عظمت عید غدیر ائمہ علیہم السلام کی نظر میں

کسی بھی قوم اور ملت کے درمیان، جو دن عید قرار پاتا ہے اس کا بنیادی عنصر، ایک سعادت بخش اور مسرت انگیز واقعہ ہوتا ہے جو کسی بھی وقت رونما ہوکر اس دن کو تمام دنوں سے ممتاز کر دیتا ہے ، اسی وجہ سے لوگ اس دن کو عید کا دن قرار دیتے ہوئے اپنے آئین اور رسومات کے

اسلامی ثقافت میں اس بنیادی عنصر کو نعمت الہی کہا جاتا ہے جو انسان کی سعادت اور خوشبختی کا با عث ہوتے ہوئے اس دن کو عید کی حیثیت دے دیتا ہے 

جس کے نتیجے میں ہر انسان پر یہ لازم ہوتا ہے کہ اس نعمت کے عطا کرنے والے کا شکریہ بجا  لائے اور ہر سال اس دن کو اس کے آداب کے ساتھ زندہ رکھے، اس معیار کے مطابق غدیر ہی ایک ایسا دن ہے جو تمام دنوں اور عیدوں سے افضل اور با عظمت دن ہے کیونکہ اس دن دین الہی کامل ہوا اور اس کی نعمتیں پوری ہوئیں․ اس بات کے روشن ہونے کیلئے مختصر تاریخ کا احوال ذکر کرتے ہیں جو اس طرح ہے کہ:

پیغمبر اسلام ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کی عمر کے آخری مھینے، رحمت کے بادل کی طرح لوگوں کے سر سے گذر رہے تھے اور خانہ خدا کے ھزاروں مہمانوں کے ساتھ حجۃ الوداع انجام دینے کے بعد واپس پلٹ رہے تھے، جب جحفہ کے نزدیک غدیر خم کے مقام پر پہچے تو ناگھاں رک جانے کا حکم دیا، جس کے بعد لوگ بلند آ واز سے ان لوگوں کو رکنے کی دعوت دے رہے تھے جو قافلے کے آگے آگے تھے، اور جو پیچھے رھ گئے تھے ان کا انتظار کیا جارہا تھا ،گرمی کی شدت اتنی تھی کہ گویا سورج سوا نیزے پر تھا اور ایسے صحرا میں نہ تو سایبان تھا اور نہ ہی سبزہ درخت․ اس توقف کا سبب وحی الہی تھی جو پیغمبر اکرم  ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )  پر نازل ہوئی، اور ارشاد رب العزت ہوا :

(یا ایھا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک و ان لم تفعل فما بلغت رسالتہ واللہ یعصمک من الناس ان اللہ لایھدی القوم الکافرین۔۱۔)

 (ای پیغمبر ! آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آ پ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نھیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا کہ اللہ کافروں کی ھدایت نھیں کرتا ہے)

حاجیوں کے اس عظیم اجتماع کے بعد جب نماز ظھر ادا ہوگئی تو پیغمبر اسلام  ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کیلئے اونٹوں کے پالانوں کا منبر بنایا گیا جس پر رسول خدا (ص) کھڑے ھوگئے اور کھڑے رہنے کا انداز بھی ایک خاص کیفیت کا تھا ، کیونکہ حضرت(ص) چاہ رھے تھے کہ خدا کی جانب سے بہیجا ہوا پیغام ان تک پہنچائے اور اپنے آ خری حج میں ان سب کو بتلائے کہ رسالت کے خلا کو امامت پر کرے گی اور تم لوگ میرے وصی کی رھبری میں ھمیشہ سعادت پاوٴگے اور وہ دین کا پرچم دار ہوگا جو تم کو نجات کے کنارے تک پہنچائے گا، اور پھر اسی وقت حضرت (ص) نے اپنے جانشین کے عنوان سے علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی امامت کا اعلان کیا جس اعلان سے موٴمنین خوشحال ہوئے اور کفار و منافقین مایوس ہو گئے اور دین کامل ہو گیا: ۔۲ ۔

(الیوم یئس الذین کفرو من دینکم فلاتخشوھم اخشون الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دینا ۔۳۔)

(اور کفار تمہارے دین سے مایوس ہوگئے ہیں لھذا تم ان سے نہ ڈرو ․آج میں نے تمھارے لیے دین کو کامل کردیا اور اپنی نعمتوں کوتمام کردیا ہے اور تمھارے لیے دین اسلام کو پسند یدہ بنادیا ہے۔)

یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ غدیر ایک تاریخی حیثیت ہی نہیں رکھتا بلکہ غدیر ایک تفکر اور ایک عقیدہ ہے اور ایک ایسا نشان ہے جو رسالت کے سلسلے کے آگے بڑھنے کی حکایت کر رہا ہے ، جس دن دین کامل ہوا اور نعمتیں تمام ہوگئیں یہی راز اور رمز ہے غدیر تمام عیدوں سے افضل اور با عظمت ہونے کا ۔ کیونکہ اس دن کو رونما ہونے والے اس واقعہ نے قیامت تک انسان کیلئے ایک سعادتمندانہ زندگی کی ضمانت دے دی۔

عید غدیر سنت پیغمبر (ص)

عید غدیر کا آ غاز پیغمبر (ص) کے زمانے سے شروع ہوا، اور حقیقت میں اس عید کے موٴسس خود پیغمبر اکرم (ص) ہی ہیں ، اس لیے کہ جب غدیر خم میں اپنے آخری حج کے بعد حاجیوں کے اجتماع میں علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو ایک خاص خیمہ میں بٹھایا اور حاضرین کو جس میں شیخین اور قریش وانصار کے بڑے لوگ موجود تھے ، حکم دیا کہ علی علیہ السلام کے پاس جائیں ، ان کی بیعت کریں اور ان کو خدا کی طرف سے مقام امامت پر فائز ہونے کی مبارک دیں ،

 اور اسی طرح اپنی بیویوں کو بھی حکم دیا کہ وہ بھی علی ع کی بیعت کریں اور اسے مبارک باد کہیں ․۔۴۔

اس اھتمام کے بعد خود حضرت(ص) بھی اتنے خوشحال تھے کہ فرمایا: (الحمد للہ الذی فضلنا علی العالمین) 

اور اس دن کو تما م مسلمانوں کیلئے افضل اور عظیم ترین عید اسلامی قرار دیا ․جیسا کہ فرمایا : 

(یوم الغدیر افضل اعیاد امتی وھو الیوم الذی امرنی اللہ تعالی ذکرہ بنصب اخی علی بن ابی طالب علما لامتی یھتدون بہ من بعدی وھو الیوم الذی اکمل اللہ فیہ الدین واتمم علی امتی فیہ النعمۃ ورضی لھم الاسلام دینا۔۵۔)

غدیر کا دن میری امت کے افضل ترین عیدوں میں سے ہے ، یہ وہ دن ہے کہ جب کہ خداوندمتعال نے مجھے حکم دیا کہ اپنے بھائی علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو اپنی امت کیلئے پرچم ھدایت کے عنوان سے منصوب کروں تا کہ میرے بعد اس کے ذریعے سے رھنمای پائیں اور یہ وہ دن ہے کہ جس دن خدا نے  دین کو کامل کیا اور نعمت کو میری امت پرتمام کیا اور ان کیلئے دین اسلام کو پسند کیا․

حضرت نے اس دن کو عید قرار دینے کے بعد لوگوں سے کہا کہ مجھے مبارک دو ․ جیساکہ فرمایا:

(ھنئونی، ھنئونی ان اللہ تعالی خصنی بالنبوۃ وخص اھل بیتی بالامامۃ)۔۶۔

مجھے مبارک دو ، مجھے مبارک دو ، خداوند متعال نے مجھے نبوت کے ساتھ اور میری اھل بیت علیہم السلام کو امامت کیساتھ مخصوص کردیا․

اس دن کا عید ہونا اتنا واضح تھا کہ یھودیوں کے ایک گروہ نے عمر بن خطاب سے کہا: تم اپنی آسمانی کتاب میں ایک آیہ کی تلاوت کرتے ہو اگر یہ آیت ہم یھودیوں پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید مناتے، ۔۷۔ عمر نے پوچھا !تمھاری مراد کونسی آیت ہے تو یھودیوں نے کہا: آیہ (الیوم اکملت لکم دینکم و۔۔۔)عمر نے کہا خدا کی قسم ! میں جانتا ہوں کہ یہ آیہ کس دن اور کس وقت پیغمبر اسلام (ص) پر نازل ہوئی․ ۔۸۔

عید غدیر و ائمہ اطہارعلیھم السلام :

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کے بعد ائمہ اطہار بھی اس دن کو عید کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور ھمیشہ اس دن کو عید منانے اور خوشی کا اظھار کرنے کا حکم دیتے تھے اور اس دن کو عید اھلبیت کہا ہے ․ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ائمہ اطھار کی سیرت میں بھی یہ دن بڑی عظمت اور فضیلت کاحامل رہاہے 

