حدیث غدیر سے متعلق ایک مناظرہ
حدیث غدیر سے متعلق ایک مناظرہ
ڈاکٹر تیجانی کہتے ہیں:
اپنے وطن تیونس میں،میں نے ایک سنی عالم دین سے ایک مناظرہ میں اس طرح کہا:
”تم حدیث غدیر کو قبول کرتے ہو“؟
تیونسی عالم: ”ہاں میں اس حدیث کو قبول کرتا ہوں یہ صحیح ہے“۔
میں نے خود قرآن کی تفسیرلکھی ہے جس میں سورہٴ مائدہ کی ۶۷ ویں آیت کی تفسیر کے ذیل میں حدیث غدیر کو پیش کیا ہے اس کے بعد اس نے اپنی تفسیر میرے سامنے لا کر رکھ دی اور جہاں اس نے حدیث غدیر کا تذکرہ کیا تھا وہ مجھے دکھایا۔
میں نے اس کتاب میں دیکھا حدیث غدیر کے باب میں اس طرح عبارت درج ہے:
”شیعہ حضرات اس بات کے معتقد ہیں حدیث غدیر صریحی طور پر علی کی خلافت بلا فصل پر دلالت کرتی ہے لیکن اہل سنت حضرات کے نزدیک یہ عقیدہ باطل ہے کیونکہ یہ حدیث ابو بکر وعمر وعثمان کی خلافت سے منافات رکھتی ہے اس وجہ سے ہمارے لئے یہ لازم ہو گیا کہ اس روایت کی صراحت سے چشم پوشی کرتے ہوئے اس کی تاویل کریں 1 یعنی ہم یہ کہیں کہ یہاں مولیٰ کے معنی دوست اور یاور ہیں جیسا کہ قرآن میں یہ لفط دوست اور یاور کے معنی میں آیا ہے اور خلفائے راشدین اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عظیم صحابیوں نے بھی لفظ مولا سے یہی مراد لیا ہے اس کے بعد ان کے تابعین اور علمائے مسلمین نے بھی اسی بات کی تائید کی ہے اور اسی صورت کو مقبول بتایا ہے۔اس طرح شیعوں کے اس عقیدہ کا کوئی اعتبار نہیں“۔
ڈاکٹر تیجانی: ”کیا خود واقعہ غدیر تاریخ میں پایا جاتا ہے یا نہیں؟“
تیونسی عالم: ”ہاں کیوں نہیں اگر واقعہ غدیر نہ ہوا ہوتا تو علماء ومحدثین اسے نقل ہی نہ کرتے“۔ 2
ڈاکٹر تیجانی: ”کیا یہ مناسب ہے کہ رسول اکرم صلی الله علیه و آله وسلم حج سے واپسی کے وقت غدیر خم کے تپتے ہوئے صحراء میں ہزاروں مرد،عورتوں اور بچوں کے مجمع میں سب کو روک کر ایک طویل خطبہ دیں اور اس کے بعد یہ اعلان کریں کہ علی تمہارے دوست اور مدد گار ہیں کیا تم اس طرح کی تاویل کو پسند کرتے ہو؟“
تیونسی عالم: ”بعض صحابہ کرام نے جنگ کے دوران حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں نقصان اٹھا یا تھا اس میں بہت سے ایسے تھے جن کے دلوں میں ان کی طرف سے کینہ پرورش پا رہا تھا لہٰذا رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم نے میدان غدیر میں یہ اعلان کیا کہ جو علی سے کینہ رکھتے ہیں وہ اپنے کینوں کو دور کریں اور انھیں اپنا دوست اور مددگار سمجھیں؟“ 3
ڈاکٹر تیجانی: ”علی علیہ السلام کی دوستی کا مسئلہ اس بات کا تقاضہ نہیں کرتا کہ پیغمبر اکرم ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں کے درمیان تپتے ہوئے صحراء میں روکیں اور نماز جماعت ادا کریں اور ایک طولانی خطبہ دیں اور اس خطبہ کے دوران بعض ایسے مطالب بیان کریں جو علی علیہ السلام کی رہبری اور خلافت کے لئے مناسب ہوں نہ کہ دوستی اور یاوری کے لئے مثلاًاسی خطبے کا ایک ٹکڑا یہ ہے جس میں آنحضرت نے لوگوں کو متوجہ کرتے ہوئے ان سے سوال کیا”الست اولی بکم من انفسکم “کہ میں تمہاری جانوں پر تم سے زیادہ حق نہیں رکھتا ؟“
