نرگس خاتون

انہوں نے فرمایا: میرے لئے اور میری بیٹی کے لئے اس سے زیادہ شرف و منزلت کی بات اور کیا ہوسکتی

یشوعا کی بیٹی ملیکا  شرقی روم کے بادشاہ (تیسرا میخائل ، قسطنطنیہ کا قیصر اور بادشاہ  ۲۲۸ سے ۲۵۴  تک) کی نواسی ہے، ملیکہ ماں کی طرف سے شمعون (حضرت عیسی علیہ السلام کے خاص صحابی تھے)سے منسوب ہیں، آپ کے مشہور القابات میں سے ریحانہ، صیقل، نرگس، سوسن، اور کنیت ام محمد ہے۔

نرگس خود کو اس طرح سے  معرفی کرتی ہیں

میں ملیکہ یشوعا کی بیٹی ، اور روم کے قیصر و بادشاہ  کی اولاد ہوں میں ماں حضرت عیسی علیہ السلام کے وصی شمعون بن خمون صفا کی اولادوں میں سے ہے۔

شادی

جب ملیکہ بڑی ہوئی، قیصر روم نے چاہا کہ اس کی شادی اپنے بھائی کے بیٹے سے کروائے، اس نے حکم دیا اور شادی کی تیاری پوری دھوم دام سے شروع ہوئی، شادی کے مراسم مملکت روم کے بزرگ شخصیتوں  کی موجودگی میں ہورہے تھے، جب نکاح خواں نے چاہا کے عقد پڑھے تو دولہے کی تخت پر لرزہ  طاری ہوا اور نیچے گر گیا، نرگس اس واقعے کو اس طرح بیان فرماتی ہیں:

جب میں  تیرہ سال کی ہوئی تو میرے دادا قیصر نے میری شادی اپنے بھائی کے بیٹے سے کروانی چاہی،  شادی کا دن پہنچا اورتقریبا تین سو کہ قریب امیر، سردار، اور فوج کے سپہ سالاروں اور قبائلی  بزرگان  نے شرکت کی۔ عقد خوانی کے مراسم ادا ہونے لگے ۔

حسین وجمیل ہاتھوں میں مرصع سینیوں میں سجی سونے اور چاندی کی شمعیں اور خوبصورت قندیلیں یہاں سے وہاں تک پورے راہرو میں پھیلی ہوئی تھیں۔پوپ نے تلاوت کے لئے انجیل مقدس اپنے ہاتھ میں اٹھائی مگر عین اسی وقت زمین میں ایک لرزہ پیدا ہوا اور سلطنت روم کے شاہی محل کے بام و در تیزی سے ہلنے لگے اس ناگہانی افتاد پر پورے دربار اور درباریوں میں ہلچل مچ گئی ۔سلطان روم، تخت پر اوندھے پڑے یہ سوچ رہے تھے کہیں یہ جشن شادی " خدایان ثلاثہ" کی ناراضگی کا سبب تو نہیں ہے آخر اس بلائے ناگہانی کی وجہ کیا ہوسکتی ہے ؟اور جب ہوش سنبھلے تو پوپ اور بڑے بڑے پادڑیوں کی فرمائش پر شاہ روم نے عقد کے مراسم ملتوی کرتے ہوئے دربار برخواست کردیا۔روم کی شاہزادی نہایت ہی سکون و اطمینان کے ساتھ قدرت کا یہ تماشا دیکھ رہی تھی اور معصومانہ وقار و بردباری پورے وجود پر حکمراں تھا۔ کچھ دن گزرگئے اور سلطانی نے اپنا نیا فیصلہ جاری کردیا اور اس دفعہ بھی شادی جیسے اہم فیصلے میں روم کی دوشیزہ سے کوئی رائے جاننے کی کوشش نہیں کی۔ایک بار پھر شاہانہ کروفر کے ساتھ، پورے محل کو دولہن کی طرح سجایا گیا اور پہلے سے بھی زیادہ اہتمام کے ساتھ تمام اعیان روم کو جشن شادی میں شرکت کی دعوت دی گئی ۔اس بار سلطنت روم کے مطلق العنان حکمران نے ملیکا کا عقد اپنے دوسرے بھتیجے سے کرنے کا فیصلہ کیا تھا کہ شاید اس طرح پہلے بھتیجے سے شادی کے اہتمام کی نحوست برطرف ہوجائے ۔پوپ نے دوبارہ انجیل کھولی اور ابھی آیات کی تلاوت شروع ہی کی تھی کہ ایک بار پھر شاہی محل کے بام و در ہلنے لگے تخت میں زلزلہ پیدا ہوا اور سلطان روم اپنے بھتیجے سمیت تخت سے نیچے آگئے شادی کا جشن ، خوف و وحشت میں تبدیل ہوگیا ۔ شاہ نے دوبارہ دربار برخواست کردیا۔

