امام حسینؑ کوفے سے کربلا تک

” اے ابو ھرم ! بنی امیہ نے مجھے برا بھلا کہا، میں نے صبر کیا، میرے اموال کو غصب کیا، میں نے صبر کیا، لیکن جب انہوں نے میرا خون بہانا چاہا تو میں نے مدینہ چھوڑ دیا، خدا کی قسم یہ (بنی امیہ) مجھے قتل کردیں گے

حجتہ الاسلام محمد صادق نجمی
”رہیمہ“ کے مقام پر کوفہ سے تعلق رکھنے والا ایک شخص ”ابوہرم“ امام ؑ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: ”اے فرزند رسول ! کس چیز نے آپؑ کو اپنے جد کاحرم چھورنے پر مجبور کیا؟“
امام ؑ نے فرمایا:
” اے ابو ھرم ! بنی امیہ نے مجھے برا بھلا کہا، میں نے صبر کیا، میرے اموال کو غصب کیا، میں نے صبر کیا، لیکن جب انہوں نے میرا خون بہانا چاہا تو میں نے مدینہ چھوڑ دیا، خدا کی قسم یہ (بنی امیہ) مجھے قتل کردیں گے۔ پھر خدا انہیں ذلت وخواری اور قتل و غارت گری میں مبتلا کر دے گا اور ان پر ایسے لوگوں کو مسلط کردے گا جو انہیں پستی اور ذلت سے دو چار کردیں گے، یہاں تک کہ یہ لوگ قوم سبا سے بھی زیادہ ذلت و خواری کا شکار ہو جائیں گے، جن کے جان و مال پر ایک عورت حکومت کیا کرتی تھی۔“
امام ؑ نے مختلف افراد سے جو گفتگوئیں کیں، وہ آپؑ کے عام خطبات کے برخلاف بہت مختصر اور انتہائی جامع ہوا کرتی تھیں، ”ابو ہرم“ کو جو جواب آپؑ نے دیا، وہ ایسا ہی ہے۔ امام ؑ نے اختصار کے باوجود بنی امیہ کے اعمال و کردار کی تشریح کرتے ہوئے، دو امور کی جانب توجہ دلائی یا دو مسائل کی پیش گوئی فرمائی۔ ایک اپنی شہادت کی اور دوسرے بنی امیہ کے زوال اور ان کے ذلیل و رسوا ہونے کی۔
امام ؑ کا یہ جواب اس امر پر ایک اور دلیل ہے کہ آپؑ نے شہادت کا راستہ مکمل علم و آگہی کے ساتھ اختیار کیا تھا اور جو کچھ مستقبل میں پیش آیا امام ؑ اس کے بارے میں قطعی اور یقینی طور پر پہلے ہی سے آگاہ فرما رہے تھے۔
طرماح بن عدی اور اس کے ساتھیوں کے جواب میں
”طرماح بن عدی“ کے ساتھ چار افراد، جن کے نام عمرو بن خالد، سعد ، مجمع اور نافع بن ہلال تھے، کوفہ سے روانہ ہوئے اور ”عذیب الھجانات“ کے مقام پر امام حسین ؑ کے قافلے سے ملے۔ یہاں امام ؑ سے گفتگو کرتے ہوئے”طرماح “ کے ساتھیوں نے عرض کیا: اے فرزند رسول ! ”طرماح “ سارے راستے ان چند اشعار کی تکرار کرتا رہا ہے اور اونٹ کو ہکانے کے لئے آواز نکالنے کی بجائے بھی انہی اشعار کو دہراتا رہا ہے۔
” اے میرے اونٹ، میری سختی کرنے سے پریشان نہ ہو اور صبح ہونے سے پہلے تیزی سے مجھے لے چل۔ تیرا سوار بہت اچھا ہے اور یہ سفر بھی بہترین سفر ہے۔ بس اب تو مجھے اس شخص تک پہنچا دے جس کی سرشت میں بھلائی اور بزرگواری ہے۔ وہ عظیم ، آزاد، بے باک اور وسیع القلب ہے اور خدا نے بہترین کام کے لئے اسے یہاں بھیجا ہے۔ بارالہٰا تاابداس کی حفاظت فرما۔“
جب امامؑ کے حضور، امام ؑ کے لئے محبت و عقیدت کے اظہار پر مشتمل”طرماح“ کے یہ اشعار پڑھے گئے تو امام ؑ نے ان کے جواب میں فرمایا:
” خدا کی قسم، ہمیں امید ہے کہ ہمارے بارے میں خدا کا ارادہ خیر پر مبنی ہوگا، خواہ ہم مارے جائیں یا کامیاب ہوں۔“
