واقعه غدیر

ہجرت کے دسویں سال پیغمبر اکرم(ص) نے حج بیت اللہ کا ارادہ فرمایا۔ چونکہ یہ حج پیغمبر اکرم(ص) کا آخری حج تھا اسلئے اسے بعد میں حجۃ الوداع کا نام دیا گیا۔[1] تمام مسلمانوں کو اطلاع دی گئی کہ پیغمبر اس سال حج پر تشریف لے جا رہے ہیں [2] اسلئے تمام مسلمانوں سے

خطبہ غدیر کا خلاصہ

خطبے کے آغاز میں خدا کی حمد و ثنا کے بعد خدا کی صفات پر نہایت فصاحت و بلاغت کے ساتھ تفصیلی بحث فرمایا۔

آیت تبلیغ کا نزول اور ایک اہم کام کی ابلاغ کا حکم۔

پیغمبر اکرم(ص) کا منافقین کے فتنے کے خوف سے اس آیت کی تبلیغ تردید کا اظہار اور جبرئیل کا کئی بار اس آیت کی تبلیغ پر تاکید اور خدا کی طرف سے پیغمبر کو منافقین کے فتنے سے مصونیت کا وعدہ۔

ایسے محافل میں پیغمبر اکرم(ص) کی شرکت کا یہ آخری بار ہونے اور امت کی امامت قیامت تک حضرت علی علیہ السلام اور آپ(ع) کی فرزندوں کے ذمے ہونے کا اعلان۔

حرام محمد کا قیامت تک حرام رہنے اور حلال محمد کا قیامت تک حلال رہنے کا اعلان۔

حضرت علی کا علمی مقام اور آپ کی فضیلت کا بیان۔

علی(ع)کی ولایت کا انکار غیر قابل بخشش گناہ ہے۔

پیغمبر اکرم اور کسی بھی امام کی گفتار میں شک و تردید کرنے والا زمان جاہلیت کے کافروں کی طرح ہے۔

اس تاریخی جلمے کا بیان: مَن کُنتَ مَولاهُ فهذا علی مَولاهُ

حدیث ثقلین کا بیان اور قرآن و اہل بیت کا ایک دوسرے کے ساتھ ہونا۔

حضرت علی(ع) کی وصایت، خلافت اور پیغمبر کی جانشین ہونے کا اعلان

حضرت علی(ع) کے دوستوں کے حق میں دعا اور آپ کے دشمنوں کلئے نفرین : اَللهمَّ والِ مَن والاهُ و عادِ مَن عاداهُ

جبرئیل اور اکمال دین کا نزول۔

حضرت کی امامت کی اہمیت اور لوگوں کا آپ کے ساتھ حسد کرنا۔

منافقین کی کار شکنی کی طرف اشارہ۔

حضرت علی(ع) کی ذرییہ میں سے امام مہدی(عج) کے اوپر امامت کی اختتام کا اعلان۔

لوگوں کو اپنے خود ساختہ جھوٹے اماموں کی تبعیت اور پیروی سے ممانعت۔

حاضرین کو اس پیغام کو غائبین تک پنہچانے کا حکم۔

لوگوں کو اہل بیت(ع) کے ساتھ دوستی اور ان کے دشمنوں سے دشمنی رکھنے کی سفارش ۔

امام مہدی(ع) اور آپ کی حکومت کے بارے میں تقریبا 20 جملے۔

سب سے بڑی نیکی غدیر میں آپ کے کلام کو سمجھنا اور اسے دوسروں تک پہنچانا ہے۔

امام علی(ع) کے دیگر اوصاف کا بیان اور لوگوں سے باقاعدہ آپ کی بعنوان امام و جانشین پیغمبر بیعت کرنے کا حکم ۔

خطبہ غدیر

اس خطبے کا مضمون صدیوں سے کئی صورتوں میں شیعہ سنی حدیثی اور تاریخی منابع میں نقل ہوتے رہے ہیں۔ ان منابع میں یہ خطبہ پیغمبر اسلام(ص) سے کئی طریقوں سے نقل ہوا ہے: روایت امام باقر(ع)،[17]حذیفۃ بن یمان،[18]زید بن ارقم.[19]

متن خطبہ غدیر ان کتابوں میں آیا ہے: روضۃ الواعظین، الاحتجاج، الیقین، نزہۃ الکرام، الاقبال، العُدَدُ القَویۃ، التحصین، الصراط المستقیم و نہج الایمان.

حدیث غدیر

خطبہ غدیر کا مضمون صدیوں سے کئی صورتوں میں شیعہ سنی حدیثی اور تاریخی منابع میں نقل ہوتے رہے ہیں۔ اور ان تمام میں جو چیز مشترک ہے وہ حضرت علی(ع) کی ولایت اور امامت کا اعلان ہے: مَنْ کُنْتُ مَولاهُ فَهذا عَلِی مَولاهُ ترجمہ: جس جس کا میں مولا ہوں اس کا یہ علی مولا ہیں۔ خطبہ غدیر کا یہ حصہ حدیث غدیر کے نام سے مشہور ہے۔

اس حدیث کا براہ راست نقل

علامہ امینی کے مطابق اس حدیث کو احمد بن حنبل نے 40، ابن جریر طبری نے 72، جزری مقری نے 80، ابن عقدہ نے 105، ابوسعید سجستانی نے 120، ابوبکر جعابی نے 125 اور [20] حافظ ابوالعلاء العطار ہمدانی نے 250 راویوں سے نقل کیا ہے۔[21]۔

اہل سنت کے رجال اور حدیث کے ماہرین کے مطابق اس حدیث کی سند بہت زیادہ ہیں جسے اکثر علماء نے صحیح یا حسن قرار دئے ہیں۔ [22] اس حدیث کے راویوں میں تقریبا 90 اصحاب اور 84 تابعین شامل ہیں۔

اس حدیث کا غیر مستقیم نقل

درج بالا افراد کے ذریعے اس حدیث کی براہ راست نقل ہونے کے علاوہ بہت سارے افراد نے اسے غیر مستقیم طور پر بھی نقل کئے ہیں، یعنی وہ افراد جو خود غدیر خم میں نہیں تھے لیکن ان افراد سے جو وہاں موجود تھے سے سنے کے بعد پھر انہوں نے نقل کئے ہیں۔ ان میں ابی الطفیل نے 30، [23] عامر بن لیلی الغفاری نے 17،[24] عمیرۃ بن سعد نے 12، [25] زید بن ارقم نے 16،[26] زیاد بن ابی زیاد نے 12، [27] زاذان ابی عمر نے 13،[28] عبدالرحمن بن ابی لیلی نے 12،[29] عبد خیر، عمرو ذی مرہ اور حبہ العرنی نے 12،[30] ابوہریرہ، أنس اور أبی سعید نے 9، [31] ابی قلابہ نے 9،[32] زید بن یثیغ نے 12،[33] اور سعید بن وہب نے 5 یا 6 افارد سے اس حدیث کو سن کر نقل کیا ہے۔[34]۔

