آیہٴ” ساٴل سائل۔۔۔“ کتب اھل سنت کی روشنی میں

کسی بھی واقعہ کی اھمیت اور اسکی صداقت اس وقت مسلّم ھو جاتی ھے جب منکر خود مدعی بن جائے ایسی صورت میں صدیوں سے چلتاجھگڑا لمحوںمیں ختمھو جاتا ھے، اگر چہ بعض لوگ باطنی عناد اور ھوا وھوس کی بنا پر حقائق سے آگاہ ھوتے ھوئے بھی نہ ماننے کی قسم کھا لیتے ھیں اور

ھیں خواب میں ھنوز جو جاگے ھیں خواب میں

جب ایسی صورت حال ھے تو اھل علم و قلم کی ذمہ داری ھے کہ وہ حقائق کو ان پرروشن کریں اور وہ چشمہٴ علم جو خود ان کے گھر میں موجود ھے اسکی جانب راھمنائی کریں،غدیر بھی ایک ایسی ھی زندہ حقیقت ھے کہ جس کو فراموش کرنا تاریخ کے بَس کی بات نھیں  اگر واقعہ غدیر کسی  یَکّا،دکّا کتابوں میں لکھا ھو تا تو شاید مختلف انداز سے تحریف کے ذریعہ’ ’سپرد طاق نسیان“ کر دینا ممکن ھوتا مگر جب کتاب حق قرآن مجید کی مختلف آیتیں حقیقت غدیر کی ترجمان بن جائیں تو پھراس  پر کوئی حرف آنھیں سکتا چنانچہ ”ساٴل سائل  بعذاب واقع“ وہ آیہ کریمہ ھے جو واقعہ غدیر کے پس منظر میں نازل ھوئی ھے اور جس کا اھل سنت کے بزرگ علماء و مفسرین نے بڑی  شدّو مد کے ساتھ اقرارکیا ھے۔

آیت کی شان نزول

بہت سے مفسرین اور ارباب حدیث نے اس آیہ کریمہ کی شان نزول کچھ یوں بیان کی ھے کہ جس وقت پیغمبرنے حجة الوداع سے واپسی کے موقعہ پر حاجیوں کی کثیر تعداد میں بحکم پروردگار مقام غدیر پر رُک کر حضرت علی (ع) کو اپنے خلیفہ و جانشین ھونے کا اعلان فرمایا تو دیکھتے ھی دیکھتے  یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح ھر شھر و دیھات میں عام ھو جاتی ھے یھاں تک کہ ’ ’ نعمان بن حارث فھری“ نامی شخص پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)اکرم کی خدمت میں آتا ھے اورکہتا ھے-:

اے خدا کے رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) !آپ نے ھمیں خدا کی و حدانیت اور اپنی نبوت کے اقرار کا حکم دیا ھم نے مانا آپ نے دستور جھاد دیا ھم نے تسلیم کیا آپ نے نماز روزہ حج وغیرہ کا فرمان جاری کیا ھم نے قبول کیا مگر آپ نے اس پر بھی اکتفا نہ کی اور اپنے بھائی علی (ع) کو اپنا خلیفہ وکو جانشین مقرر کردیا اور کھا: ”من کنت مولاہ فعلی مولاہ“اے رسول! سچ بتائیے یہ آپ کا کام ھے یا خدا کا فیصلہ؟ پھر اس کے بعد یہ کہتا ھے :

”اللھم ان کان ھذا  ھوالحق من عندک فامطر علینا حجارة من السماء“

” خدایا اگریہ تیری جانب سے حق ھے تو ھم پر آسمان سے پتھر برسا ! دیرنہ گزری کہ آسمان سے ایک پتھر اس پر گرتا ھے اور وہ وھیں ڈھیر ھو جاتا ھے۔

بس اسی وقت رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر یہ آیتں نازل ھو تی ھیں”سئل سائل بعذاب واقع ان للکافرین لیس لہ دافع ایک سائل نے واقع ھونے والے عذاب کا سوال کیا جس کا کافروں کے حق میں کوئی دفع کرنے والا نھیں ھے۔“(۱)

