گردابِ مصائب اور امام حسینؑ
مصنف: سید شمس رضا شمس
حضرت امام حسین (ع) پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفےٰ کی زندگی کے آخری لمحات سے لیکر امام حسن (ع) کی حیات کے آخری ایام بحر مصائب و آلام کے ساحل سے کھیلتے ہوئے زندگی کے اس عہد میں داخل ہوئے جس کے بعد آپ کے علاوہ پنجتن پاک (ع) میں کوئی باقی نہ رہا تو آپ کاسفینہء حیات خود مصائب کے گرداب میں آگیا۔ امام حسن (ع) کی شہادت کے بعد سے معاویہ کی تمام تر جدوجہد یہی رہی کہ کسی طرح امام حسین (ع) کا چراغ زندگی بھی اسی طرح گل کردے جس طرح حضرت علی (ع) اور امام حسن (ع) کی شمع حیات بجھا چکا تھا۔
وہ اس کیلئے ہر ستم کی کوششیں کرتا رہا اوراس سے اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ کس طرح یزید کی خلافت کے منصوبہ کو پروان چڑھائے۔ بالاخر اس نے ۵۶ھ میں ایک ہزار کی جمعیت سمیت یزید کے لیے بیعت لینے کی غرض سے حجاز کا سفر اختیار کیا اور مدینہ منور پہنچا۔ وہاں امام حسین (ع) سے ملاقات ہوئی اس نے بیعت یزید کا ذکر کیا۔ آپ نے صاف لفظوں میں اس کی بدکرداری کا حوالہ دے کر انکار کردیا۔ معاویہ کو آپکا انکار کھلا تو چند الٹے سیدھے الفاظ کہنے کے سوا اور کچھ نہ کر سکا اس کے بعد مدینہ اور مکہ میں بیعت یزید لیکر شام کو واپس چلاگیا۔ علامہ واعظ کاشفی لکھتے ہیں کہ معاویہ نے جب مدینہ میں بیعت یزید کا سوال اٹھایا تو حسین ابن علی (ع) عبد الرحمن بن ابی بکر عبد اللہ بن عمر' عبد اللہ ابن زبیر نے بیعت یزیدؓ کا انکار کردیا اس نے بڑی کوشش کی مگر یہ لوگ نہ مانے اور رفع فتنہ کے لیے امام حسین (ع) کے علاوہ سب مدینہ سے چلے گئے۔ معاویہ ان کے پیچھے مکہ پہنچا وہاں ان پر دباؤ ڈالا لیکن کامیاب نہ ہوا آخر کار شام واپس چلا گیا۔ معاویہ بڑی تیزی سے بیعت یزید لیتا رہا اور بقول علامہ ابن قتیبہ اس سلسلے میں اس نے ٹکوں میں لوگوں کے دین بھی خرید لیے۔ الغرض رجب 60ھ میں معاویہ رخت سفر باندھ کر دینا سے چل بسا یزید جو اپنے باپ کے مشن کو کامیاب کرنا ضروری سمجھتا تھا سب سے پہلے مدینہ کی جانب متوجہ ہوگیا اس نے وہاں کے گورنر ولید بن عقبہ کو لکھا کہ حسین (ع) ابن علی (ع)محمد بن ابی بکر 'عبد اللہ ابن عمر' عبد اللہ ابن زبیر سے میری بیعت لے۔ اور اگر یہ لوگ انکار کریں تو ان کے سر کاٹ کر میرے پاس بھیج دے۔ ولید نے مروان سے مشورہ کیا تو اس نے کہا کہ سب بیعت کرلیں گے۔ مگر امام حسین (ع)ہرگز بیعت نہ کریں گے اور تجھے ان کے ساتھ پوری طرح سختی کا برتاؤ کرناپڑے گا۔
صاحب تفسیر حسینی علامہ حسین واعظ کا شفی لکھتے ہیں کہ ولید نے ایک شخص (عبد اللہ ابن عمر بن عثمان) کو امام حسین (ع) اور ابن زبیر کو بلانے کے لیے بھیجا۔ قاصد جس وقت پہنچا دونوں مسجد میں محو گفتگو تھے اس نے آکر ولید کا پیغام دیا امام حسین (ع) نے فرمایا تم چلو ہم آتے ہیں قاصد واپس چلا گیا مگر یہ دونوں آپس میں بلانے کے سبب پر تبادلہ خیالات کرتے رہے۔ امام حسین (ع) نے فرمایا میں نے آج ایک خواب دیکھا ہے جس سے میں سمجھتا ہوں کہ معاویہ نے آج انتقال کیا ہے اور یہ ہمیں یزید کی بیعت کے لیے بلا رہا ہے۔ ابھی آپ (ع) جانے نہ پائے تھے کہ قاصد پھر آگیا اور اس نے کہا کہ ولید آپ حضرات کے انتظار میں ہے۔ امام حسین (ع) نے فرمایا کہ جلدی کیا ہے جاکر کہہ دے کہ ہم تھوڑی دیر میں آجائیں گے۔ اس کے بعد امام حسین (ع) خانہ اہلبیت میں تشریف لائے اور (۳۰) تیس بہادروں کو ساتھ لیکر ولید سے ملنے کا قصد فرمایا چند لمحے بعد آپ داخل دربار ہوگئے اور بہادران بنی ہاشم باہر سے درباری حالات کا مطالعہ کرتے رہے۔ ولید نے امام حسین (ع) کی مکمل تعظیم کی اور خبر مرگ معاویہ سنانے کے بعد بیعت کا ذکر کیا۔ آپ نے فرمایا کہ مسئلہ کچھ سوچ بچار کا ہے تم لوگوں کو جمع کرو اور مجھے بھی بلالو میں عام مجمع میں اظہار خیال کروں گا۔ ولید نے کہا بہتر ہے پھر کل تشریف لایئے گا ابھی آپ جو اب نہ دینے پائے تھے کہ مروان بول پڑا اے ولید اگر حسین (ع) ا س وقت تیرے قبضہ سے نکل گئے تو پھر ہاتھ نہ آئیں گے۔ ان کو اسی وقت مجبور کردے اور ابھی ابھی بیعت لے اور اگر یہ انکار کریں تو حکم یزید کے مطابق سرتن سے اتاردے۔
یہ سننا تھا کہ امام حسین (ع) کو جلال آگیا۔ آپ نے فرمایا "یاابن زرقا" کس میں دم ہے کہ حسین (ع) کو ہاتھ لگا سکے تجھے نہیں معلوم کہ ہم آل محمد ہیں فرشتے ہمارے گھروں میں آتے رہتے ہیں ہمیں کیونکر مجبور کیا جاسکتا ہے کہ ہم یزید جیسے فاسق و فاجر اور شرابی کی بیعت کرلیں۔ امام حسین (ع) کی آواز کابلند ہونا تھا کہ بہادران بنی ہاشم داخل دربار ہوگئے اور قریب تھا کہ زبردست ہنگامہ برپا کردیں لیکن امام حسین (ع) نے انہیں سمجھا بجھا کر خاموش کردیا اس کے بعد امام حسین (ع) واپس دولت سرا میں تشریف لے گئے۔ولید نے سارا واقعہ یزید کو لکھ کر بھیج دیا اس نے جواب میں لکھا کہ اس خط کے جواب میں امام حسین (ع) کا سر بھیج دو۔ ولید نے یزید کا خط امام حسین (ع) کے پاس بھیج کر کہلا بھیجا کہ فرزند رسول میں یزید کے کہنے پر کسی صورت سے عمل نہیں کرسکتا۔لیکن آپ کو باخبر کرتا ہوں کہ یزید آپ کے خون بہانے کے در پے ہے۔ امام حسین (ع) نے صبر کے ساتھ حالات پر غور کیا اور نانا کے روضے پر جا کر درد دل بیان فرمایا اور بے انتہا روئے اور صبح صادق کے قریب واپس گھر تشریف لائے اور دوسری رات کو پھر روضہ رسول پرتشریف لے گئے اور مناجات کے بعدروتے روتے سوگئے خواب میں آنحضرت کو دیکھا کہ آپ حسین (ع) کی پیشانی کا بوسہ لے رہے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ اے نور نظر عنقریب امت تمہیں شہید کردے گی بیٹا تم بھوکے اور پیاسے ہوگے تم فریاد کرتے ہوگے اور کوئی تمہارے فریاد رسی نہ کرے گا۔ امام حسین (ع) کی اسی اثنا میں انکھ کھل گئی اور آپ خانہ اقدس میں تشریف لائے اور اپنے اعزاء کو جمع کیا اور فرمانے لگے کہ اب اس کے سوا اور کوئی چارہ کار نہیں ہے کہ میں مدینہ چھوڑ دوں ترک وطن کا فیصلہ کرنے کے بعد روضہ امام حسن (ع) اور مزار جناب سیدہ پر تشریف لے گئے وہاں پہ کافی دیر تک روتے رہے بالآخر بھائی سے رخصت ہوئے ماں کو سلام کیا۔ قبر سے جواب سلام آیا نانا کے روضے پر رخصت آخری کے لیے تشریف گئے روتے روتے سوگئے سرور کائنات نے خواب میں صبر کی تلقین کی اور فرمایا بیٹا ہم تمہارے انتظار میں ہیں علماء کا بیان ہے کہ امام حسین ۲۸ رجب ۶۰ یوم سہ شنبہ کو مدینہ منورہ سے باارادہ مکہ معظمہ روانہ ہوئے علامہ ابن حجرمکی صواعق محرقہ میں لکھتے ہیں کہ "نفرلمکتہ خوفاعلی نفسہ" امام حسین جان کے خوف سے مکہ کو تشریف لئے گئے۔ آپ کے ساتھ تمام مخدرات عصمت و طہارت اور چھوٹے چھوٹے بچے تھے البتہ آپ کی ایک صاحبزادی جس کا نام فاطمہ صغریٰ تھا اور جن کی عمر اس وقت سات سال تھی بوجہ علالت شدیدہ ہمراہ نہ جاسکیں امام حسین(ع) نے آپ کی تیمارداری کے لیے حضرت عباس (ع)کی والدہ محترمہ جناب ام البنین کو مدینہ میں ہی چھوڑ دیاتھا۔ اورکچھ فریضہ خدمت ام المومنین جناب ام سلمہ(ع) کے سپرد کر دیا تھا۔ آپ ۳ شعبان ۶۰ھ یوم جمعہ کو مکہ معظمہ پہنچ گئے۔ آپ کے پہنچتے ہی سعید ابن عاص مکہ سے بھاگ کر مدینہ چلا گیا اور وہاں سے یزید کو مکہ کے تمام حالات لکھے اور بتایا کہ امام حسین (ع) کی طرف لوگوں کا رحجان اس تیزی سے بڑھ رہا ہے کہ جس کا جواب نہیں۔ یزید نے یہ خبر پاتے ہی مکہ میں قتل حسین (ع) کی سازش پر غور کرنا شروع کردیا۔ امام حسین (ع) مکہ میں چار ماہ شعبان' رمضان' شوال' ذیقعد مقیم رہے۔ یزید جو ہر صورت امام حسین (ع) کو قتل کرنا چاہتا تھا۔ اس نے یہ خیال کرتے ہوئے کہ حسین اگر مدینہ سے بچ کر نکل گئے ہیں تو مکہ میں قتل ہو جائیں گے اور اگر مکہ سے بچ نکلیں تو کوفہ پہنچ کر شہید ہوسکیں یہ انتظام کیاکہ کوفے سے ۱۲ ہزار خطوط دوران قیام مکہ میں بھجوائے کیونکہ دشمنوں کو یہ یقین تھا کہ حسین کوفہ میں آسانی کے ساتھ قتل ہوسکیں گے نہ یہاں کے باشندوں میں عقیدہ کا سوال ہے اور نہ عقیدت کا یہ فوجی لوگ ہیں ان کی عقلیں بھی موٹی ہوتی ہیں یہی وجہ ہے کہ شہادت حسین (ع) سے قبل جتنے بھی افسر بھیجے گئے وہ محض اس غرض سے بھیجے جاتے رہے کہ حسین (ع) کو گرفتار کرکے کوفہ لے جائیں (کشف الغمہ) اور ایک عظیم لشکر بھی مکہ میں امام حسین (ع) کو شہید کرنے کے لیے بھیجا اور ۳۰ خارجیوں کو حاجیوں کے لباس میں خاص طور پر بھجوا دیا جن کا قائد عمر ابن سعد تھا۔ اس کے علاوہ ایک سازش یہ بھی کی گئی کہ ایام حج میں تین سو شامیوں کو بھیج دیا گیا کہ وہ گروہ حجاج میں شامل ہو جائیں اور جہاں جس حال میں بھی امام حسین (ع) کو پائیں قتل کرڈالیں اور وہ خطوط جو کوفہ سے آئے تھے انہیں شرعی رنگ دے دیا گیا کیونکہ وہ ایسے لوگوں کے نام سے بھیجے گئے تھے جن سے امام حسین (ع) متعارف تھے شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کا کہنا ہے کہ یہ خطوط بھیجنے والے عام اہل کوفہ تھے۔ ابن جریر کا کہنا ہے کہ ان دنوں کوفہ میں ایک یا دو گھر کے علاوہ اور کوئی شیعہ نہ تھا اس لئے امام حسین(ع) نے اپنی شرعی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کے لیے تفحص حالات کی خاطر اپنے چچا زاد جناب مسلم بن عقیل کو کوفہ روانہ کردیا۔
...........
