کیاغدیر امام کی ولایت کا دن تھا ؟

واقعۂ غدیر کی جانب بے توجّہی کی ایک اور وجہ، بعض لوگوں کا سطحی عقیدہ ہے جنہوں نے ہمیشہ غدیر کے بارے میں یہ لکھا اور کہا ہے : ( غدیر کا دن حضرت امیر المؤمنین ۔ کی ولایت کا دن ہے ) انہوں نے روز غدیر کو صرف حضرت علی ۔ کی ولایت کے لئے مخصوص کردیا ہے ؛ اور واق

کیاغدیر امام کی ولایت کا دن تھا ؟

واقعۂ غدیر کی جانب بے توجّہی کی ایک اور وجہ، بعض لوگوں کا سطحی عقیدہ ہے جنہوں نے ہمیشہ غدیر کے بارے میں یہ لکھا اور کہا ہے : ( غدیر کا دن حضرت امیر المؤمنین ۔ کی ولایت کا دن ہے ) انہوں نے روز غدیر کو صرف حضرت علی ۔ کی ولایت کے لئے مخصوص کردیا ہے ؛ اور واقعۂ غدیر کے باقی سارے پہلوؤں پر کچھ بھی بیان نہیں کیا ہے ۔

یہ درست ہے کہ غدیر کے دن حضرت امیر المؤمنین ۔ کی ولایت کا پیغام پہنچایا گیا اور ایک لحاظ سے غدیر کا دن امام علی ۔ کی ولایت کا دن ہے ؛ روز غدیر امامت کے تعیّن کا دن تھا، لیکن اس واقعہ کے اور بھی بہت سارے اہداف تھے جو اس دن ایک حقیقت کی صورت میں وجود میں آئے کہ جن کے بارے میں بہت ہی کم بیان کیا گیا ہے اور بہت ہی کم توجّہ دی گئی ہے ۔

واقعۂ غدیر میں تحقیق کی ضرورت :

واقعۂ غدیر صرف مذکورہ اعتقادات میں محدود نہیں ہوتا اور بیان کی گئی حدود میں منحصر نہیں ہوتا،بلکہ دیکھا یہ جانا چاہیے کہ اس عظیم واقعۂ کے موجد رسول خدا [ص] نے اس دن کیافرمایا؟ کیا کام انجام دیا ؟اور لوگوں کی عمومی بیعت کو کس حد تک وسعت دی؟

آیا صرف امام علی [ع] کا تعارف کروایا؟

آیا صرف امام علی [ع] کے لئے بیعت طلب کی ؟

ہم خطبۂ غدیر کا مطالعہ کیوں نہیں کرتے ؟

اور پیغمبر اسلام [ص] کی اس دن کی تمام گفتگو کو تحقیق کی نگاہ سے کیوں نہیں دیکھتے ؟ آپ [ص] کے خطبے میں موجود اہم نکات کی جانب ہماری توجہ کیوں نہیں ہے ؟

اگر ہم خطبۂ حجۃ الوداع کا صحیح طریقے( تحقیقی) سے مطالعہ کریں تو ہمارے درمیان موجود بہت سارے اختلافات برطرف ہو جائیں گے ، اور ہم غدیر کے حقیقی اور واقعی مقام و منزلت سے آگاہ ہو جائیں گے،اگر ہم غدیر کے صحیح مقام و منزلت سے آشنا ہوجائیں اور پیغمبر اسلام [ص] کے کلام و پیام کی گہرائیوں سے واقف ہو جائیں اور جان لیں کہ غدیر کے دن کونسے عظیم واقعات رونما ہوئے تو ہم واقعات غدیر میں سے بہت سار ے واقعات کو حل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے اور غدیر کے بارے میں بہت سارے سوالات کا صحیح جواب دے سکیں گے ،مثال کے طور پر : فرشتہ وحی تین بار کیوں نازل ہوا ؟

یہ مسئلہ کتنی اہمیت کا حامل تھا کہ رسول اکرم [ص] نے تین بار اس کام کو انجام نہ دئے جانے کی درخواست کی ؟

