عید غدیر کی مناسبت سے خطاب

رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے عید غدیر کے موقع پر ہزاروں لوگوں کے اجتماع سے خطاب میں عید کی مبارکباد پیش کی۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ عید غدیر خم کا سب سے بنیادی پیغام اسلام میں امامت کو حکومتی سسٹم اور نظام کے طور پر متعارف کرانا

بسم‌ الله ‌الرّحمن ‌الرّحیم‌
و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و آله الطّیبین الطّاهرین المعصومین سیّما بقیة الله فی الارضین.

آپ کو عید کی مبارک باد! اللہ تعالی اس عظیم عید کی برکت سے اور ذکر مولا کی برکت سے آپ کے قلوب کو ہمیشہ اپنے الطاف اور طمانیت و آسودگی سے بہرہ مند رکھے اور یہ توفیق عطا فرمائے کہ ہم اس مناسبت اور اس جیسی دیگر مناسبتوں سے کما حقہ اور بنحو احسن استفادہ کریں۔ بحمد اللہ ہماری آج کی نشست کا آغاز بہت اچھا رہا؛ بہترین انداز میں تلاوت کلام پاک، جو اشعار یہاں پڑھے گئے، وہ الفاظ کی بندش کے اعتبار سے بھی اور مضمون و مفہوم کے اعتبار سے بھی بہت اچھے تھے۔ آپ کے قلوب مولائے متقیان کے عشق و محبت سے لبریز ہیں، اللہ کا درود و سلام ہو اس ہستی پر۔ یہی عشق، یہی شوق، یہی محبت اور یہی توجہ ان شاء اللہ ہمیں اس سمت میں لے جائے گی جو ہمارے مولا کی مرضی کے مطابق ہے۔
ایک چیز خود غدیر کے تعلق سے ہے۔ بعض جگہوں پر جو کہا گیا ہے کہ عید غدیر 'عید اللہ الاکبر' ہے، یعنی اسے تمام عیدوں سے برتر قرار دیا گیا ہے، تو اس کی وجہ کیا ہے؟ قرآن کریم میں کچھ آیتیں ایسی ہیں جو واقعہ غدیر کے علاوہ کہیں بھی منطبق نہیں ہوتیں۔ یہی معروف آیہ کریمہ؛ «الیَومَ یَئِسَ الَّذینَ کَفَروا مِن دینِکُم فَلا تَخشَوهُم وَ اخشَونِ اَلیَومَ اَکمَلتُ لَکُم دینَکُم وَ اَتمَمتُ عَلیکُم نِعمَتی وَ رَضیتُ لَکُمُ الاِسلامَ دیناً» (۱) جو سورہ مائدہ کی شروعاتی آیتوں میں ہے، واقعہ غدیر سے کم اہمیت و منزلت والے کسی واقعے پر قابل انطباق نہیں ہے۔ اسی انداز کا واقعہ ہی اس فقرے کا مصداق ہو سکتا ہے؛ «الیَومَ یَئِسَ الَّذینَ کَفَروا مِن دینِکُم»۔ جن لوگوں نے ان آیتوں کے مضمون سے اختلاف کیا ہے، کچھ باتیں بیان کی ہیں، کچھ چیزیں پیش کی ہیں، جو مخالفین ہیں، جو لوگ واقعہ غدیر کو نہیں مانتے انھوں نے اس آیہ کریمہ کی کسی اور انداز سے تاویل پیش کی ہے، لیکن آیت کا یہ ٹکڑا قابل تاویل نہیں ہے۔ آج کا دن وہ دن ہے جب کفار آپ کے دین سے مایوس ہو گئے۔ آخر اس دین میں ایسا کون سے اضافہ ہوا ہے کہ جس نے انھیں مایوس کر دیا؟ سورہ مائدہ کی اس آیہ کریمہ کے اس فقرے سے قبل اور بعد میں جو احکام ہیں ان کی کیا اہمیت ہے؟ یہ جملہ نماز کے بارے میں نہیں استعمال ہوا، زکات کے بارے میں نہیں استعمال ہوا، جہاد کے بارے میں نہیں استعمال ہوا، کسی بھی دوسرے فروعی حکم کے لئے استعمال نہیں ہوا کہ «اَلیَومَ یَئِسَ الَّذینَ کَفَروا مِن دینِکُم»، لہذا ظاہر ہے کہ یہاں مسئلہ کچھ مختلف ہے۔ فروعات سے الگ کوئی مسئلہ ہے۔ وہ مسئلہ کیا ہے؟ یہ اسلامی معاشرے کی رہبری کا مسئلہ ہے، یہ اسلامی معاشرے میں امامت اور نظام حکومت کا معاملہ ہے۔ ممکن ہے کہ اس کی خلاف ورزی کی جائے، چنانچہ بنی امیہ، بنی عباس اور اسی طرح دوسروں نے امامت و خلافت کے نام پر بادشاہت کی اور اپنی سلطنت قائم کی، مگر اس سے فلسفہ غدیر پر کوئی آنچ نہیں آ سکتی۔ غدیر میں جس چیز کا تعین ہوا ہے وہ ایک ضابطہ ہے، ایک قاعدہ ہے۔ وہاں اسلام کا ایک قاعدہ بنا۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی حیات طیبہ کے آخری مہینوں میں یہ ضابطہ وضع کیا، وہ ضابطہ کیا ہے؟ یہ ضابطہ امامت ہے، ضابطہ ولایت ہے۔ انسانی معاشروں میں قدیم ایام سے حکومتیں بنتی رہی ہیں اور بشریت نے انواع و اقسام کی حکومتوں کا مشاہدہ اور تجربہ کیا۔ اسلام ان حکومتوں کو، اقتدار کی ان شکلوں کو، طاقت بڑھا لینے کے ان طریقوں کو قبول نہیں کرتا۔ اسلام امامت کو مانتا ہے۔ یہ اسلام کا قاعدہ ہے اور واقعہ غدیر اسی چیز کو بیان کرتا ہے۔ اس کا مصداق بھی واضح ہے۔ امیر المومنین علی علیہ السلام وہ ہستی ہیں جن کی شخصیت کے اندر یا قرآنی مفاہیم و معارف کا نمائندہ ہونے کی آپ کی حیثیت کے اندر، نہ اس زمانے میں اور نہ بعد کے ادوار میں، کوئی بھی شخص کوئی معمولی سی بھی خامی تلاش نہیں کر سکا۔ بے شک آپ کو (نعوذ باللہ) گالیاں دی گئیں، مگر دینے والے تو اللہ کو بھی گالیاں دیتے، ہیں، نعوذ باللہ پیغمبر اکرم کی شان میں بھی گستاخی کرتے ہیں، تو فحش کلامی کو دلیل نہیں بنایا جا سکتا۔ جب بھی کوئی انسان بغور جائزہ لے، تعصب اور جذباتیت سے، ایک حد تک ہی سہی، بالاتر ہوکر سوچے تو ہرگز اس عظیم نورانی پیکر، ملکوتی ہستی میں کم ترین سطح کی بھی خامی تلاش نہیں کر سکتا۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آپ کو امامت کا مصداق معین فرمایا۔ یہ ایک قاعدہ بن گیا۔ اب رہتی دنیا تک جہاں بھی مسلمانوں کو ہدایت و توفیق ملی اور انھوں نے اسلام کو نافذ کرنے کا حوصلہ پیدا کر لیا اور اسلامی معاشرے کی تشکیل کا تہیہ کر لیا تو ان کے سامنے قاعدہ اور ضابطہ یہی ہے؛ انھیں چاہئے کہ امامت کا احیاء کریں۔ البتہ کوئی بھی مصداق بلندی میں اس مصداق کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتا جس کا تعین پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے، اس سے کمتر نمونے کی خاک پا کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔ ہماری بڑی سے بڑی علمی، روحانی و عرفانی ہستیاں اور سیر و سلوک و عرفان کی وادیوں کی سرکردہ شخصیات بھی امیر المومنین علیہ السلام کے سامنے کوئیں کی تہہ میں نظر آنے والی نور کی پرتو کی مانند ہیں جن سے مختصر روشنی انسان کو مل جاتی ہے۔ اب اس مختصر روشنی کا موازنہ آپ خورشید سے کیجئے۔ جی ہاں، یہی صورت حال ہے، بے شک شعاع تو وہی ہے لیکن فاصلہ کتنا زیادہ ہے؟! فرق کتنا زیادہ ہے؟ ہماری عظیم ترین ہستیاں بھی جیسے ہمارے قائد بزرگوار امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ واقعی ایک عظیم، با عظمت، کامل اور جامع الحیثیات شخصیت کے مالک تھے اور ہر لحاظ سے بڑی ممتاز اور نمایاں ہستی کا درجہ رکھتے تھے۔ اب اگر ہم ان کو امیر المومنین علیہ السیلم کے سامنے رکھیں تو موازنے کی یہی صورت ہوگی جو ہم نے عرض کی، یعنی یہ موازنہ خورشید کی درخشش کا موازنہ کونئیں کی تہہ میں نظر آنے والی پرتو سے کرنے کے مترادف ہوگا۔ فاصلہ اس قدر زیادہ ہے۔ یہ فاصلے ہیں مگر ضابطہ یہی ہے، ضابطہ امامت ہے۔ اسلامی معاشرے میں حکومت و اقتدار کا ضابطہ غدیر میں معین کر دیا گیا اور اس کی داغ بیل رکھ دی گئی۔ یہ ہے غدیر کی اہمیت۔ غدیر کی اہمیت صرف اتنی نہیں ہے کہ وہاں امیر المومنین کا تعین عمل میں آیا۔ یہ بھی بہت اہم ہے، تاہم اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ضابطے اور قاعدے کا تعین کر دیا گیا۔ زر و زور کی حکومت بے معنی ہے، اشرافیہ کی حکمرانی بے معنی ہوتی ہے، عوام پر تکبر سے کی جانے والی حکومت بے معنی ہے، ایسی حکومت بے معنی ہے جو صرف اپنے لئے مال و اسباب جمع کرنے، توسیع پسندی اور امتیازی سہولتیں حاصل کرنے کے لئے ہو۔ خواہشات پوری کرنے کے لئے کی جانے والی حکومت بے معنی ہے۔ واضح ہو گیا کہ اسلام میں ضابطہ یہ ہے۔ یہ ضابطہ غدیر میں وضع کیا گيا۔ جب یہ ضابطہ طے ہو گیا تو؛ «یَئِسَ الَّذینَ کَفَروا مِن دینِکُم» دین کو اس کے صحیح راستے سے منحرف کر دینے کے اپنے مقصد کی طرف سے دشمن مایوس ہو گئے۔ اس لئے کہ دین کی سمت و جہت تب تبدیل ہوتی ہے جب اس کا بنیادی جوہر بدل جائے، اصلی محور میں تبدیلی آ جائے۔ یعنی اقتدار کا محور، انتظامی سرگرمیوں کا مرکز، سربراہی کا مرکز اگر بدل گیا تو سب کچھ دگرگوں ہو جائے گا۔ عملی حقائق میں تبدیلیاں ہوتی ہیں اور بنی امیہ اور بنی عباس کے خلفا اسلام کے نام پر اقتدار میں آتے ہیں، حجاج ابن یوسف کو بھی اقتدار مل جاتا ہے۔ لیکن یہ لوگ اس اصلی ضابطے کو تبدیل نہیں کر سکتے۔ آج اگر عالم اسلام میں کچھ لوگ، ایسے لوگ جو اسلامی معارف سے آشنا ہیں، قرآن سے رجوع کریں، ان ضوابط کا جائزہ لیں جو قرآن میں اللہ کی بندگی کے لئے، اللہ کے بندوں یعنی اقوام کا راستہ معین کرنے کے لئے اور زندگی بسر کرنے کے لئے بیان کئے گئے ہیں تو امیر المومنین اور آپ کے جانشینوں کی امامت کے علاوہ کسی اور نتیجے پر نہیں پہنچ سکتے۔ یہ ہمارا دعوی ہے اور ہم اپنے اس دعوے کو پوری طرح ثابت کر سکتے ہیں۔ عالم اسلام کا کوئی بھی شخص، مفکرین، دانشور، صاحب عقیدہ افراد، وہ لوگ جو کسی اور عقیدے کے ساتھ بڑے ہوئے ہیں، اگر قرآن کو، قرآنی اقدار کو اور قرآنی ضوابط کو انسانی معاشروں کی زندگی کے لئے بنیاد و معیار بنائیں تو وہ اس کے علاوہ کسی اور نتیجے پر نہیں پہنچ سکتے کہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام جیسی ہستی کو اسلامی معاشروں پر حکومت کرنا چاہئے۔ یعنی طریقہ یہی ہے، صحیح راستہ امامت کا راستہ ہے۔ اس کا تعلق غدیر سے ہے۔
