واقعہ غدیر، روز اکمال دین اوراتمام نعمت

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی تبلیغ رسالت کے تیئیس برسوں کے دوران بڑی زحمتوں ، مشقّتوں اور مصیبتوں کا تحمل کرتے ہوئے اسلام کا درخت لگایا۔ پیغمبر اکرمۖ نے اس عرصے میں بے پناہ رنج ومصا ئب برداشت کیے لیکن تبلیغ رسالت کے حوالے سے اپنے فریضے ک

واقعہ غدیر، روز اکمال دین اوراتمام نعمت

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی تبلیغ رسالت کے تیئیس برسوں کے دوران بڑی زحمتوں ، مشقّتوں اور مصیبتوں کا تحمل کرتے ہوئے اسلام کا درخت لگایا۔ پیغمبر اکرمۖ نے اس عرصے میں بے پناہ رنج ومصا ئب برداشت کیے  لیکن تبلیغ رسالت کے حوالے سے اپنے فریضے کی ادائیگی میں ایک لمحہ بھی کوتاہی و غفلت وسستی سےکام نہیں لیا۔سنہ دس ہجری میں ہاتف غیبی نے آپ کو آپ کی عنقریب رحلت کی خبر دی اس لئےرسول خداۖ،اسلام کی تبلیغ اور مصالح مسلمین کےحوالےسے ضروری امور کی مکمل انجام دہی میں بلا فاصلہ مصروف ہوگئے۔

اس دوران پیغمبر اسلام ۖ کے سامنے سب سے اہم مسئلہ اپنی خلافت و جانشینی کا تھا اس لئے پیغمبۖر، خدا کے آخری نبی ورسول تھے اور ان کے بعد خدا کی جانب سے کوئی دوسرا نبی آنے والا نہیں تھا اس لئے کوئی ایسی ہستی ہونی چاہیے  تھی جو رسول کےبعد لوگوں کی ولایت وسرپرستی کی ذمہ داری سنبھال سکے۔ وہ مطیع پروردگار اور کمالات انسانی کا مظہر ہو اور ہر قسم کی برائیوں ،خطاؤں اور  لغزشوں سے محفوظ ہو تاکہ رسول اللہ ۖ کے بعد امت مسلمہ کی شاندار قیادت کرسکے۔اسی لئے پیغمبر اکرمۖ نے اس آخری حج میں جو حجۃالوداع یا حج آخر کے نام سے مشہور ہے، اپنی جانشینی کا باضابطہ طورپر مسلمانوں کے عظیم  اجتماع میں اعلان فرمایا ۔

آخری حج میں رسول اکرمۖ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جانشینی کے اعلان کا واقعہ کتب تاریخ میں اس طرح تحریر ہے کہ " رسول خدا ۖ حج آخر کے مناسک ادا کرنے کے بعد مکّے سے مدینے کی جانب روانہ ہو گئےاور جب سرزمین خم پر پہنچے تو جبریل امین وحی الہی لےکر نازل ہوئے اور آپ کے سامنے یہ حکم خدا پہنچایا "

اے پیغمبر آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے ،"رسول اکرمۖ  کو جو بعض گروہوں کے نفاق سے آگاہ تھے امت اسلامیہ کے مستقبل کے بارے میں تشویش لاحق تھی اس لئے کچھ تامّل سے کام لیا ۔پھر جبریل امین نازل ہوئے اور آیت کے اس ٹکڑے کی تلاوت کی" اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے کار رسالت کو نہیں پہنچایا" یہ سنکر رسول اکرمۖ پیغام الہی کو پہنچانے کے طریقۂکار کی فکر میں تھے کہ پھر جبریل امین نازل ہوئے اور آیت کے اس ٹکڑے کی رسول خداۖ کے سامنے تلاوت کی" اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گاکہ اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتاہے"

