ہمارے ماں باپ آپؐ پر قربان !!..

فدایان آپ کو مخاطب کرتے تھے تو محبت و عقیدت کے اظہار کے لیے کہتے تھے’’فَدِاکَ ابَی وَاُمیّ‘‘میرے ماں باپ آپ پر قربان۔کہنے والوں کو الفاظ کے معانی اچھی طرح معلوم ہوتے تھے

جن کے وضو سے بچے پانی کی بوند حاصل کرنے کے لیے لوگ دیوانہ وار لپکتے تھے،ان کے اشارہ ابرو پر فرزانے جان چھڑکتے تھے۔ وہاں دکھاوا تھا،نہ نمبر ٹانکنے کی بات تھی اور نہ ہی کوئی خوش آمدی تھا سب کے سب دل و جان سے محبت کرنے والے تھے ۔بدر کا میدان ہے،کفر و شرک کی جنگ جوبن پرہے۔عُکاشہؓ کی تلوار ٹوٹ جاتی ہے،دوڑے دوڑے پیغمبر اسلام ؐکی خدمت میں حاضر ہو کر کہتے ہیں’’ اے خدا کے پیغمبر ؐمیری تلوار ٹوٹ گئی ہے‘‘۔آپ ؐ کے سامنے ایک چھڑی پڑی ہے اسے اٹھا کر عُکاشہ ؓ کے ہاتھ میں تھماتے ہیں کوئی ایمان و اعتقاد سے تہی دست ہوتاتوکہتا کہ دشمن مقابلے میں ہے اور آپ ؐ ایک چھڑی مجھے تھما رہے ہیں؟مگر وہاں تو معاملہ کچھ اور تھا،ایمان اور ایقان کے اسلحہ سے لیس عُکاشہؓ چھڑی تھام کر میدان میں کود جاتے ہیں۔چھڑی دودھاری تلوار بن جاتی ہے۔عُکاشہؓ صحابی رسول ؐجواں مردی سے اس چھڑی نما تلوار سے لڑتے ہیں۔جنگ کے خاتمے کے بعد اس تلوار کا نام ’’عون‘‘رکھا جاتا ہے۔حضرت ابو بکر صدیقؓکے دورِ خلافت میں مسلیمہ بن کزاب کے فتنے کو کچلنے کے لیے جو دستہ تشکیل دیا جاتا ہے عُکاشہؓ اس میں بھی’’عون‘‘ کے ساتھ شامل تھے۔ان فرزانوں کی زبان و قلب ہم آہنگ ہوتے تھے۔،فدایان آپؐ کو مخاطب کرتے تھے تو محبت و عقیدت کے اظہار کے لیے کہتے تھے’’فَدِاکَ ابَی وَاُمیّ‘‘میرے ماں باپ آپ ؐپر قربان۔کہنے والوں کو الفاظ کے معانی اچھی طرح معلوم ہوتے تھے۔ان میں سے ہر ایک پیغمبر ؐ کے فرمان پر اپنا مال و متاع اور جان تک قربان کر دیتا تھا۔ایک خوش بخت تو ایسے تھے جن کے لیے خدا کے پیغمبرؐ نے یہی الفاظ ادا کیے تھے،میدان اُحد ہے،عاشقانِ محمدؐدل و جان سے شریک جہاد تھے۔آپ ؐ کے عاشق زار سیدنا سعدؓ بن ابی وقاص کفار پر تیروں کی بارش کررہے تھے۔ایک ہزار سے زائد تیر چلا چکے تھے اوردشمن کا حملہ شدت اختیار کر گیا۔دشمن کے تیر نبی برحقؐکی جانب بڑھنے لگے سعدؓ نے دشمن کے تیروں کو اپنے ہاتھ اور سینے سے روکا،اﷲ کے محبوبؐ اپنے ترکش سے تیر نکال کر سعدؓ بن ابی وقاص کے سامنے رکھتے جاتے اورفرماتے ’’اے سعد ! تم پر میرے ماں باپ قربان تیر چلاو‘‘۔سیدنا علیؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اکرمؐ کی زبان مبارک سے نکلے یہ الفاظ کسی اور فرد کے لیے کبھی نہیں سنے۔