غدیر کے خوبصورت نام

اسلام نے جہاں کچھ دنوں کو خاص نام دیا ہے جیسے روزِ عید قربان،عید فطر روز عرفہ وغیرہ وہاں پر ان تمام دنوں کو ایام اللہ سے بہی یاد کیا ہے-تاکہ موٴمنین کے قلوب میں ان دنوں کی عظمت اور قداست نقش بنالے اور انکی بیداری اور توجہ کا سبب بنے- غدیر ان دنوں میں سے ا

متن:

نام،آسانی سے ذہن میں جگہ بنالیتے ہیں اور بلند و بالا معانی کو آسانی سے منتقل کرنے میں بہی معاون ثابت ہوتے ہیں-اسی وجہ سے دنوں یا ہفتوں کو نام دینا ایک مثبت یا منفی تبلیغاتی طریقہ ہے-جس کے پیچہے انسانی اقدار کو زندہ کرنے یا پامال کرنے کا مقصد ہوتا ہے-

اسلام نے جہاں کچھ دنوں کو خاص نام دیا ہے جیسے روزِ عید قربان،عید فطر روز عرفہ وغیرہ وہاں پر ان تمام دنوں کو ایام اللہ سے بہی یاد کیا ہے-تاکہ موٴمنین کے قلوب میں ان دنوں کی عظمت اور قداست نقش بنالے اور انکی بیداری اور توجہ کا سبب بنے-

غدیر ان دنوں میں سے ایک ہے جس کی عظمت کو بیان کرنے کیلئے اسی طریقہ کو اپنایا گیا ہے-غدیر کا امتیاز یہ ہے کہ اہمیت کی وجہ سے اسے متعدد اسماء یا اوصاف سے تعبیر کیا گیا ہے،جو کہ غدیر کی مختلف جہات یا اسرار کو واضح کرتے ہیں -کیونکہ اسلام جب بہی کسی مکان یا زمان یا کسی بہی چیز کو کوئی نام دیتا ہے تو مسمّی کی خصوصیات کو مد نظر رکہ کر دیتا ہے،اسی طرح وہ نام اسم با مسمّی ٰ بن جاتا ہے-

اسی بناء پر غدیر کے ناموں کو جاننا اور پہچاننا ایک ضرورت ہے -تاکہ اس دن کی مکمل واضح اور روشن تصویر ہمارے دل اور ذہن میں بن جائے اور کیا ہی اچہا ہے کہ ان ناموں کو خوش خطی سے لکہ کر غدیر کی محافل جشن میں آویزاں کیا جائے تاکہ محافل کو نئی روح اور تازگی ملے-

یہاں روایات کی روشنی میں غدیر کے اسماء یا اوصاف کو مختصر وضاحت کے ساتہ ذکر کیا جاتا ہے:

غدیر کے اسماء

1-اللہ کی سب سے بڑی عید(عید اللہ الاکبر)

امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں: وهو عید الله الاکبر(الغدیر ج 1 ص 286)غدیر ،اللہ کی سب سے بڑی عید ہے-

عید لغت میں بازگشت ،لوٹنے یا پلٹنے کو کہتے ہیں-اصطلاح میں کچہ مخصوص دنوں کو عید کہا گیا ہے-تاکہ ان دنوں میں انسان اپنے پروردگار کی جانب پلٹے اور اس کی رحمتیں دوبارہ حاصل کرے-

علی علیہ السلام کی نگاہ میں ہر وہ دن عید کا دن ہے جس میں انسان خدا کی نافرمانی نہ کرے: کل یوم لا یعصی الله فیه فهو عید(نهج البلاغه حکمت428)جس دن بہی انسان گناہ نہ کرے وہ دن عید ہے-