یہاں پر یہ سوال اٹھتاہے کہ یہ کیسا اہم پیغام تھا کہ اگر لوگوں تک نہ پہنچایا جائے تو درحقیقت پیغمبر اکرمۖ نے کار رسالت انجام ہی نہیں دیا۔؟ کون سا اہم مسئلہ ہے کہ جس کے ابلاغ کے حوالے سے پیغمبر کو لاحق تشویش خدا نے دور کردی اور آپ کو یہ اطمینان دلایا کہ آپ لوگوں کے شر سے محفوظ رہیں گے؟  لیکن یہا ں لوگوں کے شر اور نقصان  سے مراد، جسمانی اور مالی نقصان نہیں ہے اس لئے کہ پیغمبر شجاع ترین انسان تھے اور میدان جنگ میں گھمسان کی لڑائی کے وقت بھی آپ پر کبھی خوف وہراس طاری نہیں ہوتا تھا۔ آنحضرت ۖ اپنے آپ کو لوگوں سے ضررو نقصان پہنچنے کے حوالے سے تشویش میں مبتلا نہیں تھے بلکہ بعض جاہلوں اور منافقوں سے اسلام کو خطرہ لاحق ہونے سے انھیں تشویش لاحق تھی۔ پیغمبر اکرمۖ  شدید گرمی کےباوجود فرمان الہی کے نفاذ کے لئے غدیر خم کے مقام پر یہ حکم دیتے ہیں کہ تمام حاجیوں کو وہاں روکا جائے ۔ جب حاجیوں کا مجمع وہاں جمع ہوگیا تو رسول اکرمۖ نے بلندی پر جاکر خطبے کا آغاز حمد وثنائے الہی سے کیا اس کے بعد فرمایا " جبریل امین تین مرتبہ مجھ پر نازل ہوچکے ہیں اور مجھے یہ حکم خدا پہنچایا ہے کہ یہاں توقف کریں اور رسالت الہی کو منزل اختتام تک پہنچائیں ۔ پھر فرمایا " کیا میں تمھارے نفسوں پر تم سے زیادہ اولی اور حاکم نہیں ہوں؟ یہ سن کر سارے مجمع نے جواب دیا بیشک ہیں۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا " کیا میں تمھارا پیغمبر اور ہادی ورہبر و رہنما نہیں ہوں؟ سب نے جواب میں آپ کے قول کی تصدیق کی۔ اس وقت آپ نے امیرالمومنین حضرت علی (ع) ابن ابی طالب علیھما السلام کا دست مبارک پکڑ کر بلند کیا اور فرمایا " میں جس کا مولی ہو ں اس کے علی مولی ہیں " بعض مورخین نے غدیر خم میں حاجیوں کی تعداد اسّی ہزار سے ایک لاکھ بیس ہزار تک تحریر کی ہے ۔اس واقعہ کے بعد سورۂ مائدہ کی تیسری آیت نازل ہوئی " آج کے دن کافر تمھارے دین کے زوال سے مایوس ہوگئے ہیں لہذا تم ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو آج مینے تمھارے لئے دین کو کامل کردیا ہے اور اپنی نعمتوں کو تمام کردیا ہے اور تمھارے دین اسلام کو پسندیدہ بنادیا ہے" یہ اہم واقعہ کفار کے مایوس ہونےکا باعث بن گیا۔ یعنی وہ لوگ جو اس بات کے منتظر تھے کہ رحلت پیغمبۖر کےبعد اپنے منحوس و مذموم اہداف کو حاصل کریں گے ، اپنے اہداف میں ناکام ہوگئے اور  غدیرخم میں حکم الہی سے پیغمبر اکرم ۖ کی زبان مبارک سے  حضرت علی ابن ابی طالب (ع) کی جانشینی کے اعلان کے باعث (کہ جو صبر وشجاعت و درایت و استقامت میں  پیغمبر ۖ کی  مانند  تھے) کافروں کی امید ، مایوسی میں تبدیل ہوگئی۔یہ عظیم واقعہ ا س امر کا غماز ہے کہ اسلام کی نظر میں امت اسلامیہ کے رہبر وقائد و رہنما کو صالح، نیکوکار، باخبر،مدیر ومدبر، عالم ودانا اور  ہمدرد ہونا چاہیےاس لئے کہ ہر فرد کو ایسا اہم منصب نہیں دیا جاسکتا۔  رسول اکرم ۖ کی خلافت وجانشینی کا مسئلہ اس قدر اہم تھاکہ واقعۂ غدیر خم سے قبل بھی مختلف اور متعدد مواقع پر اس کی جانب اشارہ کیا جاچکا تھا ۔ در حقیقت رسول اکرم ۖ نے اپنے مشن کے پہلے ہی دن یعنی دعوت ذوالعشیرہ میں اپنے قبیلے کے افراد کو اسلام قبول کرنے کی آشکارہ دعوت دیتے ہوئے اپنی جانشینی کا مسئلہ اٹھایا ۔ اور اس طرح فرمایا کہ " اے فرزندان عبدالمطلب خدا کی قسم میں عرب میں  کسی کو ایسا نہیں پارہاہوں جو اپنی قوم کے لئے اس سے بہتر تحفہ لایا ہو جو میں تمھارے لئے لایا ہوں ۔بیشک میں تمھارے لئے دنیا ؤ آخرت کی خیرو نیکی لایا ہوں اور میرے پروردگار نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمھیں اس کی طرف دعوت دوں۔ پس جو شص تم لوگوں میں سے اس کام میں میری مدد کرے گا وہ تمھارے درمیان میرا بھائی ، میرا وصی اور میرا جانیش ہوگا " اس وقت حضرت علی ابن ابی طالب(ع) نے جبکہ ابھی آپ نوجوان تھے ، رسول اکرم ۖ سے اپنی وفاداری کا اعلان کرتے ہوئے وعدہ کیا کہ تبلیغ دین کی انجام دہی میں آپ کی مدد کریں گے۔ اس طرح دعوت ذوالعشیرہ میں حضرت علی(ع) جانشین پیغمبر ۖ کی حیثیت سے متعارف ہوئے۔اور دعوت ذوالعشیرہ کے بعد حضرت رسول اکرمۖ  کی مکۂ مکرمہ سے مدینۂ منورہ ہجرت کے بعد کے برسوں میں بھی اس قدر اس مسئلےکو دہرایا گیا کہ جس کی بنا پر یہ کہا جاسکتاہےکہ تقریباتمام اہل مدینہ حضرت علی(ع)کی جانشینی کےمسئلےسےباخبر تھے۔                                                                                 