(صحیح بخاری،باب جنگ احد۔صفحہ 581)۔اہل مغرب تمہیں کیا معلوم کہ میرے پاک پیغمبر کی کیا شان ہے اور ان کے جانثار کیسے تھے؟صحابی کا درجہ تو اُسے حاصل ہوا جس نے آپؐ کو دیکھا اور آپ ؐ پر ایمان لایامگر وہ تو ایک منفرد انسان تھا جسے بغیر دیکھے صحابی رسولؐکا درجہ حاصل ہوا،قرن کے رہنے والے اس عظیم انسان کو دنیا اویسؓ قرنی کے نام سے یاد کرتی ہے۔اویسؓ کی ماں بیمار تھیں اور آپؐ نے انہیں احد کے معرکے میں شرکت سے روک دیا تھا۔اویسؓقرنی کو جب معلوم ہوتا ہے کہ احد کے میدان میں خدا کے پاک پیغمبرؐ کا ایک دانت مبارک شہید ہو گیا ہے تو اویسؓ اپنا ایک دانت توڑ دیتے ہیں،یکایک ذہن میں ایک خیال گردش کرتا ہے کہ شاید یہ نہیں آپؐ کا کوئی دوسرا دانت شہید ہو گیا ہو گا،اِسی کشمکش میں اپنے منہ میں موجود تمام دانت توڑ کر پیغمبر انقلابؐ سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔آپ ؐ کا معمول تھا کہ اپنی قمیص کے گلے سے لے کر سینے تک کے تمام بٹن بند کر کے رکھتے تھے،ایک صحابی نے ایک بار دیکھا کہ قمیص کا اوپر کا بٹن کھلا ہے ،پھر تمام عمر اس نے اوپر کا بٹن کبھی بند نہ کیا۔ایک عاشق نے دیکھا کہ کھانے کے دوران آپؐشوربے میں سے لوکی کے ٹکڑے نکال نکال کر کھا رہے ہیں،اس کی عمر بھر کی غذا پھر لوکی ٹھہری۔یہ محبت اور دیوانگی کی انتہائی تھی ۔آج کچھ معلون آزادی اظہار کے نام نہاد دعویدار میرے پیغمبر ؐ کی شان میں گستاخی پر اتر آئے۔عاشقانِ رسولؐنے ردعمل دکھایا تو کچھ لوگ عشق رسول ؐ کو جنون قرار دے رہے ہیں۔سورج ڈھلنے کے بعد اپنی ٹانگوں پر اپنا وزن نہ سہار سکنے والے کم علم اور عاقبت نہ اندیش دانشورو،جان لو کہ یہ جنون ہی درحقیقت ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ایسے دانشوروں کو شاید معلوم نہیں کہ گستاخانہ خاکے شائع کرنے والے جریدے’’چارلی ایبڈو‘‘کے مقتول ایڈیٹر اسٹیفن شاربونیئرکی گستاخانہ حرکت کی مذمت اس کی گرل فرینڈ جینٹ بوگراب سمیت سابق فرانسیسی صدر ولیپاں نے بھی کی ۔ان کے علاوہ ترکی کے صدر رجب طیب،ایرانی وزیر خارجہ ظریف،امریکی صدر ریگن کے دور کے اسسٹنٹ سیکرٹری اور عالمی رہنماؤں نے حملے کو جریدے کی پالیسی کا سبب قرار دیا۔ 1970ء میں جریدے کی بنیاد رکھنے والے 80 سالہ ایڈیٹر ہنری روسیل کا بیان ٹائمز لندن ،انڈیپنڈنٹ،گارجین اور ٹیلی میل آن لائن نے نمایاں طور پر شائع کیا ہے کے چارلی ایبڈو کا ملعون و مقتول ایڈیٹر شاربونیئر اسلام مخالف پالیسیوں کی اشاعت میں تمام حدیں پھلانگ گیا تھا۔