قرآن مجید میں حضرت عیسی علیہ السلام کی دعا موجود ہے،جس میں انہوں نے خدا وند متعال سے آسمانی دستر خوان کے نزول کی درخواست کی ہے-تاکہ وہ دن ان کیلئے اور ان کی آیندہ نسلوں کیلئے عید کا دن بن سکے :ربنا انزل علینا مائدة من السماء تکون لنا عیداً لاولنا ولآخرنا و آیة منک(سورہ مائدہ 114)

پروردگار ہمارے اوپر آسمان سے دستر خوان نازل کردے تاکہ ہمارے اول و آخر کے لئے عید ہوجائے اور تیری قدرت کی نشانی بن جائے-

اگر مادی نعمت کانزول عید کا سبب ہے تو یقینا ولایت جیسی عظیم ترین نعمت کا نزول اور اعلان،اس دن کو عید اکبر بنایا سکتا ہے-

اسی وجہ سے بعض روایات میں اسے عید شیعہ یا عید اہلبیت علیہم السلام بہی کہا گیا ہے-امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں انه یوم عید ،جعله عیداً لنا-ْ---لموالینا و شیعتنا(مصباح المتہجد700)

غدیر عید کا دن ہے،خدا نے اسے ہمارے لئے اور ہمارے شیعہ کیلئے عید کا دن قرار دیا ہے-

2-دین کے کامل ہونے کا دن،یوم کمال الدین

غدیر کے دن دین کامل اور مکمل ہوا،کیونکہ دین کے بنیادی عقائد میں سے توحید،نبوت اور قیامت کا اعلان متعدد مرتبہ مختلف مواقع پر ہوچکا تہا -اب اصول دین میں سے امامت کی ہی ضرورت تہی جس کی وجہ سے دین کی بنیاد مکمل اور کامل ہوجاتی ہے-

دوسرا یہ کہ رسول اکرم ﷺ دین پہنچاچکے تہے اب ضرورت تہی کہ اسکی حفاظت کا بندوبست کیا جائے تاکہ قیامت تک کیلئے یہ دین محفوظ رہے-اور یہ کام امامت وولایت کے ذریعے ہوا-

قرآن مجید میں ہے کہ :الیوم اکملت لکم دینکم (مائدہ 3)آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیاہے-

امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: وہو ----کمال الدین ،غدیر دین کے کامل ہونے کا دن ہے-

3-یوم تمام النعمہ

انسان آنکہیں کہولتے ہی اپنے آپ کو اللہ کی انواع و اقسام نعمت میں گہرا ہوا پاتا ہے-لیکن خدا کی عظیم ترین نعمتیں وہی ہیں جن کے لئے اللہ تبارک و تعالی نے منت اور احسان جتا یا ہے-قرآن مجید میں دو بڑی نعمتیں ایسی ہیں جن میں لفظ من و امتنان استعمال ہوا ہے -ایک رسلات کیلئے جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:

لقد من الله علی الموٴمنین اذ بعث فیهم رسولا من انفسهم-(آلعمران164)

یقینا خدا نے صاحبان ایمان پر احسان کیا ہے کہ ان کے درمیاں انہیں میں سے ایک رسول بہیجا ہے-

دوسرا امامت کیلئے جیسا کہ قرآن مجید میں آیا ہے کہ :

و نرید ان نمن علی الذین استضعفوا فی الارض و نجعلهم ائمة و نجعلهم الوارثین

،اور ہم ہی چاہتے ہیں کہ جن لوگوں کو زمین میں کمزور بنادیا گیا ہے ان پر احسان کریں اور انہیں لوگوں کا پیشوا بنائیں اور زمین کا وارث قرار دیدیں -

البتہ فرق یہ ہے کہ کہ ایک میں فعل ماضی کا استعمال ہوا ہے جس کا مطلب ہے یہ ہے کہ وہ نعمت صادر ہوکر مقام فعلیت تک پہنچ چکی ہے اور دوسرے کیلئے فعل مضارع کا ستعمال کیا گیا ہے جس کی دلالت استمرار پر ہے-یعنی وہ احسان تا قیامت جاری رہے گا-

خلاصہ یہ کہ انسان کو عطا ہونے والی نعمتوں میں معنوی نعمتیں ،مادی نعمتوں سے افضل ہیں،اور معنوی نعمتوں میں سے بہی دین سب سے افضل ہے-اس میں بہی اصول دین خاصی اہمیت کے حامل ہیں -اصول میں سے بہی کیونکہ بقیہ اصول کا اعلان پہلے ہوچکا تہا -لھذا ولایت کے اعلان سے نعمت تمام ہوئی-

امام صادق علیہ السلام علیہ السلام فرماتے ہیں انه الیوم الذی تمت فیه النعمه(الغدیر ج 1 ص285)

غدیر ہی وہ دن ہے جس میں نعمت تمام ہوئی-

4-دلیل و حجت کے آشکار ہونے کا دن یوم وضوح الحجج

اتمام حجت کرنا خدا کی سنتوں میں ایک سنت ہے-اور خدا وند متعال اس وقت تک کسی پر عذاب نہیں کرتا جب تک اتمام حجت نہ کرے-

وما کنا معذبین حتی نبعث رسولا -(اسراء 15)

اور ہم تو اس وقت تک عذاب کرنے والے نہیں ہیں جب تک کہ کوئی رسول نہ بہیجیں -

لیکن حجت کی دو صورتیں ہیں ایک ظاہری اور ایک باطنی ،باطنی حجت ،عقل ہے جبکہ ظاہری حجت انبیاء اور ائمہ ہیں-کیونکہ غدیر کے دن ،آنحضرت نے امامت کے سلسلے کا اعلان کردیا تہا ،جبکہ نبوت ان پر پہلے ہی تمام ہوچکی تہی،لھذا یہ دن دلائل و براہین کے واضح اور روشن ہونے کا دن ہے-اسی لئے روایات میں اس دن کو یوم البرهان ،یوم الدلیل علی الرواد (راہنماؤں کی طرف راہنمائی کا دن )جیسا کہ علی فرماتے ہیں :

وهو یوم البرهان (مصباح المتہجد 700) غدیر برہان و دلیل کا دن ہے-

5-روز شاہد و مشہود یوم الشاہد والمشہود

اسلامی نقطہ نگاہ سے کچہ ہستیاں ہمارے اعمال کی شاہد ہیں-جیسا کہ رسول اکرم ﷺ کو شاہد بناکر بہیجا گیا ہے-یا ایها النبی انا ارسلناک شاهداً----(احزاب 45)اے پیغمبر ہم نے آپ کو گواہ ----بنا کر بہیجا ہے-

دوسری آیت کے مطابق اللہ ،رسول اور خالص موٴمنین اعمال بندگان کو مشاہدہ کر رہے ہیں:و قل اعملوا فسیری الله عملکم و رسوله والموٴمنون (سوره توبه105)اور پیغمبر کہہ دیجئے کہ تم لوگ عمل کرتے رہو کہ تمہارے عمل کو اللہ ،رسول اور صاحبان ایمان دیکہ رہے ہیں-

البتہ یہ گواہی ذوی العقول یا عقلا کیلئے نہیں ہے بلکہ زمان و مکان بہی انسانی اعمال کی گواہی دیں گے-جیسا کہ غدیر کو بہی روز شاہد و مشہود کہا گیا ہے یعنی یہ کہ یہ دن انکے اعمال پر گواہی دے گا جنہوں نے صاحب غدیر کی ولایت کا اعلان سنا-

6-روز میثاق (یوم المیثاق المأخوذ)

پیمان محکم اور عہد موٴکد کو میثاق کہا جاتا ہے-اس بناء پر جس چیز کے بارے میں محکم عہد و پیمان لیا گیا ہو ،وہ میثاق میں داخل ہے-مثلاً خدا وند متعال نے تمام انبیاء سے عہد و میثاق لیا تہا کہ وہ پیغمبر اکرم ﷺ کی نصرت کرینگے: و اذ اخذ میثاق النبیین (آل عمران 81)

