حرم عسکریین کی تاریخ

امام ھادی (علیہ السلام) نے یہ گھر کسی عیسایی کے بیٹے سے خریدا تھا جو کہ بہت بڑا اور وسیع تھا، اور آج کا موجودہ صحن بھی

حرم عسکریین کے بقعہ کی تاریخ:

حرم عسکریین (امام ھادی (علیہ السلام) اور امام حسن عسکری (علیہ السلام) )  کا بقعہ مبارک نے سامراء کے تاریخی شہر کو تاریخ میں ایک مذہبی شہر کی حیثیت بخشی ہے۔ اس حرم کی وسعت اور کشادگی میں اسلام کے مختلف خلفا اور حکمرانوں کے علاوہ دینی اور سیاسی حضرات کی ان تھک کوششوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔

امام ھادی (علیہ السلام) علی بن محمد بن علی بن موسی الرضا، ۲۱۴ ہجری میں رجب کی دوسری تاریخ کو شہر ابواء (جو کہ مدینہ کے قریب واقع ہے) میں پیدا ہوئے۔ اور متوکل عباسی کے دور میں امام کو مجبور کیا گیا اور سال ۲۴۳ ہجری میں انہیں مجبور کرکے سامراء کی بھیجا گیا۔ کیونکہ متوکل اس سے ڈر گیا تھا کہ امام کو مدینہ میں خوب پیرو اور انصار مل رہے ہیں جو ان کی امامت پہ ایمان رکھتے ہیں۔ امام ھادی (علیہ السلام) سامراء جاتے ہوئے بغداد چلے گئے اور وہاں بھی ان کا گرمی سے استقبال کیا گیا۔ پھر اپنے سفر کو ادامہ دیا اور سامراء چلے گئے۔ امام ھادی (علیہ السلام) پوری زندگی متوکل اور اس کے بعد مستعین عباسی اور معتز عباسی کے دور میں نظر بند رہے۔ امام نے سامراء میں بیس سال اور نو مہینے گزارے اور آخرکار بدھ کے دن ۲۶ جمادی الثانی ۲۵۴ ہجری کو، اپنے مکان میں شھید ہوگئے (ان کا مکانہ "شارع ابو احمد" کے علاقہ میں واقع تھا) ان کے جنازے کی تشییع بہت اچھے انداز میں ہوئی جس میں ان کے شیعہ پیروکاروں نے گریہ و بکا کے ساتھ شرکت کی اور پھر انہیں اپنے گھر پہنچا کر وہیں پہ دفن کیا۔ امام ھادی (علیہ السلام) نے یہ گھر کسی عیسایی کے بیٹے سے خریدا تھا جو کہ بہت بڑا اور وسیع تھا، اور آج کا موجودہ صحن بھی شاید تب اسی گھر کا ہی حصہ تھا۔

تاریخ اور روایات کے تناظر سے، امام ھادی (علیہ السلام) کو ان کے گھر کے آنگن میں دفنایا گیا، اور ایک عرصہ کے بعد ان کے فرزند امام حسن عسکری (علیہ السلام) کو ان کی قبر کے پاس میں دفنایا۔  یہ گھر فوج کے گھیرے میں تھا اس لیے ان کے چاہنے والے اور زائر حضرات ان دو مظلوم اماموں کی قبر کی زیارت ایک کھڑکی سے کرتے تھے جو کہ روڈ کی طرف تھی اور اس مسجد میں زیارت کی نماز پڑھتے تھے جو أج رواق حرم ہے۔

اس جگہ کی حفاظت اور نظام شیعوں کے ہاتھ میں تھا، امام حسن علیہ السلام کا ایک غلام تھا کہ جو یہاں اس گھر میں رہتا تھا اور اس گھر کی کوئی بھی جگہ خراب ہوجاتی وہ اس کی مرمت کرلیتا تھا، یہ سلسلہ تقریبا ۳۲۸ ق ھ یعنی، جب غیبت صغری کے اختتام تک جاری رہا، ۵ یہ شاید پہلی عمارت تھی کہ جو ان  بزرگوار کے قبر پر بنی تھی، لیکن مرقد سیف الدولہ کے بھائی ناصر الدولہ ہمدانی شیعی  نے ان دو بزرگواروں کے لئے تعمیر کروائی، اس نے سن ۳۳۳ ق ھ میں سامرا کے اطراف ایک دیوار بنوائی، حرم پر ایک گنبد تعمیر کروائی، اور قبر کو قیمتی غلاف سے آراستہ کیا اور حرم کے اطراف میں زائرین کے لئے گھر بنوائے۔