حضرت امیر المو منین علیہ السلام 

امیر الموٴمنین اپنے ایک خطبہ میں جس سال جمعہ کا دن غدیر کے دن سے مصادف ہوا، فرماتے ہیں: 

(․․․ثم ان اللہ تعالی جمع لکم معشرالموٴمنین فی ھذا الیوم عیدین عظیمین کبیرین․․․)

․․․آج کے دن خداوند متعال نے آپ موٴمنین کیلئے دوبڑی با عظمت عید وں کو جمع کیا ہے ․․․ تاکہ تم پر اپنا احسان مکمل کرے اور تمہیں کمال کی منزل تک پہنچائے اور تمہیں ان کے پیچھے قرار دے جنہوں نے اس کی ھدایت کے نور سے روشنی پائی ہے ۔ اس اجتماع کے اختتام پر اپنے گھروں کو لوٹ جاوٴ اور اپنے گھر والوں کے معاش کو وسعت دو ، اور اپنے موٴمن بھائیوں سے نیکی کرو اور خداوند متعال کا اس نعمت کے بارے میں شکریہ بجالاوٴ جو تمہیں عنایت کیا ہے․آج کے دن کاثواب گذشتہ اور آیندہ آنے والی تمام عیدوں کے برابر قرار دیا ہے اس دن نیکی کرنا تمہارے مال میں اضافے کا باعث ہوگی اور عمر کو طولانی کریگی اس دن ایک دوسرے سے محبت کرنا ، رحمت الہی کا باعث ہوگی ، جھاں تک تمھارے لیے ممکن ہو خود کو اپنے گھر والوں اور برادران ایمانی کیلئے صرف کرو اور میل ، ملاقات کے وقت خوشی کا اظھارکرو․۔۹۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام 

امام صادق علیہ السلام علیہ السلام بھی غدیر کے دن کو دوسری تمام عیدوں سے افضل قرار دیتے ہیں جیسا کہ فرات بن احنف روایت کرتاہے کہ میں نے امام صادق علیہ السلام  کی خدمت میں عرض کی کہ : میری جان آپ پر فدا ہو ! آیا مسلمانوں کیلئے عید فطر ، عید قربان ، جمعہ، اور عرفہ کے دن کے علاوہ کوئی دوسرا عید کا دن بھی ہے؟

امام نے فرمایا: ھاں ! خداوند متعال کے نزدیک تمام عیدوں سے افضل اور با عظمت وہ دن ہے جب خدا نے دین کو کامل کیا اور اپنے پیغمبر پر یہ آیہ نازل فرمائی الیوم اکملت․․․۔میں نے کہا وہ کونسا دن ہے؟ فرمایا: جب بھی بنی اسرائیل کے پیغمبروں میں سے کسی نے چاھاکہ اپنا جانشین معین کرے اور پھر معین کیا تو اس دن کو انہوں نے عید کا دن قرار دیا ․یہ دن بھی وہ دن ہے کہ جب پیغمبر اسلام (ص) نے علی ابن ابی طالب علیہ السلامکو اس امت کا ھادی قرار دیا اور یہ آیہ نازل ہوئی اور دین کامل ہوا اور خدا کی نعمت موٴمنوں پر تمام ہوگئی․

میں نے کہا : وہ دن سال کا کونسا دن ہے فرمایا : دن تو آگے پیچھے ہوتے رہتے ہیں ․․․میں نے کہا : اس دن کونسا کام انجام دینا چاھیے؟ فرمایا : وہ دن عبادت کا دن ہے ، نماز اور شکر بجالانے ، خدا کی حمد و ثناء اور خوشی منانے کا دن ہے․․․ ۔۱۰۔

اسی طرح ایک اور روایت میں بھی امام صادق علیہ السلام  غدیر کے دن روزہ رکھنے اور محمد و آل محمد پر درود بھجنے اور ان لوگوں سے جدائی کا حکم دیتے ہیں جنہوں نے آل محمد بر ظلم و ستم کیا ، اور اس دن کو تمام عیدوں سے افضل قرار دیتے ہیں․ ۔ ۱۱۔

حضرت امام رضا علیہ السلام 

وحی الہی کے امین امام رضا علیہ السلام بھی اس دن کو عید اھلبیت قرار دیتے ہوئے تمام عیدوں سے افضل قرار دیتے ہیں اور اس عید سعید غدیر کے بارے میں ایک خطبہ ارشاد فرماتے ہیں جس کے طولانی ہونے کی وجہ سے فقط کچھ مھم مطالب آپ کیلئے بیان کرتے ہیں ، امام علیہ السلام خطبہ کے ابتدا ء میں یوں فرماتے ہیں :