اور اس وقت کو یاد کرو جب خدا نے تمام انبیاء سے عہد لیا -----اس کی مدد کرنا-

غدیر کے دن کیونکہ رسول ﷺ نے سب سے ولایت امیر الموٴمنین کا عہد و پیمان لیا تہا اس لئے یہ دن میثاق کا دن تہا-امام صادق علیہ السلام : غدیر کا نام زمین پر روز میثاق ہے-(بحارالانوار ج98 ص321)

7- شیعہ کے اعمال کی قبولی کا دن

یقینًا کسی بہی عمل کی قبولیت کا دارومدار اس کے اجزاء و شرائط کے مکمل ہونے پر ہے شرائط قبولیت اعمال میں سے ایک اہم ترین شرط ولایت امیرالموٴمنین اور اہل بیت علیہم السلام ہے-جیسا کہ روایت مین امامزین العابدین کا فرمان ہے: زمین کا سب سے افضل اور با فضیلت ٹکڑا رکن و مقام ہے اگر کوئی شخص حضرت نوح علیہ السلامجیسی زندگی پائے جس میں وہ دن کو روزہ رکہے اور رات کو جاگ کر خدا کی عبادت میں بسر کرے وہ بہی رکن و مقام کے درمیان لیکن اگر ہماری ولایت نہیں رکہتا تو ان میں سے کوئی بہی چیز اسے فائدہ نہیں دے گی ،یعنی وہ عبادت اسکے منہ پر مار دی جائیگی-

غدیر کے دن کیونکہ اس اہم ترین شرط کا اعلان ہوا ،اس لحاظ سے یہ دن ،اعمال کی قبولیت کا دن ہے-امام رضا فرماتے ہیں :غدیر،شیعہ کے اعمال کی قبولی کا دن ہے-(المراقبات 257)

دوسرا یہ کہ خدا وند متعال متقین کے اعمال قبول کرتا ہے :انما یتقبل الله من المتقین (مائده 27)-اللہ فقط متقین کے اعمال قبول کرتا ہے-اور کوئی شخص اس وقت تک متقی نہیں بن سکتا جب تک امام المتقین کی ولایت کو قبول نہ کرے-

8:زینت کا دن یوم الزینۃ

احکام اسلامی مین انسان کی روح اور جسم دنون کے تقاضاؤں کا مکمل خیال رکہا گیا ہے-اس لئے جہاں ،اسلام نے نماز کے ذریعہ روح کی طہارت کا حکم دیا ہے-وہاں جسم کیلئے وضو اور غسل کو بہی واجب کیا ہے-

البتہ کچہ دنوں میں غسل کرنا مستحب ہے-ان میں سے ایک غدیر ہے-البتہ کیونکہ غدیر اسلام کی سب سے بڑی عید ہے-اس لحاظ سے کہا جاسکتا ہے کہ یہ روز زینت بہی ہے جیسا کہ امام رضا علیہ السلامفرماتے ہیں :

غدیر ،زینت کا دن ہے-(المراقبات 257)

9:روز آزمایش بندگان یوم محنة العباد

احکام میں جہاں مصالح و مفاسد واقعیہ پائے جاتے ہیں وہاں ایک پہلو بندگان کی آزمایش و امتحان بہی ہے جیسا کہ قبلہ کی تبدیلی کیلئے فرمایا گیا ہے: و ما جعلنا القبلة التی کنت علیها الا لنعلم من یتبع الرسول ممن ینقلب علی عقبیه (بقرہ 143)غدیر بہی ایسا دن ہے جس میں مسلمانوں کی آزمایش ہوئی کہ کون ولایت امیرالموٴمنین کو فرمان الٰہی سمجہ کر اور مصطفی کو : وما ینطق عن الہوی ان ہو الا وحی یوحی کا مصداق جان کر صدق دل سے قبول کرتا ہے اور کون یہ کہتا ہے کہ خدایا اگر یہ حق ہے تو پہر آسمان سے میرے اوپر عذاب نازل فرما حالانکہ اسے معلوم نہیں تہا کہ یہ عذاب قطعی ہے: سأل سائل بعذاب واقع (معارج 1) علی فرماتے ہیں :آج بندگان کی آزمایش کا دن ہے-(مصباح المتہجد 700)

