کیا عتبات عالیات کے سفر پر جانا کہ جب جان کا خطر ہو حرام نہیں ؟

عتبات عالیات کی زیارت کرنے کے لئے سفر  کرنا  ائمہ علیہم السلام کا پسندیدہ عمل ہے اور اس کے متعلق انہوں نے تاکید بھی کی ہے کیونکہ یہ عمل ائمہ علیہم السلام کی یاد کو زندہ رکھنا، اور کے نام کو یاد رکھنا اور ائمہ علیہم السلام کے آثار کا خیال رکھنا ہے

روایات میں ہے کہ ایسی جگہ کے لئے مسافرت اختیار کرنا جہاں انسان کو جان کا خطرہ ہو جائز نہیں  اور حرام ہے، آیا یہی حکم عراق کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے عتبات عالیات کے لئے بھی ہے۔

عتبات عالیات کی زیارت کرنے کے لئے سفر  کرنا  ائمہ علیہم السلام کا پسندیدہ عمل ہے اور اس کے متعلق انہوں نے تاکید بھی کی ہے کیونکہ یہ عمل ائمہ علیہم السلام کی یاد کو زندہ رکھنا، اور کے نام کو یاد رکھنا اور ائمہ علیہم السلام کے آثار کا خیال رکھنا ہے، تو بہت زیادہ ثواب کا حقدار ہے، تو اگر ایسی مسافرت میں جان کا خطرہ ہو تو ایسی صورت میں ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ہمیں جو نقصان پہنچ رہا ہے اور ہمارے نہ جانے سے جو نقصان اسلام کی حفاظتِ، تشیع اور ائمہ اطہار علیہم السلام کے نام اور یاد کو ہوگا دونو ں کو دیکھنا ہوگا کہ کونسی چیز کی اہمیت زیادہ ہے اور کونسی چیز الویت رکھتی ہے تو اسی چیز کو مقدم رکھا جائے گا چاہے وہ اپنی جان ہی کیوں نہ ہو جیسے کہ تاریخ  تشیع میں اس کی مثالیں ملتی ہیں۔

لیکن اس زمانے میں جب کہ مکتب اہل بیت علیہم السلام ترقی کے منازل کو طے کررہا ہے اور حالات پہلے جیسے نہیں رہے اور جمہوری اسلامی ایران کے باڈر کو پار کرنا غیر قانونی طریقے سے انجام پائے اور شرائط کچھ ایسے ہوں کہ مراجع  تقلید نے اور جمہوری اسلامی ایران کے حکومت نے بھی ایسی مسافرت کرنے سے منع کیا ہو تو ایسا سفر کرنے والے کو گناہگار سمجھا  جائے گا، اس ان کی نماز اس سفر میں اور اس جیسے سفروں  میں پوری پڑھی جائے گی، لیکن وہ زائرین جن کا سفر قانون کے خلاف نہ ہو اور بہت بڑے نقصان کا خدشہ بھی نہ  ہو اور عتبات عالیات کے زیارت کے لئے تشریف لے جائے اور کسی مجرم کے ہاتھوں مارا جائے تو وہ مظلوم ہوگا اور بہت بڑے ثواب کا حقدار ہے۔

Add new comment