ صحیح ہے ہم گواہی دیتے ہیں ۔
اس کے بعد رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا: اے اللہ گواہ رہنا۔
اس کے بعد فرمایا:
میں سب سے پہلے آخرت میں حوض کوثر پر پہنچ جاؤں گا اور تم حوض کوثر پر مجھ سے ملنے آو گے۔ میرے حوض کی وسعت صنعاء سے بصری تک ہے اور وہاں قدحوں اور جاموں کی تعداد ستاروں کے مانند ان گنت ہوں گے۔ اس لئے ہوشیار رہیں میں اپنے پیچھے دو سنگین چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ، اب دیکھوں گا کہ ان کے ساتھ کیسا رفتار کرو گے ؟!
اس وقت ایک شخص کھڑا ہوا اور بلند آواز میں سوال کیا کہ ان دو اہم چیزوں سے کیا مراد ہے ؟
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا کہ :
ایک اﷲ کی کتاب ہے جس کا ایک سرا اﷲ کی قدرت میں ہے ۔اور دوسرا تمھارے ہاتھوں میں ۔
اور دوسرے میری عترت اہلبیت (علیہم السلام) ہیں ۔
اﷲ نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے جب تک نہ مجھ سے حوض کوثر پر ملاقات کریں گے ۔
اے لوگو خبردار!قرآن اور میری عترت پر سبقت نہ کرنا ، اور دونوں کے حکم کی تعمیل میں کوتاہی نہ کرنا ، ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے۔
اس وقت حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ پکڑ کر اتنا اونچا اٹھایا کہ دونوں کی بغلوں کی سفیدی سب کو نظر آنے لگی ۔
علی علیہ السلام سے سب لوگوں کو متعارف کرایا ۔ اس کے بعد فرمایا :
مومنین پر خود ان سے زیادہ سزاوار کون ہے ؟!
سب نے کہا: اﷲ اور اﷲ کا رسول زیادہ جانتے ہیں ۔
پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا : " اﷲ میرا مولی ہے اور میں مومنین کا مولا ہوں اور میں ان کے نفسوں پر ان سے زیادہ حق تصرف رکھتا ہوں ۔ " ہاں اے لوگو! " من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ " جس جس کا میں مولا ہوں اس اس کے علی مولا ہیں۔
اس بات کو تین بار دوہرایا امام احمد بن حنبل کے مطابق اس بات کو آنحضرت نے چار بار دوہرایا۔ ا۔اسکے بات دعا فرمائی:
اللھم وآل من والاہ ، و عاد من عاداہ و احب من احبه و ابغض من ابغضه و انصر من نصرہ و خذل من خذله و ادر الحق معه حیث دار.
اے اﷲ اسکو دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے اور اس کو دشمن رکھ جو علی کو دشمن رکھے ، اس سےمحبت کر جو علی سے محبت کرے اور اس پر غضبناک ہو جو علی پر غضبناک ہو ، اس کی مدد کر جو علی کی مدد کرے او ر اس کو رسوا کر جو علی کو رسوا کرے او ر حق کو ادھر موڑ دے جدھر علی مڑیں ۔
اسکے بعد فرمایا ؛ حاضرین غابین تک اس بات کو پہنچائیں ۔
ابھی لوگ متفرق نہ ہوئے تھے کہ ایک اور آیت نازل ہوئی:
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَ رَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِينا"(مائدہ/3) ۔
اس پر آنحضرت نے فرمایا:اللہ اکبر ، اللہ نے دین کی تکمیل اور اتمام نعمت اور میری رسالت اور میرے بعد علی کی ولایت پر خشنودی کا اعلان کیا ہے۔
اس کے بعد مبارکبادی کا سلسلہ شروع ہوا۔
غدیر خم کا واقعہ ایسا تاریخی واقعہ ہے کہ جس کے بارے میں عالم اسلام کے تمام محققوں ، راویوں ، محدثوں ، مفسروں ، متکلموں ، خطیبوں ، شاعروں ، مورخوں ،اور سیرت نگاروں نے خاصی اہمیت کے ساتھ بیان کیاہے۔