اس کے بعد مہمان چلے گئے اور نرجس خاتون اور روم کے بادشاہ جو آپ کے دادا تھے بہت پریشان تھےاور اس واقعہ کے راض سے بے خبر رہے۔

سچا خواب

خداوند متعال نے اس واقعے سے نرجس خاتون اور امام حسن عسکری علیہ السلام کی شادی کے لئے ایک راستہ فراہم کیا اور آپ کو دنیا کی امید اور اپنے وصی کی ماں بنے کےلئے منتخب کرلیا تھا، اس نحس اور خوف و وحشت کے بعد نرجس خاتون اپنے بستر پر آئیں تاکہ کچھ دیر آرام کرے اور اس واقعے کو اپنے ذہن سے نکال سکیں، نرجس خاتون نے اس رات بہت خوبصورت خواب دیکھا جو کچھ اس طرح نقل کیا گیا ہے:

آپ نے دیکھا کہ آپ کے نانا شمعون(علیہ السلام) حضرت عیسی مسیح(علیہ السلام) کے ساتھ حواریوں کے درمیان ایک عالیشان محل میں تشریف فرما ہیں ان کا تخت سلطنت روم کے شاہی تخت سے بھی زیادہ مرصع وجیہ اور باوقار تھا ۔ تھوڑی دیر بعد اس سے بھی زیادہ بلند وارفع ایک نورانی تخت ظاہر ہوا جس پر کچھ نورانی چہرے جلوہ افروز تھے اور ایک منبر رکھا ہوا تھا جس کے زینے ساق عرش کو چھورہے تھے ۔اس نورانی تخت کی طرف دیکھ کر سب کی نگاہیں خیرہ ہوئی جارہی تھیں حضرت عیسی مسیح(علیہ السلام) اور ان کے تمام ساتھیوں نے بڑی ہی گرمجوشی سے ان کا استقبال کیا۔ وہ کوئی اور نہیں مرسل اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم تھے جن کے ساتھ ان کے معصوم اہلبیت اطہار اور ان کے فرزند امام حسن عسکری علیہ السلام بھی تشریف فرماتھے ۔پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے جناب عیسی مسیح(علیہ السلام) سے فرمایا:" اے روح اللہ ! میں آپ کے پاس اپنے بیٹے امام حسن عسکری کے لئے آپ کے وصی شمعون(علیہ السلام) کی بیٹی ملیکہ کا رشتہ مانگنے آیا ہوں "حضرت عیسی مسیح (علیہ السلام) نے شمعون کی طرف دیکھ کر فرمایا شمعون! خداوند عزوجل نے آپ پر بڑا لطف و احسان کیا ہے آپ فخرمرسلین کے خاندان کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑلیں۔جناب شمعون کی آنکھوں میں خوشی کی لہر دوڑگئی اور انہوں نے فرمایا: میرے لئے اور میری بیٹی کے لئے اس سے زیادہ شرف و منزلت کی بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ رسول اعظم(صلی اللہ علیہ و آلہ) نےہم کو بھی اپنے نورانی شجر طیبہ کے ساتھ منسلک کرلیا ہے ۔یہ سنکر ، نبی اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے ملیکہ کی طرف دیکھا اور پوچھا: کیا تمہیں یہ رشتہ منظور ہے؟ جناب ملیکہ نے ایک سرسری نگاہ امام حسن عسکری(علیہ السلام) کی طرف اٹھائی اور شرم و حیا کے ساتھ نظریں جھکاکر اپنی منظوری کا اظہار کردیا۔مرسل اعظم(صلی اللہ علیہ و آلہ) منبر پر تشریف لے گئے اور خداوند متعال کی حمد و ستائش اور انبیاؤ(علیہ السلام) اولیا(علیہ السلام) کی تعریف و توصیف کے بعد اپنے فرزند امام حسن عسکری(علیہ السلام) اور ملیکہ خاتون کے درمیان عقد نکاح جاری کردیا اور حضرت عیسی مسیح(علیہ السلام) اور جناب شمعون(علیہ السلام) نے گواہی دی۔