رسول اکرم [ص] حکم خدا وندی کی بجا آوری سے کیوں گھبرائے؟ اور انکی یہ گھبراہٹ اور پریشانی کس وجہ سے تھی ؟

وہ دشمن جو آج تک سکوت کئے ہوئے تھے غدیر میں کیوں خشمناک و غضبناک ہوگئے ؟ یہاں تک کہ دست بشمشیر ہوگئے ؟

غدیر کے دن ایسا کیا ہو ا کہ ا ئمّہ معصومین علیہم السّلام ہمیشہ اس روز رونما ہونے والے واقعات کو دلیل کے طور پر بیان کرتے ؟ اور فرماتے ( غدیر کے بعد اب کسی کے پاس کوئی عذر اور بہانہ باقی نہیں رہ گیا ۔)

غدیر کے دن ایسا کیا ہوا کہ منافقوں اور حکومت پسند ا ور قدرت کے خواہاں افراد سینوں کے میں تیر لگے اوران کو ایک ساتھ ایسے مقام پر لاکھڑا کیا کہ جہاں انکے کے لئے کوئی راستہ باقی نہیں رہ گیا ؟

ہم کہہ چکے ہیں کہ غدیر کے دن ولایت امیر المؤمنین ۔ جو کہ خدا کی طرف سے معیّن ہوئی اور کئی بار پیغمبر اسلام [ص] کے توسّط سے لوگوں تک پہنچائی جا چکی تھی ’’ لوگوں کی عمومی بیعت ‘‘ کے ساتھ مکمل ہو گئی، لیکن منافقوں کی پریشانی کی وجہ صرف یہی نہیں تھی کیونکہ جیسا کہ انہوں نے پیغمبرؐ کی رسالت کو تحمّل کیا تھا اور اس بات کا انتظار کیا تھا کہ انکے بعد اپنی کارروائی کا آغاز کریں ؛ بالکل اسی طرح امام علی ۔ کی جان کے لئے بھی سازشیں کر رکھی تھیں وہ انکی ولایت کو بھی تحمّل کر سکتے تھے ،یہاں مسئلہ کچھ اور تھا :

غدیر کے دن نہ صرف یہ کہ امامت و ولایت امام علی ۔ کا اعلان ہو ابلکہ امت مسلمہ کی تا وقت ظہور حضرت مہدی ۔ اور زمانۂ رجعت و قیامت امامت کو ذکر کیا گیا اور لوگوں سے اعتراف اور بیعت طلب کی گئی،جناب رسول خدا [ص] نے ارشاد فرمایا کہ:

(مَعٰاشِرَ النّٰاسِ!إِنَّکُمْ أَکْثَرُمِنْ أَنْ تُصٰافِقُوْنٖی بِکَفٍ واحِدٍفٖی وَقْتٍ وَاحِدٍ قَدْ أَمَرَنِیْ اﷲ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ اٰخُذَ مِنْ أَلْسِنَتِکُم الْإِ قْرٰارَ بِمٰا عَقَّدْ تُ لِعَلِیٍّ أَمٖیْرِالْمُؤْمِنٖیْنَ وَلِمَن جٰاءَ بَعْدَہُ مِنَ الْأَءِمّۃِ مِنّٖیْ وَ مِنْہُ عَلیٰ ماأَعلَمْتُکُمْ أَنَّ ذُرِّیَّتٖیْ مِنْ صُلْبِہٖ ، فَقُوْلُوابِأَجْمَعِکُم إنّا سٰامِعُونَ مُطِیْعُوْنَ رٰاضُوْنَ مُنْقٰادُوْنَ لِمٰا بَلَّغْتَ عَنْ رَبِّنٰا ، وَرَبِّک فٖیْ أَمْرِ إِمٰا مِنٰا عَلیٍّ أَمٖیْرِ الْمُؤْمِنٖیْنَ۔ وَمَنْ وُلِدَتْ مِنْ صُلْبِہٖ مِن الْأَءِمَّۃِ ، نُبٰایِعُکَ عَلیٰ ذٰلِکَ بِقُلُوْبِنا وأَنْفُسِنٰاوَأَلْسِنَتِنٰا،وَ أَیْدٖیْنٰا،عَلیٰ ذٰلِکَ نَحْییٰ،وَعَلَیْہِ نَمُوْتُ،وَعَلَیْہِ نُبْعَثُ،وَلا نُغَیِّرُ،وَلاَ نُبَدِّل ولانَشُکُّ وَلاَنَجْحَدُ وَلاَنَرْتٰاب وَلاَنَرْجِعُ عَن الْعَھْدِ وَلاَ نَنْقُض الْمٖیْثٰاقَ وَ عَظْتَنٰا بِوَعْظِ اﷲ فٖیْ عَلِیّاً أَمٖیْرَالْمُؤْمِنٖیْنَ،وَالْأَءِمَّۃِ الَّذٖیْنَ ذَکَرْت مِنْ ذُرِّیَّتِکَ مِنْ وُلْدِہٖ،بَعْدَہُ الْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ وَمَنْ نَصَبَہُ اﷲُ بعْدَھُمٰا فَالْعَھْدُ وَالْمٖیْثٰاقُ لَھُمْ مَأْخُوْذٌمِنّٰا،مِنْ قُلُوْبِنٰا وَأَنْفُسِنٰا وَأَلْسِنَتِنٰا وضَمٰایِرِنٰا وَ أَیْدٖیْنٰا مَنْ أَدْرَکَھٰا بِےَدِہٖ وَ إِلَّا فَقَدْ أَقَرَّ بِلِسٰانِہٖ وَلاَ نَبْتَغٖی بِذٰلِکَ بَدَلاً وَلاَ یَرَی اﷲُ مِنْ أَنْفُسِنٰا حِوَلاً،نَحْنُ نُؤَدِّیْ ذٰلِکَ عَنْک الدّٰانٖیْ وَالْقٰاصٖی مِنْ أَوْلاَدِنٰا وَ أَحٰالٖےْنٰا وَ نُشْھَدُ اﷲَ بِذٰلِک وَکَفیٰ بِاﷲِ شَھٖیْداً وَأَنْتَ عَلَیْنٰا بِہٖ شَھٖےْدٌ )

( اے مسلمانوں ! تمہاری تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے کہ تم لوگ خود اپنے ہاتھوں سے اس تپتے ہوئے صحرا میں میرے ہاتھ پر بیعت کر سکو پس خدا وند عالم کی جانب سے مجھے حکم ہوا ہے کہ میں تم لوگوں سے ولایت علی ۔ اور انکے بعد آنے والے اماموں کی امامت [جو کہ میری اور علی ۔ کی اولاد میں سے ہیں ]کے بارے میں اقرار لے لوں اور میں تم لوگوں کو اس بات سے آگاہ کر چکا ہوں میر ے فر زندعلی ۔ کےُ صلب سے ہیں،پس تم سب لوگ کہو کہ :

( یارسول اﷲ [ص] ہم آپکا فرمان سن رہے ہیں اور اسکو تسلیم کرتے ہیں ،اس پر راضی ہیں ، اور آپکے اِس حکم کی اطاعت کرتے ہیں جو کہ خدا وند عالم کی طرف سے آپ نے ہم تک پہنچایا جو ہمارا رب ہے ، ہم اس پیمان پرجو کہ حضرت علی ۔ کی ولایت اور ان کے بیٹوں کی ولایت کے سلسلے میں ہے اپنے جان و دل کے ساتھ اپنی زبان اور ہاتھوں کے ذریعہ آپکی بیعت کرتے ہیں اس بیعت پر زندہ رہیں گے ، مر جائیں گے اور اٹھائے جائیں گے اس میں کسی قسم کی تبدیلی و تغییر نہ کریں گے ، اس میں کسی قسم کا شک و تردید نہیں کرتے اور اس سے رو گردانی نہیں کریں گے ، اور اس عہد و پیمان کو نہیں توڑیں گے خدا وند عالم اور آپکی اطاعت کرتے ہیں اور علی امیر المؤمنین ۔ اورانکے بیٹوں کی اطاعت کریں گے کیونکہ یہ سب امت کے امام ہیں وہ امام جنکا آپنے تذکرہ کیا ہے آپکی اولاد میں سے ہیں