تمام لوگوں نے اقرار کیا ہاں کیوں نہیں یا رسول اللہ“۔
یہ تمام باتیں اس بات کو واضح کرتی ہیں کہ یہاں پر مولا سے مراد رہبر وآقا کے ہیں اور اس سے حضرت علی علیہ السلام کی خلافت ثابت ہوتی ہے“۔
اسی وجہ سے خود ابوبکر نے بھی لفظ مولی سے امام علی علیہ السلام کی رہبری اور خلافت جانا ہے اور اسی صحرا کی تپتی ہوئی دھوپ میں امام علی علیہ السلام کے پاس آکر انھیں اس طرح مبارک باد پیش کیا۔
”بخ بخ لک یابن ابی طالب اصبحت مولای ومولا کل موٴمن وموٴمنة“
”مبار ک مبارک ہو ؛اے ابو طالب کے بیٹے !اب تم میرے اور تمام مومن اور مومنہ کے مولا ہوگئے “
یہ مبارک باد دینا بہت ہی مشہور حدیث ہے جسے اہل سنت اور اہل تشیع سبھی نے نقل کیا ہے۔ 4 –
اب تم سے یہ پوچھتا ہوں کہ کیا اگر یہ اعلان صرف دوستی اور یاوری کے لئے ہوتا تو ابو بکر و عمر حضرت علی علیہ السلام کو اسی طرح مبارک باد پیش کرتے ؟اور رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم اپنے خطبے کے بعد اس طرح اعلان کرتے:
”سلّموا علیہ بامرة الموٴمنین“۔
”اے مسلمانو! علی کوامیر المومنین کہہ کر سلام کرو“۔
اس کے علاوہ یہ کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سورہٴ مائدہ کی ۶۷ ویں آیت کے نزول کے بعد یہ عمل انجام دیا اور آیت میں ہم یہ پڑھتے ہیں:
” یَااٴَیُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا اٴُنزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ وَاللهُ یَعْصِمُکَ مِنْ النَّاسِ إِنَّ اللهَ لاَیَہْدِی الْقَوْمَ الْکَافِرِینَ“ 5
”اے رسول وہ چیز پہنچا دو جو تمہارے رب کی طرف سے پہلے ہی تم پر نازل کی جا چکی ہے اور اگر تم نے اسے نہ پہنچایا تو گویا تم نے کار رسالت انجام ہی نہیں دیا“۔
کیا حضرت علی علیہ السلام کی دوستی کا مسئلہ اتنا زیادہ اہم ہو گیا تھا کہ اگر اسے لوگوں کےدرمیان بیان نہ کیا جائے تو آنحضرت کی رسالت کو خطرہ لاحق ہوجائے ؟“
تیونسی عالم: ”تو اس بارے میں تم کیا کہو گے کہ رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کی رحلت کے بعد مسلمانوں نے علی علیہ السلام کی بیعت نہ کرتے ہوئے ابوبکر کی بیعت کر لی، کیا ان کا یہ عمل گناہ تھا ؟کیا انھوں نے رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کی نا فرمانی کی؟“
ڈاکٹر تیجانی: ”جب خود اہل تسنن اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں کہ بعض اصحاب نے رسول اکرم کے زمانہ میں خود آپ کی مخالفت کی تو اس بنا پر یہ کوئی ایسی تعجب کی بات نہیں کہ آپ کے بعد اصحاب نے ان کی مخالفت کی۔ 6
جیسے شیعہ اور سنی دونوں طریقوں سے یہ ثابت ہے کہ جب رسول اکرم صلی الله علیه و آله وسلم نے ایک نواجوان صحابی (اسامہ بن زید)کو سپہ سالار بنایا تو اکثر مسلمانوں نے آنحضرت کی مخالفت کی جب کہ آنحضرت نے انھیں تھوڑی سی مدت کے لئے بہت تھوڑے سے لشکر کا سردار بنایا تھا تو یہی لوگ حضرت علی علیہ السلام کی رہبری کو کس طرح طرح قبول کر لیتے کیونکہ وہ بھی دوسروں کے مقابلہ میں کم عمر تھے (اس وقت آپ کی عمر ۳۳ سال تھی)اور خود یہ لوگ علی علیہ السلام کو ان کی پوری زندگی تک رہبر کیسے قبول کرلیتے اور تم نے خود ہی پہلے یہ اقرار کیا کہ بعض لوگ علی علیہ السلام سے بغض و عناد رکھتے تھے“۔
