غدیر اور اخوت اسلامی
غدیر اور اخوت اسلامی
حجۃ الاسلام والمسلمین سید اعجاز حسین موسوی
کیا غدیر کے ساتھ اتحاد اسلامی ممکن ہے ؟
غدیر یا اس سے متعلق حدیث یا واقعات پر تبصرہ یا تذکردہ بعض حضرات کو منافی اتحاد نظر آتا ہے ، بہت سے ذہنوں میں یہ بات بھی آتی ہو گی کہ غدیر کے ذکر کے ساتھ یہ اتحاد جو مختلف اسلامی فرقوں میں ، ہم وجود میں لانا چاہتے ہیں ، کیسے ممکن ہو سکتا ہے ، غدیر کا نام لیتے ہی فکر بعض جہات و جوانب کی جانب متمرکز ہو جاتی ہے جس کے بعد یا جس سے ہٹ کر گفتگو ممکن نہیں رہتی۔
کیا واقعاً ایسا ہے ؟ نہیں ایسا نہیں ہے اور اگر فرض کر لیں کہ ایسا ہوبھی تو جو لوگ اس طرح کے اعتراضات کرتے ہیں اصل میں وہ اتحاد کے مفہوم اور معنا سے کما حقہ آشنا نہیں ہیں ۔
اتحاد کا مقصد اور ہدف اسلامی فرقوں کے درمیان مشترک عقائد و مسائل پر ہمفکری و ہماہنگی پیدا کرنا ہے تاکہ ایک دوسرے کے اوپر اپنے فرقے کے مخصوص عقائد و احکام تھوپنا ۔
اتحاد کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ شیعہ اتحاد کی دعوت دے کرسنیوں کو اپنا ہم مسلک وہم عقیدہ بنانا چاہتے ہیں یا سنی اگر اتحاد کی راہ میں قدم بڑ ھا رہے ہیں تو ا سکا مطلب یہ ہے کہ وہ شیعوں کو مذہب اہل سنت میں شامل کرنا چاہتے ہیں ۔
اتحاد ، اسلامی امتوں کے مشترکہ عقائد و احکام و مسائل کے ذریعہ انہیں ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کا نام ہے ۔ تمام مسالک و مذاہب ایک دوسرے کے مشترک مسائل کا مطالعہ کریں تاکہ اس سے آگے کے مراحل کے سلسلے میں ایک دوسرے کے ساتھ مفاہمت پیدا کرنے کے لئے بیٹھ سکیں ۔ مشترکات کو جاننے اور سمجھنے کے بعد دلوں میں نرمی پیدا ہونے کا امکان ہے ایک دوسرے کے مذاہب و مسالک کے غائر مطالعہ سے انہیں ان کے نظریات ، ان کے دلائل کو سمجھنے میں آسانی ہو گی جب یہ علمی و تہذیبی و ثقافتی فضا ہموار ہو جائے گی تو نفرت و دل آزاری میں کمی ہونا طبیعی امر قرار پائے گا ۔ مثلاً امت اسلامیہ شیعوں پر الزام لگاتی ہے کہ یہ متعہ کے نام پر زنا کرتے ہیں ۔ تقیہ کے نام پر جھوٹ بولتے ہیں ۔ مٹی کو سجدہ کرتے ہیں ۔ قبروں پر نماز پڑ ھتے ہیں ۔ قبروں کو پکی اور سونے چاندی کی بناتے ہیں ۔ حضر ت علی۔ کی نبوت کے قائل ہیں ۔ جبرئیل نے نبوت (معاذاللہ)مولائے کائنات۔ کو دینے کو بجائے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دے دی و........