دوسرے بادشاہوں میں آل بویہ تھا جس نے اس راستے میں قدم اٹھائے ہیں اور معزالدولہ کا نام بھی لیا جاتا ہے، اس نے ۳۳۷ ھ ق میں گنبد اور صحن کی تعمیر کروائی اور اس میں حوض اور سرداب کے ساتھ قبر مبارک پر لکڑیوں کی ضریح لگوائی، ۷ یہ تیسری عمار تھی کہ جو یہاں پر بنی۔

عضدالدولہ دیلمی، نے شیعہ  ائمہ کی حرم  کے توسیع کے لئے بہت سے اقدامات کئے ہیں اور بلخصوص امام حسین علیہ السلام اور امام علی علیہ السلام کی حرم کے حوالے سے کہ جن کو ہم گذشتہ فصلوں میں بیان کرچکے ہیں، اس نے عسکریین کو آراستہ کرنےاور تعمیر کے لئے بھی کوششیں کی ہیں، ۳۶۸ ھ ق میں حرم کو ساج سے اور ضریح کو دیبا کے کپڑے سے ڈھانپ دیا تھا، رواق ، صحن   اور صحن کے گرد دیوار تعمیر کروائی، ان کے دوسرے کاموں میں گنبد اور مرقد کے لئے ضریح کا بنانا شامل ہے، ۸ انہوں نے یہ سارےتعمیراتی  کام جدید اور ماڈرن طریقوں سے انجام دی تھی۔

یہ سارے کام تقریبا پانچ سالوں میں مکمل ہوئے تھے جس کی اصلی عمارت ابھی بھی موجود ہے۔

دوسرے وہ لوگ جنہوں نے مقبرے کی تعمیراتی کاموں میں خدمات انجام دی ہیں ان میں ارسلان بساسیری کا نام لیا جاسکتا ہے، اس نے بغداد کو فتح کرنے کے بعد سن ۴۴۵ ق ھ میں حرم کے تعمیراتی کام انجام دیئے، اس نے حرم میں اینٹیں لگوائی اور لکڑی کے دو ضریح قبروں پر نصب کروائی اور ان کے اطراف پر سونے کا کام کروایا، یہ کام تقریبا ۶۴۰ ھ ق تک باقی رہا، لیکن وہ دونوں ضریح جس کو بساسری نے بنوایا تھا آگ میں جل گئی اور اسی سال دو اور ضریح ابن طاووس کے توسط سے وہاں پر لگوائی گئی۔۱۰

سلطان برکیارق بن ملک شاہ، سلجوقی بادشاہوں میں سے تھا، جس نے حرم میں تعمیراتی کام انجام دئیے تھے اس کا وزیر شیعہ تھا، مجد الملک قمی براوستانی، ۴۹۵ ھ ق میں اس کام کو شروع کروایا، اس نے حرم مطہر کی فرش  میں قالینیں بھچوائی اور رواق تعمیر کروایا، اور صحن میں کمرے تعمیر کروائے، مہنگے لکڑیوں سے دروازے بنوائے اور حرم کے گرد دیوار تعمیر کروائی، یہ کام عباسی خلیفہ مقتدی باللہ عباسی کے دور میں  انجام دیا گیا تھا۔

سن ۶۰۶ ق ھ میں عسکرین کے حرم میں آگ لگی اورحرم کے  بعض  حصوں کو نقصان پہنچا، خلیفہ ناصر لدین اللہ عباسی خلفا میں وہ اکیلا خلیفہ ہے جو شیعہ کے اماموں عسکرین سے عقیدت اور محبت رکھتا تھا، وہ ۶۰۶ ق ھ میں آگ لگنے کے بعد سامرا میں تعمیراتی کام کو انجام دیا، جس میں سرداب غیبت پر قیمتی دروازہ نصب کیاجو اب تک موجود ہے، ۱۲ ، اس نے اس دروازے کے بعد منع کروایا کہ کوئی بھی سرداب سے تبرک کے لئے اپنے ساتھ مٹی نہیں لے جاسکتا، اور اسی طرح شیعوں کے بارے اماموں کے نامو ں  کو حوض کے اطراف پر لکھوایا۔