حدیث غدیر کے راوی

خطبہ غدیر بعض جزئیات اور تعابیر میں اختلاف کے ساتھ شیعہ اور اہل سنت منابع میں نقل ہوئی ہے۔ بہت سے منابع میں خطبے کا پورا متن نہیں آیا ہے اور مؤلفین نے صرف اس حصے کو بعنوان حدیث غدیر نقل کرنے پر اکتفا کیا ہے جس میں امام علی(ع) کو بعنوان امام اور ولی معرفی فرمایا ہے۔

علامہ امینی نے الغدیر میں 110 اصحاب، 84 تابعین اور اہل سنت کے دوسری صدی ہجری سے چودہویں صدی ہجری تک کے 360 علماء کا کا نام لیتے ہیں۔ [35] بعض مشہور اصحاب، تابعین اور راویوں کے نام درج ذیل ہیں:

اہل بیت

صحابہ

تابعین

متاخرین

امام علی(ع)[36]

ابوبکر بن ابوقحافہ

ابوسلیمان مؤذن

محمد بن اسماعیل بخاری[37]

حضرت فاطمہ(س)[38]

عمر بن خطاب

ابوصالح سمّان ذکوان مدنی

احمدبن یحیی بلاذری[39]

امام حسن(ع)[40]

عایشہ بنت ابی بکر

اصبغ بن نباتہ کوفی

احمدبن شعیب نسائی[41]

امام حسین(ع)[42]

عثمان بن عفّان

سلیم بن قیس ہلالی

حسکانی حنفی[43]

امام باقر(ع)[44]

ام سلمہ (زوجہ پیغمبر)

طاووس بن کیسان

ابن عساکر دمشقی[45]

 

زید بن ارقم[46]

عمر بن عبدالعزیز، خلیفہ اموی[47]

فخرالدین رازی شافعی[48]

 

انس بن مالک

ابوراشد حبرانی

ابن ابی الحدید معتزلی[49]

 

خزیمۃ بن ثابت انصاری

ابولیلی کندی

ابن کثیر شافعی[50]

 

جابر بن عبداللہ انصاری

ایاس بن نُذیر

ابن صباغ مالکی[51]

 

حذیفۃ بن یمان[52]

حبیب بن ابی ثابت اسدی

متقی ہندی[53]

 

عبداللہ بن عباس

حبیب بن عتیبہ کوفی

ابن حمزہ حسینی حنفی[54]

 

سلمان فارسی

ابو عبیدہ بن ابی حمید البصری

شہاب الدین آلوسی[55]

 

حسان بن ثابت

ابو مریم زر ابن حبیش الاسدی

شیخ محمد عبدہ مصری[56]

 

سعدبن ابی وقّاص

سالم بن عبد اللہ بن عمر

ابومحمد بن داوود حلی[57]

 

قیس بن ثابت بن شمّاس[58]

سعید بن جُبیر أسدی[59]

صفی الدین حلی[60]

خطبہ غدیر کی سند کا مطالعاتی منابع

الطرائف[61]

عبقات الانوار[62]

بحار الانوار[63]

اثبات الہداۃ[64]

الغدیر[65]

کشف المہم فی طریق خبر غدیرخم[66]

عوالم العلوم[67]

نفحات الازہار فی خلاصۃ عبقات الانوار[68]

کتاب الغدیر، مؤلف:عبدالحسین امینی

واقعہ غدیر کی سند پر ہونے والی اعتراضات

بعض افراد نے اس واقعے کی سند پر اعتراضات اور اشکالات کرنے کی کوشش کی ہیں جن میں سے اہم ترین اعراضات درج ذیل ہیں:

حدیث غدیر کے ضعیف ہونے کا دعوا

حدیث غدیر کی سند کا مختلف طریقوں سے تواتر کے ساتھ ذکر ہونے کی باوجود بعض اہل سنت علماء کہتے ہیں کہ اسے متواتر اور صحیح نہیں قرار دے سکتے۔[69] ان افراد کی دلیل یہ ہے کہ اکثر محدّثین جیسے بخاری اور مسلم نے اس حدیث کو نقل نہیں کیا جبکہ بعض جیسے ابی داود اور ابی حاتم رازی وغیرہ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔[70]

اس ادعا کے جواب میں اہل سنت ہی کے بہت سارے علماء جیسے تِرمِذی(۲۷۹ق)،[71] طَحاوی(۲۷۹ق)،[72] حاکم نیشابوری(۴۰۵ق)،[73] ابن کثیر(۷۷۴ق)،[74] ابن حجر عسقلانی(۸۵۲ق)،[75] ابن حجر ہیتمی(۹۷۴ق)[76] نے اس حدیث کی سند کی صحت کی گواہی دی ہے۔ اس کے علاوہ اصحاب اور تابعین کے توسط سے مختلف کتابوں میں براہ راست یا با واسطہ اس حدیث کو نقل کرنا خود اس حدیث کی سند کے صحیح ہونے کی دلیل ہے۔ لیکن مسلم اور بخاری جیسے محدثین کا از حدیث کو ذکر نہ کرنے اور اس کی سند میں شک و تردی کرنے کی علت کو کسی اور زاویے سے تحقیق اور بررسی کرنی چاہئے۔

خطبے کی صحت پر اعتراض

اس حدیث کے مخالفین کی جانب سے اٹھائے جانے اعتراضات میں سے ایک یہ ہے کہ علی(ع) اس وقت مکے میں نہیں تھے جس وقت غدیر خم میں یہ واقعہ پیش آیا بلکہ آپ(ع) اس وقت یمن کسی مشن پر گئے ہوئے تھے۔[77] اس کے مقابلے میں اس حدیث کے موافقین کا موقف جس طرح اہل سنت منابع میں ذکر ہوا ہے، یہ ہے کہ امام علی(ع) اس وقت یمن سے مکہ تشریف لائے تھے اور آپ نے باقاعدہ رسول اکرم(ص) کے ساتھ حج کے مراسم میں بھی شرکت کی تھی۔[78]

حدیث کی دلالت

حدیث غدیر ابتداء ہی سے بہت ساری عقیدتی ابحاث کا سرچشمہ بنا۔ حضرت علی(ع) اور اہل بیت اطہار علیہم السلام کی طرف سے اس حدیث کے ذریعے استدلال اور احتجاج اس حدیث سے بہرہ مندی کی پہلی سیڑھی سمجھی جاتی ہے۔ شیعہ متکلمین نیز خلافت پر حضرت علی(ع) کی برای حقانیت اور برتری کو ثابت کرنے کیلئے اس حدیث سے استناد کرتے تھے۔ علم کلام کے منابع سے جو چیز معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ شیعہ متکلمین میں شیخ مفید پہلا شخص تھا جس نے مفصل طور پر اس حدیث سے استدلال کیا۔[79][80] شیخ طوسی[81] اور علامہ حلی[82] نے بھی اس حدیث پر مفصل بحث کی ہے۔ اہل سنت متکلمین میں فخر رازی،[83] قاضی ایجی،[84] تَفتازانی،[85] جُرجانی[86] وغیرہ نے شیعہ علماء کو جواب دیتے ہوئے بہت ہی لمبی اور پرپیچ و خم ابحاث کو وجود میں لایا ہے۔