عاشورا کے پیغام
کربلا کے واقعہ اور حضرت امام حسین علیہ السلام کے اقوال پر نظر ڈالنے سے، عاشورا کے جو پیغام ہمارے سامنے آتے ہیں ان کوہم اس طرح بیان کر سکتے ہیں۔
(۱) پیغمبر (ص) کی سنت کو زندہ کرنا:
بنی امیہ یہ کوشش کر رہے تھے کہ پیغمبر اسلام (ص) کی سنت کو مٹا کر زمانہٴ جاہلیت کے نظام کو جاری کیا جائے۔ یہ بات حضرت کے اس قول سے سمجھ میں آتی ہے کہ ”میں عیش و آرام کی زندگی بسر کرنے یا فساد پھیلانے کے لئے نہیں جا رہا ہوں۔ بلکہ میرا مقصد امت اسلامی کی اصلاح اور اپنے جد پیغمبر اسلام (ص) و اپنے بابا علی بن ابی طالب کی سنت پر چلنا ہے۔“
(۲) باطل کے چہرے پر پڑی ہوئی نقاب کو الٹنا:
بنی امیہ اپنے ظاہری اسلام کے ذریعہ لوگوں کو دھوکہ دے رہے تھے۔ واقعہ کربلا نے ان کے چہرے پر پڑی اسلامی نقاب کوالٹ دیا، تاکہ لوگ ان کے اصلی چہرے کو پہچان سکے۔ ساتھ ہی ساتھ اس واقعہ نے انسانوں و مسلمانوں کو یہ درس بھی دیا کہ انسان کو ہمیشہ ہوشیار رہنا چاہئے اور دین کامکھوٹا پہنے فریبکار لوگوں سے دھوکہ نہیں کھانا چاہئے۔
(۳) امر بالمعروف کو زندہ رکھنا:
حضرت امام حسین علیہ السلام کے ایک قول سے معلوم ہوتا ہے، کہ آپ کے اس قیام کا مقصد امر بالمعروف و نہی عن المنکر تھا ۔ آپنے ایک مقام پر بیان فرمایا کہ میرا مقصد امر بالمعروف و نہی عن المنکرہے۔ایک دوسرے مقام پر بیان فرمایا کہ : اے الله! میں امربالمعروف ونہی عن المنکر کو بہت دوست رکھتا ہے۔
(۴) حقیقی اور ظاہری مسلمانوں کے فرق کو نمایاں کرنا:
آزمائش کے بغیر سچے مسلمانون، معمولی دینداروںا ور ایمان کے جھوٹے دعویداروں کو پہچاننا مشکل ہے۔ اور جب تک ان سب کو نہ پہچان لیا جائے، اس وقت تک اسلامی سماج اپنی حقیقت کا پتہ نہیں لگاسکتا۔ کربلا ایک ایسی آزمائش گاہ تھی جہاں پر مسلمانوں کے ایمان، دینی پابندی و حق پرستی کے دعووں کوپرکھا جا رہا تھا۔ امام علیہ السلام نے خود فرمایا کہ لوگ دینا پرست ہیں جب آزمائش کی جاتی ہے تودیندار کم نکلتے ہیں۔
(۵) عزت کی حفاظت کرنا:
حضرت امام حسین علیہ السلام کا تعلق اس خاندان سے ہے، جو عزت وآزادی کا مظہر ہے۔ امام علیہ السلام کے سامنے دو راستے تھے، ایک ذلت کے ساتھ زندہ رہنا اور دوسرا عزت کے ساتھ موت کی آغوش میں سوجانا۔ امام نے ذلت کو پسند نہیں کیا اور عزت کی موت کو قبول کرلیا۔ آپ نے فرمایا ہے کہ : ابن زیاد نے مجھے تلوار اور ذلت کی زندگی کے بیچ لا کھڑا کیا ہے، لیکن میںذلت کوقبول کرنے والا نہیں ہوں۔
(۶) طاغوتی طاقتوں سے جنگ:
امام حسین علیہ السلام کی تحریک طاغوتی طاقتوں کے خلاف تھی۔ اس زمانے کا طاغوت یزید بن معاویہ تھا۔ کیونکہ امام علیہ السلام نے اس جنگ میں پیغمبراکرم (ص) کے قول کو سند کے طور پر پیش کیا ہے کہ ” اگر کوئی ایسے ظالم حاکم کو دیکھے جو الله کی حرام کردہ چیزوں کو حلال ا ور اس کی حلال کی ہوئی چیزوں کوحرام کررہا ہو، تواس پر لازم ہے کہ اس کے خلاف آواز اٹھائے اور اگر وہ ایسا نہ کرے تو اسے الله کی طرف سے سزا دی جائے گی۔“
(۷) دین پر ہر چیز کو قربان کردینا چاہئے:
دین کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ اسے بچانے کے لئے ہر چیز کو قربان کیا جاسکتا ہے۔ یہاں تک کہ اپنے ساتھیوں ،بھائیوں اور اولاد کو بھی قربان کیا جاسکتا ہے۔ اسی لئے امام علیہ السلام نے شہادت کو قبول کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دین کی اہمیت بہت زیادہ اور وقت پڑنے پر اس کو بچانے کے لئے سب چیزوں کو قربان کردینا چاہئے۔
(۸) شہادت کے جذبے کو زندہ رکھنا:
جس چیز پر دین کی بقا، طاقت، قدرت و عظمت کا دارومدار ہے وہ جہاد اور شہادت کا جذبہ ہے۔ حضرت امام حسین علیہ السلام نے دنیا کو یہ بتانے کے لئے کہ دین فقط نماز روزے کا ہی نام نہیں ہے یہ خونی قیام کیا ،تاکہ عوام میں جذبہٴ شہادت زندہ ہو اور عیش و آرام کی زندگی کا خاتمہ ہو۔ امام حسین علیہ السلام نے اپنے ایک خطبہ میں ارشاد فرمایاکہ : میں موت کو سعادت سمجھتا ہوں۔ آپ کا یہ جملہ دین کی راہ میں شہادت کے لئے تاکید ہے۔
(۹)اپنے ہدف پرآخری دم تک باقی رہنا:
جو چیز عقیدہ کی مضبوطی کو ظاہر کرتی ہے، وہ ہے اپنے ہدف پر آخری دم تک باقی رہنا۔ امام علیہ السلام نے عاشورا کی پوری تحریک میںیہ ہی کیا ،کہ اپنی آخری سانس تک اپنے ہدف پر باقی رہے اور دشمن کے سامنے تسلیم نہیں ہوئے۔ امام علیہ السلام نے امت مسلمہ کو ایک بہترین درس یہ دیا کہ حریم مسلمین سے تجاوز کرنے والوںکے سامنے ہرگز نہیں جھکنا چاہئے۔
(۱۰)جب حق کے لئے لڑو تو ہر طبقہ سے کمک حاصل کرو:
کربلا سے، ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اگر سماج میں اصلاح یا انقلاب منظور نظر ہو تو سماج میں موجود ہر س طبقہ سے مدد حاصل کرنی چاہئے۔ تاکہ ہدف میں کامیابی حاصل ہو سکے۔امام علیہ السلام کے ساتھیوں میں جوان، بوڑھے، سیاہ سفید، غلام آزاد سبھی طرح کے لوگ موجود تھے۔
(۱۱) افراد کی قلت سے گھبرانا نہیںچاہئے :
کربلا ،امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے اس قول کی مکمل طور پر جلوہ گاہ ہے کہ ”حق و ہدایت کی راہ میں افراد کی تعدا د کی قلت سے نہیںگھبرانا چاہئے۔“ جو لوگ اپنے ہدف پر ایمان رکھتے ہیں ان کے پیچھے بہت بڑی طاقت ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کو اپنے ساتھیوں کی تعداد کی قلت سے نہیں گھبرانا چاہئے اور نہ ہی ہدف سے پیچھے ہٹنا چاہئے۔ امام حسین علیہ السلام اگر تنہا بھی رہ جاتے تب بھی حق سے دفاع کرتے رہتے اور اس کی دلیل آپ کا وہ قول ہے جو آپ نے شب عاشور اپنے ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایاکہ آپ سب جہاں چاہو چلے جاؤ یہ لوگ فقط میرے -----۔
(۱۲)ایثار کے ساتھ سماجی تربیت کوملا دینا:
کربلا ،تنہا جہاد و شجاعت کا میدان نہیں ہے بلکہ سماجی تربیت و وعظ ونصیحت کا مرکز بھی ہے۔ تاریخ کربلا میں امام حسین علیہ السلام کا یہ پیغام پوشیدہ ا ہے۔ امام علیہ السلام نے شجاعت، ایثار اور اخلاص کے سائے میں اسلام کو نجات دینے کے ساتھ لوگوں کو بیدار کیا اور ان کی فکری و دینی سطح کو بھی بلند کیا،تاکہ یہ سماجی و جہادی تحریک ،اپنے نتیجہ کو حاصل کرکے نجات بخش بن سکے۔