ملیکہ کی آنکھ کھلی ، تو خواب کے تمام مناظر آنکھوں کے سامنے ایک زندہ حقیقت کی صورت میں مجسم ہوگئے وہ آنکھیں پھاڑپھاڑکر ادھر ادھر " اپنے گم شدہ" کو تلاش کرنے کی کوشش کررہی تھیں دل " جذبۂ عشق" سے سرشار اپنے دلنشیں کی حسین یادوں میں غرق تھا، تجسس بھری نگاہیں چاروں طرف اٹھتیں اور دیدیار کی حسرتیں لئے واپس پلٹ آتیں ،اس کے سوا کر بھی کیا سکتی تھیں کسی سے کچھ کہنے اور سننے کا یارا نہیں تھا، خدا کا یہ لطف کیا کم تھا کہ اب وہ آل محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ) کی محرم اسرار بن چکی تھیں۔ سینے میں ایک ایسا راز تھا جس کی حفاظت انہیں اب خود کرنا تھی ۔فرزند زہرا (س) کا عشق ، اپنے وجود کے تمام تار وپود میں وہ محسوس کررہی تھیں مگر کسی سے کچھ نہیں کہہ سکتی تھیں۔ وصال کا شوق تھا مگر نفسانی خواہشات سے پاک ، منتہائے معنویت کے پہلو میں زندگی بسر کرنے کا شوق۔ اور اسی لئے نگاہوں سے دوری دل کا درد بنتی جاری تھی برگ گل حیات پژمردہ ہوتا نظر آرہا تھا اور کسی کو خبر نہیں تھی کہ ملیکہ کی باغ و بہار زندگی پر خزاں کا رنگ کیوں غالب ہے ۔ گویا پرندۂ وجود، ماحول کی تاریکیوں سے تنگ آکر خورشید عشق کی جانب پرواز کے پرتول رہا تھا۔جی ہاں، ملیکہ کے حال کی کسی کو خبر نہیں تھی حتی وہ اطباء بھی جو سلطان روم کی سفارش پر ملیکۂ روم کے معائنے کے لئے آئے ، حال دل سے بے خبر تھے ۔بالآخر سلطان روم کی انانیت پر بیٹی کی محبت غالب آگئی اور سلطان نے ملیکہ کے سر پر دست شفقت پھیرتے ہوئے کہا ! بیٹی اگر دل میں کوئی آرزو ہے جو تم کو بے چین کئے ہوئے ہے تو اپنے دادا سے بیان کرو میں تمہارے لئے آسمان سے تارے بھی توڑکر لاسکتا ہوں۔ملیکہ نے سلطان کی آغوش میں اپنا سر رکھ دیا اور لبوں پر مسکراہٹ کی کرنیں بکھیرتے ہوئے کہا : میں اپنی صحت خدا کی رضا میں دیکھ رہی ہوں خدا کی مرضی یہ ہے کہ آپ مسلمان قیدیوں کو قید سے آزاد کردیں ۔ اگر رومیوں کے تازیانوں اور شکنجوں سے انہیں رہائی مل جائے تو شاید حضرت مسیح(علیہ السلام) اور ان کی ماں مریم(علیہ السلام) کا لطف ہمارے شامل حال ہو اور مجھے صحت حاصل ہوجائے، سلطان روم نے مسلمان قیدیوں کی عمومی معافی کا اعلان کردیا۔

وصال یار

نرجس  کی سچی خواب کو چودہ دِن گذرگئے۔چودہویں رات ،حضرت فاطمہ علیہا السلام اور حضرت مریم علیہا السلام کو خواب میں دیکھا اورحضرت فاطمہ علیہا السلام سے شکوہ کیا کہ آپ کے فرزندمجھ سے ملنے نہیں آتے؟تو بی بی دوعالم علیہا السلام نے فرمایا:وہ کیسے آپ سے ملنے آئیں چونکہ آپ تو ابھی تک مشرک اورعیسائی ہیں؟نرجس خواب ہی میں مسلمان ہوگئیں اورکلمہ شہادتین کو اپنی زبان پرجاری فرمایا۔حضرت فاطمہ علیہا السلام نے انہیں اپنی آغوش میں لےلیااورفرمایا:ابھی انتظارکریں۔۔۔۔