اہل سنت کا نظریہ

اہل سنت کے مشہور علماء اس بات کے معتقد ہیں کہ "ولی" کا لفظ جو اس حدیث میں استعمال ہوا ہے وہ "صاحب اختیار" اور "اولی بالتصرف" کے معنی میں نہیں ہے۔ بلکہ دوست اور ناصر و مددگار کے معنی میں ہے۔ تفتازانی،[87] فخر رازی،[88] قاضی ایجی اور جرجانی[89] وغیرہ اس بات کے مدعی‌ ہیں کہ "مولا" کا لفظ "صاحب اختیار" اور "اولی بالتصرف" کے معنی میں نہیں آسکتا۔ یہ افراد یوں استدلال کرتے ہیں:

اولا: عرب زبان میں "مَفعَل" کا صیغہ اولی بالتصرف کے معنی میں استعمال نہیں ہوا ہے۔[90]

ثانیا: اگر مولا "اولی بالتصرف" کے معنی میں ہو تو ان دونوں کو ایک دوسرے کی جگہ استعمال کرنا صحیح ہونا چاہئے۔ حالنکہ ہم دیکھتے ہیں کہ مثلا اسی حدیث میں "من کنت مولا" کی جگہ "من کنت اولی بالتصرف" کہنا صحیح نہیں ہے۔ [91]

شیعہ علماء نے ان اعتراضات کا جواب دیا ہے شیعوں کے مطابق:

اولا: خود اہل سنت علماء نے تصریح کیا ہے کہ "مولی" کا لفظ "اولی بالتصرف" اور "صاحب اختیار" کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے۔[92] لغت ماہرین جیسے غیاث برغوث التغلبی اخطل(۹۰ق)،[93] أبو الشعثاء بن رؤبہ السعدی عجاج(۹۰ق)،[94] أبو زکریا یحیی بن زیاد فراء(۲۰۷ق)،[95] ابو عبیدہ(۲۰۹ق)، اخفش(۲۱۵ق) اور زجاج(۳۱۱ق)[96] وغیرہ نے اس بات کو بیان کیا ہے۔

ثانیا: مذکورہ دوسرا اشکال بھی درست نہیں ہے کیونکہ ایک لفظ کا دوسرے لفظ کی جگہ استعمال نہ ہونا یا استعمال صحیح نہ ہونا ان دونوں کے مترادف اور ہم معنی نہ ہونے کی دلیل نہیں ہے۔ مثلا خود انہی علماء کے بقول لفظ "ناصر" لفظ "مولا" کے معنی میں سے ہے پس ان کی استدلال کے مطابق ان دونوں الفاظ کا ایک دوسرے کی جگہ استعمال کرنا صحیح ہونا چاہئے حالنکہ ایسا نہیں ہے پس "ناصر" بھی مولا کے ہم معنی نہیں ہے۔

ثالثا: دو مترادف الفاظ کا ایک دوسرے کی جگہ استعمال کرنا اس وقت صحیح ہے کہ کوئی مانع موجود نہ ہو، یہاں مانع کی وجہ سے ان کا ستعمال صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ ان میں سے پہلا لفظ فقط حرف اضافہ "من" کے ساتھ استعمال ہوتا ہے جبکہ "مولا" ایسا نہیں ہے اسی وجہ سے یہ دونوں ایک دوسرے کی جگہ پر استعمال نہیں ہو سکتے۔[97]

شیعہ نقطہ نظر

شیعہ معتقد ہیں کہ لفظ "مولی" اس حدیث میں "اولی بالتصرف" اور "صاحب اختیار" کے معنی میں ہے۔ اور جس طرح پیغمبر اکرم(ص) مسلمانوں کے امور میں خود ان سے زیادہ سزاوارتر تھے اسی طرح امام علی(ع) بھی تمام مسلمانوں کا مولا اور صاحب اختیار ہے۔ اس مطلب کی اثبات کیلئے پہلے دو نکتے کا ثابت ہونا ضروری ہے:

الف. مولی کے معنی اولی بالتصرف ہے؛

ب. اولی بالتصرف ہونے اور امامت و خلافت کے درمیان ملازمہ برقرار ہو۔ [98]

شیعوں کے مطابق اس حدیث کے متن میں ایسے قرائن و شواہد موجود ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حدیث میں مولا سے مراد صرف اور صرف اولی بالتصرف ہے۔ جب اولی بالتصرف ہونا ثابت ہو جائے تو امامت بھی ثابت ہو جاتا ہے کیونکہ عرب "اولی بالتصرف" کے لفظ کو صرف اس مورد میں استعمال کرتے ہیں جہاں شخص مولی اپنے مولی علیہ کی سرپرستی کرتا ہو اور اس شخص کے احکامات ان کیلئے معتبر اور مورد قبول ہو۔ [99] جب اولی بالتصرف ثابت ہو جائے تو مسلمانوں کے زندگی کے تمام امور میں ان کی الویت ثابت ہوتی ہے جس طرح پیغمبر اکرم کو ایسی اولویت حاصل تھی۔ اَلنَّبِیُّ أَوْلی بِالْمُؤْمِنینَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ ترجمہ:پیغمبر مومنوں کے حوالے سے خود ان سے بھی زیادہ سزاوار ہے۔[100]

اس مطلب کو ثابت کرنے کیلئے شیعہ حضرات اس حدیث کی تجزیہ و تحلیل کرتے ہیں۔ لفظ "مولی" جو اس حدیث میں کئی دفعہ استعمال ہوا ہے، لفظ "ولی" سے مشتق ہے جو خدا کے اسماء میں سے ہے۔ [101][102] یہ لفظ چند معانی میں استعمال ہوتا ہے۔ ایک استعمال میں "ولی" فعیل کے وزن پر فاعل کے معنی میں آتا ہے۔[103] اور والی، حاکم، سرپرست، مدبّر، امور میں تصرف کرنے والا اور ولی نعمت کے معنی پر دلالت کرتا ہے۔[104] اس لفظ کے دیگر استعمالات میں اولی و سزاوارتر، نزدیک، بغیر فاصلہ[105] اور تبعیت کرنے والا اور دوستدار وغیرہ شامل ہیں [106][107][108]

شیعہ استدلال کے شواہد

شیعہ اعتقادات کے مطابق اس لفظ کے متعدد معانی میں استعمال ہونے کے باوجود بعض اس حدیث کے متن کے داخل اور خارج میں بعض قرائن و شواہد ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ لفظ مولی اس حدیث میں صرف اور صرف اولی بالتصرف کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ یہ قرائن و شواہد درج ذیل ہیں:

قرائن داخلی

جملہ "الست اولی بکم من انفسکم" اور "من کنت مولاه" کا تقارن:

اس حدیث میں پیغمبر اکرم(ص) نے مؤمنین کے جان و مال پر ان سے زیادہ پیغمبر کو الویت ہونے کے بارے میں تصریح فرمایا ہے۔ اس ملطب کی تائید قرآن کی آیت کے ذریعے بھی ہوا ہے۔ جہاں فرماتے ہیں:النبی اولی بالمؤمنین من انفسهم [109] اس آیت میں جس اولویت اور برتری کی طرف اشارہ ہوا ہے اس سے مراد مؤمنین کی زندگی کے امور سے متعلق ہیں یعنی ان کی زندگی کے امور کے بارے میں حکم کرنے کا حق خود ان سے زیادہ پیغمبر کو حاصل ہے۔ جب کسی کو ہمارے بارے میں حکم کرنے کا حق اور الویت حاصل ہے تو ہم پر اس حکم کی اطاعت کرنا واجب ہے۔[110] بعض مفسرین کے مطابق اس آیت میں مذکور اولویت مؤمنین کی دین اور دنیا دونوں سے مربوط امور میں ہے۔[111][112]کیونکہ پیغمبر اکرم(ص) مؤمنین کی دین اور دنیا دونوں سے مربوط امور کی اصلاح فرماتا ہے۔[113]

پس اس جملے کا حضرت علی(ع) کی ولایت و امامت کے اعلان کے ساتھ مقارن ہونا اس بات کی دلیل ہے ہے حدیث کے دوسرے جملے میں موجود لفظ "مولا" بھی مؤمین کے امور میں خود ان سے زیادہ حضرت علی(ع) کی اولویت کو بیان کرتا ہے۔ [114]

اس خطبے کے ابتدائی جملات:

پیغمبر اکرم(ص) اس خطبے کی آغاز میں عنقریب اپنی رحلت کی خبر دیتے ہیں اس کے بعد توحید کے بارے میں سوال کرتے ہیں اور یہ پوچھتے ہیں کہ آیا میں نے اپنی رسالت اور ذمہ داری کو بخوبی انجام دیا یا نہیں؟ [115] یہ ساری باتیں اس بات کی نشانی ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) امت کیلئے اپنے بعد کی زندگی میں کسی راہ حل اور چارہ جوئی کی تلاش میں ہے تاکہ امت بے سرپرست نہ رہے اور خود پیغمر اکرم(ص) نے سالوں سال جو زحمت اٹھائی ہے وہ ضایع نہ ہوجائے۔ گویا آپ اپنا جانشین تعیین کرنا چاہتے تھے تاکہ امت کے امور کی زمام اپنے بعد ایک لایق اور تمام اسرار و رموز سے واقف ایک شخصیت کے حوالہ کرنا چاہتے تھے۔ [116] اور سورہ مائدہ کی آیت نمبر67 نیز اسی مطلب پر واضح دلیل ہے۔

قرائن خارجی

پیغمبر اکرم(ص) کا مسلمانوں سے اقرار لینا:

پیغمبر اکرم(ص) نے غدیر کے دن مسلمانوں سے کہا: تہمارا نبی اور مولا کون ہے؟

سب نے فورا کہا: خداوند عالم ہمارا مولا اور آپ(ص) ہمارے نبی ہیں اور اس حوالے سے ہم سے کوئی نافرمانی نہیں دیکہو گے۔ اس موقع پر پیغمبر اکرم(ص) نے حضرت علی(ع) سے فرمایا: اٹھو میرے بعد تم اس امت کے مولا ہو۔ جس جس کا میں مولا ہوں اس کا یہ علی مولا ہے تمہیں چاہئے کہ اس کا حقیقی پیروکار بنیں۔

اس موقع پر پیغمبر اکرم(ص) نے دعا فرمایا کہ خدایا! علی(ع) کے دوستوں سے دوستی اور اس کے دشمنوں سے دشمنی رکھ۔

عمر بن خطاب اور ابوبکر کا حضرت علی(ع) کو مبارک باد دینا:

اس حدیث کے بعض راویوں نے نقل کیا ہے کہ اس خطبے کے آخر میں ابوبکر بن ابی قحافہ اور عمر بن خطاب نے امام علی(ع) کے پاس آکر انہیں ولایت اور امامت پر فائز ہونے پر مبارک باد دی۔[117] عمر بن خطاب نے آپ(ع) سے کہا:

بَخٍّ بَخٍّ لَکَ یا ابنَ أبی طالب، أصبَحتَ مَولای و مَولی کُلِّ مُسلمٍ:‌اے اباالحسن، آپ کو مبارک ہو آپ میرے اور تمام مسلمان مرد اور عورت کے مولا بن گئے ہو۔[118][119]

اصحاب کا اس طرح حضرت علی(ع) کو مبارک باد دینا خود ایک واضح نشانی ہے کہ صدر اسلام کے مسلمان لفظ "مولا" سے خلافت اور اولی بالتصرف کے معنی سمجھتے تھے۔[120]

صدر اسلام کے شعراء کے اشعار:

متعدد مسلمانوں نے اس واقعے کی اشعار کے ذریعے منظر کشی کی ہے جن میں سے پہلا شخص حسان بن ثابت تھا۔ حسان بن ثابت وہاں موجود تھا اور پیغمبر اکرم(ص) سے اجازت لے کر اس واقعے کی توصیف میں چند اشعار کہے۔ ان اشعار میں اس نے اس واقعے میں حضرت علی(ع) کا بعنوان امام و ہادی امت نصب ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔[121][122]

واقعہ غدیر کے متعلق حسان بن ثابت کے اشعار:

ینادیہم یوم الغدیر نبیہم

 

بخم و أسمع بالرسول منادیا

فقال فمن مولاکم و ولیکم

 

فقالوا و لم یبدوا ہناک التعادیا

إلہک مولانا و أنت ولینا

 

و لم‌تر منا فی المقالۃ عاصیا

فقال لہ قم یا علی فإننی

 

رضیتک من بعدی إماما و ہادیا

فمن کنت مولاہ فہذا ولیہ

 

فکونوا لہ أنصار صدق موالیا

ہناک دعا اللہم وال ولیہ

 

و کن للذی عادی علیا معادیا

اس واقعے کے کئی سال بعد عمرو عاص، قیس بن سعد بن عبادہ،[123][124] کمیت بن زید اسدی،[125] محمد بن عبداللہ حمیری،[126] سید بن محمد بن حمیری،[127] وغیرہ نے اس واقعے کو اشعار میں بیان کیا ہے۔

حضرت علی(ع) نیز واقعے کے بارے میں چند اشعار ارشاد فرمائے ہیں۔[128]

فأوجبَ لی ولایتَہ علیکمْ

 

رسولُ اللَّہ یومَ غدیرِ خُمّ

فویلٌ ثمّ ویلٌ ثمّ ویلٌ

 

لمن یلقی الإلہ غداً بظلمی

یعنی پیغمبر خدا نے غدیر خم میں خدا کے حکم سے میری امامت اور ولایت کو کو تمہاری اوپر واجب کیا۔