اور حضر ت علی ۔ کے صلب سے امام حسن ۔اورامام حسین ۔ کے بعد آنے والے ہیں حسن اور حسین علیہما السلام؛ کے اپنے نزدیک مقام کے بارے میں پہلے تمہیں آگاہ کر چکا ہوں ، خدا وند عالم کے نزدیک انکی قدرو منزلت کا تذکرہ کر چکا ہوں اور امانت تم لوگوں کو دے دی یعنی کہہ دیا کہ یہ دو بزرگوار ہستیاں جوانان جنّت کے سردار ہیں اور میرے اور علی ۔ کے بعد امّت مسلمہ کے امام ہیں تم سب مل کر کہو : حضرت علی ۔ کی( ہم اس حکم میں خدا کی اطاعت کرتے ہیں ؛اور اے رسول خدا ؐ آپکی ، حسنین علیہما السلام کی اور انکے بعد آنے والے اماموں کی اطاعت کرتے ہیں کہ جن کی امامت کا آپ نے تذکرہ کیا اور ہم سے عہد و پیمان لیا ہمارے دل و جان ، زبان اور ہاتھ سے بیعت لی جو آپکے قریب تھے ؛ یا زبان سے اقرار لیا ، اس عہد و پیمان میں تبدیلی نہ کریں گے اور خدا وند عالم کو اس پر گواہ بناتے ہیں جو گواہی کے لئے کافی ہے اور اے رسول خدا [ص] !آپ ہمارے اس پیمان پر گواہ ہیں ، ہر مؤمنِ پیروکار ظاہری یا مخفی ، فرشتگان خدا ، خدا کے بندے اور خدا ان سب لوگوں کا گواہ ہے۔ (۱)

یعنی روز غدیر سے لے کر دنیا کے اختتام تک غدیر سے لحظۂ قیامت تک امت مسلمہ کی امامت خاندان پیغمبر [ص] اور علی ۔ میں قرار پائی تمام أَئمّہ معصومین علیہم السّلام حضرت علی ۔کی اولاد میں سے ہیں جنہیں امّت مسلمہ کی امامت و ولایت کوتا قیام قیامت اپنے ہاتھ میں رکھنا ہے ۔

رسول اکرم [ص] نے جہاں بھی حضرت امیر المؤمنین ۔ کی ولایت و امامت کا اعلان کیا دیگر ائمہ اور آخری امام حضرت مہدی ۔ کی ولایت کا اعلان بھی اسکے ساتھ کیا، لہٰذا حضرت علی ۔ کی ولایت بھی ذکر ہوگئی اور عترت کی ولایت بھی بیان کر دی گئی اور ساتھ ہی حضرت مہدی عجل اﷲ تعالیٰ فرجہ الشریف کی ولایت بھی معرض عام ہوئی۔

غدیر کے خطبے میں سے کچھ حصّہ :

تمام ائمہ معصومین علیہم السّلام کے لیے’سب لوگوں کے اعتراف ‘ کے ساتھ ساتھ سب سے بیعت لی گئی غدیر کے دن ولایت کا پیغام بھی تھا اور امامت و ولایت کی تعیین بھی، غدیر کے دن ولایت کا پیغام بھی تھا اور سلسلہ امامت و ولایت کے لئے عمو می بیعت بھی پیغمبر [ص] کے بعدآنے والی امامت بھی ذکرہوئی اور اس کا تا قیام قیامت تسلسل بھی اب کونسا ابہام باقی رہ گیا تھا جو مسلمانوں کی صفوں میں گھسے ہوئے منافقوں کیلئے شک و شبہ کی گنجائش فراہم کرتا ؟

اب کونسی خالی جگہ باقی تھی کہ حکومت کے پیاسے اپنے قدم رکھنے کی جگہ پاتے ؟ یہی وجہ تھی کہ ان کے سینوں میں بغض و حسد کی آگ بھڑک اٹھی اور دست بشمشیر ہو گئے۔

اہلبیت[ع] کی مظلومیت کے اسباب :

