اسلام میں عید غدیر کی اہمیت

تاریخ کی ورق گرانی سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس عظیم عید کی ابتداء پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے زمانہ سے ہوئی ہے۔ اس کی شروعات اس وقت ہوئی جب پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے غدیر کے صحرا میں خداوندعالم کی جانب سے حضرت علی علیہ السلام کو

اسلام میں عید غدیر کی اہمیت

جس چیز نے واقعہ غدیر کو جاویدانہ قرار دیا اور اس کی حقیقت کو ثابت کیا ہے وہ اس روز کا ”عید“ قرار پانا ہے۔ روز غدیر، عید شمار ہوتی ہے، اور اس کے شب و روز میں عبادت، خشوع و خضوع، جشن اور غریبوں کے ساتھ نیکی نیز خاندان میں آمد و رفت ہوتی ہے ، اور مومنین اس جشن میں اچھے کپڑے پہنتے اور زینت کرتے ہیں۔

جب مومنین ایسے کاموں کی طرف راغب ہوں تو ان کے اسباب کی طرف متوجہ ہوکر اس کے روایوں کی تحقیق کرتے ہیں اور اس واقعہ کو نقل کرتے ہیں، اشعار پڑھتے ہیں، جس کی وجہ سے ہر سال جوان نسل کی معلومات میں اضافہ ہوتا ہے، اور ہمیشہ اس واقعہ کی سند اور اس سے متعلق احادیث پڑھی جاتی ہیں، جس کے بنا پر وہ ہمیشگی بن جاتی ہیں۔ عید غدیر سے متعلق دو طرح کی بحث کی جاسکتی ہے:

۱۔ شیعوں سے مخصوص نہ ہونا

یہ عید صرف شیعوں سے مخصوص نہیں ہے۔ اگرچہ اس کی نسبت شیعہ خاص اہتمام رکھتے ہیں؛ مسلمانوں کے دیگر فرقے بھی عید غدیر میں شیعوں کے ساتھ شریک ہیں، غیر شیعہ علماء نے بھی اس روز کی فضیلت اور پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی طرف سے حضرت علی علیہ السلام کے مقام ولایت پر فائز ہونے کی وجہ سے عید قرار دینے کے سلسلہ میں گفتگو کی ہے؛ کیونکہ یہ دن حضرت علی علیہ السلام کے چاہنے والوں کے لئے خوشی و مسرت کا دن ہے چاہے آپ کو آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کا بلا فصل خلیفہ مانتے ہوں یا چوتھا خلیفہ۔

بیرونی ”الآثار الباقیة “ میں روز غدیر کو ان دنوں میں شمار کرتے ہیں جس کو مسلمانوں نے عید قرار دیا ہے [1]ابن طلحہ شافعی کہتے ہیں:

”حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے اپنے اشعار میں روز غدیر خم کا ذکر کیا ہے اور اس روز کو عید شمار کیا ہے، کیونکہ اس روز رسول اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے آپ کو اپنا جانشین منصوب کیا اور تمام مخلوقات پر فضیلت دی ہے۔“[ 2]

نیز موصوف کہتے ہیں:”لفظ مولا کا جو معنی بھی رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے لئے ثابت کرنا ممکن ہو وہی حضرت علی علیہ السلام کے لئے بھی معین ہے، اور یہ ایک بلند مرتبہ، عظیم منزلت، بلند درجہ اور رفیع مقام ہے جو پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے حضرت علی علیہ السلام سے مخصوص کیا، لہٰذا اولیائے الٰہی کے نزدیک یہ دن عید اور مسرت کا روز قرار پایا ہے۔“[3]

تاریخی کتب سے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ امت اسلامیہ مشرق و مغرب میں اس دن کے عید ہونے پر متفق ہیں، مصری، مغربی اور عراقی (ایرانی و ہندی) اس روز کی عظمت کے قائل ہیں، اوران کے نزدیک روز غدیر نماز، دعا، خطبہ اور مدح سرائی کا معین دن ہے ،اور اس روز کے عید ہونے پر ان لوگوںکا اتفاق ہے[4]