اس طرح کے ڈھیروں الزامات اور اتہامات ہیں جو شیعوں پر لگائے جاتے ہیں ، بلکہ نہیں صرف شیعوں پر نہیں ، یہ اور اس طرح کے الزامات ہر فرقہ دوسرے فرقے پر لگاتا ہے ، بعض اوقات تو نوبت الزام کی منزل سے آگے نکل کر قتل و غارت گری تک پہنچ جاتی ہے ۔ اکثر و بیشتر ایک فرقہ دوسرے فرقے پر کفر و الحاد کے فتوی لگانے سے بھی نہیں چوکتا ، آج حالت یہ ہے کہ سارے مسلمان ایک اللہ کو ماننے ، ایک رسول کی رسالت کی گواہی دینے ، ایک قبلہ کی طرف سجدہ کرنے ، ایک کتاب کو ماننے اور اس پر عمل کرنے کے باوجود ایک دوسرے پر کفر کا فتوی لگاتے ہیں ۔ اسلامی تعلیمات کے برخلاف ایک دوسرے سے سوء ظن کرتے ہیں ، بھائی چارگی اور اخوت کا اظہار کرنے کے بجائے نفرت و کینہ کا اظہار کرتے ہیں ۔ایک ساتھ ایسے بیٹھتے ہیں جیسے مسلمان بھائی کے ساتھ نہیں کسی کافر و منافق کے ساتھ بیٹھے ہیں ۔
دلوں میں بغض رکھنا عام ہے گفتگو اور عمل میں سوء ظن کرنا معمولی بات ہے ۔
الزام تراشی اور دل آزاری گناہ تصور نہیں کیا جاتا ۔ ایک دوسرے کے بزرگان کی توہین پر خوش ہوتے ہیں ۔اگر ایک کسی توہین کرے توجواب میں دوسرا توہین کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے ۔
کیا یہی اسلامی تعلیمات تھیں جو پیغمبر اسلام ؐ اپنے ساتھ لیکر آئے تھے ؟ کیا یہی اسلام تھا جس نے دنیا میں انقلاب برپا کر دیا تھا؟ کیا یہی اسلام تھا جس نے سیاہ و سفید کو ایک دوسرے کا عزیز ، ایک دوسرے کا بھائی بنا دیا تھا ؟ کیا یہی اسلام تھاجو حضرت جبرئیل لے کر آئے تھے ؟ کیا یہی وہ اسلام تھا جو لوگوں کے دلوں کو مسخر کر لیا کرتا تھا ؟ کیا یہی وہ اسلام تھا جس نے اعلی و ادنیٰ ، امیر و غریب، عربی و عجمی کے فرق کو ختم کر دیا تھا ؟ کیا یہی وہ اسلام تھا جس کی ترویج کی خاطر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام زحمتوں اور مشکلوں کو تحمل کیا تھا ؟ کیا یہی وہ اسلام تھا جس کی خاطر مولائے کائنات نے اپنے اوپر ہونے والے مظالم پر صبر کر لیا اور اس کی راہ میں اپنے مفاد کو قربان کر دیا اور اپنے حق سے دستبردار ہو گئے ؟ اپنے دل کو خون کرنا گوارا کر لیا مگر آہ نہ کی و.........
خلاصہ یہ کہ پیغمبر اسلام اور مولائے کائنات نے جس اسلام کے لئے اپنے حقوق کی قربانی دی ، آج ہمیں اس کی عظمت رفتہ کے لئے کو ششیں کرنی ہیں اور اس کے لئے راہ ہموار کرنی ہے تاکہ اس کے تحقق کو ممکن بنایا جا سکے ۔
غدیر، ان منجملہ ابحاث میں سے ایک ہے جو مختلف مذاہب اسلامی کے درمیان ہمیشہ موضوع سخن رہا ہے ، اتحاد کے زمر ہ میں اور اس کے تحقق کی راہ میں دو باتوں کا لحاظ کرنا ناگزیر ہے ان میں سے کوئی بھی دوسرے کی بھینٹ نہیں چڑ ھنا چاہئے ۔ایک تو حفظ اتحاد و اخوت امت اسلامی ، دوسرے حفظ اصل اسلام۔
یقینا تمام مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ دین اسلام کی حفاظت کریں ، اس کو فروغ دیں اس کو فروغ دینے کی راہ میں ہمارے دوش پر بھاری ذمہ داریاں عاید ہوتی ہیں ، یہ بات بھی پیش نظر ہونی چاہئے کہ مسلمانوں کے دشمن مشترک ہیں اورا ن سب کا ہدف اصل اسلام کو صفحہ ہستی سے مٹانا ہے ۔لہذا ہمیں متحد ہو کر اسلام و امت اسلامی کا دفا ع کرنا چاہئے لیکن اس کامطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اپنے دوسرے اہم فرائض کو نظر انداز کر دیں ، دوسرے مسائل کو اتحاد کو اصل بنا کر اس پر قربان کر دیں ۔