علّامہ شیخ عبدالحسین امینی نے غدیر خم سے متعلق روایات کو جمع کیا ہے جو کہ گیارہ زخیم جلدوں پر مشتمل الغدیر کے عنوان سے موسوم ہے۔
اگر کہیں کہ دنیا میں ایسے تاریخی واقعات بہت کم ہیں جو غدیر خم کی طرح محققوں کی توجہ کا مرکز بنے ہوں مبالغہ نہ ہوگا ۔
غدیر خم کے حدیث کے جاودانی ہونے کی ایک علت یہ ہے کہ اس واقعہ سے متعلق دو آیتیں قرآن کریم میں موجود ہیں، اور جب تک قرآن ہے تب تک حدیث غدیر بھی ہے ۔
تاریخ کے مطالعہ سے ایک بڑی دلچسپ بات سامنےآتی ہے اور وہ یہ کہ اٹھارویں ذی الحجۃ الحرام کو مسلمان بالعموم عید کے طور پر مناتے تھے۔
ابن خلقان اور ابوریحان بیرونی سے لیکر عالم اسلام کے معروف عالم ثعلبی نے بھی غدیر کو امت مسلمہ کے درمیاں مشہور شبوں میں شمار کیا ہے ۔
اس اسلامی عید کی بنیاد پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں ہی پڑگئی تھی کیونکہ آپ نے اس دن تمام مہاجر ، انصار اور اپنی ازواج کو حکم دیا کہ علی علیہ السلام کے پاس جاؤاور امامت و ولایت کے سلسلے میں ان کو مبارکباد دو۔
زید بن ارقم کہتے ہیں کہ : حضرت ابوبکر، حضرت عمر ، حضرت عثمان ، طلحہ اور زبیر مہاجرین میں سے وہ افراد تھے جنہوں نے سب سے پہلے حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی اور مبارکباد پیش کی ۔ بیعت اور مبارکبادی کا یہ سلسلہ مغرب تک چلتا رہا ۔ غدیر خم کے واقعے کو ایک سو دس اصحاب رسول نے نقل کیا ہے ۔صاحب کتاب الغدیر کے مولف کے مطابق علمای اہل سنت کے معتبر کتابوں میں حدیث غدیر کو ایک سو دس راویوں نے بیان کیا ہے ۔ دوسری صدی میں جس کو تابعین کا دور کہا گیا ہے ان میں سے اناسی افراد نے اس حدیث کو نقل کیا ہے ۔ بعد کی صدیوں میں بھی اہل سنت کے تین سو ساٹھ علماءنے اس حدیث کو اپنی کتابوں میں بیان کیاہے اور علماءکی ایک بڑی تعداد نے اس حدیث کی سند کوصحیح تسلیم کیا ہے ۔ اس گروہ نے نہ صرف یہ کہ اس حدیث کو بیاں کیا بلکہ اس حدیث کی سند اور افادیت کے بارے میں مستقل طور کتابیں بھی لکھی ہیں۔
عجیب بات یہ ہے کہ عالم اسلام کے سب سے بڑے مورخ طبری نے " الولایت فی طرق حدیث" نامی کتاب لکھی اور اس حدیث کو پچتھر طریقوں سے پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیاہے ۔
ابن عقدہ کوفی نے اپنے رسالہ "ولایت" میں اس حدیث کو ایک سو پانچ افراد سے نقل کیا ہے ۔
ابوبکر محمد بن عمر بغدادی جوکہ جمعانی کے نام سے مشہور ہیں انہوں نے اس حدیث کو پچیس طریقوں سے بیان کیا ہے ۔
حدیث غدیر کو مشہور علماءاہل سنت : حضرات احمد بن حنبل شیبانی، ابن حجر عسقلانی ، جزری شافعی ، ابوسعید سجستانی ، امیر محمد یمنی ، نسائی ابوالاعلاءہمدانی اور ابوالعرفان حبان نے اس حدیث کو بہت سی سندوں کے ساتھ نقل کیا ہے ۔
روز عید است و ہمان به که سلام تو کنیم
مطلع الفجر دل خویش بنام تو کنیم
جانشینی محمد به تو فرخندہ بود
عھد تجدید ، در این بیعت عام تو کنیم
عید سعید غدیر مسلمانان عالم کو بالعموم اور مسلمانان کشمیر کو بالخصوص مبارک ہو ۔
عبدالحسین کشمیری
Add new comment