ہنری روسیل نے ٹیلی گراف کو دیئے گئے انٹرویو میں انکشاف کیا کہ درجن بھر افرادکی ہلاکت اور زخمیوں کا اصل ذمہ دار شاربونیئر تھا۔توہین آمیز خاکوں سے اس نے مسلمانوں کے جذبات کو برانگیختہ کیا اور اپنے ساتھیوں کی جان لے لی۔ڈیلی گراف کے مطابق ہنری روسیل نے کہا کہ پیغمبر اسلام یا کسی بھی برگزیدہ ہستی کی توہین سے گریز کیا جانا چاہیے تھا۔ہنری روسیل نے کہا کہ اس نے شاربونیئر کو ایسی حرکت سے باز رہنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ایسی دل آزاری کا ردعمل مہینوں،سالوں بلکہ دہائیوں تک رہتا ہے مگر وہ باز نہ آیا اور الٹا میرے خلاف ہو گیا۔معتدل مزاج فرانسیسی جریدے’’موندے‘‘ نے لکھا کہ چارلی ایبڈو کے بانی ہنری روسیل نے 2011ء میں جب توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کا اسے علم ہوا تو اس نے ملعون ایڈیٹر کو لکھا تھا کہ وہ ایسا نہ کرے،اس کی اسلام دشمن پالیسی اور اس اقدام سے مسلمانان عالم مشتعل ہو سکتے ہیں۔ہنری روسیل کہتا ہے کہ شاربونیئر کا سر انسان نہیں کسی خنزیر کا تھا ،نے میری تجویز نہ مانی اور خاکوں کی اشاعت کو’’ایڈیٹر کا فیصلہ‘‘ قرار دے کر مجھے مایوس کیا۔ ہنری روسیل کہتا ہے کہ شاربونیئر صہیونی اور اسلام فوبیا کا شکار تھا۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ آزادی اظہار کے پرچارک جریدے نے ہمارے پیغمبر کی شان میں گستاخی کی انتہاء کر دی مگر اپنے کارٹونسٹ’’میورک سائن ‘‘ کو سابق فرانسیسی صدر نکولس سرکوزی کے صاحبزادے جین کی ایک یہودی لڑکی سے شادی پر کارٹون بنانے کے جرم کی پاداش میں ملازمت سے نکال دیا تھا۔یہ ہے مغرب کا آزادی اظہار کا دُہرا معیار۔ہمیں آزادی اظہار کے بھاشن دینے والے گورو !لندن کے ہائیڈ پارک کارنر میں کوئی کھلے عام تمہاری ملکہ کو گالی دے دے تو اس کی سزا کسے معلوم نہیں؟ اے اہل مغرب ہمارے عظیم شاعر علامہ محمد اقبال کے شیروں کے حکمرانوں کو افیون پلا کے تم نے سلا دیا ہے۔تم ہمارے برگزیدہ پیغمبروں کی توہین کر کے آزادی اظہار کے لیے پیرس میں 15 لاکھ کے جلوس نکالو یا 15 کروڑ افرادکو جمع کر لو،یاد رکھو علامہ اقبال نے کہا تھا کہ
؂ سنا ہے قدسیوں سے میں نے،وہ شیرپھرہوشیار ہو گا۔
اہل مغرب مسلمان حکمرانوں کی کمزوری کا مطلب امت مسلمہ کی بے غیرتی ہرگز نہیں یاد رکھو تم نے یہ دہرے معیارنہ بدلے تو شیر کو بیدار ہونے سے کوئی نہ روک سکے گا پھر ہم تم سے پوچھیں گے کہ جن پر ہمارے ماں باپ قربان ان پیغمبر ؐ کی شان میں تم گستاخی کیسے کرتے ہو؟

Add new comment