پس وای ہو اس شخص پر جو قیامت کے دن خدا سے اس حالت میں ملاقات کرے کہ میرے اوپر ظلم کی ہو۔

علامہ امینی نے اصحاب، تابعین اور نوی صدی ہجری تک کے دیگر مسلمان شعراء کا نام ذکر کیا ہے جنہوں نے اس واقعے کے بارے میں اشعار کہے ہیں۔[129] ان اشعار کے مضامین اس بات کی دلیل ہے کہ یہ شعراء اس واقعے اور لفظ "مولا" سے اولا بالتصرف اور خلافت کے معنی سمجھتے تھے۔

 

اہل بیت کا اس حدیث کے ذریعے احتجاج اور استدلال:

امام علی(ع) نے کئی مواقع پر اس حدیث سے استناد کرتے ہوئے خلافت اور امامت کیلئے سب سے زیادہ اپنے آپ کا سزاوار ہونا ثابت کیا ہے۔ مثلا جنگ جمل میں طلحه کے ساتھ اسی حدیث کے ذریعے استدلال فرمایا،[130] اسی طرح مسجد کوفه میں معاویہ کو لکھے گئے ایک خط میں چند اشعار کے ضمن میں اس حدیث کے ساتھ استدلال فرمایا [131] [132] اسی طرح جنگ صفین میں آ پ احتجاج اور استدلال فرمایا[133] حضرت فاطمہ زهرا(س) نے بھی مخالفین کے مقابلے میں حضرت علی(ع) کی خلافت اور امامت پر اس حدیث کے ذریعے استدلال فرمائی ہے۔ [134]

اس حدیث کے بعض منکرین کا لاعلاج بیماریوں میں مبتلا ہونا:

بعض صحابہ جو اس واقعے کے چشم دید گواہ تھے لیکن اس پر گواہی دینے سے انکار کرنے پر اہل بیت کی لعن میں گرفتار ہوئے۔ ان لعنتوں کے نتیجے میں یہ بیمار ہوئے۔ مثال کے طور پر انس بن مالک برس کی بیماری میں مبتلاء ہو گئے۔[135][136] زید بن ارقم[137] اور اشعث بن قیس [138] نابینا ہو گئے۔ ان سے پتہ چلتا ہے کہ یہ واقعہ صرف حضرت علی(ع) سے دوستی اور محبت کے اظہار کرنے کی سفارش پر مشتمل نہیں تھا بلکہ مسلمانوں کے مستقبل کے حوالے سے ایک اہم کام کا اعلان ہونا تھا اسی لئے بعض اس کا انکار کرتے تھے جس کی وجہ سے اہل بیت کی لعنت کا مستحق قرار پاتے جو بعد میں ایک لا علاج بیماری کی صورت اختیار کر جاتی۔[139]

آیت تبلیغ کا نزول:'

﴿يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ ۖ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ ۚ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ﴾(سورهٔ مائده-آیهٔ ۶۷)

سورہ مائدہ کی آیت نمبر 67۔ (آیت تبلیغ

بعض احادیث [140][141] اور مفسرین کے مطابق [142][143] سورہ مائدہ کی آیت نمبر 67،حجۃ الوداع کے موقع پر مکہ اور مدینہ نازل ہوئی۔ جس میں ایک اہم کام کی تبلیغ کی ذمہ داری رسول اکرم(ص) کے گردن پر ڈالا گیا جو پیغمبر(ص) کی 23 سالہ زندگی میں انجام دینے والی رسالت کے کام کے برابر تھا۔ چنانچہ اگر اس کام کی تبلیغ نہیں کی گئی تو گویا رسالت کا کوئی کام انجام نہ دیا ہو۔ البتہ یہ تبلیغ بہت ساری مشکلات اور خطرات سے روبروی ہون گے لیکن خداوند عالم نے خود پیغمبر(ص) کو ان خطرات سے محفوظ رکھنے کی ضمانت دی ہے۔ اس آیت میں استعمال ہونے والی تاکیدات اور سفارشات بھی اس کام کی اہمیت اور مقام و منزلت پر واضح دلیل ہے اور یہ آیت جس امر مہم کی تبلیغ کا حکم دی رہی ہے وہ صرف اور حضرت علی(ع) کی امامت اور ولایت کے اعلان کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا ہے۔[144][145] ابن عباس، براء بن عاذب و محمد بن علی وغیرہ اسی عقیدے پر قائم تھے۔[146]

اگرچہ بعض معتقد ہیں کہ اس آیت میں جس امر کی تبلیغ پر تاکید کی گئی تھی وہ بعض احکام جیسے قصاص،رجم، رسول کے لے پالک بیٹے زید کی بیوی سے شادی کرنے کا حکم، وجوب جہاد کا حکم یا یہودیوں اور قریش اور مشرکین کے بتوں کے عیب کا بیان تھا۔[147] لیکن مذکورہ قرائن و شواہد کے بعد اس نظریے کا اشتباہ اور باطل ہونا واضح ہے۔

آیت اکمال دین کا نزول :

سورہ مائدہ کی آیت نمیر 3 (آیت اکمال دین)

خطبہ غدیر جن کتابوں میں مذکور ہیں

شیعہ کتابیں

اثبات الہداۃ[148]

الاحتجاج[149]

احقاق الحق[150]

الاختصاص[151]

البرہان[152]

المناقب[153]

بحار الانوار[154]

معانی الاخبار[155]

العمدۃ[156]

الامالی[157]

علل الشرائع[158]

عیون اخبار الرضا[159]

کشف الغمۃ[160]

مستدرک الوسائل[161]

امالی[162]

تبیان[163]

تفسیر عیاشی[164]

تفسیر قمی[165]

الجواہر السنیۃ[166]

 

           
اہل سنت کتابیں

اخبار اصفہان[167]

الاستیعاب[168]

اسد الغابۃ[169]

الإصابۃ[170]

إلاعتقاد[171]

الأغانی[172]

انساب الاشراف[173]

البدایۃ و النہایۃ[174]

تاریخ الاسلام[175]

تاریخ بغداد[176]

تاریخ دمشق[177]

تاریخ الکبیر[178]

نظم درر السمطین[179]

النہایۃ[180]

وفیات[181]

ینابیع المودۃ[182]

الامامۃ و السیاسۃ[183]

تذکرۃ الخواص[184]

مسند ابن حنبل[185]

المناقب (ابن مغازلی)[186]

المناقب (خوارزمی)[187]

المستدرک[188]

الطبقات الکبری[189]

سنن ابن ماجۃ[190]

عقد الفرید[191]

فتح القدیر[192]

فرائد السمطین[193]

الفصول المہمۃ[194]

کنز العمال[195]

مروج الذہب[196]

تہذیب التہذیب[197]

سنن النسائی[198]

السیرۃ الحلبیۃ[199]

شرح نہج البلاغۃ[200]

شواہد التنزیل[201]

صحیح مسلم[202]

تفسیر فخر الرازی[203]

خصائص النسائی[204]

الخطط و الآثار[205]

ذخائر العقبی[206]

روح المعانی[207]

سنن الترمذی[208]

……………………………………………………………………………………….