ابن خلّکان کہتے ہیں:

”پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)حجة الوداع میں مکہ سے واپسی میں جب غدیر خم میں پہنچے، اپنے اور علی کے درمیان ”عقد اخوت“ پڑہا، اور ان کو اپنے لئے موسیٰ کے نزدیک ہارون کی طرح قرار دیا اور فرمایا: ”خدا یا! جو ان کی ولایت کو قبول کرے اس کو دوست رکھ اور جو ان کی ولایت کے تحت نہ آئے اور ان سے دشمنی کرے اس کو دشمن رکھ، اور ان کے ناصروں کا مددگار ہوجا، اور ان کو ذلیل کرنے والوں کو رسوا کردے“۔ اور شیعہ اس روز کو خاص اہمیت دیتے ہیں [5]مسعودی نے ابن خلّکان کی گفتگو کی تائید کی ہے، چنانچہ موصوف کہتے ہیں:اولاد علی علیہ السلام اور ان کے شیعہ اس روز کی یاد مناتے ہیں[6]

ثعالبی، شب غدیر کو امت اسلامیہ کے نزدیک مشہور شبوں میں شمار کرتے ہوئے کہتے ہیں:

”یہ وہ شب ہے جس کی کل میں پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے غدیر خم میں اونٹوں کے کجاؤں کے منبر پر ایک خطبہ دیا اور فرمایا: ”من کنت مولاہ فعلیّ مولاہ“، اور شیعوں نے اس شب کو محترم شمار کیا ہے اور وہ اس رات میں عبادت اور شب بیداری کرتے ہیں۔“[7]

۲۔ عید غدیر کی ابتدا

تاریخ کی ورق گرانی سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس عظیم عید کی ابتداء پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے زمانہ سے ہوئی ہے۔ اس کی شروعات اس وقت ہوئی جب پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے غدیر کے صحرا میں خداوندعالم کی جانب سے حضرت علی علیہ السلام کو امامت و ولایت کے لئے منصوب کیا۔ جس کی بنا پر اس روز ہر مومن شاد و مسرور ہوگیا، اور حضرت علی علیہ السلام کے پاس آکر مبارکباد پیش کی۔ مبارک باد پیش کرنے والوں میں عمر و ابوبکر بھی ہیں جن کی طرف پہلے اشارہ ہوچکا ہے، اور اس واقعہ کو اہم قرار دیتے ہوئے اور اس مبارکباد کی وجہ سے حسان بن ثابت اور قیس بن سعد بن عبادہٴ انصاری وغیرہ نے اس واقعہ کو اپنے اشعار میں بیان کیا ہے۔

غدیر کے پیغامات

اس زمانہ میں بعض افراد ”غدیر کے پیغامات“ کو اسلامی معاشرہ میں نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ لہٰذا مناسب ہے کہ اس موضوع کی اچھی طرح تحقیق کی جائے کہ ”غدیر خم “کے پیغامات کیا کیا ہیں ؟ کیا اس کے پیغامات رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی حیات مبارک اور آپ کی وفات کے بعد کے زمانہ سے مخصوص ہیں یا روز قیامت تک ان پر عمل کیا جاسکتا ہے؟ اب ہم یہاں پر غدیر کے پیغام اور نکات کی طرف اشارہ کرتے ہیں جن کی یاددہانی جشن اور محفل کے موقع پر کرانا ضروری ہے

1۔ ہر پیغمبر کے بعد ایک ایسی معصوم شخصیت کا ہونا ضروری ہے جو ان کے راستہ کو آگے بڑھائے اور ان کے اغراض و مقاصد کو لوگوں تک پہنچائے، اور کم سے کم دین و شریعت کے ارکان اور مجموعہ کی پاسداری کرے، جیسا کہ رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے اپنے بعد کے لئے ان چیزوں کے لئے جانشین معنی کیا اور ہمارے زمانہ میں ایسی شخصیت حضرت امام مہدی علیہ السلام ہیں۔