غدیرکا واقعہ بے انتہا شہرت کا حامل ہے اور کوئی شخص بھی اس اہم تاریخی واقعہ کی تردید نہیں کرسکتا۔ عالم اسلام کےممتاز دانشور" سید مرتضی علم الہدی" اس بارے میں تحریر کرتے ہیں" اگر کوئی حضرت علی(ع) کے جانشین پیغمبر ہونے کےبارے میں دلیل کا خواہاں ہوتو گویا ایسے شخص کی مانند ہے جو رسول خدا ۖ کے معروف غزوات وحالات کی صحت پر دلیل کا خواہاں ہوبلکہ ایسا ہے کہ گویا وہ رسول خدا ۖ کے حجۃالوداع کے بارے میں شک رکھتاہے۔ اس لئے یہ سب شہرت کے اعتبار سے مساوی اور برابر ہیں" اہلسنت کے ممتاز اور جلیل القدر علماء نے بھی غدیرخم کے واقعہ کو نقل کیا ہے۔ مثال کے طور پر اہل سنت کے چار اماموں میں سے ایک ، امام احمد ابن حنبل نے اپنی کتاب " المسند" میں صحابی رسول زید ابن ارقم سے یہ روایت نقل کی ہے کہ  زید ابن ارقم کہتے ہیں" ہم لوگ رسول اکرم ۖ کے ساتھ  غدیرخم کے مقام پر جمع ہوئے ، رسول خداۖ نے نماز پڑھنے کا حکم فرمایا۔ ہم لوگوں نے آدھا دن پیغمبر ۖ کے ساتھ گزارا ۔ اس کے بعد حضرت رسول اکرمۖ نے خطبہ دیا ۔ ایک کپڑا درخت سے باندھ دیا گیا تھا تاکہ آپ کسی حد تک شدید دھوپ اور گرمی سے محفوظ رہ سکیں۔ آپ نے اپنے خطبے میں فرمایا " کیا تم نہیں جانتے؟ کیا تم اس بات کی گواہی نہیں دوگے کہ میں ہر صاحب ایمان پر اس سے زیادہ سزاوار اور اولی ہوں؟ سب نے جواب دیا جی ہاں۔ پھر آپ نے فرمایا " من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ" میں جس کا مولی  اور ولی ہوں ، علی اس کے مولی اور ولی ہیں" الہم وال من والاہ وعاد من عاداہ" پروردگارا اسے دوست رکھ جو انھیں دوست رکھے اور دشمن گردان اسے جو انھیں دشمن گردانے"     