حواله جات:

1-  بخاری، تاریخ الکبیر، ج۴، ص۱۵۹۹؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج۳، ص۱۵۲؛ حلبی، السیرہ الحلبیہ، ج۳، ص۳۶۰.

2-  طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج۳، ص۱۴۹.

3-  ابن ہشام، السیرہ النبویہ، ج۲، ص۶۰۱.

4  -  واقدی، المغازی، ج۳ ص۱۰۸۹؛ ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ج۵ ص۱۱۰.

5 -  طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج۳، ص۱۴۹.

6  -  طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج‌۳، ص۱۳۲؛ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج۲ ص؛ حلبی، السیره الحلبیه، ج۳، ص۲۸۹.

7 -  واقدی، المغازی، ج۳، ص۱۰۷۹۱۰۸۰؛ حلبی، السیرہ الحلبیہ، ج۳، ص۲۸۹.

8  -طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج‌۳، ص۱۵۰-۱۵۲؛ ابن ہشام، السیرہ النبویہ، ج۲، ص۶۰۳۶۰۴.

9 -  یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج۲، ص۱۱۸.

10-  یاقوت، معجم البلدان، ج۲، ص۱۰۳.

11-  مفید، تفسیر القرآن، ج۱، ص۱۸۴؛ عیاشی، تفسیر عیاشی، ج۱، ص۳۳۲.

12-  یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج‌۲، ص۱ب۱۲.

13-  ابن اثیر، أُسدالغابۃ،ج‌۵، ص۲۵۳؛ کلینی، الکافی، ج۲، ص۲۷.

14-  بلاذری،انساب الاشراف، ج۲، ص۱۱۱؛ ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ج۷، ص۳۴۹؛ نسائی، ج۵، ص۴۵.

15-  صدوق، الامالی، ص۵۷۵؛ مفید، اقسام المولی، ص۳۵؛ طوسی، الاقتصاد، ص۳۵۱؛ طوسی، الرسائل، ص۱۳۸.

16-  ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ج۷، ص۳۴۹.

  17-  ابن فتال، روضۃالواعظین، ج۱، ص۹؛ طبرسی، ج۱، ص۶۶؛ ابن طاووس، الیقین، ص۳۴۳؛ علم الہدی، نزہۃالکرام، ج۱، ص۱۸۶.

18-  ابن طاووس، الاقبال، ص۴۵۴ و ۴۵۶

19-  حلی، العُدَدُ القَویۃ، ص۱۶۹؛ ابن طاووس، التحصین، ص۵۷۸؛ بیاضی، الصراط المستقیم، ج۱، ص۳۰۱؛ حسین بن جبور، نہج الایمان، ورقہ ۲۶۳۴.

20-  امینی، الغدیر، ج۱، ص۴۰.

21-  امینی، الغدیر، ج۱، ص۱۵۸.

22-  ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، ج۷، ص۶۱.

23-  بن حنبل، ج۴، ص ۳۷۰

24-  ابن حجر عسقلانی، الإصابۃ، ج۳، ص ۴۸۴.

25-  ابن مغازلی، مناقب، ج۱، ص۶۶

26-  ابن حنبل، مسند احمد، ج۵، ص۳۷۰.

27-  ابن حنبل، مسند احمد، ج۱، ص۸۸.

28  -ابن حنبل، مسند احمد، ج۱، ص۸۴

29-  ابن حنبل، مسند احمد، ج۱، ص۱۱۹؛ خطیب، ج۱۶، ص۳۴۸.

30  -  ابن مغازلی، مناقب، ج۱، ص۵۴

  31-  ہیثمی، ج۹، ص۱۳۶

32-  دولابی، ج۳، ص۹۲۸

33-  ابن حنبل، مسند احمد، ج۱، ص۱۱۸.

34-  ابن حنبل، مسند احمد، ج۵، ص۳۶۶.

35-  امینی، الغدیر، ج۱، ص۱۴-۱۵.

36-  ابن مغازلی، مناقب، ص۱۱۲، ح ۱۵۵؛ ابن اثیر، اسدالغابہ، ج۳، ص۳۰۷؛ ہیثمی، ج۹، ص۱۰۷

37-  بخاری، ج۱، ص۳۷۵

38-  ابن جزری، أسنی المطالب، ص۴۹.

39-  بلاذری، انساب الاشراف، ص۱۰۸

40-  قندوزی، ج۳، ص۳۶۹

41-  نسائی، ص۱۳۲ _۱۰۴ _۱۰۳ _۱۰۱ _۱۰۰ _۹۶ _۹۳

42-  سلیم بن قیس، ص۳۲۱

43-  حاکم حسکانی، ج۱، ص۲۰۱، ح ۲۱۱

  44-  ابن فتال، روضۃالواعظین، ج۱، ص۸۹؛ طبرسی، ج۱، ص۶۶؛ ابن طاووس، الیقین، ص۳۴۳؛ علم الہدی، نزہۃالکرام، ج۱، ص۱۸۶

45-  ابن عساکر، ترجمۃ الامام الحسین، ج۲، ص۷۰.

46-  حلی، العُدَدُ القَویۃ، ص۱۶۹؛ ابن طاووس، التحصین، ص۵۷۸؛ بیاضی، الصراط المستقیم، ج۱، ص۳۰۱؛ حسین بن جبور، نہج الایمان، ورقہ۲۶ ۳۴

47-  امینی، الغدیر، ج۱، ص۱۴-۱۵

48-  فخر رازی، ج۱۲، ص۴۹

49-  ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج۱، ص۱۳.

50-  ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ج۵، ص۲۰۹.

51-  ابن صباغ، الفصول المہمہ، ج۱ص ۲۳۵.

52-  ابن طاووس، الاقبال، ص۴۵۴۴۵۶.

53-  متقی ہندی، ج۱۳، ص۱۵۸ _۱۵۷ _۱۳۸ _۱۳۱ _۱۰۵ _۱۰۴ و ۱۶۸

54-  ابن حمزہ، البیان و التعریف، ص۵۹۳.

55-  آلوسی، ج۶، ص۱۹۴

56-  رشیدرضا، ج۶، ص۳۸۴

57-  الغدیر، ج۶، ص۱۱

58-  امینی، الغدیر، ج۱، ص۱۴-۱۵

59-  الغدیر، ج۱، ص۱۴۵

60-  الغدیر، ج۶، ص۵۹

61-  ابن طاووس، الطرائف، ص۳۳.