۲۔ انبیاء علیہم السلام کا جانشین خداوندعالم کی طرف سے منصوب ہونا چاہئے جن کا تعارف پیغمبر کے ذریعہ ہوتا ہے، جیسا کہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے اپنے بعد کے لئے اپنا جانشین معین کیا؛ کیونکہ مقام امامت ایک الٰہی منصب ہے اور ہر امام خداوندعالم کی طرف سے خاص یا عام طریقہ سے منصوب ہوتا ہے۔

۳۔ غدیر کے پیغامات میں سے ایک مسئلہ رہبری اور اس کے صفات و خصوصیات کا مسئلہ ہے، ہر کس و ناکس اسلامی معاشرہ میں پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کا جانشین نہیں ہوسکتا، رہبر حضرت علی علیہ السلام کی طرح ہو جو پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے راستہ پر ہو، اور آپ کے احکام و فرمان کو نافذ کرے، لیکن اگر کوئی ایسا نہ ہو تو اس کی بیعت نہیں کرنا چاہئے۔ لہٰذا غدیر کا مسئلہ، اسلام کے سیاسی مسائل کے ساتھ متحد ہے۔

چنانچہ ہم ”یمن“ میں ملاحظہ کرتے ہیں کہ چوتھی صدی کے وسط سے جشن غدیر کا مسئلہ پیش آیا اور ہر سال عظیم الشان طریقہ پر یہ جشن منعقد ہوتا رہا، اور مومنین ہر سال اس واقعہ کی یاد تازہ کرتے رہے اور نبوی معاشرہ میں رہبری کے شرائط سے آشنا ہوتے رہے، اگرچہ چند سال سے میں حکومت وقت اس جشن کے اہم فوائد اور پیغامات کی بنا پر اس میں آڑے آنے لگی، یہاں تک کہ ہر سال اس جشن کو منعقد کرنے کے اصرار کی وجہ سے چند لوگ قتل ہوجاتے ہیں، لیکن پھر بھی مومنین اسلامی معاشرہ میں اس جشن کی برکتوں اور فوائد کی وجہ سے اس کو منعقد کرنے پر مصمم ہیں۔

۴۔ غدیر کا ایک ہمیشگی پیغام یہ ہے کہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے بعد اسلامی معاشرہ کا رہبر اور نمونہ حضرت علی علیہ السلام یا ان جیسے ائمہ معصومین میں سے ہو۔ یہ حضرات ہم پر ولایت اور حاکمیت رکھتے ہیں، لہٰذا ہمیں ان حضرات کی ولایت کو قبول کرتے ہوئے ان کی برکات سے فیضیاب ہونا چاہئے۔

۵۔ غدیر اور جشن غدیر ، شیعیت کی نشانی ہے، اور در حقیقت غدیر کا واقعہ اس پیغام کا اعلان کرتا ہے کہ حق (کہ حضرت علی علیہ السلام اور آپ کی اولاد کی محوریت میں ہے) کے ساتھ عہد و پیمان کریں تاکہ کامیابی حاصل ہوجائے۔

۶۔ واقعہ غدیر سے ایک پیغام یہ بھی ملتا ہے کہ انسان کو حق و حقیقت کے پہنچانے کے لئے ہمیشہ کوشش کرنا چاہئے اور حق بیان کرنے میں کوتاہی سے کام نہیں لینا چاہئے؛ کیونکہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)اگرچہ یہ جانتے تھے کہ ان کی وفات کے بعد ان کے وصیت پر عمل نہیں کیا جائے گا، لیکن لوگوں پر حجت تمام کردی، اور کسی بھی موقع پر مخصوصاً حجة الوداع اور غدیر خم میں حق بیان کرنے میں کوتاہی نہیں کی۔

