گیارہویں معصوم اور نویں امام حضرت محمد تقی جواد (علیہ السلام)

علماء سے فقہ حدیث تفسیراور کلام پر مناظرے کرتے اور سب کو قائل ہوجاتے دیکھا۔ اس کی حیرت اس وقت تک دور ہوناممکن نہ تھی،

نام : محمد (علیہ السلام)
کنیت: ابوجعفر ثانی
لقب: تقی، جواد، زکی، مرتضی ، قانع، رضی، مختار، متوکل، منتجب
والد گرامی اور والدہ: امام رضا (علیہ السلام)، خیزران
ولادت: جمعہ 10 رجب سال 195 ہجری
مولد: مدینہ
انگشتر ی کا نقش: نعم القادر اللہ
اولاد: 4 فرزند
امامت کی ابتدا: سال 203 ھ ق در سن 7 سالگی
امامت  کی مدت: 18 سال
تاریخ شہادت: آخر ذی قعدہ سال 220 ہجری
شہادت کی جگہ: بغداد
وجہ شہادت: زہر، معتصم عباسی (علیہ اللعنہ)کے توسط سے
عمر: 25 سال اور  چند ماہ
مرقد مطہر: کاظمین، اپنے جد  موسی بن جعفر (علیہ السلام) کے ساتھ
زندگی: آپ کی زندگی کو دو بخش میں تقسیم کیا جاسکتا ہے
 1. سات سال قبل از امامت
2. دوران امامت۔
۱۷ سال تھی کے جو دو طاغوتی حکومتوں کا دور تھا(مامون اور معتصم)(ساتواں اور آٹھواں عباسی خلیفہ)
آپ ۷ سال کی عمر میں امامت پر پہنچے اور ۲۵ سال کی عمر میں شہید کردئیے گے، لہذا سب سے کم عمر امام تھے اور سب سے جوان ترین امام تھے جن کو شہیدکیا گیا۔ 
دنیا سمجھتی ہوگی کہ امام محمدتقی علیہ السّلام کے لیے علمی وعملی بلندیوں تک پہنچنے کاکوئی ذریعہ نہیں رہا اس لیے اب امام جعفر صادق علیہ السّلام کی علمی مسند شاید خالی نظر ائے مگر خلق خدا کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس کمسن بچے کو تھوڑے دن بعد مامون کے پہلو میں بیٹھ کر بڑے بڑے علماء سے فقہ حدیث تفسیراور کلام پر مناظرے کرتے اور سب کو قائل ہوجاتے دیکھا۔ اس کی حیرت اس وقت تک دور ہوناممکن نہ تھی، جب تک وہ مادی اسباب کے اگے ایک مخصوص خدا وندی مدرسہ تعلیم وتربیت کے قائل نہ ہوتے، جس کے بغیر یہ معمہ نہ حل ہوا اور نہ کبھی حل ہوسکتا ہے۔
امام جواد علیہ السلام ۲۰۳ ہجری قمری میں اپنے والد امام رضا علیہ السلام کی شہادت کے بعد مرتبہ امامت پر پہنچےآپ(علیہ السلام) کا دور امامت دو عباسی خلفاء کے ہم عصر تھا۔ پہلا خلیفہ مامون (حکومت: 193 تا 218 ہجری) تھا اور امام(علیہ السلام) کی عمر کے 23 سال اسی کے دور میں گذرے؛ دوسرا عباسی خلیفہ معتصم تھا اور امام(علیہ السلام) کے عمر کے آخر دو برس اس کے دور میں گذرے۔ امام(علیہ السلام) کا مسکن مدینہ تھا لیکن دو خلفاء کے کہنے پر بغداد کے سفر پر گئے۔ معتصم کے دور میں آپ(علیہ السلام) کا بغداد کا سفر آپ(علیہ السلام) کی شہادت پر منتج ہوا۔ آپ(علیہ السلام) ایک دفعہ مامون کی درخواست پر سنہ 214 (یا 215) ہجری میں بغداد گئے۔
مامون نے امام محمد تقی کو اپنی بیٹی ام الفضل کے ساتھ شادی کی پیشکش کی ۔ عباسی عمائدین مامون کی پیشکش سے آگاہ ہوئے تو انھوں نے اعتراض کیا چنانچہ مامون نے اپنی بات کے اثبات کے لئے اعتراض کرنے والوں  سے کہا: تم ان [امام جوادعلیہ السلام] کا امتحان لے سکتے ہو۔ انھوں نے قبول کیا اور فیصلہ کیا کہ دربار کے عالم ترین فرد اور امام جواد(علیہ السلام) کے درمیان مناظرے کا اہتمام کیا جائے تاکہ وہ امام(علیہ السلام) کا امتحان لے سکیں۔اسی جلسے میں امام محمد تقی علیہ السلام نے بغداد کے بڑے علماکے جواب دئیے اور اپنے علم کا سکہ ان سے منوایا، اور مامون نے امام محمد تقی علیہ السلام  کے ساتھ ام الفضل کا عقد کر دیا۔
حضرت امام جواد علیہ السلام آیات الہی کو معاشرےمیں رائج کرنا چاہتے تھے اور تمام مسلمانوں کے قول و عمل میں قرآن کریم اور اس کے بلند معارف کو عملی جامعہ پہنانا چاہتے تھے، اور اسی لئے ہمیشہ آپ لوگوں سے گفتگو اور معاشرتی تعلقات میں آپ قرآن کریم کی آیات سے زیادہ استفادہ فرماتے۔