غدیر کی اس غیر معمولی اہمیت کو پیش نظر رکھا جائے تو پھر اس دوسری آیہ شریفہ کا مفہوم پوری طرح سمجھ میں آتا ہے؛ «یاَیُّهَا الرَّسولُ بَلِّغ مآ اُنزِلَ اِلَیکَ مِن رَبِّکَ وَ اِن لَم تَفعَل فَما بَلَّغتَ رِسالَتَه» (۲) ارشاد ہوتا ہے کہ اگر آپ نے اس حکم کو نہ پہنچایا تو گویا پیغام رسالت ہی نہیں پہنچایا۔ پیغمبر اکرم 23 سال سے جانفشانی کر رہے ہیں، وہ مکے کی جدوجہد، وہ مدینے کی جدوجہد، وہ جنگیں، وہ قربانیاں، وہ ایثار، وہ سختیوں کا سامنا، بشریت کی ہدایت کا وہ عظیم کام جو پیغمبر اسلام نے انجام دیا۔ اس مدت میں یہ سارے کام انجام دئے گئے۔ سوال یہ ہے کہ یہ کون سا واقعہ ہے، یہ کون سا فریضہ ہے کہ اگر یہ نہ ہو تو گویا کچھ بھی انجام نہیں دیا گيا ہے۔ «وَ اِن لَم تَفعَل فَما بَلَّغتَ رِسالَتَه» یہ ہرگز فروع دین کا معاملہ نہیں ہو سکتا۔ اس سے بالاتر معاملہ ہے۔ وہ مسئلہ کیا ہے؟ امامت ہے۔ سب سے پہلا امام کون ہے؟ خود پیغمبر ہیں۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے منی میں فرمایا؛ اِنَّ رَسولَ اللهِ کانَ هُوَ الاِمام؛ پیغمبر پہلے امام ہیں«ثُمَّ مِن بَعدِهِ عَلیِّ‌ بنِ‌ اَبی‌ طالِب» پھر علی ابن ابی طالب اور دیگر ائمہ علیہم السلام ہیں (3)۔ اللہ تعالی نے اپنے نبی حضرت ابراہیم کا بڑا امتحان لیا اور جب آپ نے وہ تمام سخت مراحل کامیابی سے پورے کر لئے؛ نوجوانی میں آگ میں ڈالے گئے، اس کے بعد بابل گئے اور وہاں جن علاقوں میں رہے بے پناہ مشقتیں برداشت کیں، صعوبتیں اٹھائیں، بڑھاپے کے سن کو پہنچے تب اللہ تعالی نے فرمایا؛ اِنّی جاعِلُکَ لِلنّاسِ اِمامًا (۴) اب میں تمھیں امام بنانا چاہتا ہوں۔ اسے کہتے ہیں امامت۔ یہ عقیدہ ہے۔ محکم اور ٹھوس دلائل پر استوار اسلامی عقیدہ۔ ہم تمام عالم اسلام کو دعوت دیتے ہیں اور تمام مفکرین کو دعوت فکر دیتے ہیں، آج عالم اسلام کو جس اتحاد کی سخت ضرورت ہے، قرآن کی آیتوں میں تدبر اور ان حقائق پر غور کرکے اسے بآسانی حاصل کیا جا سکتا ہے، بشرطیکہ اہل فکر حضرات ان مسائل پر توجہ دیں۔
البتہ ادھر سے یہ بھی ضروری ہے کہ ان کے جذبات مشتعل نہ کئے جائیں۔ کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ تشیع کے اثبات کا بس یہی طریقہ ہے کہ انسان اہل سنت اور دوسرے افراد کے نزدیک جو مقدس افراد ہیں ان کے سلسلے میں مستقل طور پر بد کلامی کرے۔ بالکل نہیں، یہ تو ائمہ علیہم السلام کی سیرت کے خلاف ہے۔ یہ جو آپ دیکھ رہے ہیں کہ عالم اسلام میں ٹی وی چینل اور ریڈیو نشریات شروع ہو رہی ہیں جو شیعہ کے نام پر اپنا نصب العین یہ بنائے ہوئے ہیں کہ دیگر مسلکوں کی محترم شخصیتوں کی توہین کریں، تو صاف ظاہر ہے کہ اس کا بجٹ برطانوی خزانے سے مہیا کرایا جا رہا ہے۔ یہ بجٹ برطانیہ فراہم کر رہا ہے، تو یہ برطانوی تشیع ہے۔ کوئی اس خیال میں نہ رہے کہ شیعہ مسلک کی توسیع، شیعہ عقائد کا پرچار اور استحکام اسی بدکلامی اور اسی طرز گفتگو سے ممکن ہو پائے گا۔ جی نہیں، یہ لوگ بالکل برعکس عمل کر رہے ہیں۔ جب آپ نے دوسروں کو برا بھلا کہا تو ان کے گرد تعصب اور اشتعال کا ایک حصار قائم ہو جاتا ہے، جس کے بعد آپ کی حق بات بھی ان کے لئے قابل تحمل نہیں رہتی۔ ہمارے پاس منطقی باتیں بہت ہیں، منطقی پیغام کثرت کے ساتھ موجود ہیں، ایسی باتیں کہ ہر اہل فکر انھیں سننے کے بعد یقینا قبول کرے گا۔ ہمارے پاس اس طرح کی باتیں بہت ہیں۔ یہ باتیں لوگوں تک پہنچائيے۔ یہ باتیں دوسرے فریقوں کے دلوں میں ڈالئے۔ جب آپ نے گالی دینا شروع کر دیا، برا بھلا کہنا شروع کر دیا تو گویا آپ نے اپنے درمیان ایک دیوار کھڑی کر دی ہے۔ اب آپ کی بات ہرگز سنی نہیں جائے گی۔ اسے دوسرے نہیں سنیں گے۔ بلکہ ایسی صورت میں امریکا، سی آئی اور دیگر خفیہ ایجنسیوں سے پیسے لیکر کام کرنے والے خبیث اور پٹھوں گروہ جیسے داعش، النصرہ وغیرہ مٹھی بھر غافل، نادان اور سادہ لوح افراد کی مدد سے یہ حالات پیدا کر دیں گے جس کا مشاہدہ آپ نے عراق، شام اور دیگر جگہوں پر کیا۔ یہ دشمن کا مشن ہے۔ دشمن تو موقع کی تاک میں رہتا ہے۔ وہ ہر موقع سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ ہمارے پاس حرف حق ہے، منطقی پیغام ہے، محکم موقف ہے، اس کا ایک نمونہ یہی ہے جو میں نے ابھی عرض کیا۔ یہ کچھ باتیں غدیر کے تعلق سے تھیں۔
اب حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے بارے میں کچھ باتیں۔ اسلام پر عقیدہ رکھنے والا مومن انسان ہو، یا کسی بھی دین کا ماننے والا انسان ہو، یا پھر کسی بھی دین کو نہ ماننے والا ملحد شخص ہو، وہ کیسا بھی انسان ہو، ایک انسان ہونے کی حیثیت سے وہ جن صفات اور اقدار کا احترام کرتا ہے وہ سب کے سب علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے اندر جمع ہیں۔ یعنی علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی شخصیت ایسی شخصیت ہے کہ اگر آپ شیعہ ہیں تب بھی ان کا احترام کریں گے، اگر سنی ہیں تب بھی ان کا احترام کریں گے، مسلمان نہیں ہیں تب بھی اگر آپ اس شخصیت سے واقف ہیں اور ان کے حالات زندگی سے آشنا ہیں تو ان کا احترام کریں گے۔ برسہا برس سے جو اہل سنت افراد امیر المومنین علیہ السلام کے فضائل لکھتے آ رہے ہیں لا تعداد ہیں۔ عیسائی مصنف جارج جرداق (5) نے پانچ جلدوں پر مشتمل وہ کتاب لکھی۔ برسوں پہلے ایک عیسائی شخص امیر المومنین علیہ السلام کے بارے میں عشق و عقیدت میں ڈوب کر کتاب لکھتا ہے۔ یہی مصنف یہاں میرے پاس آئے اور اپنی کتاب کے بارے میں مجھے بتایا (6)، کہنے لگے کہ نوجوانی سے ہی مجھے نہج البلاغہ سے آشنائی ہو گئی۔ نہج البلاغہ نے مجھے علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی شخصیت سے روشناس کرایا۔ اس طرح انھوں نے یہ کتاب لکھی؛ الامام‌ علی صوت العدالة الانسانیّه۔ جس شخص کا کوئی دین نہ ہو، یعنی کسی بھی دین پر عقیدہ نہ رکھتا ہو، اگر وہ امیر المومنین سے آشنا ہو جاتا ہے تو ان کے سامنے سر تعظیم خم کرتا ہے، اظہار خاکساری کرتا ہے۔
امیر المومنین علیہ السلام کے اندر تین طرح کی صفتیں ہیں؛ یک تو روحانی و الوہی صفتیں کہ جن کا ہم کسی بھی طرح ادراک نہیں کر سکتے۔ ایمان، وہ گہرا اور حد درجہ بلند ایمان، سبقت در اسلام، راہ اسلام میں قربانیاں۔ اخلاص؛ آپ کے عمل میں سوئی کی نوک کے برابر بھی کوئی غیر الہی جذبہ دخیل نہیں ہے۔ کیا ہم ان چیزوں کا ادراک کر سکتے ہیں؟ مجھ جیسے افراد کے لئے یہ کوائف کیا کسی بھی طرح قابل فہم ہیں؟ ہر کام اللہ کے لئے، رضائے خالق کے لئے، حکم پروردگار پر عمل آوری کے لئے۔ یعنی مکمل اخلاص۔ یہ ایسی چیزیں ہیں جن کی قدر و منزلت کا ادراک ہمارے بس کی بات نہیں ہے اور نہ ہم اس کی صحیح طریقے سے تشریح کر سکتے ہیں۔ علم اور اللہ کی معرفت، معرف باللہ۔ ہم اللہ کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟ ہم جب کہتے ہیں؛ «سُبحانَ رَبِّی العَظیمِ وَ بِحَمدِه» تو اس عظمت سے ہم کیا سمجھتے ہیں اور امیر المومین علیہ السلام کا ادراک اس بارے میں کس منزل پر ہوتا ہے؟ اللہ کی معرفت۔ یہ امیر المومنین علیہ السلام کی صفات کا ایک سلسلہ ہے جو ہمارے لئے واقعی قابل توصیف نہیں ہے، قابل فہم نہیں ہے۔ اگر کوئی آکر ہمیں سمجھائے اور اس کی تشریح کرے تب بھی ہم اس کی گہرائی کو کما حقہ نہیں سمجھ سکتے۔ کیونکہ یہ عظمت لا متناہی ہے، اس کے عمق کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ تو امیر المومنین علیہ السلام کی صفات کی ایک قسم یہ ہے۔
امیر المومنین کی صفات کی ایک اور قسم نمایاں انسانی اوصاف کی ہے۔ یہ وہی صفات ہیں کہ جنھیں مسلمان، غیر مسلم، عیسائی و غیر عیسائی، دیندار اور بے دین سب پسند کرتے ہیں اور گرویدہ ہو جاتے ہیں۔ «شجاعت»، «رحمدلی» وہ انسان جو میدان جنگ میں بے جگری سے لڑتا ہے، جب کسی بے سرپرست خاندان کے پاس جاتا ہے تو یتیموں سے گھل مل جاتا ہے۔ خم ہوکر یتیم بچوں کو اپنے دوش پر سوار کرتا ہے، ان کے ساتھ کھیلتا ہے۔ یہ ایسی صفات ہیں کہ ہر کوئی انھیں پسند کرتا ہے خواہ دیندار ہو یا نہ ہو۔ کوئی بھی شخص جب کسی ہستی کی یہ عظمتیں دیکھتا ہے تو خود بخود سر تعظیم خم کر دیتا ہے۔ «ایثار»؛ ایثار کا مطلب ہے دوسرے کو اپنے اوپر ترجیح دینا، یعنی قربانی دینا، یعنی ایسے مواقع پر بھی جب آپ حق بجانب ہیں اللہ کے لئے، کسی مصلحت کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ اپنے اس حق سے دست بردار ہو جائیں۔ البتہ جب ذاتی حق کی بات ہو تب۔ خواہ وہ پیسے کا کوئی معاملہ ہو، وقار کا مسئلہ ہو یا کوئی اور حق ہو۔ یہ ہے ایثار کا مطلب۔ امیر المومنین علیہ السلام کی کچھ خصوصیات اس قسم کی بھی ہیں، اگر کوئی انسان ان خصوصیات کو شمار کرنا چاہے تو پوری کتاب تیار ہو جائے گی، ایک طولانی طومار تیار ہو جائے گا۔
امیر المومنین علیہ السلام کے اوصاف کی تیسری قسم حکومتی خصوصیات پر مشتمل ہے جو اسی مسئلہ امامت کا نتیجہ ہے۔ امامت یعنی اس انداز سے حکومت کرنا۔ البتہ اس کے بھی درجات ہیں اور بلند ترین درجہ امیر المومنین علیہ السلام جیسی شخصیت کے اندر نمودار ہوتا ہے۔ کس طرح کی حکومتی خصوصیات؟ جیسے انصاف، مساوات، تمام لوگوں کو یکساں نظر سے دیکھنا۔ یہاں تک کہ ان لوگوں کو بھی جو آپ کے معاشرے میں ہیں مگر آپ کے دین پر نہیں ہیں۔ امیر المومنین علیہ السلام نے جب سنا کہ بسر بن‌ ارطاة (۷) ایک شہر میں داخل ہوا اور مکانات میں درانہ گھس گیا تو آپ بڑے دردناک لہجے میں اپنے خطبے میں ارشاد فرماتے ہیں؛ بَلَغَنی اَنَّ الرَّجُلَ مِنهُم لِیَدخُلُ المَرأَةَ المُسلِمَةِ وَ الاُخرَی المُعاهَدَةِ فَیَنتَزِعُ حِجلَها (۸) میں نے سنا ہے کہ ایک ظالم و ستمگر و گستاخ فوجی مسلمان اور غیر مسلمان خواتین کے گھروں میں داخل ہو گیا، 'مُعاهَد' یعنی وہ یہود و نصارا جو اسلامی معاشرے میں زندگی بسر کرتے تھے، یہ فوجی گھروں میں داخل ہوتے تھے اور ان کے لباس اور حِجِل (۹)، دستبند اور پیروں کے زیور چھینتے تھے اور لوٹ لے جاتے تھے۔ اس کے بعد فرماتے ہیں کہ اگر انسان اس واقعے پر غم و غصے سے مر جائے تو اسے سرزنش نہیں کرنا چاہئے۔ آپ غور کیجئے! اسے کہتے ہیں شخصیت۔ عوام الناس کے لئے ان کی رحمدلی، لوگوں کے لئے ان کی دل سوزی، وہ بھی سارے عوام کے لئے؛ ظاہر ہے اسلامی معاشرے میں یہودی و نصرانی وغیرہ بھی زندگی بسر کرتے تھے۔ یہ آپ کی حکومتی خصوصیات ہیں؛ «عدل»، «انصاف»، «مساوات»۔