۷۔ روز قیامت تک باقی رہنے والا غدیر کا ایک پیغام اہل بیت علیہم السلام کی دینی مرجعیت ہے، اسی وجہ سے پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے انہیں دنوں میں حدیث ”ثقلین“ کو بیان کیا اور مسلمانوں کو اپنے معصوم اہل بیت سے شریعت اور دینی احکام حاصل کرنے کی رہنمائی فرمائی۔

۸۔ غدیر کا ایک پیغام یہ ہے کہ بعض مواقع پر مصلحت کی خاطر اور اہم مصلحت کی وجہ سے مہم مصلحت کو نظر انداز اور اس کو اہم مصلحت پر قربان کیا جاسکتا ہے۔ حضرت علی علیہ السلام حالانکہ خداوندعالم کی طرف سے اور رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے ذریعہ اسلامی معاشرہ کی رہبری اور مقام خلافت پر منصوب ہوچکے تھے، لیکن جب آپ نے دیکھا کہ اگر میں اپنا حق لینے کے لئے اٹھتا ہوں تو قتل و غارت اور جنگ کا بازار گرم ہوجائے گا اور یہ اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت میں نہیں ہے تو آپ نے صرف وعظ و نصیحت، اتمام حجت اور اپنی مظلومیت کے اظہار کو کافی سمجھا تاکہ اسلام محفوظ رہے؛ کیونکہ حضرت علی علیہ السلام اگر اس کے علاوہ کرتے جو آپ نے کیا تو پھر اسلام اور مسلمانوں کے لئے ایک دردناک حادثہ پیش آتا جس کی تلافی ممکن نہیں تھی، لہٰذا یہ روز قیامت تک امت اسلامیہ کے لئے ایک عظیم سبق ہے کہ کبھی کبھی اہم مصلحت کے لئے مہم مصلحت کو چھوڑا جاسکتا ہے۔

۹۔ اکمال دین، اتمام نعمت اور حق و حقیقت کے بیان اور لوگوں پر اتمام حجت کرنے سے خداوندعالم کی رضایت حاصل ہوتی ہے، جیسا کہ آیہٴ شریفہ ”اکمال“ میں اشارہ ہوچکا ہے۔

۱۰۔ تبلیغ اور حق کے بیان کے لئے عام اعلان کیا جائے، اور چھپ کر کام نہ کیا جائے، جیسا کہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے حجة الوداع میں ولایت کا اعلان کیا اور لوگوں کے متفرق ہونے سے پہلے ملاٴ عام میں ولایت کو پہنچا دیا۔

۱۱۔ خلافت، جانشینی اور امت اسلامیہ کی صحیح رہبری کا مسئلہ تمام مسائل میں سر فہرست ہے اور کبھی بھی اس کو ترک نہیں کرنا چاہئے، جیسا کہ رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے تمام مشکلات کے باوجود سفر کا آغاز کیا اور اس سفر میں اپنے بعد کے لئے جانشینی اور ولایت کے مسئلہ کو لوگوں کے سامنے بیان کیا۔

۱۲۔ اسلامی معاشرہ میں صحیح رہبری کا مسئلہ روح اسلامی اور شریعت کی جان کی طرح ہے کہ اگر اس مسئلہ کو بیان نہ کیا جائے تو پھر اسلامی معاشرہ کے ستون درہم و برہم ہوجائیں گے، لہٰذا خداوندعالم نے اپنے رسول سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

<۔۔۔وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ۔۔۔>[8]

”اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا۔“

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حواله جات

[1] الآثار الباقیة فی القرون الخالیة، ص۳۳۴۔
[2] مطالب السوٴول، ص۵۳۔
[3] مطالب السوٴول، ص۵۶۔
[4] وفیات الاعیان، ابن خلکان، ج۱، ص۶۰ و ج۲، ص۲۲۳۔
[5] وفیات الاعیان، ابن خلکان، ج۱، ص۶۰ و ج۲، ص۲۲۳۔
[6] التنبیہ و الإشراف، مسعودی، ص۲۲۱۔
[7] ثمار القلوب، ثعالبی، ص۵۱۱۔
[8] سورہ مائدہ، آیت ۶۷۔

Add new comment