خود ہی پہلے یہ اقرار کیا کہ بعض لوگ علی علیہ السلام سے بغض و عناد رکھتے تھے“۔
تیونسی عالم: ”اگر علی علیہ السلام جانتے کہ رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم نے مجھے اپنا خلیفہ بنایا ہے تو رسول اکرم کے بعد وہ خاموش نہ بیٹھے رہتے بلکہ اپنی بے انتہا شجاعت کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی حق کا دفاع کرتے“۔
ڈاکٹر تیجانی: ”یہ تو دوسری بحث ہے جس میں ہم ابھی وارد نہیں ہونا چاہتے جب تم واضح حدیث کی تاویل کرتے ہو تو امام علیہ السلام کے خاموش رہنے پر بحث کرنے میں کس طرح قانع ہو سکتے ہو؟“
تیونسی عالم نے تھوڑا مسکرا تے ہوئے کہا: ”خدا کی قسم میں ان لوگوں میں سے ہوںجو علی علیہ السلام کو دوسروں سے افضل جانتے ہیں اور اگر یہ بات میرے بس میں ہوتی تو میں علی علیہ السلام پر کسی کو مقدم نہ کرتا کیونکہ وہ مدینة العلم اور اسد اللہ الغالب ہیں لیکن خدا نے اسی طرح چاہا کہ بعض کو مقدم اور بعض کو موخر رکھے اس کی مشیت کے بارے میں کیا کہیں“۔
میں نے بھی مسکراتے ہوئے اسے جواب دیا: ”قضاو قدر “کی بحث دوسری ہے جس کے متعلق ابھی ہم بحث نہیں کر رہے ہیں“۔
تیونسی عالم: ”میں اپنے عقیدہ پر باقی رہوں گا اور اسے بدل نہیں سکتا“۔
ڈاکٹر تیجانی کہتے ہیں
7 وہ اسی طرح ادھر ادھر بھاگتا رہا یہ خود اس کی بے بسی اور عاجزی کی دلیل تھی۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔
حواله جات
منبع: ۱۰۱ دلچسپ مناظرے؛ استاد محمدی اشتہاردی - مترجم: اقبال حیدر حیدری.
1. یہ اس بات پر ایک ضمنی اقرار ہے کہ حدیث غدیر حضرت علی علیہ السلام کی خلافت پر واضح بیان ہے لیکن ہم مجبور ہیں کہ اس کی وضاحت سے دست بردار ہوجائیں اور اس کی تاویل کریں (غور کریں !)۔
2. اس حدیث کے مختلف مآخذ اور مدارک کے لئے ”الغدیر “کی پہلی جلد سے رجوع کریں۔
3. اس ٹیونسی دانشور سے کہنا چاہئے اگر علی کو دوست رکھتے ہو تو ان کی دوستی کا تقاضہ یہ ہے کہ ان کی باتوں کو قبول کیا جائے اور ان کی باتوں کو قبول کرکے ان کو خوش کیاجائے حالانکہ آپ نے رسول اسلام صلی الله علیه و آله وسلم کے بعد خلافت کا دعویٰ کیا لیکن ان کی بات کو نہیں ماناگیا اور ان کو زبردستی بیعت کے لئے لے جایا گیااور آپ کے اصحاب کوآزار واذیت دی گئی اور جناب سلمان کو مارا پیٹا گیا ۔
4. مسند احمد بن حنبل، ج۴، ص۲۸۱، علامہ امینی نے الغدیر کی جلد اول میں اسے اہل سنت کے ساٹھ علماء سے نقل کیا ہے ۔
5. سورہٴ مائدہ، آیت ۶۷۔
6. صحیح بخاری وصحیح مسلم، صلح حدیبہ کے متعلق بعض صحابہ کی مخالفت، اور عمر کا قول بھی نقل کیا ۔
7. جناب تیجانی سماوی کے کتاب”لا کون مع الصادقین “سے اقتباس ص۵۸ سے ۶۱۔ مولف کی جانب سے خلاصہ اور اضافہ کے ساتھ
Add new comment