اپنی ذات کو دنیا کے لغویات اور اس کے تجملات سے دور رکھنا۔ دنیاوی حکومتوں کی ایک بہت بڑی مصیبت یہی ہے۔ ہم چونکہ ایک مملکت کے سربراہ بن گئے ہیں، ملک کے خزانے ہمارے ہاتھ میں ہیں تو اب ہمارے دل میں لالچ آ جاتا ہے۔ یہاں زمین بہت اچھی ہے، یہاں بڑی سہولیات ہیں، اس میں بڑی آمدنی ہے، تو اس میں سے ہم بھی اپنا ایک حصہ لگا لیتے ہیں۔ جو لوگ حد درجہ بدبخت، روسیاہ اور قسی القلب ہوتے ہیں وہ سب ہڑپ لیتے ہیں، جیسے رضاخان۔ جن لوگوں میں کسی قدر انصاف ہوتا ہے وہ اس میں سے کچھ حصہ دوسروں کو بھی دے دیتے ہیں۔ عام طور پر اپنے حلقہ بگوش افراد میں تقسیم کرتے ہیں اور کچھ اپنے لئے رکھ لیتے ہیں۔ یہ حکومتوں کی بڑی آفتوں میں سے ایک ہے۔ دنیا کی جمہوری حکومتیں بھی اس میں مبتلا ہیں۔ آپ سنتے ہیں کہ فلاں ملک کے صدر کی بیوی نے سردیوں یا گرمیوں کی چھٹیوں میں فلاں پرکشش آب و ہوا والے جزیرے کا سفر کیا اور اتنے ملین ڈالر خرچ کئے! کہاں سے آیا یہ پیسہ؟ فلاں شاہی خاندان سیر کرنے کی غرض سے فلاں شہر گیا اور اتنے ہوٹل اور اتنے وسائل اس خاندان کے لئے مختص کر دئے گئے تھے۔ دس دن میں، بیس دن میں جو وہاں اس خاندان نے گزارے اتنے ارب ڈالر خرچ ہوئے، خرچہ اربوں ڈالر کے حساب سے ہوتا ہے۔ امامت کی روش والی حکومت ان چیزوں کی مخالف ہے۔ عمومی وسائل کا ذاتی مقاصد کے لئے استعمال اس حکومت میں ممنوع ہوتا ہے، اپنے ذاتی امور میں دنیا سے اجتناب۔
«تدبیر»؛ اسلامی معاشرے کے لئے تدابیر پر غور کرنا۔ دشمن کو الگ کرنا، دوست کو الگ کرنا، دشمنوں کی درجہ بندی کرنا۔ امیر المومنین علیہ السلام نے (اپنی حکومت کے دوران) تین جنگیں کیں۔ دشمنوں کی تین جماعتوں سے آپ نے جنگ کی لیکن یہ جنگیں یکساں نہیں تھیں۔ معاویہ اور شام سے جنگ الگ انداز کی تھی، بصرے سے جنگ کسی اور انداز سے تھی۔ جب حضرت کی جنگ طلحہ اور زبیر سے ہوئی تو اس کا انداز الگ تھا۔ اس جنگ میں آپ زبیر کو بیچ میدان جنگ میں بلاتے ہیں (10) اور ان سے بات کرتے ہیں، انھیں نصیحت کرتے ہیں؛ میرے بھائی ماضی کو یاد رکھو، ہم بہت سی جنگیں شانہ بشانہ لڑ چکے ہیں، ہم نے مل کر کام کیا ہے۔ نصیحت کا اثر بھی ہوا، تاہم زبیر کو جو کرنا چاہئے تھا انھوں نے نہیں کیا۔ انھیں امیر المومنین علیہ السلام سے متصل ہو جانا چاہئے تھا۔ انھوں نے یہ کام نہیں کیا، میدان جنگ چھوڑ کر چلے گئے۔ تو طلحہ و زبیر سے جنگ کے دوران امیر المومنین علیہ السلام کا انداز اس طرح کا تھا۔ مگر شام کے ساتھ آپ کا برتاؤ یہ نہیں ہے۔ معاویہ سے حضرت کیا کہیں؟ یہ کہیں کہ ہم اور تم پہلے ایک ساتھ تھے؟ کب ایک ساتھ تھے؟ جنگ بدر میں ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہوئے تھے۔ امیر المومنین نے اس کے دادا کو، اس کے ماموں کو، اس کی قوم کے افراد کو اور اس کے رشتہ داروں کو تہہ تیغ کیا۔ ماضی میں کبھی ایک دوسرے کا ساتھ نہیں رہا۔ معاویہ کے دل میں وہی دشمنی بھری ہوئی ہے اور وہ امیر المومنین سے جنگ کے لئے آیا ہے۔ امیر المومنین علیہ السلام دشمنوں کی درجہ بندی کرتے تھے۔ جنگ نہروان میں جہاں دشمنوں کی تعداد دس ہزار تھی، حضرت نے فرمایا کہ ان دس ہزار لوگوں میں سے جو بھی اس پرچم کے نیچے آ جائے، جو میں نے نصب کیا ہے، تو اس سے ہماری کوئی جنگ نہیں ہے۔ ان میں سے اکثر اس طرف آ گئے۔ حضرت نے فرمایا کہ جاؤ، انھیں چھوڑ دیا گیا۔ دوست کو پہچاننا، دشمن کو پہچاننا، سارے دشمن ایک جیسے نہیں ہوتے۔ بعض سے چشم پوشی کی۔ بعض افراد تھے جنھوں نے شروع میں ہی حضرت کی بیعت کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ جناب مالک اشتر پاس ہی شمشیر بکف کھڑے ہوئے تھے، کہنے لگے کہ یا امیر المومنین! اجازت دیجئے کہ میں اس شخص کی گردن یہیں اڑا دوں جو آپ کی بیعت نہیں کر رہا ہے۔ حضرت نے ہنس کر فرمایا کہ نہیں، یہ شخص جب نوجوان تھا تب بھی تند مزاج آدمی تھا، بد اخلاق تھا، اب یہ بوڑھا ہو گیا ہے تو مزاج کی تندی اور بڑھ گئی ہے۔ اسے جانے دو۔ چھوڑ دیتے تھے اور اس طرح کے لوگ چلے جاتے تھے۔ یہ تدبیریں ہیں۔ بہترین تدبیر یہ ہے کہ جو شخص اقتدار اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے اسے معلوم ہو کہ اس کا سابقہ کس سے ہے اور کس سے اسے کس طرح پیش آنا ہے۔ امیر المومنین علیہ السلام کی حکومتی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ بھی تھی۔