                اس کےبعد،حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام ہررات جناب نرجس کی خواب میں آتے۔ایک رات حضرت نرجس نے خواب میں دیکھاکہ امام حسن عسکری علیہ السلام نے اُن سے فرمایا:

                "فلاں دِن تیرا دادا مسلمانوں کے ساتھ جنگ کے لئے ایک لشکربھیجےگا۔آپ اس دوران اپنے آپ کو کنیزوں اورخادماوں کےبھیس میں اس طرح سےڈھال دوکہ کوئی آپ کوپہچھان نہ سکے۔اوریوں اپنے داداکےپیچھے پیچھے چل پڑو"

کچھ عرصےبعدحضرت نرجس کواطلاع ملی کہ اُن کے دادا ایک لشکرکےساتھ مسلمانوں کے ساتھ جنگ کےلئےجاناچاہتےہیں۔انہوں نے بھیس بدلا اورمحل سےنکل  کراپنے آپ کو کنیزوں میں چھپا لیا۔مسلمانوں اوررومیوں کے درمیان جنگ چھڑگئی۔حضرت نرجس اوردوسری کنیزیں مسلمانوں کی قیدمیں آگئیں۔

خوشیوں کا قاصد

                ان سب واقعات کے وقت ،امام ھادی علیہ السلام سامرا میں متوکل عباسی کےزیرنظر بڑی سختی سےزندگی گذاررہےتھے۔ایک دِن میں امام علیہ السلام نے آپنے "کافور"نامی غلام کوبھیجاکہ بشر بن سلیمان کوبلاکرلاو۔کافورنے فورا ہی بشر کو امام علیہ السلام کےپاس بُلالائے۔امام علیہ السلام نے رُخ انور بشرکی طرف کیااورفرمایا:

                "اے بُشر،تم انصارکی اولاد میں سےہو۔اہل بیت علیہم السلام  کی محبت میں آپ لوگ ہمیشہ پائداررہے ہیں۔؛اس محبت میں آپ اس حد تک پہنچ چکے ہیں کے آپ کی اولاد اسے ورثے میں پاتی ہے۔اوراپ ہمارےلئے قابل اعتماد ہیں۔میں آپ کو ایک فضلیت عطاکرناچاہتاہوں۔۔۔میں ایک رازتمہارےحوالے کررہاہوں۔۔۔"

اس کے بعد امام علیہ السلام نےرومی زبان میں خط لکھا اوراس پراپنی انگوٹھی کی مہر لگائی اورسونے کی ایک تھیلی جس میں ۲۲۰ اشرفیاں تھیں ،کےہمراہ بشرکےحوالےکیں اورفرمایا:یہ لو اوربغدادجاو اورفلاں دِن فرات کی پُل پر حاضر ہوجانا۔جیسےہیں ایسی کشتی کو دیکھنا کہ جس میں قیدی سوارہیں تو آپ دیکھیں گے اُن کے اکثرخریداربنی عباس کےاشراف کی طرف سےبھجےگئےہیں جبکہ اُن میں کچھ عرب کےجوان ہیں۔اس وقت آپ کی توجہ "عمربن زید"کی طرف رہےجو ایک کنیز بیچ رہاہوگا۔اس کنیز میں کچھ خصوصیات پائی جاتی ہیں جن میں سے یہ بھی ہےکہ اس نے ریشم کےدولباس پہنےہوں گےاورخریداروں  اوربکنےسے اپنےآپ کوبچارہی ہوگی۔اس کےبعدایک باریک پردےکے پیچھےسےاُس کےرونے اوراپنی ہتک حرمت کی وجہ سے رومی زبان میں اُس کی فریاد کی آواز سنےگے۔ایک خریدارعمربن زیدسےکہےگا:اس کنیزکی عفت نےمیری توجہ اپنی مبذول کرلی ہے۔آپ تین سودینار میں اسے مجھ پربیچ دو۔کنیزعربی زبان میں کہےگی اگرتیرے پاس حضرت سلیمان کی بادشہات بھی ہو تب بھی مجھے آپ کی طرف رغبت نہیں ہے لہذا فضول میں اپنا وقت ضائع نہ کرو'

بیچنےوالا اعتراض جبکہ وہ صبرکی تلقین کرے گی۔اس وقت بیچنے والے کے قریب جانااوریہ خط اُسے دینا"۔۔۔