اس کے بعد امام ؑ نے ان لوگوں سے اہل کوفہ کے خیالات کی بابت سوال کیا۔ ان لوگوں نے عرض کیا: اے فرزند رسول کوفہ کے بڑے بڑے لوگوں اور سرداروں کو ابن زیاد کی طرف سے بھاری رشوتیں ملی ہیں اور باقی لوگوں کے دل آپؑ کے ہمراہ لیکن تلواریں آپؑ کے خلاف ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے امام ؑ کے قاصد قیس بن مسہر صیداوی کے مارے جانے کی خبر امام ؑ کو دی۔ امام ؑ نے یہ افسوسناک خبر سننے کے بعد اس آیہ کریمہ کی تلاوت فرمائی:” کچھ نے اپنے وعدوں کو پورا کردیا اور کچھ اس کے منتظر ہیں اور انہوں نے اپنے وعدے میں کوئی تبدیلی نہیں کی ہے۔ سورہ¿ احزاب 33۔ آیت 23“ پھر امام ؑ نے دعا کرتے ہوئے فرمایا:
” اے اللہ! ہمیں اور انہیں جنت عنایت فرما اور ہمیں اور ان کو اپنے جوار رحمت میں اکٹھا کرتے ہوئے اپنا ذخیرہ شدہ بہترین ثواب عطا فرما۔“
اس کے بعد” طرماح“ نے گفتگو کا آغاز کیا اور کہا: اے فرزند رسول ! میں نے کوفہ سے نکلتے وقت بیرون شہر لوگوں کا ایک مجمع غفیر دیکھا۔ جب میں نے ان کے اکھٹاہونے کا سبب دریافت کیا تو لوگوں نے کہا کہ یہ لوگ حسین ابن علی ؑ سے مقابلے اور ان سے جنگ کی تیاری کررہے ہیں ۔ اے فرزند رسول ! آپؑ کو خدا کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ آپؑ اس سفر سے پلٹ جائیے کیونکہ مجھے امید نہیں ہے کہ کوفہ کا ایک آدمی بھی آپؑ کی مدد کے لئے آئے گا اور حتیٰ اگر صرف وہی لوگ آپؑ سے جنگ کے لئے آجائیں جنہیں میں دیکھ کے آیا ہوں تو وہی آپؑ کو شکست دینے کے لئے کافی ہوں گے۔ جبکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی طاقت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
پھر”طرماح“ نے مشورہ دیتے ہوئے کہا: اے فرزند رسول ! میرا خیال ہے کہ آپؑ اور آپؑ کے ہمراہ میں بھی”احبا“ کے علاقے کی طرف چلتے ہیں ، جو ہمارے قبیلے”بنی طی“ کا مسکن ہے اور بلند و بالہ پہاڑیوں کے دامن میں واقع ہے۔ یہ علاقہ اس قدر محفوظ اور دشمن کے تعرض سے دور ہے کہ ہمارے قبیلے نے یہاں رہتے ہوئے ”سلاطین عسان“ اور دوسرے تمام حملہ آوروں کا مقابلہ کیا ہے۔ اور خاص جغرافیائی حالت کی وجہ سے کوئی دشمن کبھی ہمارے علاقے تک نہیں پہنچ پایا ہے۔ جغرافیائی اہمیت کے علاوہ اگر آپؑ دس دن اس علاقے میں قیام فرمائیں تو قبیلہ”طی“ کے تمام افراد، سوار اور پیادوں کی صورت میں آپؑ کی مدد کو آجائیں گے اور خود میں وعدہ کرتا ہوں کہ اپنے قبیلے کے بیس ہزار شمشیر بکف بہادر آپؑ کی مدد کو تیار کروں گا جو آپؑ کے مقاصد اور پروگرام کی تکمیل کے لئے آپؑ سے پیش پیش آپؑ کے دشمنوں سے لڑیں گے۔
امام ؑ نے”طرماح“ کی اس پیشکش کے جواب میں فرمایا: خدا تمہیں اور تمہارے قبیلے کے افراد کو جزائے خیر دے۔
پھر یوں گویا ہوئے:
” ہمارے اور اس قوم کے درمیان عہدوپیمان ہو چکا ہے اور اس کی موجودگی میں ہمارے لئے واپس پلٹنا ممکن نہیں ہے۔ اب دیکھتے ہیں انجام کیا ہوتا ہے۔“