10:شیطان کی شکست کا دن ، یوم مرغمہ الشیطان

منطق رحمانی میں شیطان ازل سے ناکام اور شکست خوردہ ہے اور اسے ملعون بنا کر اس دنیا میں بہیجا گیا ہے-البتہ شیطان کی نا امیدی اس وقت عروج پر پہنچی تہی جب رسول اکرم ﷺ کو مبعوث کیا گیا تہا،جیسا کہ علی فرماتے ہیں:میں نے خود شیطان کے رونے چیخنے اور چلانے کی آواز سنی اور جب پیغمبر ﷺ سے سوال کیا تو آنحضرت نے فرمایا: هذا الشیطان قد آیس من عبادته (نهج البلاغه خطبه 192)یہ شیطان (کی آواز)ہے جو کہ اپنی پرستش سے نا امید ہوچکا ہے-

اور جب ولایت امیر الموٴمنین علیہ السلام کا اعلان ہوا پہر شیطان تو کیا اسکے چیلے بہی اسلام سے مأیوس ہوگئے ،کیونکہ اب اسلام کی حفاظت کا بندوبست ہوچکا تہا:الیوم یئس الذین کفروا من دینکم (مائدہ 3)

11:روز خشنودی پروردگار ،یوم مرضاہ الرحمن :

خدا سے محبت کا دعوی اکثر و بیشتر لوگ کرتے رہتے ہیں ،لیکن کمال تب ہے جب خدا خود کسی سے رضایت کا اعلان کرے ،رسول اکرم ﷺ اس مرتبہ پر فائز ہوچکے تہے کہ خدا نے اپنی محبت کا معیار ،آنحضرت کی اطاعت کو قرار دیا:قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعوا نی یحببکم اللہ (آلعمران 31)

علی بہی شب ہجرت بستر رسول ﷺ پر آرام کی نیند سوکر پروردگار کی مرضیاں خرید چکے تہے:ومن الناس من یشتری نفسه ابتغاء مرضاة الله(بقرہ 207)

جبکہ غدیر کے دن انکی ولایت کے اعلان سے ،خداوند متعال دین اسلام سے اپنی رضایت کا اعلان کررہا ہے:رضیت لکم الاسلام دیناً (مائدہ 3)

امام صادق علیہ السلام علیہ السلامفرماتے ہیں:و فیه مرضاة الرحمٰن (بحارالانوار ج 98ص323)

آج کے دن میں مرضی پروردگار مخفی ہے-

12: روز عبادت و بندگی یوم العبادة

ویسے تو ہر دن ،رات ،ہفتہ،مہینہ،سال اور صدی خدا کی عبادت کیلئے ہے لیکن جب خدا وند متعال کوئی خصوصی نعمت عطا کرے تو اس کیلئے خصوصی بندگی اور شکرانے کی ضرورت ہے-جیسا کہ پیغمبر اکرم ﷺ کو کوثر عطا ہونے کے بدلے شکرانے کے طور پر نماز اور قربانی کا حکم دیا گیا :فصل لربک وانحر (کوثر 2) غدیر کے دن بہی خدا وند متعال نے انسانیت کو اپنی عظیم ترین نعمت سے نوازا ہے لھذا یہ دن خصوصی عبادت کا دن ہے -جیسا کہ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: غدیر ،عبادت کا دن ہے،نماز کا دن ہے،شکرانہ کا دن ہے-(الغدیر ج 1 ص 285)