غدیر کی اصل و اساس اورا س کے واقعہ کو مسلمانوں کے ذہنوں میں زندہ کر کے ، انہیں اس کی اصل سے آگاہ کر کے ہم ایک فریضہ مذہبی کی ادائیگی سے سرفراز ہو سکتے ہیں ۔عوام الناس تک غدیر کو پہنچاکر ہم بڑ ی خدمت انجام دے سکتے ہیں ۔امت اسلامی میں ایک کثیر تعداد ایسی ہے جسے یا غدیر کا علم نہیں ہے یا یہ علم اتنا کم رنگ ہے کہ اس کی واقعی اور حقیقی تصویر ابھر کر سامنے نہیں آپاتی، یہ بات سبب بنتی ہے کہ وہ اس کی طرف متوجہ نہ ہوں اور نہ ہی کسی رغبت کا اظہار کریں ، جس کے نتیجہ میں وہ دوری جو صدیوں سے حائل ہے اس کا سلسلہ دوام پیدا کرنے لگتا ہے ۔اور جو لوگ غدیر سے واقف ہیں ، حدیث غدیر یا واقعہ غدیر کا مطالعہ کر چکے ہیں انہیں اس سلسلہ کی غلط بیانیاں ، غلط تاویلات، غلط تفسیر حقیقت سے منحرف کر دیتی ہے ، ہمارا فریضہ یہ ہے کہ ہم ان کے ان شبہات کو دور کریں ، ان کے انحراف کے رخ کو موڑ یں اور انہیں خالص اور اصل غدیر کا منظر دکھائیں ۔اس کے سیاق و سباق اور اس کے اطراف و جوانب سے آگاہی، دلوں کو زندہ کرنے ، ان میں امیدوں کی تجلی روشن کرنے اور اپنے دین و مذہب کی طرف راغب ہونے کی صلاحیت بیدار کرسکتی ہے ۔
غدیر کی تصویر، غدیر کا تصور، غدیر کی عملیاتی و تجزیاتی فکر، تشیع کی حقانیت کا ثبوت پیش کر سکتی ہے ۔
غدیر پر توجہ، غدیر کا مطالعہ اور غدیر کو اتحاد کا موضوع بنا کر، ہم غدیرکے لئے نہایت خدمت انجام دے سکتے ہیں ۔غدیر کے ساتھ اتحاد کا مطلب یہ ہے کہ ہم انہیں غدیر کے موضوع پر ساتھ میں مل کر کام کرنے کی دعوت دیں ، انہیں غدیر کے منابع کی طرف تشویق کریں ، انہیں اس سے آگاہ کریں ، اس پر ان کے اپنے نقطہ نظرات کو بیان کرنے کو کہیں اور شیعہ نقطہ ہای نظر کو ان کے سامنے پیش کریں اور ظاہر ہے کہ یہ اتحاد تب ہی ممکن ہو سکتا ہے جب ہم تعصب کی عینک اتارکر دلوں میں اسلامی اخوت کا چراغ روشن کر کے ، اسلام کو دشمن کی سازشوں سے محفوظ رکھنے کے لئے نرم دل اور کھلے ذہن کے ساتھ مل جل کر ایک ساتھ قدم اٹھائیں ۔ممکن ہے یہاں پر یہ سوال پیش آئے کہ جب ہمیں معلوم ہے کہ غدیر کے ذکر کے ساتھ اور تاریخ بھی اس بات کی شاہد ہے کہ پیغمبر اسلام کو اس بات کا بخوبی علم تھا کہ اتحاد کا متحقق ہونا ممکن نہیں ہے کیونکہ بنی امیہ حضرت علی ۔ اور بنی ہاشم کے شدید اور سخت مخالف ہیں ۔ نبی ا کرم کو احساس تھا کہ بنی امیہ مولائے کائنا ت۔ کی ولایت کو آسانی سے قبول نہیں کریں گے مگر آپ پھر بھی مختلف مقامات پر اعلان فرماتے رہے اور یہ مسئلہ ہماری راہ میں رکاوٹ نہیں بننا پچاہئے کہ ہمارے اہل سنت برادران کبھی بھی اس دعوت کو قبول نہیں کریں گے ؟جواب نہایت واضح و روشن ہے اور وہ یہ کہ پیغمبر اسلام نے حق و حقانیت کو بیان کرنے میں اہمال یا سہل انگاری سے کام نہیں لیا اور ملامتوں کی پرواہ نہ کی ، بلکہ آپ نے اپنی ۲۳ سالہ حیات مبارک میں ہر موقع پر ، ہر طرح سے ولایت کے سلسلہ کا تعارف کرایا اور اسے لوگوں کے سامنے پہنچایا۔آپ کو یقینا اس بات کا علم تھا کہ آپ کی وفات کے بعد لوگ اس مسئلہ میں اختلاف کریں گے ۔مگران سب کے باوجود آپ مسئلہ غدیر اور مسئلہ ولایت و امامت کو بیان فرماتے رہے ۔اور جیسا کہ قرآن مجید کا ارشاد ہے کہ’’ و ما علینا الا البلاغ ‘‘اور پیغمبر کا فریضہ پہنچا دینا ہے ۔اور امام امت حضرت امام خمینی کا ایک جملہ بھی نہایت مشہور ہے کہ ہمارا فریضہ ابلاغ کرنا اور پہنچا دینا ہے ، انجام اور نتیجہ سے ہمیں سروکار نہیں ہونا چاہئے ۔انجام خدا وند عالم کے ہاتھ میں ہے اور صرف وہ ہے جسے غیب کا اور اپنی مصلحت کا علم ہے ۔
آخر میں خدا وند عالم سے دعا ہے کہ وہ ہمیں غدیر کی معرفت عطا کرے ، امامت کی معرفت عطا کرے ، اپنی حجت اور امام زمانہ۔ کی معرفت عطا کرے ، ان کے ظہور میں تعجیل فرمائے کہ ان کا ظہور غدیر کے تحقق اور مستضعفین جہان کی آخری امید ہے ۔
والسلام علی من اتبع الھدیٰ
Add new comment