بشربن سلیمان نےاپنے سفرکا آغازکردیا۔اوربالکل ویسے ہی جیسے امام علیہ السلام نے پیشن گوئی فرمائی تھی کنیزوں سے بھری کشتی کوساحل دریا پکڑلی۔بشرنے اُس بیچنے والے کوخط دیااور اُس نے وہ خط نرجس کودیا نرجس نے وہ خط لے کر اُسے چوما اوراپنے مالک سےکہا:اگرتم نے مجھے اس شخص پر نہ بیچا تو میں اپنے آپ کومارڈالوں گی۔بُشرنے اپنی ڈیوٹی انجام دی اورحضرت نرجس کو امام علی نقی علیہ السلام کی خدمت میں لےکر حاضر ہوا۔جیسےہی  امام ھادی علیہ السلام نےحضرت نرجس کودیکھا تو اُسے فرمایا:کیسے اللہ تعالٰی نےاسلام کی عزت،محمداورآل محمد کی شرافت اور عیسائیوں کی ذلت و رسوائی  آپ کو دیکھائی؟

حضرت نرجس نےجواب دیا:میں کیسے وہ بیان کروں جو آپ مجھ سےبہترجانتےہیں۔پھرامام ھادی علیہ السلام نےاُن سےفرمایا:میں آپ کودس ہزاراشرفیاں دوں یاابدی فضلیت  کی بشارت دوں؟حضرت نرجس  خوشخبری کےانتظارمیں تھی ،تو اس نے جواب میں عرض کی:ابدی شرافت اورفضیلت کی خوشخبری  دیجئے مجھے مال نہیں چاہیے؟امام علیہ السلام نے فرمایا:

                "تجھےایسےفرزندکی خوشخبری ہوکہ جومشرق اورمغرب  کا بادشاہ ہوگا اورزمین کوایسےہی عدل اور انصاف سے بھردےگا جیسے وہ ظلم اورجورسےبھری ہوگی۔"

حضرت نرجس نے حیرت سے پوچھا :یہ بچہ کس کاہوگا؟امام علیہ السلام نے فرمایا:اُس شخص سے جس کےلیے رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےآپ کارشتہ مانگاہے۔

آخرکار ۱۵شعبان سنہ۲۵۵ ہجری قمری کو اس پاکدامن خاتون سے ایک ایسےبچے کی ولادت ہوتی کہ جوپیغمبروں اوراماموں کے فرمان کےمطابق  زمین کوعدل اورانصاف سےبھردےگا۔

وفات

حضرت نرجس کی وفات کی تاریخ میں مختلف اقوال نقل کئےگئےہیں۔بعض روایات کےمطابق حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نےاپنی شہادت کے متعلق حضرت نرجس سےبات چیت کی تو انہوں نے امام علیہ السلام  سے التجاء کی کہ وہ اللہ تعالیٰ سے دعامانگیں کہ وہ میری موت آپ کی زندگی ہی میں قراردے۔امام علیہ السلام نے بھی اُن کی التجاء قبول کی ۔حضرت نرجس حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی زندگی ہی میں وفات پائی۔پھر انہیں امام ھادی علیہ السلام  کےحرم مطہر ہی میں دفنایا۔جبکہ بعض دیگر روایات کے مطابق حضرت نرجس نے امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت کےبعد وفات پائی۔

بعض روایات کےمطابق نرگس کااصلی نام ملیکاتھا اوروہ یوشع کی بیٹی تھی۔جبکہ بعض روایات کےمطابق نرجس امام جواد ع کی بیٹی حکیمہ کی کنیز تھی۔جناب حکیمہ نے اُس امام حسن عسکری علیہ السلام نے اُسے بخش دیا۔

حوالہ جات:

رہ توشہ عتبات عالیات؛ جمعی از نویسندگان

{باخورشیدسامرا،محمدجواد طبسی،ترجمہ عباس جلالی،ص ۷۱}

نوری ایلكایی ( ف 1320 ق(

شیخ ابراہیم کبیرنوری ایلکایی ایک بہت بڑے فقیہ اورعالم دین تھے وہ مرزاے شیرازی بزرگ اورمرزا محمدتقی شیرازی کے شاگردتھے۔ان کی قبر امامین عسکریین علیہما السلام کےپائینتی جانب  مغربی ایوان میں ہے۔

Add new comment