یہ وہ واقعہ ھے جسے مذکورہ آیہٴ کریمہ کے ذیل میں تمام شیعہ مفسرین کے علاوہ کئی ایک اھل تسنن کے مشھور و معروف مفسرین و محدثین نے بھی اپنی اپنی کتابوں میں مختلف طریقوں سے نقل کیا ھے:

( طبرسی، مجمع البیان،ج ۱،ص ۵۲۶ و ۵۳۰ ؛ حاکم حسکانی شواھد التنزیل‘ ج۲،ص۲۸۶؛  آلوسی،تفسیر روح المعانی،ج۲۹‘ص ۵۵۔)

غوّاص غدیر علامہ امینی نے بھی اپنی کتاب -”الغدیر“ میں اھل سنت کے ان جلیل القدر علماء‘ محدثین‘ مفسرین اور مورخّین کے ناموں کو ان کی کتابوں کے حوالوں کے ھمراہ ذکر کیا ھے جنھوں نے حدیث غدیر کو نقل کر نے کے ساتھ ساتھ اس حقیقت کا بھی اعتراف کیا ھے کہ سور ہ معارج کی مذکورہ آیتوں کا تعلق واقعہٴ غدیر سے ھے،اگر چہ ان کی فھرست بڑی طویل ھے مگر اختصار کو مد نظر رکھتے ھوئے یھاں پر صرف چند ناموں پر اکتفا کی جاتی ھے:

۱۔ابو عبد اللہ زرقانی مالکی ‘ شرح المواھب اللدنیہ۔

۲۔ابراھیم وصابی؛  الاکتفاء فی فضل الاربعة الخلفاء۔

۳۔ محمد زرندی ،نظم درر السمطین فی فضائل المصطفیٰ و المرتضیٰ وا  لبتول و السبطین۔

۴۔ شھاب الدین دولت آبادی،ھدایة السعداء۔

ّ۵۔ابن صباغ ،الفصول المھمة فی معرفة الائمة

۶۔مناوی ،  فیض القدیرفی شرح جامع الصغیر ۔

۷۔احمد شافعی، وسیلة المآل فی عد مناقب الآل۔

۸۔ محمد صدر عالم، معارج العلی فی مناقب المرتضی

۹۔محمد بن اسماعیل، روضة ندیہ فی شرح تحفة علویہ۔

۱۰۔ شیخ الاسلام؛ حموی فرائد السمطین۔

۱۱۔احمد بن عبد القادر شافعی، ذخیرة المآل۔

۱۲۔برھان الدین علی حلبی،سیرة حلبیہ۔ ( علامہ امینی، الغدیر، ج۱،ص ۲۳۹تا۲۴۶ کے حوالے سے )

ان کے علاوہ اھل سنت کے بے شمار ارباب تاریخ و سیر نے مذکورہ حقائق کو اپنی اپنی کتابوں میں ذکر کیا ھے، اگر چہ اس واقعہ کے ذکر کے ذیل میں اس بات میں تھوڑا سا اختلاف پایاجاتا ھے کہ جو ولایت امیر کائنات کا انکار کر کے طالب عذا ب ھوا وہ حارث بن نعمان فھری تھا یا نعمان بن منذر فھری یا پھر جابر بن منذر یا کوئی اور، ایسا ھی اختلاف علمائے ا مامیہ کے درمیان بھی نظر آتا ھے مگر اکثر کا اتفاق اس بات پر ھے کہ وہ طالب عذاب حارث بن نعمان فھری تھا، یہ واضح رھے کہ ایسے جزوی اختلاف سے اصل واقعہ کی حقیقت میں ذرہ برابر فرق نھیں آسکتا ھے کیونکہ ایسا اختلاف تاریخ و سیر کیلئے ایک معمو لی بات ھے۔

ان محدثین اور ارباب تاریخ و سیر کے علاوہ اھل سنت کے بہت سے ایسے مفسرین ھیں جنھوں نے مذکورہ آیہ کریمہ کو واقعہٴ غدیر سے مربوط جانا ھے ان میںسے معدودے نام قابل ذکرھیں:

۱۔ ثعلبی نیشاپوری، اپنی تفسیرالکشف والبیان میں مذکورہ آیہ کریمہ کے ذیل میں سفیان بن عیینہ سے روایت نقل کرتے ھوئے اس بات کا اعتراف کرتے ھیں کہ یہ آیہ کریمہ منکر ولایت علی (ع)حارث بن نعمان کے بارے میں نازل ھوئی ھے۔(۲)

۲۔حاکم حسکانی ؛اپنی تفسیر’ شواھد التنزیل‘ میں اس واقعہ کو پانچ طریق سے نقل کرتے ھیں ان میں سے چار طریق کے ناقل خود ائمہ اطھارعلیھم السلام ھیں مگر آخری روایت ابوھریرہ سے مروی ھے۔(۳)

( حاکم حسکانی،شواھد التنزیل،ج۲، ص ۲۸۶تا۲۸۹۔)

اور اسی طرح قرطبی نے اپنی کتاب ” الجامع لاحکام القرآن“ ج۱۸‘۲۷۸،آلوسی نے تفسیر روح المعانی ،ج ۲۹،ص۵۵، جلال الدین سیوطی نے تفسیر در منثور ۸،ص۲۷۷، زمخشری نےتفسیرکشاف،ج۴ص۶۰۸میں اور دیگرمفسروں نے بہت تھوڑے اختلاف کے ساتھ مذکورہ آیہ کریمہ کے ذیل میں حدیث غدیر کے بیان کے ساتھ منکر ولایت پر نزول عذاب کا اقرار کیا ھے۔

مذکورہ بالا سطور سے یہ بات روشن ھوجاتی ھے کہ تمام شیعہ علماء، محدثین، مورخین اور مفسرین کے علاوہ اکثر علمائے اھل سنت نے بھی اس حقیقت کا اعتراف کیا ھے کہ سورہ معارج کی مذکورہ آیتیں واقعہ غدیرکے پس منظر میں نازل ھوئی ھیں۔

مگر دوسری طرف ابن تیمیہ جیسے چند تنگ نظرافراد نے دیکھا کہ ”اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے“ تو اصل واقعہ غدیر کا صراحت کے ساتھ انکار تو نہ کرسکے مگر مختلف انداز میں شکوک و شبھات ایجادکرنے سے باز نہ آئے کبھی لفظ مولا کے معنیٰ و مفھوم میں اختلاف کیا تو کبھی آیات غدیر کی شان نزول و سبب نزول میں حقیقت سے دور انحرافی توجیھات کے ذریعہ ،دوبارہ اپنے مذھب کی بنیاد مضبوط کرنے کی سعی لا حاصل میں مصروف ھو گئے تا کہ کسی صوررت مذھب کا بھرم باقی رہ جائے۔ اس سلسلہ میں ابن تیمیہ نے تو علی (ع) سے دشمنی کی حد کردی آفتاب عالمتاب کی طرح روشن حقیقتِ غدیر پر پردہ ڈالنے کی کو شش میں منھمک ھو گئے اور اپنی کتاب ’ ’منھاج السنہ‘ ‘میں جو انھوںنے علامہ حلی کی کتاب ” منھاج الکرامہ فی معرفةالامامة ‘ ‘کی رد میں لکھی ھے مذکورہ آیہ کریمہ سے متعلق بے بنیاد باتوں کو نقل کر تے ھوئے حقیقت غدیر پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش کی ھے مگر بعد میں آنے والے علمائے حق نے ان کے اعتراضات کے جواب میں مستقل کتابیں تحریر کی ھیں ۔

مقالہ کے اختصار کے پیش نظر بطور نمونہ یھاں ابن تیمیہ کے صرف دو شبھات کو بیان کیا جا رھا ھے وہ اپنی کتاب منھاج السنہ میں یوں رقمطراز ھیں:

۱۔ غدیر کے واقعہ کا تعلق ۱۰ھ ق،سے ھے جبکہ سورہ معارج جو آیہ’ ’ سئل سائل بعذاب واقع“پر مشتمل ھے کا شمار مکّی سوروں میںھوتاھے جو ہجرتِ رسول سے پھلے نازل ھوا ھے۔ لہٰذا کیسے ممکن ھے کہ مذکورہ آیت غدیر سے متعلق ھو!