سن ۶۴۰ ھ ق میں حرم میں دوبارہ آگ لگی، اس دفعہ آگ حرم کی ایک بڑی شمع سے کہ جو حرم کو روشن رکھنے کے لئے جلائی جاتی تھی سے لگی، اس واقعہ میں وہ ضریح جو ارسلان بساسیری نے بنوائی تھی جل گئی، اس کے بعد المستنصر باللہ، آخری عباسی خلیفہ نے دوبارہ عسکریین کی تعمیر کروائی، اور خصوصا ضریح پر بہت توجہ دی گئی، یہ کام احمد بن طاووس بزرگ شیعہ عالم اور شیعہ محدث کے تحت نظر انجام پایا، خلیفہ نے سامرا میں بہت سے مدرسے اور مساجد تعمیر کروائیں ، اور ساتویں صدی میں شیعہ حوزہ کو رونق بخشی، یہ سب کام اس کے شیعہ وزیر مزید الدین بن علقمی کی ہمت سے انجام پائی ۔

ایلخانان مغول کے دور میں، شیخ حسن ایلکانی، جو جلایریان شیعہ سلسلے کا بانی تھا، نے سن ۷۴۰ ق ھ  میں عسکریین کی حرم میں بڑے پیمانے پر  توسیع اور تعمیراتی کام کروائے، اس نے گنبد اور منارے بنوائے اور ضریح کی سجاوٹ کے ساتھ صحنوں کی دوبارہ تعمیرکروائی۔۱۶

شاہ اسماعیل نے صحنوں میں ابریشم کے قالین بچھوائے، اور سونے اور چاندی کے قندیل حرم کو وقف کر دئیے، اور اس کے بعد تعمیراتی کام انجام دئیے، حرم کے خادمین کے لئے تنخواہیں مقرر کی، ۱۷ ، بادشاہ سلطان حسین نے ۱۱۰۶ ق ھ میں حرم مطہر کی دوبارہ تعمیر کروائی، اور چہارمرقد وں کے لئے صدوق بھجوائے، دو  اماموں اور ایک نرجس خاتون اور ایک حکیمہ خاتون کی مرقد کےلئے، اور فولاد سے بنی خوبصورت ضریح بھی سامرا بھجوائی اور حرم کے فرشوں میں پتھر لگوائے۔

نادر شاہ نے ۱۱۵۶ق ھ میں ایک مرتبہ پر حرم کے تعمیراتی کام انجام دئیے اور اس کی بیگم اور سلطان حسین صفوی کی بیٹی رضیہ ، نے گنبد اور صحن کی کاشی کاری اور تعمیراتی کام انجام دیا۔

تیرویں صدی میں احمد خان دنبلی ، جو آذربایجان کا حاکم تھا، نے مستوفی الممالک کو عسکریین کی تعمیر کے لئے مامور کروایا، اس بار حرم میں مکمل اور اساسی تعمیراتی کام انجام دیا گیا اور ۲۰ حرم کے ایک دروازے کو بھی تبدیل کروایا گیا، تعمیراتی کاموں کو انجام دینے والوں میں ایک میرزا محمد رفیع بھی شامل تھے، ۲۱ لیکن یہ تعمیراتی کام احمد خان دنبلی کی قتل سے نامکمل رہ گئے، اور اس کے بیٹے حسین علی خان دنبلی نے ۲۵ سال بعد اس کی طرف توجہ کی، اس نے گنبد پر کاشی کاری کی تعمیر کروائی، زائرین کے لئے سرائے ، حمام  اور مسجد تعمیر کروائی، علامہ میرزا محمد سلماسی اور ان کے بیٹے شیخ زین العابدین نے ان تعمیراتی کاموں پر نظارت کی۔۲۲حسین علی خان نے نرجس خاتون اور حکیمہ خاتون کے مرقد پر بھی ضریح نصب کروائی۔

قاجار کے دور میں بھی حرمین کی تعمیراتی کام جاری رہا، امیر کبیر کی وصیت کے مطابق شیخ عبدالحسین تہرانی جو شیخ العراقین کے نام سے معروف ہوئے، نے تعمیراتی کام مکمل کروائےاور امیر کبیر کے مال کا تیسرا حصہ حرم کے لئے استعمال کیا جس میں انہوں نے گنبد پر سونے کا کام، صحن اور ایوان کی تعمیر، دیواروں میں سبز سنگ مرمر کو نصب کروایا، صحن کی دیواروں اور دوسری جگہوں کی کاشی کاری ۲۴۔ یہ کام ۱۲۸۵ ق ھ میں مکمل ہوئے، میرزای شیرازی کے دور میں سامرا میں حوزہ علمیہ کو رونق ملی، ۲۵ اور حرم میں سجاوٹی اور تعمیراتی کام انجام دئیے گئے۔