13:حق و باطل میں جدائی کا دن یوم الفصل

احقاق حق اور ابطال باطل خدا وند متعال کی سنتوں میں سے ایک سنت ہے-البتہ اگر حق خدا کے ولی کا ہو تو خدا وند متعال اسکے دشمنوں کی زبان پر بہی حق کا اعلان جاری کردیتا ہے،جیسا کہ عزیز مصر کی بیوی نے اپنی تمام تر ناپاک سازشوں کے باوجود اعلان کیا کہ : الآن حصص الحق (یوسف 51)اب حق بالکل واضح ہوگیا ہے-

غدیر بہی حق و باطل کے درمیان جدائی کا دن ہے،خداوند متعال نے اعلان ولایت سے قیامت تک کیلئے حق و باطل کا راستہ مشخص کردیا ہے-علی ارشاد فرماتے ہیں: هذا یوم الفصل الذی کنتم توعدون (مصباح المتہجد 700)آج ہی حق و باطل کی جدائی کا دن ہے جس کا وعدہ تم سے کیا گیا تہا-

اگرچہ رسول اکرم ﷺ پہلے ہی علی کو حق کی کسوٹی بتا چکے تہے :علی مع الحق والحق مع علی اللہم ادر الحق معہ حیث ما دار (المستدرک علی الصحیحین ج 3 ص 124) علی حق کے ساتہ ہے اور علی حق کے ساتہ ہے بار الٰہا حق کو وہاں پہیر جہاں علیعلیہ السلام پہرے-

حق کے واضح ہونے سے باطل بے نقاب ہوجاتا ہے اور انکے درمیان مخفی تعلقات آشکار ہوجاتے ہیں،اسی تناظر میں علی فرماتے ہیں وهو تبیان العقود عن النفا ق و الجحود(مصباح المتهجد 700)غدیر کفر و نفاق میں موجود تعلقات کو آشکار کرنے کا دن ہے-

14:روز سرور ،یوم السرور

خوشی اور غم اس دنیا میں انسانی زندگی کا جزء لاینفک ہیں ،البتہ دین نے ان احساسات کو صحیح رخ اور مثبت پہلو میں استعمال کرنے اور انہیں خدائی رنگ دینے کیلئے ان کے موارد کو مشخص اور معین کیا ہے-غدیر بہی ان ان دنوں میں سے ایک ہے-جس میں خوشی اور سرور کے اظہار کرنے کا حکم دیا گیا ہے-اسی وجہ سے اس کا نام ہی یوم التبسّم یوم سرور اور یوم الفرح رکہا گیا ہے-امام رضا فرماتے ہیں :و ہو یوم التبسم ( المراقبات 257)

امام صادق علیہ السلام علیہ السلامفرماتے ہیں : انه یوم السرور ،انه یوم الفرح(الغدیر ج1 ص 286) غدیر،خوشی اور سرور کا دن ہے-

15:مشکل کشائی کا دن ،یوم وقوع الفرج

یقینا انسان اور اسے درپیش مشکلات کو ،خالق انسان ہی بہتر جان سکتا تہا اور اسباب مشکل کشائی کا علم بہی وہی رکہتاہے-حالات حاضرہ کی گواہی ہے کہ انسانی مسائل کاحل مادی یا ٹیکنالوجی کی ترقی میں نہیں ہے-بلکہ اصل حل انسان کی تربیت اور اسے خدائی بنانے میں پوشیدہ ہے-غدیر اسی حل کا نام ہے-اس لئے علی کا ارشاد ہے:هذا یوم وقع فیهالفرج (مصباح المتہجد 700)مشکل کشائی آج کے دن میں ہے-

16:روز ولایت،یوم الولایت

بنیادی اور ذاتی طور پر مسلمہ ولایت،خدا کی ولایت ہے-اور اگر کسی دوسرے کی ولایت ہوسکتی ہے تو خدا کے اذن اور حکم سے ہوسکتی ہے-رسول اکرم ﷺ کی بعثت اور اعلان رسالت سے آنحضرت کی ولایت کا اعلان بہی ہوچکا-جبکہ غدیر امیر المومنین کے منصوب ہونے کا دن ہے-جس کی صورت میں ولایت کی تکمیل ہوئی اور آیہ انما ولیکم الله ورسوله والذین آمنوا یقیمون الصلوٰة و یوٴتون الزکاة و هم راکعون (مائدہ 55)کو اسکا مصداق مل گیا ہے -امام رضا فرماتے ہیں:غدیر انسان اور دوسری مخلوقات کے سامنے ولایت کے پیش کرنے کا دن ہے-(المراقبات 257)

