سامرہ
سامرہ میں شیعوں کے دو امام امام ہادی علیہ السلام اور امام عسکری علیہ السلام کی زیارت موجود ہے جس کی وجہ سے یہ شہر جہان تشیع کی توجہ کا مرکز بنا ہے۔شہر سامرا دریائے دجلہ کے مشرق اور بغداد کے شمال میں واقع ہے۔ یہ شہر صلاح الدین صوبے کا دار الخلافہ ہے اور بغداد سے ۱۲۴ کیلومٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ سامرا مشرق میں کرکوک، شمال میں نینوا مغرب میں الانبار اور جنوب میں بغداد سے جا ملتی ہے۔ حال حاضر میں یہان کی آبادی ۱۲۶/۵۳۱بتائی جاتی ہے۔
سامرا عراق کے زیارتی شہروں نجف، کربلا اور کاظمین کی طرح ایک زیارتی شہر ہے جس میں اہل تشیع کے دو امام، امام علی النقی(علیہ السلام) اور امام حسن عسکری(علیہ السلام) کے ضریح مطہر واقع ہیں۔ یہ شہر صوبہ صلاح الدین کے مرکز میں تکریت اور بغداد کے درمیان واقع ہے۔ سامراسنہ ۲۲۱ ہجری قمری میں معتصم عباسی کے دور خلافت میں مرکز خلافت تھا۔ یہ شہر شیعوں کے دو امام امام علی النقی(علیہ السلام) اور امام حسن عسکری(علیہ السلام) کے حرم مطہر کی موجودگی کی وجہ سے "عسکریین" کے نام سے بھی مشہور ہے۔ شیعہ تاریخی منابع کے مطابق امام زمانہ(عج) کا محل ولادت بھی اسی شہر میں ہے۔
تاریخی شواہد کے مطابق یہ شہر ساسانیوں کے دور میں ایران کے زیر کنٹرول تھا اور وہاں کے لوگ ایرانی پادشاہوں کو مالیات ادا کرتے تھے۔ مورخین اس شہر کے نامگزاری کی ایک علت کو "ساءمرہ" (محل حساب) قرار دیتے ہیں۔
سنہ 221 ہجری قمری میں عباسی خلیفہ ہارون رشید کے فرزند معتصم عباسی نے دارلخلافہ کو بغداد سے سامرا منتقل کیا یوں یہ شہر سنہ276 ہجری قمری تک عراق میں عباسی حکومت کا دارالخلافہ رہا۔ درالخلافہ کی اس منتقلی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ معتصم کے دور میں عباسی حکومت کے اکثر سپاہی ترکوں کی تھی اور بغداد ان تمام سپاہیوں کیلئے مناسب نہیں تھا، دوسری طرف سے لوگوں کیلئے بھی سپاہیوں کی کثیر تعداد کی وجہ سے مزاحمت ایجاد ہو رہی تھی یوں اس نے فیصلہ کیا کہ ایک مناسب جگہ تلاش کی جائے اور اس حوالے سے "سامرا" کو موضون اور مناسب پایا اسلئے دارالخلافہ کو بغداد سے "سامرا" منتقل کیا۔ سامرا نے "معتصم" عباسی کے دور میں بہت زیادہ ترقی کی اور ہر حوالے سے یہ شہر ایک آباد شہر کہلانے کے قابل ہو گیا تھا جگہ جگہ قلعہ جات تعمیر ہوئی، تفریح گاہیں بنائی گئی، بازار، مساجد اور مختلف قسم کے بڑی بڑی عمارتیں تعمیر کی گئیں۔ سامرا کی یہ عظمت اور شان و شوکت معتمد عباسی (دوران حکومت سنہ 256 ہجری قمری سے سنہ 279 ہجری قمری) تک جاری رہی یہاں تک کہ اس نے دارالخلافہ کو دوبارہ بغداد منتقل کر دیا۔۱۵
نصف صدی کے عرصے میں تقریبا 8 عباسی خلفاء نے سامرا پر حکومت کی جو درج ذیل ہیں:
معتصم عباسی (سال ۲۱۸ ہجری قمری - سال ۲۲۷ ہجری قمری)
واثق عباسی (سال ۲۲۷ ہجری قمری- سال ۲۳۲ ہجری قمری)
متوکل عباسی (سال ۲۳۲ ہجری قمری- سال ۲۴۷ ہجری قمری)
منتصرعباسی (سال ۲۴۷ ہجری قمری- سال ۲۴۸ ہجری قمری)
مستعین عباسی (سال ۲۴۸ ہجری قمری- سال ۲۵۲ ہجری قمری)
معتز عباسی (سال ۲۵۲ ہجری قمری- سال ۲۵۵ ہجری قمری)
مہتدی عباسی (سال ۲۵۵ ہجری قمری- سال ۲۵۶ ہجری قمری)
معتمد عباسی (سال ۲۵۶ ہجری قمری- سال ۲۷۹ ہجری قمری)
متوکلیہ" سامرا کا قدیمی شہر جو متوکل عباسی کے ہاتھوں تعمیر ہوئی تھی آجکل اس کے کھنڈرات سامرا کے شمال میں موجود ہے۔اسی طرح متوکل عباسی کے ہاتھوں تعمیر کی ہوئی میناره ملویہ جو مسجد جامع سامرا کے شمالی گوشے میں ایک مینار ہے جو کئی صدیوں کے بعد ابھی تک موجود ہے اور ہر دیکھنے والے کی آنکھوں کو دور سے اپنی جانب جلب کرتی ہے۔متوکل عباسی نے سامرا کی عظمت اور شان و شوکت اور اسے آباد کرنے لئے بہت زیادہ کوششیں کی ۔۱۶