اسی طرح ممتاز عالم اہسنت حاکم نیشاپوری ، دو عظیم علمائے اہلسنت ، بخاری اور مسلم سے یہ واقعہ نقل کرتے ہیں" جب رسول اکرمۖ حج آخر سے واپس لوٹے ، غدیر خم میں توقف فرمایا اور حکم دیا کہ لوگ درختوں کے نیچے جمع ہوجائیں۔ جب سب لوگ جمع ہوگئے تو آپ نے فرمایا عنقریب میں دعوت حق کو لبیک کہنے والا ہوں۔ بیشک میں تمھارے درمیان  دو گرانبہا اور قیمتی چیزیں چھوڑے جارہاہوں جن میں ایک دوسرے سےبرتر ہے ۔ ایک کتاب خدا ، اور دوسرے اپنی عترت، پس دیکھنا یہ ہے کہ تم لوگ ان دونوں کے ساتھ کیسا سلوک اختیا کرتے ہو۔ یقینا دونوں ایک دوسرے سے جدائی اختیار نہیں کریں گی یہاں تک کہ میرے پاس حوض کوثر پر پہنچ جائیں ۔ پھر آپ نے مزید فرمایا " کہ خدائے عزّو جلّ میرا مولی ہے اور میں ہر صاحب ایمان کا مولی ہوں ۔ پھر آپ نے حضرت علی (ع) کا دست مبارک اپنے ہاتھ میں لیا اور فرمایا میں جس کا میں مولی ہوں پس یہ علی اس کے مولی ہیں، پروردگارا اس کو دوست رکھ جو علی کی ولایت کو قبول کرے ، اور اسے دشمن رکھ جو اس سے دشمنی کرے " سامعین ان علماء کے علاوہ بھی متعدد علمائے اہلسنت نے واقعۂ غدیر کو اپنی کتابوں میں تحریر کیا ہے جن میں " ترمزی، ابن ماجہ،ابن عساکر، ابن نعیم، ابن اثیر، خوارزمی، سیوطی، ابن حجر، ھیثمی، غزالی، اور بخاری نے اپنی کتابوں میں غدیر کا واقعہ تحریر کیا ہے ۔ ایک ممتاز عالم اہلسنت، ابو سعدمسعود بن ناصر سجستانی نے اپنی کتاب "الدرایہ فی حدیث الولایہ" میں واقعۂ غدیر کو رسول اکرم ۖ کے  ایک سوبیس صحابیوں سے نقل کیا ہے ۔ ان تمام استدلالوں کی بنیاد پر واقعۂ غدیر اس قدر محکم اور مستند ہے کہ جس کا کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا اور اس واقعے کی حقانیت  پر پردہ نہیں ڈال سکتا۔ ایک مصری دانشور اور محقق " عبدالفتاح عبدالمقصوداپنی کتاب "امام علی(ع)" میں لکھتے ہیں" غدیر کا واقعہ بلاشبہ ایسی حقیقت ہے  جس پر باطل کا زور نہیں چل سکتا اور یہ حقیقت، روز روشن کی مانند درخشاں اور اظہر من الشمس ہے"                                       

Add new comment