17: روز قیام

اصطلاح میں قیام کی معنی ٰ یہ ہے کہ اسی دن کو مناجات ،دعا و استغفار کے ذریعے زندہ کیا جائے-البتہ یہ بہی ممکن ہے کہ قیام ،استقامت اور پایداری کیلئے کنایہ ہو کہ انسان کو حق کی راہ میں دشمنوں کے مقابلے میں ثابت قدم ہونا چاہیئے-امام صادق علیہ السلام کا فرمان ہے:ذلک یوم القیام(بحارالانوار ج 98ص323)غدیر قیام کا دن ہے-شاید اسی وجہ سے وارث غدیر کا ایک لقب قائم آل محمد ہے-

18:روز صیام ،یوم الصیام

روزے کی اصل تشریع کا سبب،حصول تقوی ہے-البتہ دنوں کی مناسبت سے روزہ کا شرعی حکم مختلف ہے-کبہی روزہ واجب ہے تو کبہی مستحب -غدیر کے روزے کی فضیلت کے متعلق روایت میں وارد ہوا ہے کہ اس دن کا روزہ سو حج اور عمرے کے برابر ہے-دوسری روایت کے مطابق یہ روہ ساٹہ سال کے گناہوں کا کفارہ ہے-لھذا موٴمنین اور مومنات اس فضیلت سے محروم نہ رہیں-امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:ذلک یوم الصیام غدیر روزہ کا دن ہے-

آخر میں اختصار کو مد نظر رکہتے ہوئے ادعیہ و زیارات میں وارد ہونے والے غدیر کے اسماء یا اوصاف کو فہرست وار ذکر کیا جاتا ہے-اور لطافت کی وجہ سے ترجمہ سے پرہیز کیا جاتا ہے:

غدیر کے اسماء یا اوصاف

1-عیداللہ الاکبر 11-یوم وضوح الحجج

2-یوم وقوع الفرج 12-یوم محنة العباد

3-یوم مرضاة الرحمٰن 13-یوم الایضاح

4-یوم مرغمہ الشیطان 14-یوم دحر الشیطان

5-یوم منارالدین 15-یوم البیان عن حقایق الایمان

6-یوم القیام 16-یوم الولایۃ

7-یوم السرور 17-یوم الکرامة

8-یوم التبسم 18-یوم کمال الدین

9-یوم الارشاد 19-یوم الفصل

10-یوم الرفع الدرج 20-یوم البرہان

21-یوم نصب امیرالموٴمنین 33-یوم اظہارالمصون من المکنون

22-یوم الشاہدوالمشہود 34-یوم ابلاء خفایا الصدور

23-یوم العہد و المعہود 35-یوم النصوص علی الخصوص

24-یوم الزینۃ 36-یوم محمد و آل محمد

25-یوم قبول اعمال الشیعہ 37-یوم الصلوٰة

26-یوم الدلیل علی الرواد 38-یوم الشکر

27-یوم الامن و المأمون 39-یوم الدوح

28-یوم ابلاء السرائر 40-یوم الغدیر

29-عید اہل البیت 41-یوم الصیام

30-عید الشیعہ 42-یوم اطعام الطعام

31-یوم العبادة 43-یوم العید

44-یوم الملأ الاعلی

45-یوم اکمال الدین

46-یوم الفرح

47-یوم الافصاح عن المقام84

-یوم التبیان العقود عن النفاق و الجحود

49-یوم الجمع المسئول

50-یوم المیثاق المأخوذ

Add new comment