امام جواد نے ہمیشہ وحی الہی کے محافظ بن کر غلط اور غیر عقلائی تفسیر  کرنے کے راستے میں روکاوٹ بنے رہے، اور علما اور  دانشمندوں کی آیات سے صحیح فہم حاصل کرنے میں ان کی رہنمائی فرماتے۔
ایک اہم خطرہ کسی بھی بزگ ہستی یا کسی مذہب کے رہبر یا ملک کے لیڈر کے لئے وہ لوگ ہوتے ہیں جو ان کے اردگرد رہتے ہوئے ناصالح رہتے ہیں اور اپنی مقاصد کے حصول میں انحرافات کو ہوا دیتے ہیں اور لوگوں کو ان سے دور رہنے اور ان کے درمیان فاصلہ ایجاد کرنے کا سبب بنتے ہیں اگر یہ بزرگان اس جیسے لوگوں کے بارے میں احتیاط سے کام نہ لیں تو ناقابل تلافی نقصانات کا سامنا کرتے ہیں۔ 
امام جواد علیہ السلام کے دور میں بھی ایسے افراد موجود تھے، جو آپ کی کمسنی سے سوء استفادہ کرنا چاہتے تھے اور خیال کرتے تھے کہ ہم امام علیہ السلام کے امور پر تسط حاصل کرسکتے ہیں اور پھر جیسے چاہیں عمل کرسکتے ہیں۔ امام علیہ السلام نے اس خطرے کا احساس کرلیا تھا اور ان کو اپنے ناپاک ارادوں میں کامیاب نہ ہونے دیا، ابو العمر، جعفر بن واقد اور ہاشم بن ابی ہاشم جیسے دوسرے لوگ ان میں شامل تھے، لیکن امام علیہ السلام نے ان کے بارے میں فرمایا: اللہ ان کو لعنت کرے ، کیونکہ ہمارے نام سے لوگوں سے کھاتے ہیں اور ہمیں اپنے دنیا کا وسیلہ قرار دیتے ہیں۔
امام علیہ السلام کو تمام مسلمان ایک عالم بزرگ کی حیثیت سے مانتے تھے، آپ ایک بردبار، نیک سخن، عابد اور بہت ہی ذہین انسان تھے، آپ علیہ السلام سے بہت سی احادیث عیون اخبار الرضا، تحف العقول، مناقب اور بحار الانوار میں نقل ہوئی ہے۔
حضرت امام جواد علیہ السلام اپنے دادی حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی طرح بہت مختصر سی اور درد و رنج سے بھری زندگی کے مالک تھے، آپ علیہ السلام ذیقعدہ مہینےکے آخر میں سن ۲۲۰ ہجری کو شہید ہوئے، آپ کی زیارت مبارک کاظمین میں ہے، ان دو اماموں کی زیارت کرنے کی فضیلت میں بہت سی روایات نقل ہوئی ہیں، جن میں سے بعض یہ ہیں:
1.امام موسی علیہ السلام کی زیارت کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کی زیارت کے مثل ہے اور جو کوئی بھی آپ علیہ السلام کی زیارت کرے تو گویا اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ ، امیر المومنین علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کی زیارت کی ہو۔ 
2.جو کوئی بھی امام موسی کاظم علیہ السلام کی زیارت کرے وہ اہل بہشت میں سے ہے۔
3.ابن شہر آشوب نے خطیب بغدادی (تاریخ بغداد کے مصنف) سے اور اس نے علی بن خلال سے نقل کیا ہے کہ کہتے تھے: مجھے کوئی مشکل پیش نہیں آئی مگر یہ کہ میں نے امام کاظم علیہ السلام کے حرم مطہر جا کر ان سے توسل کی ہو اور آپ حضرت نے، اللہ تعالی سے اسے میرے لئے آسان بنادیا ہو۔
4.اور خطیب بغدادی سے نقل کرتے ہیں:
بغداد میں ایک خاتون کو دیکھا کہ جو تیزی سے دوڑ رہی تھی، اس سے سوال کیا گیا کہ کہاں جارہی ہو، جواب میں کہا: موسی بن جعفر علیہ السلام کی قبر مطہر پر، تاکہ دعا کروں میرا بیٹا زندان سے آزاد ہوجائے، ایک حنبلی مذہب شخص جو وہاں موجود تھا،  نے اس کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا: موسی بن جعفر علیہ السلام خود زندان میں مر گئے تھے، اس خاتون نے کہا: اللہ اس شخص کے واسطے جو زندان میں شہید ہوا ہے اپنی قدرت ہمیں دیکھاتا ہے، ابھی ٹائم نہیں گزرا تھا کہ اس کا بیٹا رہا ہوا اور وہ حنبلی شخص جس نے مذاق اڑایا تھا گرفتار ہوا!
 

Add new comment