حرم کے دروازوں کو اور صحنوں کو قیمتی اور نفیس پردوں سے سجایا گیا، اسی طرح دینی علوم حاصل کرنے والے طالبعلموں کے لئے کمروں کی تعمیر اور دوسرے تعمیراتی کام انجام دئیے۔۲۶ یہ تعمیراتی کام آیت اللہ محمد تقی شیرازی کے دور تک پہنچے اور اسی دور میں مکمل ہوئے۔

۱۳۵۵ ق ھ میں حرم مطہر میں چوری ہوئی اور چور سونے اور چاندی کے قندیل اپنے ساتھ لے گئے اور ساتھ میں گنبد سے سے بھی سونا لے گئے، اس واقعے کے بعد ایک ایرانی مخیر نے جن کا نام حاج علی اصفہانی تھا، نے اس نقصان کو برداشت کیا، اور قبر مبارک پر چاندی کی ضریح لگوائی، حرم کے دونوں مناروں کو سونے سے ڈھانپا اور صحن کے ارگرد کے گھروں کو خرید کر اس کی توسیع کروائی، ۷۲، اس کام کا زیادہ تر خرچہ اس نے خود برداشت کیا، آخری دہائی میں حرم مطہر میں بہت سے تعمیراتی اور توسیعی کام انجام دئیے گئے۔

صندوق اور ضریح

جیسا کہ ہم پہلے بھی اشارہ کرچکے ہیں کہ ساگون (ساج)لکڑی کے بنے ہوئے صندوق  کو دونوں اماموں کے قبروں پر نصب کیا گیا، جو کہ سن ۶۴۰ ق ھ میں آگ لگنے سے جل گئے تھے اور اس کے بعد ان قبور کو کاشی کاری  اور گچ سے تعمیر کروایا گیا، چودہویں صدی کے آخر میں بہت خوبصورت اور جس پر خوبصورت کام بھی ہوا تھا قبور پر نصب کئے گئے، ۲۸۔ ان پر کام استاد محمد صنیع خاتم نےکروایا تھا جو اصفہان کے مشہور ہنر مندوں میں سے تھے۔

چودہویں صدی  میں معزالدولہ دیلمی نے لکڑی سے بنی ایک ضریح ان صدوقوں پر رکھوائی جو بعد میں مرمت ہوتی رہی، کچھ عرصہ بعد صفوی دور میں یہ ضریح کہ جو لکڑی سے بنائی گئی تھی جل گئی اور اس کے بعد فولادی ضریح لگوائی گئی اور چہاروں قبروں کو اس کے اندر رکھا گیا، سلطان حسین صفوی کے حکم سے ۱۱۱۶ ق ھ میں یہ ضریح بنوائی گئی تھی، جیسے کہ بتایا جا چکا ہے کہ اس حرم مطہر میں دو اماموں کے ساتھ نرجس خاتون اور حکیمہ خاتون کے قبر بھی موجود ہیں، بی بی حلیمہ یا حکیمہ کا قبر دونوں اماموں کے پاؤں کی طرف واقع ہے۔

امام ہادی علیہ السلام قبلہ کی طرف، اور ان کےبعد جنوب کی طرف امام حسن عسکری علیہ السلام دفن ہیں ۔۳۰وہ ضریح کہ جو سلطان حسین کے حکم سے تعمیر کی گئی تھی فتح علی شاہ قاجار کے دور تک باقی رہی یہاں تک کے چاندی کی ضریح  جس کے پائے لکڑی کے تھے ،نصب کروائی گئی۔

۱۳۶۰ ق ھ میں اسماعیلیان ہند نے امام حسین علیہ السلام کے روضہ مبارک پر چاندی کی ضریح لگوائی اور اس سے پہلے کی ضریح  جو کہ ناصر الدین شاہ نے بنوائی تھی سامرا بجھوائی گئی۔