(ان یوم الغدیر بین الاضحی والفطر والجمعہ کالقمر بین الکواکب)

۔یقینا غدیر کا دن ، عید قربان ، فطر اور جمعہ کے درمیان ایسا ہے جیسے چاند ستاروں کے بیچ میں․․․ ۔

پھر امام ع فرماتے ہیں :

۔ غدیر کا دن کمال (اور معنوی بلندی) پانے کا دن ہے اور شیطان کا اپنی ناک زمین پر رگڑنے کا دن ہے، غدیر شیعوں اور آل محمد (ع) سے محبت رکھنے والوں کے اعمال کی قبولیت کا دن ہے․․․ ۔

اور امام اس دن کو عید اھلبیت کہتے ہوئے فرماتے ہیں :

۔ غدیر کا دن نیک اعمال میں سبقت کرنے ار محمد و آل محمد(ع)  بر کثرت سے درود پڑھنے کا دن ہے غدیر خداوند متعال ، ملائکہ ، انبیاء اور اوصیاء کی خوشنودی کادن ہے اور اھل بیت کی عید کا دن ہے ․ 

اور پھر آگے امام علیہ السلام فرماتے ہیں:

 غدیر کا دن ، تھنیت اور مبارک باد دینے کا دن ہے اور جب ایک موٴمن دوسرے موٴمن سے ملاقات کرے تو یہ کہے: الحمد للہ الذی جعلنا من المتمسکین بولایۃ امیر الموٴمنین والائمۃالمعصومین۔

اور فرمایا : غدیر اھل ایمان کے چھروں پر تبسم کا دن ہے․ ۔ ۱۲۔

حضرت امام ھادی علیہ السلام 

غدیر کا دن عید کا دن ھے اور اھل بیت علیھم السلام اور ان سے محبت کر نے والوں کے نزدیک عیدوں میں سب سے افضل شمار کیا جاتا ھے 13

ائمہ علیھم السلام کے ان بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ ان کی سیرت میں بھی غدیر مسلمانوں کی افضل اور عظیم ترین عید اسلامی ہے اور یہ ایک ایسا دن ہے جس دن انسان اپنی معنوی زندگی کو ارتقاء دیتا ہوا کمال کی بلندیوں تک جا سکتا ہے اس لیے کہ یہ وہ دن ہے کہ جس دن شیطان اپنی ناک زمین پر رگڑرہا ہے اور دن کا اجر و ثواب اتنا عظیم قرار پا گیا ہے جس کا مقایسہ کسی ایک عید سے نھیں بلکہ بہت ساری عیدوں سے کیا جا سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ ائمہ علیہم السلام نے اس دن کو تمام عیدوں کے درمیان چاند سے تشبیہ دی جو ستاروں میں اس طرح کھڑا ہوتا ہے گویا ستاروں نےاپنا نور اس سے کسب کیا ہو، اور ائمہ اطھار نے اس دن کے آداب بیان کرکے اسے اور بھی با عظمت بنا دیا اور اسکے ہمیشہ زندہ رہنے کا سامان فراھم کردیا ۔ لھذا ہمیں چاھیے کہ ان کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے اس دن کو عید کے طور پر منائیں اور خوشیاں کریں اور ہر سال اسکے تمام آداب کو انجام دے کر اس دن کو زندہ رکھیں․

-------------------------------------

حوالہ جات :

۱․ سورہ مائدہ ۔آیہ ۶۷۔

۲․ الغدیر ج ۱  ، ص ۲۷۲ ۔۲۷۳ 

۳۔ابن مغازی ، مناقب ص ۱۹   اور فرائدالسبطین ج ۱ ص ۷۳ باب ۱۲ 

۴۔ تاریخ روضۃ الصفا ج ۱ ، ص ۵۴۲ 

۵۔ بحارالانوار ، ج ۳۷ص ۱۰۹  

۶ْ۔ الغدیر ج ۱  ، ص ۲۷۴ 

۷۔ انکم تقرون آیۃ فی کتابکم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

8۔ درالمنثور  ، ج ۲ ، ص۲۵۸ 

۹ ۔ مصباح المجتھد ص ۵۲۵  

۱۰۔ تفسیر فرات کوفی ، ج ۱۲۳ ،ص ۱۱۷ 

۱۱۔ کافی ، ج ۱ ، ص ۲۰۳ 

۱۲۔ اقبال الاعمال ص ۴۶۴ 

13 عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۲۲۶۔

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمه مفتی جعفر حسین  

Add new comment