۲۔آیہ”و اذا قالوا الھم ان کان ھو الحق من عندک فا مطر علینا حجارة من السماء ‘‘یہ سورہ انفال کی ۳۲ویں آیہٴکریمہ ھے جس پر سب کا اتفاق ھے کہ جنگ بدر کے بعد نازل ھوئی ھے جب کہ واقعہ غدیر کا اس آیت سے کو ئی واسطہ نھیں ھے۔

ابن تیمیہ کے ان دو شبھات کے جواب میں بس اتنا عرض کرنا ھے کہ پھلے شبہ میںجو آپ نے کھا کہ سورہ معارج، مکی سورہ ھے تو اس بات سے ھمیں انکار نھیں ھے مگر علمائے علوم قرآن کے درمیان اس بات پر اتفاقِ رائے ھے کہ قرآن کریم میں بہت سے ایسے سورے موجود ھیںجو مکی کھلاتے ھیں با وجود اسکے کہ انکی بعض آیتیں مدینہ میں نازل ھوئی ھیں اور اسی طرح اس کے بر عکس بعض سورے مدنی کھلاتے ھیں مگر انکی ایک یا چند آیتوں کا مکہ میں نازل ھو نا تواریخ کی روشنی میں ثابت ھے اور یہ آیت بھی اسی شان کی حامل ھے۔

اب رھا دوسرا شبہ ابن تیمیہ کا دعویٰ اس مقام پر بھی صحیح ھے کہ شیعہ یا سنی مفسرین میں سے کسی نے بھی اس بات کا ادعا نھیں کیا کہ سورہٴ انفال کی مذکورہ آیت غدیر کے پس منظر میں نازل ھوئی ھے بلکہ سب کا اتفاق ھے کہ یہ آیت جنگ بدر کے بعد نازل ھوئی ھے مگر ھماری گفتگو سورہ معارج کی ابتدائی آیتوں کے متعلق ھے یہ اور بات ھے کہ حارث بن نعمان فھری ولایت علی(ع) کے انکار کے بعد رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے حضور میں سورہ انفال کی مذکورہ آیت کے ذریعہ طالب عذاب ھوا ،مگر افسوس کامقام ھے کہ ابن تیمیہ کی کوتاہ نظری  دیکھئے کہ سامنے کی چیز بھی دکھا ئی نھیں دی رھے ھے، ابن تیمیہ کے دیگر اعتراضات تو اس سے بھی زیادہ لغو اور بیھودہ ھیں انکی یہ ناکام کوشش اپنے مذھب کی بقا کے لئے بے بنیاد ثابت ھوئی، ان جیسے دیگر افراد کے بے بنیاد اعترضات سے واقعہٴ غدیر کی حقیقت پر کوئی حرف نھیں آتا،غدیر تو وہ زندہ حقیقت ھے جس کا اعتراف چودہ سو برس سے علماء، مفسرین، محققین، مورخین اور شعراء کرتے چلے آرھے ھیں،حقیقتِ غدیر کا انکار کرنے والے شاید یہ سوچ رھے ھوںگے کہ غدیر کا واقعہ صرف کتابوں کی حد تک محدود ھے جس نے صر ف صفحہٴ قرطاس پر اپنا نقش چھوڑا ھے،لہٰذا بے بنیاد باتوںسے اسکی حقیقت کو مٹایا جا سکتا ھے لیکن یہ ان کی بھول ھے، کیونکہ غدیر آج ایک مکتب فکر و عمل کا نام ھے، ھر موٴمن کے دل ودماغ پر غدیر کے اثرات نقش کا لحجر ھیں۔غدیر خون بنکر ان کی رگ و پئے میں دوڑ رھا ھے اب بھلا کون حقیقت غدیر کا انکار کرے ؟ !وہ تو افق اسلام پر آفتاب عالمتاب بنکر ھرشعبہٴ فکر و عمل میں ضیا پاشیاں کر رھا ھے اب اگر کوئی بے بصیرت اسکی نورانیت کو محسوس نہ کرے تو قصور غدیر کا نھیں ھے بلکہ خود اس کا ھے۔

...........................................

حواله :

(۱)سورہ معارج آیت  ۱  و  ۲۔

(۲)ثعلبی نیشاپوری الکشف البیان، ج۱۰، ص ۲۵۔

Add new comment