سن ۱۳۷۵ ق میں اصفہانی ہنر مندوں نے بہت خوبصورت ضریح جو کہ سونے اور چاندی سے بنی تھی بنوائی جن میں استاد محمد صنیع خاتم بھی شامل تھے، یہ ضریح چہاروں قبروں پر نصب کروائی گئی، ۳۲ اور ابھی تک وہ ضریح نصب ہے، اس ضریح کی لمبائی ۳/۵ اور چہاروں کونوں کی چوڑائی ۲۶ میٹر ہے۔ جس  میں دو سونے اور چاندی کے دروازے لگوائے گئے ہیں، اس ضریح کے اوپر اللہ کے نام کندہ ہیں اس میں تین ردیف لکھوائے گئے ہیں جس کہ ایک ردیف میں اصفہان کے مشہور شاعر محمد حسین صغیر کے شعر لکھے گئے ہیں، جس میں اماموں کی مدح کی گئی ہے، دوسرے ردیف میں اہل بیت علیہم السلام کے فضائل کی احادیث لکھوائی گئی ہے، اور تیسرے ردیف میں قرآنی سورتیں جیسے سورہ ھل اتی کو استاد حبیب اللہ فضائلی کے خط میں لکھے گئے ہیں  جو اصفہان کے مشہور خطاطوں میں سے تھے۔ ۳۳

حوالہ جات

۱. ابن خلكان، وفیات الاعیان و انباء ابناء الزمان، 2/435.

2. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ترجمہ عبدالمحمد آیتی، 1/513، 535 ـ 536.

3. امام حسن بن علی الہادی ملقب بہ عسكری آٹھ ربیع الثانی 232 ق کو مدینہ میں دنیا تشریف لائے اور اپنے والد کے ہمراہ دس سال کی عمر میں سامراء مہاجرت کی. کیونکہ آپ کو فوجی چاؤنی میں رکھا گیا اس لئے آپ عسكری  سے معروف ہوئے(ابن خلكان، ہمان، 1/373).

4. مصلح الدین مہدوی، تاریخچہ شہر سامرا، 27 ـ 28.

5. صحتی سردرودی، سیمای سامرا، سینای سہ موسی، 75 ـ 76.

6. موسوی الزنجانی، جولہ فی اماكن المقدسہ، 125.

7. میلانی، عتبات عالیات عراق، 176 ـ 176 ؛ مصلح الدین مہدوی، ہمان 28.

8. موسوی الزنجانی، ہمان، 126 ؛ مصلح الدین مہدوی، ہمان، 30.

9. دایرة المعارف تشیع، 1/93 ؛ مہدوی، ہمان، 30.

10. حسینی الجلالی، مزارات اہل البیت و تاریخہما، 139 ـ 140.

11. دایرة المعارف تشیع، 1/93، مہدوی، ہمان، 32.

12. دایرة المعارف تشیع، ہمان جا ؛ حسینی الجلالی، ہمان، 141.

13. موسوی الزنجانی، ہمان، 126.

14. دایرة المعارف تشیع، 93 ؛ صحتی سردرودی، ہمان، 79.

15. مہدوی، ہمان، 35 ؛ صحتی سردرودی، ہمان، 79 ـ 80.

16. دایرة المعارف تشیع، 93 ؛ موسوی الزنجانی، ہمان، 126.

17. دایرة المعارف تشیع، 93.

18. مہدوی، ہمان، 37.

19. صحتی سردرودی، ہمان، 81.

20. موسوی الزنجانی، ہمان، 126.

21. مہدوی، ہمان، 38.

22. پیشین، 39. وہ دو قبر احمد خان دنبلی و اور اس کے والد کے ہیں جو رواق امامان میں واقع ہیں.

23. ہمان، 40.

24. صحتی سردرودی، ہمان، 82 ؛ موسوی الزنجانی، ہمان، 126.

25. حسن الامین، الاعیان الشیعہ، 1/367.

26. مہدوی، ہمان، 41 ـ 40.

27. صحتی سردرودی، ہمان، 84 ؛ حسینی الجلالی، ہمان، 140.

28. دایرة المعارف تشیع، 94.

29. ادیب الملك، سفرنامہ ادیب الملك بہ عتبات، 100 ؛ میلانی، عتبات عالیات عراق، 186.

30. زمانی، سرزمین خاطرہ ہا، 38، 39.

31. مہدوی، تاریخچہ سامراء و آستان عسكریین، 43.

32. دایرة المعارف تشیع، 94.

33. مہدوی، ہمان، 44.

منبع: عتبات عالیات عراق؛ دكتر اصغر قائدان

Add new comment