«سرعت عمل»؛ کام کو نہ ٹالنا۔ جیسے ہی مشخص ہو جاتا کہ یہ کام انجام دینا ہے فورا شروع کر دیتے تھے۔
«تشریح و وضاحت»؛ حقائق کو عوام کے سامنے پوری وضاحت سے بیان کر دیتے تھے۔ آپ نہج البلاغہ کے خطبوں پر غور کیجئے۔ ان میں بہت سی جگہوں پر ان حقائق کی تشریح اور وضاحت ہے جو اس وقت معاشرے میں موجود تھے۔ خواہ وہ حضرت کے خطبات ہوں، یا خطوط ہوں، ظاہر ہے نہج البلاغہ کا ایک حصہ خطبات پر اور ایک حصہ خطوط پر مشتمل ہے۔ یہ خطوط ان لوگوں کو لکھے گئے ہیں جن پر امیر المومنین علیہ السلام کو کوئی اعتراض کرنا تھا، یا پھر معاویہ وغیرہ جیسے دشمنوں کو لکھے گئے ہیں، یا خود حضرت کے منصوب کردہ افراد ہیں جنھیں امیر المومنین علیہ السلام انتباہ دینا چاہتے ہیں۔ اکثر خطوط ایسے ہیں، بعض خطوط میں سفارشات، فرمان اور دستور العمل ہیں، جیسے کہ میثاق مالک اشتر ہے۔ مولائے متقیان ان سب میں عوام کے لئے وضاحت کرتے ہیں، حقائق کی تشریح کرتے ہیں۔ یہ امیر المومنین علیہ السلام کی روش ہے۔
معاشرے کی ہدایت کرکے اسے تقوی کے راستے پر پہنچانے کا معاملہ؛ امیر المومنین علیہ السلام کے ان خطبات میں بہت کم خطبے ایسے ہیں جن میں تقوی کا حکم نہ دیا گيا ہو؛ اتَّقواالله، کیونکہ تقوی ہی سب کچھ ہے۔ جب معاشرے میں تقوی کا ماحول پیدا ہو جائے تو معاشرے کی تمام روحانی و مادی مشکلات حل ہو جائیں گی۔ یہ ہے تقوی۔ البتہ تقوی کے جو صحیح معنی ہیں ان کی رو سے تقوی صرف یہ نہیں ہے کہ انسان نامحرم کو نہ دیکھے، یا دوسرے حرام کام سے دور رہے۔ یہ بھی ہے، یہ بھی تقوی کا جز ہے۔ لیکن تقوی کا دائرہ بہت وسیع تر ہے۔ تقوی کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ محتاط رہنا، اپنے حرکات و سکنات پر نظر رکھنا، خود کو راہ مستقیم پر باقی رکھنے کے لئے کوشاں رہنا، یہ ہے تقوی کا اصلی مفہوم۔ اگر معاشرے میں یہ ماحول پیدا ہو جائے تو تمام مشکلات حل ہو جائیں گی۔ امیر المومنین علیہ السلام عوام کو ہمیشہ تقوی کی دعوت دیتے تھے۔
حق پر عمل کرنے کے معاملے میں بے باک تھے۔ کسی رواداری میں نہیں پڑتے تھے۔ انصاف کرنے میں بالکل نڈر تھے۔ کسی کا لحاظ نہیں کرتے تھے۔ امیر المومنین علیہ السلام کی زندگی میں اس طرح کے تکلفات کی گنجائش نہیں تھی۔ وہی انسان جو مالک اشتر سے کہتا ہے کہ بیعت سے انکار کرنے والے اس شخص کو جانے دو، دوسرے موقع پر سخت گیری کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، باریکیوں پر نظر رکھتے ہیں، زور دیتے ہیں۔
آپ دیکھئے کہ امیر المومنین علیہ السلام کی صفات کی یہ تیسری قسم حکومتی صفات پر استوار ہے۔ یہ ان ذاتی صفات اور روحانی و الوہی اوصاف سے الگ ہیں جو ہمارے لئے سرے سے قابل ادراک ہی نہیں ہیں، جن کی توصیف سے ہماری زبانیں قاصر ہیں۔ یہ امیر المومنین علیہ السلام کی شخصیت ہے۔ یعنی وہ جامع الحیثیات شخصیت کہ واقعی؛ «تو بزرگی و در آئینه‌ی کوچک ننمایی».(11) (تم اتنے بڑے ہو کہ چھوٹے سے آئینے میں نہیں سماتے) ہم ان کمزور و ناتواں آنکھوں سے، اس دید ناقص سے، توہمات سے ڈھکے ان دلوں سے اس عظیم شخصیت کو بخوبی نہیں دیکھ سکتے، لیکن بہرحال ہم اپنی زبان سے ان بزرگوار کی ایک توصیف کرتے ہیں، کچھ چیزیں ان کے بارے میں جانتے ہیں۔ غدیر میں اسی عظیم ہستی کا تعین ہوا۔
تو اب ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ ظاہر ہے کہ ہم امیر المومنین علیہ السلام کی طرح زندگی بسر نہیں کر سکتے، اس طرح عمل نہیں کر سکتے، اس طرح نہیں بن سکتے۔ خود حضرت نے بھی فرمایا ہے؛ اَلا وَ اِنَّکُم لا تَقدِرونَ عَلی ذلِک (12) حضرت نے اپنے گورنروں اور عہدیداروں سے فرمایا کہ جس طرح میں عمل کرتا ہوں آپ اس طرح عمل کرنے پر قادر نہیں ہیں۔ ہمیں اس بلند چوٹی پر اپنی نظریں مرکوز کرنا چاہئے۔ ہم نے بارہا عرض کیا ہے کہ یہ بلند چوٹی ہے۔ آپ سے کہا جائے کہ؛ وہی چوٹی آپ کی منزل ہے۔ اسی چوٹی کی جانب پیش قدمی کیجئے۔ ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم اسی سمت میں چل پڑیں۔ امیر المومنین علیہ السلام کے انھیں صفات کو مد نظر رکھیں اور اپنی قوت و توانائی بھر اسی سمت میں آگے بڑھنے کی کوشش کریں، برعکس سمت میں نہ جائیں۔ ہمارا معاشرہ امیر المومنین علیہ السلام کے زہد و تقوی کی سمت میں آگے بڑھے، امیر المومنین علیہ السلام جیسا زاہد نہ بنے، کیونکہ یہ ہمارے بس میں ہے نہ اس کا ہم سے مطالبہ کیا گیا ہے، مگر ہمیں اسی سمت میں گامزن ہونا چاہئے۔ یعنی فضول خرچی، زیادہ روی، ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی سے دور رہیں تو اس طرح ہم امیر المومنین علیہ السلام کے شیعہ بن سکیں گے۔