(۱۳) تلوار پر خون کوفتح:
مظلومیت سب سے اہم اسلحہ ہے۔ یہ احساسات کو جگاتی ہے اور واقعہ کو جاودانی بنادیتی ہے۔ کربلا میں ایک طرف ظالموں کی ننگی تلواریں تھی اور دوسری طرف مظلومیت۔ ظاہراً امام علیہ السلام اور آپ کے ساتھی شہید ہو گئے۔ لیکن کامیابی انھیں کو حاصل ہوئی۔ ان کے خون نے جہاں باطل کو رسوا کیا وہیں حق کو مضبوطی بھی عطا کی۔ جب مدینہ میں حضرت امام سجاد علیہ السلام سے ابراہیم بن طلحہ نے سوال کیا کہ کون جیتا اور کون ہارا؟ تو آپ نے جواب دیا کہ اس کا فیصلہ تو نماز کے وقت ہوگا۔
(۱۴) پابندیوں سے نہیں گھبرانا چاہئے:
کربلا کا ایک درس یہ بھی ہے کہ انسان کو اپنے عقید و ایمان پر قائم رہنا چاہئے۔ چاہے تم پر فوجی و اقتصادی پابندیاں ہی کیوں نہ لگی ہوں۔ امام علیہ حسین السلام پر تمام پابندیاں لگی ہوئی تھی۔ کوئی آپ کی مدد نہ کرسکے اس لئے آپ کے پاس جانے والوں پر پابندی تھی۔ نہر سے پانی لینے پر پابندی تھی۔ مگر ان سب پابندیوں کے ہوتے ہوئے بھی کربلا والے نہ اپنے ہدف سے پیچھے ہٹے اور نہ ہی دشمن کے سامنے جھکے۔
(۱۵) نظام :
حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنی پوری تحریک کو ایک نظام کے تحت چلایا۔ جیسے ،بیعت سے انکار کرنا، مدینہ کو چھوڑ کر کچھ مہینے مکہ میں رہنا، کوفہ و بصرے کی کچھ شخصیتوں کو خط لکھ کر انہیں اپنی تحریک میں شامل کرنے کے لئے دعوت دینا۔ مکہ، منیٰ اور کربلا کے راستے میں تقریریں کرنا وغیرہ۔ ان سب کاموںکے ذریعہ امام علیہ السلام اپنے مقصد کو حاصل کرنا چاہتے تھے۔ عاشورا کے قیام کا کوئی بھی جز بغیر تدبیر کے پیش نہیں آیا۔ یہاں تک کہ عاشور کی صبح کو امام علیہ السلام نے اپنے ساتھیوں کے درمیان جو ذمہ داریاں تقسیم کی تھیں وہ بھی ایک نظام کے تحت تھیں۔
(۱۶) خواتین کے کردار سے استفادہ:
خواتین نے اس دنیا کی بہت سی تحریکوں میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ اگر پیغمبروں کے واقعات پر نظر ڈالی جائے تو حضرت عیسیٰ ، حضرت موسیٰ، حضرت ابراہیم علیہم السلام------ یہاں تک کہ پیغمبر اسلام (ص) کے زمانے کے واقعات میں بھی خواتین کا کردار بہت موثر رہا ہے۔ اسی طرح کربلا کے واقعات کو جاوید بنانے میں بھی حضرت زینب سلام الله علیہا، حضرت سکینہ علیہا السلام، اسیران اہل بیت اورکربلا کے دیگر شہداء کی بیویوں کا اہم کردار رہا ہے۔ کسی بھی تحریک کے پیغام کو عوام تک پہونچانا بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے ۔ کربلا کی تحریک کے پیغام کو عوام تک اسیران کربلا نے ہی پہنچایا ہے۔
(۱۷)میدان جنگ میں بھی یاد خدا:
جنگ کی حالت میں بھی الله کی عبادت ا ور اس کے ذکرکو نہیں بھولنا چاہئے۔ میدان جنگ میں بھی عبادت و یادخدا ضروری ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے شب عاشور دشمن سے جو مہلت لی تھی، اس کا مقصدتلاوت قرآن کریم ، نماز اور الله سے مناجات تھا۔ اسی لئے اپنے فرمایاتھاکہ میں نماز کو بہت زیادہ دوست رکھتا ہوں۔ شب عاشور آپ کے خیموں سے پوری رات عبادت و مناجات کی آوازیں آتی رہیں۔ عاشور کے دن امام علیہ السلام نے نماز ظہر کو اول وقت پڑھا۔ یہی نہیں بلکہ اس پورے سفر میں حضرت زینب سلام الله علیہا کی نماز شب بھی قضا نہ ہوسکی ، چاہے آپ کو بیٹھ کر ہی نماز کیوں نہ پڑھنی پڑی ہو۔