62-  ہندی، میرحامدحسین

63-  مجلسی، بحار الانوار، ج۳۷، ص۱۸۱ - ۱۸۲

64-  حر عاملی، ج۲، ص۲۰۰ - ۲۵۰

65-  امینی، الغدیر، ج۱، صفحات ۱۲، ۱۵۱، ۲۹۴ - ۳۲۲

66-  بحرانی، سیدهاشم

67-  بحرانی، عبداللہ، ج۱۵/۳، صفحات ۳۰۷ - ۳۲۷

68-  سید علی میلانی، ج۶ - ۹

69-  تفتازانی، ج۵، ص۲۷۲

70-  جرجانی، شرح المواقف، ج‌۸، ص۳۶۱.

71-  ترمذی، ج۵، ص۵۶۳

72-  طحاوی، ج۴ ص۲۱۲

73-  حاکم نیشابوری،ج ۳، ص ۱۱۸

74-  ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ج۵، ص۲۰۹.

75-  ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، ج۷، ص۷۴.

76-  ابن حجر ہیتمی، الصواعق المحرقۃ،ج۱، ص۱۰۶.

77-  جرجانی، شرح المواقف، ج۸، ص۳۶۱؛ طحاوی، ج۴، ص۲۱۲.

78-  واقدی، المغازی، ج۳، ص۱۰۷۹۱۰۸۰؛ حلبی، السیرہ الحلبیہ، ج۳، ص۲۸۹.

79-  مفید، اقسام المولی، ص۲۸بہ بعد

80-  مفید، الافصاح، ص۳۲.

81-  طوسی، الاقتصاد، ص۳۴۵

82-  حلی، کشف المراد، ص۳۶۹.

83-  فخر رازی، الاربعین فی اصول الدین، ج‌۲، ص۲۸۳

84- جرجانی، شرح المواقف، ج۸، ص۳۶۰-۳۶۵.

85-  تفتازانی، ج۵، ص۲۷۳-۲۷۵

86-  جرجانی، شرح المواقف، ج۸، ص۳۶۰-۳۶۵

87- تفتازانی، ج۵، ص۲۷۳-۲۷۵

88-  فخر رازی، الاربعین فی اصول الدین، ج‌۲، ص۲۸۳

89-  جرجانی، شرح المواقف، ج۸، ص۳۶۰-۳۶۵

90-  جرجانی، شرح المواقف، ج۸، ص۳۶۱.

-92فخر رازی، التفسیر، ج۲۹، ص۴۵۹

-93تفتازانی، ج۵، ص۲۷۳

-94شریف مرتضی، ج۲، ص۲۷۰

-95شریف مرتضی، ج۲، ص۲۷۰

-96 فخر رازی، التفسیر الکبیر، ج۲۹، ص۲۲۷

-97فخر رازی، التفسیر الکبیر، ج۲۹، ص۲۲۷

-98امینی، الغدیر، ج۱، ص۶۲۴.

-99فخر رازی، الاربعین فی اصول الدین، ج‌۲، ص۲۸۳.

-100شریف مرتضی، الشافی، ج۲ ص۲۷۷

-101سورہ احزاب، آیت نمبر 16۔

-102ابن منظور، ج۱۵، ص۴۰۷، مادہ ولی

-103ازہری، ج۱۵، ص۳۲۴-۳۲۷

-104فیومی، ج۱- ۲، ص۶۷۲

-105ابن فارس، معجم مقاییس اللغہ، ج۶، ص۱۴۱.

-105طریحی، ج۱، ص۴۶۲؛ بستانی، ص۹۸۵؛ فیروز آبادی، ص۱۲۰۹

-106ابن منظور، ج۱۵، ص۴۱۱

-107ازهری، ج۱۵، ص۳۲۲

- 108طریحی، ج۱، ص۴۶۴- ۴۶۵

-109سورہ احزاب، آیت نمبر 6

-110طوسی، التبیان، ج۸، ص۳۱۷

-111بیضاوی، ج۴، ص۲۲۵

-112زمخشری، ج۳، ص۵۲۳

-113زمخشری، ج۳، ص۲۲۵

-114فخر رازی، الاربعین فی اصول الدین، ج۲، ص۲۸۳

-115ابن اثیر، اسد الغابہ، ج۱، ص۴۳۹؛ یعقوب، ج۲، ص۱۱۸؛ ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ج‌۷، ص۳۴۸۳۴۹؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج۲، ص۱۰۸.

-116امینی، الغدیر، ج۱، ص۶۵۷

-117مناوی، ج۶، ص۲۱۷

-118ابن حنبل، مسند احمد، ج۴، ص۲۸۱.

-119ابن مغازلی، مناقب، ج۱، ص۴۶؛ ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ج۷، ص۳۴۹.

  -120امینی، الغدیر، ج۱، ص۶۶۷.

-121طوسی، الاقتصاد، ص۳۵۱

-122سید رضی، ص۴۳

-123سید رضی، ص۴۳

-124دلائل الصدق، ج‌۴، ص۳۴۰

-125سید رضی، ص۴۳

-126مجلسی، ج۳، ص۲۷۰

-127سید رضی، ص۴۳

-128طبرسی، الاحتجاج، ج۱، ص۱۸۱.

-129امینی، الغدیر، ج۲، ص۵۱-۴۹۵.

-130حاکم نیشابوری، ج۳، ص۴۱۹

-131ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ج۵، ص۲۱۱.

-132طبرسی، الاحتجاج، ج۱، ص۱۸۱؛

-133مجلسی، ج۳۳، ص۴۱

-134ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ج۷، ص۳۰۴.

-135صدوق، امالی، ص۲۲

-136ابن قتیبہ، الامامۃ والسیاسۃ، ج۱، ص۵۸۰

-137ابن مغازلی، مناقب، ج۱، ص۶۲.

-138صدوق، امالی، ص۱۶۲.

-139امینی، الغدیر، ج۱، ص۶۶۴.

-140قمی، ج۱، ص۱۷۱

-141طبرسی، جوامع الجامع، ج۱، ص۳۴۳

-142سیوطی، ج۲، ص۲۹۸

-143عیاشی، ج۱، ص۳۳۲

  -144عیاشی، ج۱، ص۳۳۱

  -145طبرسی، مجمع البیان، ج۱، ص۳۳۴.

-146فخر رازی، ج۱۲، ص۴۰۱

-147فخر رازی، ج۱۲، ص۴۰۰-۴۰۲

-148حرعاملی، ج۳، ص۳۱۱، ۴۷۶، ۵۸۴، ۶۰۱؛ ج۴، ص۱۶۶، ۴۷۲

-149طبرسی، الاحتجاج، ج۱، ص۶۶، ۸۴

-150شوشتری، ج۲، ص۴۱۵- ۵۰۱؛ ج۳، ص۳۲۰؛ ج۶، ص۲۲۵، ۳۶۸ و ج۱۲، ص۱– ۹۳

-151مفید، الاختصاص، ص۷۴.

-152بحرانی، ج۱، ص۷۱۱؛ ج۲، ص۱۴۵

  -153ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب، ج۲، ص۲۲۴، ۲۲۶، ۲۲۷، ۲۲۸، ۲۳۶؛ ج۳، ص۳۸، ۴۲، ۴۳.