ہمارا عمل دوسروں کو ہمارا معترف بنا دے گا۔ ارشاد ہوتا ہے؛ کونوا لَنا زَیناً وَ لا تَکونوا عَلَینا شَیناً؛(13) ہمارے لئے باعث زینت بنو۔ باعث زینت بنو سے کیا مراد ہے؟ یعنی اس طرح عمل کرو کہ جب کوئی دیکھے تو برجستہ کہے؛ واہ! امیر المومنین علیہ السلام کے شیعہ کتنے اچھے ہوتے ہیں! اگر کوئی رشوت وصول رہا ہے تو وہ باعث زینت نہیں ہے۔ یہ ایک عیب ہے۔ اگر کوئی شخص بیت المال سے زیادہ پیسہ لے رہا ہو تو یہ شیعہ ہونے کی حیثیت سے اس کے لئے عیب ہے۔ اگر کوئی برائیوں سے چشم پوشی کرتا ہے اور معاشرے کو تقوی کی جانب لے جانے کے سلسلے میں کسی ذمہ داری کا احساس نہیں کرتا تو وہ اسلامی نظام کے لئے اور اسلامی معاشرے کے لئے عیب ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی ذاتی زندگی میں اسراف کرتا ہے تو وہ بھی عیب ہے۔
افسوس کا مقام ہے کہ ہم مبتلا ہو گئے ہیں۔ اسراف میں مبتلا ہو گئے ہیں، زیادہ روی میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ ہم کئی سال سے اس بارے میں مسلسل نصیحت کرتے آ رہے ہیں؛ خود کو بھی، عوام کو بھی، دوسروں کو بھی، ہم مستقل کہتے آ رہے ہیں، بار بار کہہ رہے ہیں۔ ہمیں آگے بڑھنا چاہئے، معاشرے میں اسراف کو روکنا چاہئے۔ ہمارے مرد، ہماری عورتیں، ہمارے نوجوان، ہمارے بزرگ، سب فضول خرچی کو؛ لباس میں فضول خرچی کو، کھانے پینے میں فضول خرچی کو، زندگی کے تجملات میں فضول خرچی کو، گوناگوں سجاوٹوں میں فضول خرچی کو ترک کریں۔ دوسروں کی دیکھا دیکھی کرنا کہ فلاں شادی میں، فلاں تقریب میں فلاں عورت نے یہ پہنا تھا،، اس طرح زیورات پہنے تھے، ایسا میک اپ کیا تھا تو میں بھی پیچھے نہ رہوں، یہ وہی غلطیاں اور بڑے خطرات ہیں۔ یہی چیزیں زندگی کو تباہ کر دیتی ہیں۔ یہی چیزیں معاشرے میں بے انصافی پیدا ہونے کا باعث بنتی ہیں اور سرانجام یہی چیزیں معیشت کو تباہ کر دیتی ہیں۔ معیشت کی تباہی کا بڑا حصہ انھیں چیزوں کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اگر کوئی معاشرہ چاہتا ہے کہ معیشت کے اندرونی استحکام کے اعتبار سے اس مقام پر پہنچ جائے کہ کوئی اسے نقصان نہ پہنچا سکے تو جو ضروری اقدامات اسے کرنا چاہئے ان میں ایک یہ ہے کہ اسراف، زیادہ روی اور فضول خرچی کو ترک کرے۔ اس کے مصادیق بہت ہیں اور میں نے اس بارے میں بہت کچھ بیان بھی کیا ہے، لہذا اس وقت وہی باتیں دہرانا مناسب نہیں ہے۔ پانی کے بارے میں، روٹی کے بارے میں، غذا کے بارے میں، استعمال کی دیگر گوناگوں چیزوں کے بارے میں اسراف، زیادہ روی اور فضول خرچی یا غلط طریقے سے استعمال کرنا، اس کی مثالیں بہت ہیں۔ ان چیزوں کا ہمیں خیال رکھنا چاہئے۔
ان میں بہت سے کام ایسے ہیں جن کا تعلق حکومت سے نہیں ہے، یہ ہماری اپنی ذمہ داری ہے۔ خود ہمیں اپنے گھر کے اندر، اپنی زندگی میں اس پر عمل کرنا چاہئے۔ یہ امیر المومنین علیہ السلام کے نقش قدم پر چلنا ہے۔
جب ہم کہتے ہیں؛ «اَلحَمدُ للهِ‌ِ الَّذی جَعَلَنا مِنَ المُتَمَسِّکینَ بِوِلایَةِ اَمیرِالمُؤمِنینَ وَ اَولادِهِ المَعصومین» (14) تو ولایت سے یہ تمسک کیسا ہے؟ بے شک ولایت سے تمسک کا ایک پہلو قلبی تمسک سے عبارت ہے، یعنی آپ ولایت کو تسلیم کرتے ہیں، یہ بہت اچھی بات ہے، بہت ضروری بھی ہے اور یقینا اس کے اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں، مگر تمسک کا مطلب صرف یہی نہیں ہے۔ تمسک کا تقاضا یہ بھی ہے کہ ہم جائزہ لیں اور جن صفات پر ہم عمل پیرا ہو سکتے ہیں، حضرت کا وہ ایثار، وہ روحانی مرتبہ، وہ معرفت، وہ خدا شناسی، وہ عبادت، وہ گریہ، وہ توجہ الی اللہ، اسی طرح کی دیگر خصوصیات تو ہمارے بس کے باہر ہیں، ان وادیوں میں تو ہم بہت زیادہ پیچھے ہیں، مگر صفات بشری کے میدان میں، ان صفات کے میدان میں جو سماج اور حکومت وغیرہ چلانے سے متعلق ہیں، جن پر عمل کرنا ہمارے بس میں ہے، البتہ ان صفات میں بھی ہم ان بزرگوار تک بلکہ ان سے کمتر افراد تک بھی نہیں پہنچ سکتے، مگر اس سمت میں تو آگے بڑھ سکتے ہیں۔ ہمیں یہ کام کرنا چاہئے۔ یہی ولایت امیر المومنین سے ہمارا تمسک کہا جائے گا۔