سامرا سے دارالخلافہ کی بغداد منتقلی سے لے کر اب تک سامرہ کے بارے میں کوئی خاص تاریخ موجود نہیں اور یہ شہر صرف عسکریین کی موجودگی کی وجہ سے آباد رہا، لیکن عصر قاجار کے سیاحان کے مطابق یہ شہر اس وقت تین دروازوں پر مشتمل تھا، ایک دروازہ بغداد، دوسرا شریعہ اور تیسرا دروازہ قاعد کی طرف تھا۔
ادیب الملک جس نے قاجار کے دور میں اس شہر کو دیکھا تھا کہتا ہے:
سامرا کی ہوا بہشت کی ہوا ہے اور اس کی خاک عنبر کی ہے، اس کے اکثر پتھر سلیمانی ہیں اور جیسے سبز اور مرجان ہو، کیونکہ کہ اس کی اچھی ہوا اس پاک دشت کو با صفا بناتی ہے۔
ہند کے بادشاہ محمد شاہ ہندی، نے اس شہر میں بہت مضبوط قلعہ تعمیر کروایا تھا، جس کی دیواریں بہت بلند اور مستحکم تھی اور اس کے کنارے سخت اینٹوں سے برج تعمیر کروائے تھے، البتہ چند ایک قلعے اس وقت بھی موجود ہیں۲۰
حوالہ جات
1. صحتی سردرودی، سیمای سامراء، سینای سه موسی، 47 ؛ بغداد سے سامرا تک کا فاصلہ ۱۲۴ کیلومیٹر ہے
2. حمدالله مستوفی، نزهة القلوب، سامراء ؛ جعفر الخلیلی، موسوعة العتبات المقدسه، قسم السامراء، ج 9/19.
3. یاقوت حموی، معجم البلدان، 3/172.
4. موسوی زنجانی، جوله فی اماكن المقدسه، 124 ؛ جعفر الخلیلی، همان، 9/15.
5. یاقوت حموی، همان جا.
6. مصلح الدین مهدوی، تاریخچه شهر سامراء و زندگانی عسكریین، 5 ـ 6.
7. همان جا.
8. یاقوت حموی، همان، 3/174.
9. ابن اثیر، عزالدین ابن الكرم، الكامل فی التاریخ، 6/446 ـ 452.
10. مسعودی، علی بن الحسین، مروج الذهب و معادن الجوهر، 2/467.
11. یاقوت حموی، همان، 3/174 ؛ ابن طقطقی، تاریخ فخری، ترجمه وحید گلپایگانی 321.
12. مقدسی، احسن التقاسیم فی معرفة الاقالیم، 63.
13. یہ قصر کئی صدیوں تک اپنے حال پر باقی رہی (جعفر الخلیلی، موسوعة العتبات المقدسه) 9/184 ؛ HenryStierlin , Islam taschen , 1996 , B V. I ,P,127
14. لسترنج، جغرافیای تاریخی سرزمینهای خلافت شرقی، ترجمه محمود عرفان، 59.
15. یاقوت حموی، همان، 3/175 ـ 176 یہ قصر جوسق کے نام سے معروف ہے.
16. غلامحسین مصاحب، دایرة المعارف فارسی، 1/1246.
17. ادیب الملك، سفرنامه ادیب الملك به عتبات، 103.
18. پیشین، 105.
19. پیشین، 103.
20. ناصرالدین شاه، سفرنامه ناصرالدین شاه به عتبات، 156.
منبع: عتبات عالیات عراق؛ دكتر اصغر قائدانوجه تسمیه سامرا
تاریخی کتابوں میں مختلف طریقوں سے لکھا گیا ہے جیسے:
1.سامرّاء
2. سامراه
3. سامره
4. سراء
5. سُرَّ من رأی
6.سرور من رأی
7. ساء من رأی.۱
یاقوت حموی نے نقل کیا ہے کہ اس شہر کو "سام بن نوح" نے تعمیر کیا تھا اس بنا پر اس کا نام "سام راہ" یعنی سام فرزند نوح کے عبور و مرور کی جگہ۔[1]
ابن بطوطہ اس نام کو "سام را" سے ماخوذ جانتے ہیں جس کی معنی وہ شہر جسے "سام" کیلئے بنایا گیا ہو، ہے۔[2] ایک اور قول کے مطابق اس کا نام "شام راہ"؛ یعنی عراق کا شام جانے کا راستہ اس جگہ سے تھا اسلئے یہ نام رکھا گیا تھا۔ بعض لوگ اسے قدیم رومی لفظ "سومرا" سے مشتق جانتے ہیں۔[3] تاریخی شواہد کے مطابق یہ شہر ساسانیوں کے دور میں ایران کے زیر کنٹرول تھا اور وہاں کے لوگ ایرانی پادشاہوں کو مالیات ادا کرتے تھے۔ مورخین اس شہر کے نامگزاری کی ایک علت کو "ساءمرہ" (محل حساب) قرار دیتے ہیں۔[4]
بعض مورخین اس بات کے قائل ہیں کہ اسلام سے پہلے ساسانیوں کے دور میں "شاپور" "ذوالاکتاف" نے اس شہر کی بنیاد رکھی۔
حوالہ جات
۱. یاقوت حموی ، 3/173 .
۲. ابن بطوطه ، الرحله ، 1/147 .
۳. Soumara
۴. جعفر الخلیلی ، همان ، 9/8 .
۵. جعفر الخلیلی ، همان ، 9/8 .
حوالہ
عتبات عالیات عراق؛ دكتر اصغر قائدان
Add new comment