-154مجلسی، ج۳۷

  -155صدوق، ص۶۶

  -156ابن بطریق، العمدۃ، ص۹۰ -۱۰۳، ۴۴۸.

  -157صدوق، الامالی، ص۱۲، ۱۰۶، ۱۰۷، ۲۸۴.

  -157صدوق، الشرائع، ص۱۴۳.

-158صدوق، ج۲، ص۴۷

-159 ابن ابی الفتح اربلی، ج۱، ص۳۱۸، ۳۲۳؛ ج۲، ص۲۱۳، ۲۲۲؛ ج۳، ص۴۷

-160نوری، ج۳، ص۲۵۰؛ ج۶، ص۲۷۷؛ ج۷، ص۱۲۰

-161طوسی، ج۱، ص۲۴۳، ۲۵۳، ۲۷۸؛ ج۲، ص۱۵۹، ۱۷۴

-162طوسی، ج۱، ص۱۱۳

-163عیاشی، ج۱، ص۲۹۲، ۲۹۳، ۳۳۲- ۳۳۴

-164علی بن ابراہیم قمی، ص۱۵۰، ۲۷۷، ۴۷۴، ۵۳۸

-165حرعاملی، ص۲۲۷

-166ابونعیم، أخبار اصفہان، ج۱، ص۱۰۷، ۲۳۵ و ج۲، ص۲۲۷

-167ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج۲، ص۴۶۰.

-16ابن اثیر، أُسد الغابہ، ج۱، ص۳۰۸، ۳۶۷ و ج۲، ص۲۳۳ و ج۳، ص۹۲، ۹۳، ۲۷۴، ۳۰۷، ۳۲۱ و ج۴، ص۲۸ و ج۵، ص۶، ۲۰۵، ۲۰۸

-169 ابن حجر عسقلانی، الاصابہ، ج۱، ص۳۷۲‌، ۵۵۰ و ج۲‌، ص۲۵۷، ۳۸۲، ۴۰۸، ۵۰۹ و ج۳، ص۵۱۲ و ج۴، ص۸۰

-170بیہقی، ص۱۸۲

-171ابوالفرج، الأغانی، ج۸، ص۳۰۷.

-172 بلاذری، انساب الاشراف، ج۱، ص۱۵۶.

-173ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ج۵، ص۲۰۸، ۲۰۹، ۲۱۱، ۲۱۲، ۲۱۳، ۲۱۰، ۲۲۷، ۲۲۸ و ج۷، ص۳۳۸، ۳۴۴، -174۳۴۶، ۳۴۷، ۳۴۸، ۳۴۹

-174ذہبی، ج۲، ص۱۹۶، ۱۹۷

-175خطیب بغدادی، ج۸، ص۲۹۰ و ج۷، ص۳۷۷ و ج۱۲، ص۳۴۳ و ج۱۴، ص۲۳۶

-176ابن قلانسی، تاریخ دمشق، ج۱، ص۳۷۰ و ج۲، ص۵، ۸۵، ۳۴۵ و ج۵، ص۳۲۱.

-177بخاری، ج۱، ص۳۷۵ و ج۲، قسم ۲، رقم ۱۹۴

-178زرندی حنفی، ص۷۹، ۱۰۹، ۱۱۲

-179ابن الأثیر، ج۴،۱ ص۳۴۶

-180ابن خلکان، وفیات الاعیان، ج۱، ص۶۰ و ج۲، ص۲۲۳.

-181قندوزی، ۲۹ - ۴۰‌، ۵۳‌-‌۵۵،‌۸۱‌، ۱۲۰‌، ۱۲۹‌، ۱۳۴‌، ۱۵۴‌، ۱۵۵‌، ۱۷۹‌-‌۱۸۷‌، ۲۰۶، ۲۳۴‌، ۲۸۴

-182ابن قتیبہ، الامامۃ والسیاسۃ، ج۱، ص۱۰۹.

-183ابن جوزی، تذکرۃ الخواص، ص۳۰، ۳۳.

-184احمد حنبل، ج۱، ص۸۴، ۱۱۹، ۱۸۰ و ج۴، ص۲۴۱، ۲۸۱، ۳۶۸، ۳۷۰، ۳۷۲ و ج۵، ص۳۴۷، ۳۶۶، ۳۷۰، ۴۱۹ - ۴۹۴ و ج۶ ص۴۷۶

-185ابن مغازلی، مناقب، ص۱۶، ۱۸، ۲۰، ۲۲، ۲۳، ۲۴، ۲۵، ۲۲۴، ۲۲۹

-186خوارزمی، المناقب، ص۲۳، ۷۹، ۸۰، ۹۲، ۹۴، ۹۵، ۱۱۵، ۱۲۹، ۱۳۴

-187حاکم نیشابوری، ج۳، ص۱۰۹، ۱۱۰، ۱۱۸، ۳۷۱، ۶۳۱

-188ابن سعد، طبقات الکبری، ج۳، ص۳۳۵.

-189ابن ماجہ، سنن، ج۱، ص۴۳.

-190ابن عبد ربہ، عقد الفرید، ج۵، ص۳۱۷.

-191شوکانی، ج۳، ص۵۷

-192حموینی، ج۱، ص۵۶، ۶۴، ۶۵، ۶۷، ۶۸، ۶۹، ۷۲، ۷۵، ۷۶، ۷۷

-193ابن صباغ، الفصول المہمہ، ص۲۳، ۲۴، ۲۵، ۲۷، ۷۴.

-194متقی ہندی، ج‌۱، ص۴۸ و ج۶‌، ص۳۹۷‌-‌۴۰۵ و ج۸، ص۶۰ و ج۱۲، ص۲۱۰ و ج۱۵، ص۲۰۹

-195مسعودی، ج۲، ص۱۱

-196ابن حجر عسقلانی، تہذیب التہذیب، ج۱، ص۳۳۷ و ج۲، ص۵۷ و ج۷، ص۲۸۳، ۴۹۸. ۴۶

-197نسائی، سنن، ج۵، ص۴۵.

-198حلبی، السیرہ الحلبیہ، ج۳، ص۲۷۴، ۲۸۳، ۳۶۹.

-199ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج۱، ص۳۱۷-۳۶۲ و ج۲، ص۲۸۸ و ج۳، ص۲۰۸ و ج۴، ص۲۲۱ و ج۹، ص۲۱۷.

-100حاکم حسکانی، ج۱، ص۱۵۸، ۱۹۰

-101 مسلم، ج۴، ص۱۸۷۳

-102فخررازی، ج۳، ص۶۳۶

-103نسائی، خصائص امیرالمؤمنین، ص۲۱، ۴۰، ۸۶، ۸۸، ۹۳، ۹۴، ۹۵، ۱۰۰، ۱۰۴، ۱۲۴

-104مقریزی، ۲۲۰

-105احمد بن عبداللہ طبری، ص۶۷، ۶۸

-106آلوسی، ج۶، ص۵۵

-107ترمذی، ج۵، ص۵۹۱

Add new comment