بہرحال کہنے کو بہت کچھ ہے۔ میرے عزیز بھائیو اور بہنو! آپ توجہ دیجئے، ہم نے دشمن کے بارے میں، دشمن شناسی کے بارے میں اور دشمن کے مقابلے میں استقامت کے بارے میں بہت کچھ بیان کیا ہے اور بہت کچھ بیان کرتے رہیں گے۔ ہماری یہ ساری باتیں بالکل صحیح ہیں۔ یعنی یہی نعرے جو آپ اور دیگر احباب لگاتے ہیں اور ہمارے عہدیداران کہتے ہیں کہ ہم دشمن کے مقابلے میں ثابت قدمی سے ڈٹے ہوئے ہیں، یہ بالکل صحیح ہے، بالکل درست ہے۔ ہمیں بھی علم ہے کہ دشمن ہے۔ لیکن آپ یہ دھیان رکھئے کہ کبھی کبھی دشمن ہماری کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتا ہے اور اسے کوئی زحمت بھی نہیں کرنی پڑتی۔ ہمیں اپنی اصلاح کرنا چاہئے، اپنے آپ کو درست کرنا چاہئے تاکہ دشمن ہماری کمزوریوں کا فائدہ نہ اٹھا سکے۔ آج ہمارے دشمنوں نے ملک کے اندر اقتصادی مسائل، ضرورتوں اور خامیوں پر نظریں گاڑ رکھی ہیں۔ یہ جو ہم کئی سال اقتصادی مسائل کے بارے میں، استقامتی معیشت کے بارے میں اور اس طرح کے دیگر موضوعات کے بارے میں ابتدائے سال میں، وسط سال میں اور آخر سال میں بار بار تاکید کرتے ہیں، بار بار اسے بیان کرتے ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ اس خاص پہلو پر دشمن کی نگاہیں لگی ہوئی ہیں۔ دشمن چاہتے ہیں کہ ملکی معیشت کو تہس نہس کر دیں۔ عوام کی معیشت خراب ہو جائے، لوگوں کی جیبیں خالی ہو جائیں، لوگوں کے وسائل محدود ہو جائیں، پیسے کی قیمت گر جائے، قوت خرید کم ہو جائے تاکہ وہ مخالفت کرنے لگیں۔ یہ دشمنوں کا ہدف ہے۔ وہ اسلام اور اسلامی نظام سے عوام کو برگشتہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہ دشمن کا اصلی ہدف ہے۔ اسی وجہ سے انھوں نے اقتصادی شعبے کو نشانہ بنایا ہے۔ تاکہ عوام کے حالات خراب ہو جائیں اور وہ اسلام و اسلامی نظام سے دور ہو جائيں۔ اس صورت حال کی مزاحمت کرنا کس کی ذمہ داری ہے؟ سب کی ذمہ داری ہے۔ حکومت کی بھی ذمہ داری ہے، پارلیمنٹ کی بھی ذمہ داری ہے، دیگر عہدیداران کی ذمہ داری ہے، عوام الناس کی بھی ذمہ داری ہے۔ ہم سب کی ذمہ داری ہے، ہمیں اپنی اس ذمہ داری پر عمل کرنا چاہئے۔
البتہ خوش قسمتی سے ملک کی مجموعی پیشرفت بہت اچھی ہے۔ مجھے کافی حد تک واقفیت ہے۔ مجھ سے رجوع کیا جاتا ہے۔ لوگ خط لکھتے ہیں، رجوع کرتے ہیں، پیغام دیتے ہیں، اپنے کاموں کی رپورٹ دیتے ہیں۔ میں بھی تحمل کے ساتھ ان میں سے بہت سی رپورٹوں کا جائزہ لیتا ہوں۔ آج اس ملک میں جو نوجوان احیاء اسلام کے لئے اور دین کے لئے مصروف کار ہیں، بحمد اللہ روز بروز ان کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو فضل پروردگار سے، نصرت خداوندی سے، ہر دشمن منجملہ امریکا اور صیہونیت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیں گے۔ میں جو اپنی تقاریر میں بار بار کہتا ہوں اور اسے دہراتا رہتا ہوں کہ میں مستقبل کے تعلق سے پرامید ہوں تو اس کی وجہ انھیں حقائق کا مشاہدہ ہے۔ ہمارے پاس بہت سے حقائق ہیں جو ہمیں آگے لے جا سکتے ہیں۔ سماج کو آگے لے جانے والے ہیں۔ اچھے نوجوان، مومن نوجوان، میدان عمل میں وارد ہونے کے لئے پوری طرح تیار نوجوان۔ جو ملک کے دفاع اور دین کے دفاع کے لئے میدان پیکار میں اترنے کے اشتیاق میں اشک بہاتے ہیں اور رو رو کر اجازت مانگتے ہیں کہ انھیں دفاع کے لئے جانے دیا جائے۔ یہ دو چار دس اور سو لوگوں کی بات نہیں ہے، ایسے نوجوانوں کی کثیر تعداد ہے۔ یہ وہی جذبہ ہے جو ملک کو نجات دلائے گا۔ اس کی تقویت کرنا چاہئے (15)۔ جب آپ قربان کرنا چاہتے ہیں تو اسلام پر کیوں نہ قربان کریں؟ رہبر انقلاب پر کیوں جان قربان کریں، رہبر انقلاب کیا ہے؟ اسلام پر قربان کیجئے، اس راستے پر قربان کیجئے، ان اہداف پر قربان کیجئے (16)۔

و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته

.......................................................................

حواله جات:‌

۱) سورہ مائده، آیت نمبر ۳ کا ایک حصہ «...آج کفار تمہارے دین کی جانب سے مایوس ہو گئے۔ تو ان سے ڈرو نہیں بلکہ مجھ سے ڈرو۔ آج میں نے تمہارے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کر دی اور اسلام کو تمہارے دین کے طور پر پسند کیا۔ »
۲) سوره‌ مائده، آیت نمبر ۶۷ کا ایک حصہ « اے پیغمبر تمہارے پروردگار کی جانب سے تم پر جو نازل ہو چکا ہے، اسے پہنچا دو اور اگر تم نے نہ پہنچایا تو گویا تم نے اس کا پیغام رسالت ہی نہیں پہنچایا ہے۔»
۳) کافی، جلد ۴، صفحہ ۴۶۶ (معمولی سے فرق کے ساتھ)
۴) سوره‌ بقره، آیت نمبر ۱۲۴ کا ایک حصہ
۵) لبنانی مصنف جس نے 'الامام علی صوت العدالة الانسانیّه‌' کتاب لکھی۔
۶) 20 مئی 1996
۷) معاویہ کی فوج کا ایک کمانڈر جو کچھ عرصے کے لئے بصرہ کا حاکم بنا تھا۔
۸) نهج‌ البلاغه، خطبه‌ ۲۷
۹) یعنی پایل یا پازیب
۱۰) مال دنیا، پرکشش اور آراستہ چیزیں
11) سعدی. دیوان اشعار؛ «پرده بردار که بیگانه خود این روی نبیند / تو بزرگی و در آیینه‌ی کوچک ننمایی»
12) نهج ‌البلاغه، مکتوب نمبر ‌۴۵
13) امالی صدوق، صفحہ ۴۰۰
14) اقبال ‌الاعمال، جلد ۱، باب پنجم، صفحہ ۴۶۴ (مختصر سے فرق کے ساتھ)
15) حاضرین کے نعرے؛ «رهبر اگر فرمان دهد/ جان را فدایش میکنم» (رہبر اگر فرمان دیں اپنی جان قربان کر دیں گے)
16) حاضرین کی جانب سے گوناگوں نعرے

Add new comment