بعثت،غدیر اور ظہور امام مهدی (عج) کا رابطہ
ظھورِ ولایت کے تین اہم مواقع اور ان کا باہمی رابطہ .
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اس بات سے کسی کو انکار نہیں کے پوری ہستی کا سارا دار و مدار ولایت سے قائم ہے اور روح ولایت ذرہ ذرہ پر حاکم ہے۔ خداوند عالم نے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اس کا تذکرہ کیا ہے۔
تین ایسے مقامات ہیں جہاں ولایت کا ظہور بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔
پہلا مقام بعثت نبوی کا ہے،خداوند عالم نے اس کا ذکر یوں کیا "لقد منَّ الله على المؤمنين اذا بعث فیھم رسولا من انفسھم"(آل عمران ۱64) بے شک اللہ کا مومنین پر بڑا احسان ہے کہ ان ہی میں سے ایک رسول ان میں بھیجا۔
دوسرا مقام غدیر خم میں اعلان ولایت امام علی (علیہ السلام) کا ہے،اس کا ذکر قرآن میں اس طرح سے ہے "الیوم اکملت لکم دینکم و انعمت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دینا"(مائدہ ۳) آج میں نے تمہارے لیے دین کو کامل کر دیا اور تم پر نعمت تمام کر دی اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوں۔
تیسرا مقام ظہور قائم آل محمد(ص) ،اور اس کا تذکرہ خداوند عالم نے قرآن میں یوں کیا "و اشرقت الارض بنورربها"(زمر69) اور زمین اپنے پروردگار کے نور سے جگمگا اٹھے گی۔
ان تین مواقع کا باہمی رابطہ:
ان تین مواقع کا باہمی رابطہ:
دورانِ جاہلیت میں زندگی بسر کر رہے لوگ کرامت انسانی کے ہر امتیاز کو پامال کر رہے تھے،شرک میں ڈوبی ہوئی افکار میں توحید ناب کا کوئی تصور نہی تھا،انسانیت کے ملاک اور معیار ختم ہو چکے تھے،لڑکیوں کو زندہ بگور کیا جاتا تھا،ناموس کے احترام جیسی کوئی چیز نہ تھی،انسان کی جان و مال کی کوئی عزت نہی تھی،معمولی سی بات پر خون خرابہ اِس حد تک بڑہ جاتا تھا کہ پورا قبیلہ مرنے اور مارنے کو تیار ہوجاتا،کل ملا کر انسان جہالت کے گھنگور اندھیروں میں حیوانیت کی زندگی بسر کر رہا تھا ۔
ایسے پرآشوب زمانے میں رسول اکرم (ص) مبعوث ہوئے تاکہ مکارمِ اخلاق کو حد کمال تک پہونچائیں ،یہ ولایت الٰھی کا پہلا ظہور تھا نبوتِ محمدی کے نور سے زمانہ اجاگر ہوا اور ایک بار پھر انسان کو کھوئی ہوئی کرامت واپس مل گئی۔
لیکن زمانہ کو یہ عزت راس نہ آئی اور ختمی مرتبت(ص) کے آنکھ موندتے ہی لوگ دوران جاہلیت کی طرف پلٹ جگئے اور ایک بار پھر انسانی حقوق پامال ہونے لگے اوراس بار نئے طریقوں سے زیادہ شدت کے ساتھ اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔
لیکن حضرت حجۃ (عج) کے ظہور سے تمام انبیا کی زحمتیں پائے تکمیل پہونچیں گی۔ نورِ مہدوی (عج) سے دوبارہ تعلیمات محمدی کا احیا ہو گا۔
لیکن یہ طولانی مدت جو بعثت اور ظہور مہدی (عج) کے بیچ کا عرصہ ہے لازم ہے کہ اس مدت کے لئے کوئی خاص انتظام ہو ،جس کے ذریعہ مومنین کو ہمت ملتی رہے اور ہدایت کے طالبین کے لئے صراط مستقیم واضح رہے، لہذا غدیر خم میں ولایت امیر المومنین علی بن ابی طالب (علیہ السلام) کا اعلان کیا گیا۔ یعنی ولایت حضرت امیر (ع) وہ حلقہ ہے جو ظہور ولایت کو کمال ولایت سے جوڑے ہوے ہے،اور مومین کے کئے حبل اللہ المتین ہے۔
اور ان تینوں ولایتوں کا اصلی محور ذات باری تعالی ہے جسکی واضح نشانی زمین پر بیت اللہ ہے۔ اسی لیے رسول خدا (ص) نے اپنی دعوت کا آغاز مکہ سے کیا چنانچہ آنحضرت خانہ کعبہ کے پاس آئے اور آواز دی "قولوا لاالہ الااللہ تفلحوا"(۱)۔ حضرت امیر (ع) کی ولایت کا اعلان بھی حج کے بعد مکہ مکرمہ کے قریب ہوا "من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ"(۲)۔ اور جب حضرت امام مھدی (عج) ظہور فرمائیں گے تو آپ بھی خانہ کعبہ سے ٹیک لگا کر صدا دیں گے"بقیۃ اللہ خیر لکم ان کنتم مومنین۔۔۔و وانا بقیۃ اللہ"۔ اس دن یہ زمین شرک سے پاک ہوجائے گی اور نظام توحیدیِ ناب رواں دواں ہو گا۔
تحریر: مولانا سید علی عباس رضوی (حوزہ علمیۃ قم)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حواله جات
(۱)بحار الانوار ج۱۸ ص۲۰۲
(۲)بحار الانوار ج۳۷ص۱۰۸
Add new comment