(۱۸) اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنا:
سب سے اہم بات انسان کا اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنا ہے۔ چاہے اس ذمہداری کو نبہانے میں انسان کو ظاہری طور پر کامیابی نظر نہ آئے۔ اور یہ بھی ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ انسان کی سب سے بڑی کامیابی اپنی ذمہ داری کوپورا کرنا ہے ، چاہے اسکا نتیجہ کچھ بھی ہو۔ حضرت امام حسین علیہ السلام نے بھی، اپنے کربلا کے سفر کے بارے میں یہی فرمایا تھاکہ جو الله چاہے گا بہتر ہوگا، چاہے میں قتل ہو جاؤں یا مجھے (بغیر قتل ہوئے) کامیابی مل جائے۔
(۱۹) مکتب کی بقاء کے لئے قربانی:
دین کے معیار کے مطابق، مکتب کی اہمیت، پیروان مکتب سے زیادہ ہے۔ مکتب کو باقی رکھنے کے لئے حضرت علی علیہ السلام و حضرت امام حسین علیہ السلام جیسی معصوم شخصیتوں نے بھی اپنے خون و جان کو فدا کیا ہے۔ امام حسین علیہ السلام جانتے تھے کہ یزید کی بیعت دین کے اہداف کے خلاف ہے لہٰذا بیعت سے انکار کردیا اور دینی اہداف کی حفاظت کے لئے اپنی جان قربان کردی، اور امت مسلمہ کو سمجھا دیا کہ مکتب کی بقا کے لئے مکتب کے چاہنے والوں کی قربانیاںضروری ہے۔ انسان کو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ قانون فقط آپ کے زمانہ سے ہی مخصوص نہیں تھا بلکہ ہر زمانہ کے لئے ہے۔
(۲۰) اپنے رہبر کی حمایت ضروری ہے:
کربلا ،اپنے رہبر کی حمایت کی سب سے عظیم جلوہ گاہ ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے شب عاشور اپنے ساتھیوں کے سروں سے اپنی بیعت کو اٹھالیا تھااور فرمایا تھا جہاں تمھارا دل چاہے چلے جاؤ۔ مگر آپ کے ساتھی آپ سے جدا نہیں ہوئے اور آپ کو دشمنون کے نرغہ میں تنہا نہ چھوڑا۔ شب عاشور آپ کی حمایت کے سلسلہ میں حبیب ابن مظاہر اور ظہیر ابن قین کی بات چیت قابل غور ہے۔ یہاں تک کہ آپ کے اصحاب نے میدان جنگ میں جو رجز پڑہے ان سے بھی اپنے رہبر کی حمایت ظاہر ہوتی ہے ،جیسے حضرت عباس علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر تم نے میران داہنا ہاتھ جدا کردیا تو کوئی بات نہیں، میں پھر بھی اپنے امام ودین کی حمایت کروں گا۔
مسلم ابن عوسجہ نے آخری وقت میں جو حبیب کو وصیت کی وہ بھی یہی تھی کہ امام کو تنہا نہ چھوڑنا اور ان پر اپنی جان قربان کردنیا۔
(۲۱) دنیا ، خطرناک لغزش گاہ ہے:
دنیا کے عیش و آرام و مالو دولت کی محبت تمام سازشوںا ور فتناو فساد کی جڑہے۔ میدان کربلا میں جو لوگ گمراہ ہوئے یا جنہوں نے اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہیںکیا، ان کے دلوں میں دنیا کی محبت سمائی ہوئی تھی۔ یہ دنیا کی محبت ہی تو تھی جس نے ابن زیاد وعمر سعد کو امام حسین علیہ السلام کا خون بہانے پر آمادہ کیا۔ لوگوں نے شہر ری کی حکومت کے لالچ اور امیر سے ملنے والے انعامات کی امید پر امام علیہ السلام کا خون بہا یا۔ یہاں تک کہ جن لوگوں نے آپ کی لاش پر گھوڑے دوڑآئے انھوںنے بھی ابن زیاد سے اپنی اس کرتوت کے بدلے انعام چاہا۔ شاید اسی لئے امام حسین علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ لوگ دنیا پرست ہوگئے ہیں، دین فقط ان کی زیانوں تک رہ گیا ہے۔ خطرے کے وقت وہ دنیا کی طرف دوڑنے لگتے ہیں۔ چونکہ امام حسین علیہ السلام کے ساتھیوں کے دلوں میں دنیا کی ذرا برابربھی محبت نہیں تھی ،اس لئے انھوں نے بڑے آرام کے ساتھ اپنی جانوں کو راہ خدا میں قربان کردیا۔ امام حسین علیہ السلام نے عاشور کے دن صبح کے وقت جو خطبہ دیا اس میں بھی دشمنوں سے یہی فرمایا کہ تم دنیا کے دھوکہ میں نہ آجانا۔
(۲۲) توبہ کا دروازہ ہمیشہ کھلا ہے:
توبہ کا دروازہ کبھی بھی بند نہیں ہوتا، انسان جب بھی توبہ کرکے صحیح راستے پر آ جائے بہتر ہے۔ حر جو امام علیہ السلام کو گھیرکر کربلا کے میدان میں لایا تھا، عاشور کے دن صبح کے وقت باطل راستے سے ہٹ کر حق کی راہ پر آگیا۔ حر امام حسین علیہ السلام کے قدموں پر اپنی جان کو قربان کرکے، کربلا کے عظیم ترین شہیدوں میں داخل ہوگیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر انسان کے لئے ہر حالت میں اور ہر وقت توبہ کا دروازہ کھلا ہے۔
(۲۳) آزادی:
کربلا ،آزادی کا مکتب ہے اور امام حسین علیہ السلام اس مکتب کے معلم ہیں۔ آزادی وہ اہم چیز ہے جسے ہر انسان پسندکرتا ہے۔ امام علیہ السلام نے عمر سعد کی فوج سے کہا کہ اگر تمھارے پاس دین نہیں ہے اور تم قیامت کے دن سے نہیں ڈرتے ہو تو کم سے کم آزاد انسان بن کر تو جیو۔
(۲۴) جنگ میں ابتداء نہیں کرنی چاہئے:
اسلام میں جنگ کو اولویت نہیں ہے۔ بلکہ جنگ، ہمیشہ انسانوںکی ہدایت کی راہ میں آنے والی رکاوٹ ک دور کرنے کے لئے کی جاتی ہے۔ اسی لئے پیغمبر اسلام (ص) حضرت علی علیہ السلام و امام حسین علیہ السلام نے ہمیشہ یہی کوشش کی، کہ بغیر جنگ کے معاملہ حل ہوجائے۔ اسی لئے آپنے کبھی بھی جنگ میں ابتداء نہیں کی۔ امام حسین علیہ السلام نے بھی یہی فرمایا تھا کہ ہم ان سے جنگ میں ابتداء نہیں کرےں گے۔
(۲۵)انسانی حقوق کی حمایت:
کربلا جنگ کا میدان تھا ،مگر امام علیہ السلام نے انسانوں کے مالی حقوق کی مکمل حمایت کی۔ کربلا کی زمین کو اس کے مالکوں سے خرید کر وقف کیا۔ امام علیہ السلام نے جو زمین خریدی اس کا حدود اربع چارضر ب چار میل تھا۔ اسی طرح امام علیہ السلام نے عاشور کے دن فرمایا کہ اعلان کردو کہ جو انسان مقروض ہو وہ میرے ساتھ نہ رہے۔
(۲۶) الله سے راضی رہنا:
انسان کا سب سے بڑا کمال، ہر حال میں الله سے راضی رہنا ہے ۔ امام حسین علیہ السلام نے اپنے خطبے میں فرمایا کہ ہم اہل بیت کی رضا وہی ہے جو الله کی مرضی ہے۔ اسی طرح آپ نے زندگی کے آخری لمحہ میں بھی الله سے یہی مناجات کی کہ پالنے والے! تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور میں تیرے فیصلے پر راضی ہوں۔
http://www.lankarani.com/Urdo/mon/ashor.php
Add new comment