اگرچہ مخالفین اورمنافقین رسول خدا [ص]کے زمانے میں باوجود فکری اورسیاسی پروپیگنڈے کر کے مسلمانوں کے درمیان کامیابی حاصل نہ کرسکے تاکہ اپنی سازشوں کو عملی جامہ پہنا سکیں ، لیکن آنحضرت [ص] کی وفات کے بعد جو بھی سازش کر سکتے تھے کی جب جناب زہرا سلام اﷲ علیہا احد میں حضرت حمزہ ۔ کے مزار پر عزاداری میں مشغول تھیں تو آپ سے سوال کیا گیا :

( لوگ آپ کے اور علی ۔ کے خلاف کیوں ہو گئے ہیں اور آپ کے مسلّم حق کو کیوں غصب کرلیا ہے حضرت زہرا سلام اﷲ علیہا نے جواب دیا :

’’ لٰکِنَّہٰا أَحْقٰادٌ بَدْرِیَّۃٌ وتَرات أُحُدِیَّۃٌ کٰانَتْ عَلَیْہٰا قُلُوْبُ النِّفٰاق مُکْتَمِنَۃً لِإِمْکٰان الْوُشٰاۃِ فَلَمّٰا إِسْتَہْدَفَ الأَمْرُ أُرْسِلَتْ عَلَیْنٰا شٰابٖیْبُ الْآثٰارِ .‘‘

(یہ سارا کینہ و حسد جنگ بدر اور جنگ احد کا انتقام ہے جو منافقوں کے دلوں میں پوشیدہ تھا اور جس دن سے انہوں نے حکومت پر غاصبانہ قبضہ کیا ہے اپنے دلوں میں موجودکینہ اورحسد کی آگ ہم پر برسانا شروع کردی۔) (۱)

انہوں نے اسکے بعد سے أَئمّہ معصومین علیہم السّلام کو امامت اور رہبریت کی فرصت مہلت نہ دی، اور حضرت علی ۔ کے پانچ سالہ دور حکومت کو تین جنگوں کی تحمیل کے ذریعہ خاک و خون میں ملادیا اور تاریخ کے اوّل مظلوم کے دل کا خون کر دیا ۔

جیسا کہ حضرت امیر المؤمنین ۔ نے فرمایا!

’’أَمٰا وَاﷲِ إِنْ کُنْتَ لَفٖیْ سٰا قَتِہٰاحَتّیٰ تَوَلَّتْ بِحَذَافٖیْرِہٰا: مٰا عَجَزْتُ وَلا جَبُنْتُ ، وَإِنَّ مَسٖیْرِیْ ھٰذَا لِمِثْلِھٰا ؛ فَلَأَنْقُبَنَّ الْبٰاطِلَ حَتّیٰ یَخْرُجَ الْحَقُّ مِنْ جَنْبِہِ مٰا لِیْ وَلِقُرَیْشٍ ! وَاﷲِ لَقَدْ قٰا تَلْتُہُمْ کٰافِرٖیْنَ ، وَلَأُ قٰا تِلَنَّہُمْ مَفْتُوْنِیْنَ وَإِنِّیْ لَصٰاحِبُہُمْ بِالْأَمْسِ کَمٰا أَنٰا صٰاحِبُہُمُ الْیَوْم وَاﷲِ مٰا تَنْقِمُ مِنّٰا قُرَیْشٌ إِلاَّ أَنَّ اﷲَ أخْتٰارَنٰا عَلَیْہِمْ ،فَأَدْخَلْنٰا ھُمْ فِیْ حَیَّزِنٰا ، فَکٰانُوْ ا کَمٰا قٰالَ الْأَوَّلُ :