”طرماح “ نے جب امام ؑ کے اٹل ارادوں کو دیکھا تو آپؑ سے رخصت کی اجازت چاہی تاکہ یہاں سے جاکر پہلے کچھ ضروریات زندگی کا سامان ،جو اس نے فراہم کیا ہوا تھا کوفہ میں اپنے گھر والوں کو پہنچا دے اور پھر جتنی جلدی ممکن ہو واپس آکر امام ؑ کی مدد کے لئے آپؑ سے ملحق ہو جائے۔
امام ؑ نے انہیں اجازت دے دی۔”طرماح “ اپنے اہل خانہ سے ملنے کے بعد انتہائی تیزی سے واپس پلٹے لیکن کربلا پہنچنے سے پہلے ہی انہیں امام ؑ اور ان کے اصحاب کی شہادت کی خبر مل گئی۔
انسانی اقدار کی ترویج
حسین ابن علی ؑ کے دوسرے خطبوں اور تقریروں کی طرح اس گفتگو میں بھی چند انتہائی حساس اور قابل توجہ نکات موجود ہیں ۔ ہم یہاں ان میں سے صرف ایک نکتے کی جانب اشارہ کررہے ہیں۔
میدان جنگ میں قدم رکھنے والا اور دشمن کے سامنے کھڑا ہونے والا ہر شخص اپنی کامیابی اور دشمن کی کمزوری کے لئے کوشاں ہوتا ہے۔ امام حسین ؑ بھی اس قانون سے مستثنیٰ نہیں ۔ لیکن امام ؑ کی نظر میں شکست اور کامیابی کا معیار کچھ اور ہے اور وہ اتنا مختلف ہے کہ عام آدمی کے لئے اس کا تصور بھی ممکن نہیں ۔ امام حسین ؑ کی جدوجہد کے سلسلے میں کی جانے والی مختلف بلکہ کبھی کبھی متضاد تفسیریں اسی بناءپر اور آپؑ کے جہاد کے مختلف پہلوﺅں کو نہ سمجھنے کی وجہ سے کی گئی ہیں۔
امام حسین ؑ کی نظر میں اپنے الہٰی فریضے کی ادائیگی ، شرعی ذمے داری کی انجام دہی اور انسانی اقدار پر ثابت قدمی کامیابی ہے، چاہے اس راہ میں وہ ظاہری فتح بھی حاصل ہوجائے جو تمام جنگوں اور مقابلوں میں مد نظر ہوتی ہے یا حاصل نہ ہو سکے۔
لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ جب ”طرماح بن عدی“ جن کا شمار اہلبیت پیغمبر کے خاص شیعوں اور عقیدت مندوں میں ہوتا تھا اور جو امیر المومنین ؑ اور حسین ابن علی ؑ کے خاص صحبوں میں سے تھے، امام ؑ کو اس صورتحال سے آگاہ فرماتے ہیں اور آپؑ کی ظاہری شکست کو قطعی اور یقینی سمجھتے ہوئے کوئی راہ حل نکالنے کی کوشش کرتے ہیں تو امام ؑ خداوند عالم سے یہ دعا، التماس اور درخواست کرتے ہوئے کہ وہ انہیں دیگر شہداءکے ساتھ بہشت بریں اور مقام رحمت میں جگہ مرحمت فرمائے اور جزائے خیر اور خاص درجات نصیب فرمائے ” طرماح “ کی توجہ ایک انتہائی اہم نکتے یعنی الہٰی فریضے کی ادائیگی اور انسانی اقدار کی پاسداری و حفاظت کی جناب مبذول کراتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ہم نے اپنے خطوط اور ملاقاتوں کے ذریعے اہل کوفہ کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے۔ ہم نے ان سے کوفہ آنے اور اس شہر کے لوگوں کی امامت و رہبری اور ہدایت و رہنمائی کا وعدہ کیا ہے، اور انہوں نے بھی ہماری ہر طرح کی مدد اور پشت پناہی کا عہد کیا ہے۔ اب ہمارے لئے ضروری ہے کہ تمام تر خطرات اور مشکلات کے باوجود اپنے وعدوں پر باقی رہیں ۔ جہاں تک اہل کوفہ کا مسئلہ ہے ، تو وہ خود جانیں کہ اپنے عہد پر باقی رہیں یا اسے توڑ دیں۔
درحقیقت یہی ایک دینی اور روحانی رہنما اور ایک دنیاوی سیاسی قائد اور لیڈر کے درمیان پایاجانے والا بنیادی فرق ہے۔
بشکریہ:::::::::http://shiacenter.org/urdu/index.php?option=com_content&view=article&id=...

Add new comment