أَدَمْتَ لَعَمْرِیْ شُرْبَکَ الْمَحْضَ صَابِحاً

وَ أَ کْلَکَ بِالزُّ بْدِ ا لْمُقَشَّرَۃَ ا لْبُجْرَا

وَ نَحْنُ وَ ھَبْنٰاکَ الْعَلَا ءَ وَ لَمْ تَکُنْ

عَلِیّاً ، وَحُطْنٰا حَوْلَکَ الْجُرْدَ وَالسُّمْرَا

( ۱)۔ بحار الانوار ، ج ۴۳، ص ۱۵۶ اور مناقب ابن شہرآشوب ، ج ۲ ،ص ۲۰۵

آگاہ ہو جاو! کہ بخدا قسم میں اس صورت حال کا تبدیل کرنے والوں میں شامل تھا یہاں تک کہ حالات مکمل طور پر تبدیل ہوگئے اور میں نہ کمزور ہوا اور نہ خوف زدہ ہوا اور آج بھی میرا یہ سفر ویسے ہی مقاصد کے لئے ہے میں باطل کے شکم کو چاک کر کے ا س کے پہلو سے وہ حق نکال لوں گا جسے اس نے مظالم کی تہوں میں چھپا دیا ہے ،میرا قریش سے کیا تعلق ہے میں نے کل ان سے کفر کی بنا پر جہا د کیا تھا اور آج فتنہ اور گمراہی کی بنا پرجہاد کروں گا میں ان کا پرانا مد مقابل ہوں ، اور آج بھی ان کے مقا بلہ پر تیار ہوں ۔

خدا کی قسم قر یش کو ہم سے کوئی عداوت نہیں مگر یہ کہ پرور دگار نے ہمیں منتخب قرار دیا اور ہم نے ان کو اپنی جماعت میں داخل کرنا چاہا تو وہ ان اشعار کے مصدا ق ہو گئے ۔(۱)

ہماری جان کی قسم یہ شرا ب ناب صبا ح یہ چرب چرب غذائیں ہمارا صدقہ ہے

ہمیں نے تم کو یہ سا ری بلندیاں دی ہیں وگرنہ تیغ و سناں بس ہمارا حصہ ہے

اور انکے بعد جلّاد صفت ،حکومت کے طلبگار بنی امیّہ نے پھرانکے بعد بنی عبّاس نے جو بھی ظلم کرنا چاہا کیاتمام ائمہ علیہم السّلام کویا زہر دے کر یا شمشیر کے ذریعہ شہید کر دیا، وہ یہ سمجھتے تھے کہ طاقت و تلوار انکے پاس ہے اس لئے حاکم ہیں ، لیکن یہ انکی خام خیالی تھی اور وہ مسلمانوں کے دلوں کو نہ جیت سکے اس کے اہلبیت ۔ کا وجود دنیا میں موجود تھا ۔

اَولادِ رسول [ص] کے پاک و اطہر خون کی برکت سے خدا وند عالم کے دین کامل کو بقا حاصل ہوئی، خون شہیداں رائیگاں نہ جائے گا، جب تک خون باقی ہے اسکی برکت بھی باقی ہے ۔

......................................................

حواله جات:

۱۔ کتاب ارشاد ، ص ۱۱۷/۱۵۴ : شیخ مفید ؒ استاد سیّد رضی ؒ ( متوفّیٰ ۴۱۳ ؁ ھ )

۲۔ کتاب الخصائص ، ص ۷۰ : نسائی ( متوفّیٰ ۳۰۳ ؁ ھ )

۳۔ خصائص الائمہ : سیّد رضی ؒ ( متوفّیٰ ۴۰۶ ؁ ھ )

۴۔ شرح قطب راوندی ، ج ۱ ص ،۲۸ : ابن راوندی ( متوفّیٰ ۵۷۳ ؁ ھ )

۵۔ نہج البلاغہ ، نسخۂ خطی ، ص ۲۸ : نوشتۂ ابن مؤدّب ( ۴۹۹ ؁ ھ )

۶۔ نہج البلاغہ ، نسخۂ خطی ،ص ۳۰ : نوشتۂ ( ۴۲۱ ؁ ھ )

۷۔ بحار الانوار ، ج ۳۲ ،ص ۷۶/۱۱۴ : مرحوم علّامہ مجلسی ؒ ( متوفّیٰ ۱۱۱۰ ؁ ھ )

۸۔ بحار الانوار ، ج ۱۸ ، ص ۲۲۶ : مرحوم علّامہ مجلسی ؒ ( متوفّیٰ ۱۱۱۰ ؁ ھ )

ماخذ: کتاب منزلت غدیر,حجۃ الاسلام والمسلمین محمد دشتی ؒ

مترجم : ضمیرحسین بہاول پوری,مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

Add new comment