فدک جناب فاطمہ(ع)کے پاس
سب سے زیادہ مہم نزاع اور اختلاف جو جناب فاطمہ(ع)اور جناب ابوبکر کے درمیان پیدا ہوا وہ فدک کا معاملہ تھا جناب فاطمہ(ع)مدعی تھی کہ رسول خدا(ص)نے اپنی زندگی میں فدک انہیں بخش دیا تھا لیکن جناب ابوبکر اس کا انکار کرتے تھے ۔ ابتداء میں تو جھگڑا ایک عادی امر شمار ہوتا تھا لیکن بعد میں اس نے تاریخ کے ایک اہم واقعہ اور حساس حادثہ کی صورت اختیار کرلی کہ جس کے آثار اور نتائج ہمیشہ جامعہ اسلامی کے دامن گیر ہوگۓ اور اب بھی ہیں۔ اس نزاع میں جو بھی حق ہے وہ اچھی طرح واضح اور روشن ہوجاۓ لہذا چند مطالب کی طرف اشارہ ضروری ہے۔
پہلا مطلب : کیا پیغمبر(ص)کو اسلامی حکومت کے اموال اپنی بیٹی کو بخش دینے کا حق تھا یا نہیں ۔( واضح رہے کہ بعض علماء کا نظریہ یہ ہے کہ انفال اور فئی اور خمس وغیرہ قسم کے اموال حکومت اسلامی کے مال شمار ہوتے ہیں اور حاکم اسلامی صرف اس پر کنٹرول کرتا ہے یہ اس کا ذاتی مال نہیں ہوتا، گرچہ یہ نظریہ شیعہ علماء کی اکثریت کے نزدیک غلط ہے اور خود آئمہ طاہرین کے اقدام سے بھی یہ نظریہ غلط ثابت ہوتا ہے اور قرآن مجید کے ظواہر سے بھی اس نظرئیے کی تردید ہوتی ہے، کیونکہ ان تمام سے ان اموال کا پیغمبر(ص)اور امام کا شخصی اور ذاتی مال ہونا معلوم ہوتا ہے نہ کہ منصب اور حکومت کا ۔
حضرت زہرا(س)
ممکن ہے کہ کوئی یہ کہے کہ غنائم اور دوسرے حکومت کے خزانے تمام مسلمانوں کے ہوتے ہیں اور حکومت کی زمین کو حکومت کی ملکیت میں ہی رہنا چاہئیے لیکن ان کی آمدنی کو عام ملت کے منافع اور مصالح پر خرچ کرنا چاہئیے لہذا پیغمبر(ص)کے لۓ جو ہر خطا اور لغزش سے معصوم تھے ممکن ہی نہ تھا کہ وہ فدک کو جو خالص آپ کی ملک تھا اپنی بیٹی جناب فاطمہ(ع)کو بخش دیتے۔ لیکن اس اعتراض کا جواب اس طرح دیا جاسکتا ہے کہ انفال اور اموال حکومت کی بحث ایک بہت وسیع و عریض بحث ہے کہ جو ان صفحات پر تفصیل کے ساتھ تو بیان نہیں کی جاسکتی لیکن اسے مختصر اور نتیجہ خیز طور پر اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ اگر ہم یہ تسلیم بھی کرلیں کہ فدک بھی غنائم اور عمومی اموال میں ایک تھا اور اس کا تعلق نبوت اور امامت کے منصب سے تھا یعنی اسلام کے حاکم شرع سے تعلق رکھتا تھا لیکن پہلے بیان ہوچکا ہے کہ یہ ان اموال میں سے تھا جو بغیر جنگ کے مسلمانوں کے ہاتھ آیا تھا اور نصوص اسلامی کے مطابق اور پیغمبر(ص)کی سیرت کے لحاظ سے اس قسم کے اموال جو بغیر جنگ کے ہاتھ آئیں یہ پیغمبر(ص)کے خالص مال شمار ہوتے ہیں البتہ خالص اموال کو بھی یہ کہا جاۓ کہ آپ کا شخصی مال نہیں ہوتا تھا بلکہ اس کا تعلق بھی حاکم اسلامی اور حکومت سے ہوتا ہے تب بھی اس قسم کے مال کا ان عمومی اموال سے جو دولت اور حکومت سے متعلق ہوتے ہیں بہت فرق ہوا کرتا ہے کیونکہ اس قسم کے مال کا اختیار پیغمبر(ص)کے ہاتھ میں ہے اور آپ کو اس قسم کے اموال میں تصرف کرنے میں محدود نہیں ہوا کرتے بلکہ آپ کو اس قسم کے اموال میں بہت وسیع اختیارات حاصل ہوا کرتے ہیں اور اس کے خرچ کرنے میں آپ اپنی مصلحت اندیشی اور صواب دید کے پابند اور مختار ہوتے ہیں یہاں تک کہ اگر عمومی مصلحت اس کا تقاضا کرے تو آپ اس کا کچھ حصہ ایک شخص کو یا کئی افراد کو دے بھی سکتے ہیں تاکہ وہ اس منافع سے بہرہ مند ہوں۔ اس قسم کے تصرفات کرنا اسلام میں کوئی اجنبی اور پہلا تصرف نہیں ہوگا بلکہ رسول خدا(ص)نے اپنی آراضی خالص سے کئی اشخاص کو چند زمین کے قطعات دئیے تھے کہ جنھیں اصطلاح میں "" اقطاع "" کہا جاتا ہے۔
بلاذری نے لکھا ہے کہ پیغمبر(ص)نے زمین کے چند قطعات بنی نضیر اور جناب ابوبکر اور جناب عبد الرحمان بن عوف اور جناب ابودجانہ وغیرہ کو عنایت فرما دئیے تھے ۔(فتوح البلدان ص 21)
حضرت زہرا(س)
ایک جگہ اور اسی بلاذری نے لکھا ہے کہ رسول خدا(ص)نے بنی نضیر کی زمینوں میں سے ایک قطعہ زمین کا مع خرمے کے درخت کے زبیر ابن عوام کو دیدیا تھا ۔(فتوح البلدان ص 34۔)\r\nبلاذری لکھتے ہیں کہ رسول خدا(ص)نے زمین کا ایک قطعہ کہ جس میں پہاڑ اور معدن تھا جناب بلال کو دیدیا ۔(فتوح البلدان ص 27)بلاذری لکھتے ہیں کہ رسول خدا(ص)نے زمین کے چار قطعے علی ابن ابی طالب(ع)کو عنایت فرما دیۓ تھے ۔(فتوح البلدان ص 27)۔ پس اس میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہۓ کہ حاکم شرع اسلامی کو حق پہنچتا ہے کہ زمین خالص سے کچھ مقدار کسی معین آدمی کو بخش دے تاکہ وہ اس کے منافع سے استفادہ کرسکے ۔ پیغمبر(ص)نے بھی بعض افراد کے حق میں ایسا عمل انجام دیا ہے ۔ حضرت علی(ع)اور جناب ابوبکر اور جناب عمر اور جناب عثمان اس قسم کی بخشش سے نوازے گۓ تھے۔ بنابرین قوانین شرع اور اسلام کے لحاظ سے کوئی مانع موجود نہیں کہ رسول خدا(ص)فدک کی آراضی کو جناب زہرا(ع)کو بخش دیں۔ صرف اتنا مطلب رہ جاۓ گا کہ آیا جناب رسول خدا(ص)نے فدک جناب فاطمہ(ع)کو بخشا بھی تھا یا نہیں تو اس کے اثبات کے لۓ وہ اخبار اور روایات جو پیغمبر(ص)سے منقول ہیں کافی ہیں کہ آپ نے فدک فاطمہ(ع)کو بخش دیا تھا، نمونہ کے طور پر ابو سعید خدری روایت کرتے ہیں کہ جب یہ آیت(وآت ذالقربی حقہ) نازل ہوئی تو رسول خدا(ص)نے جناب فاطمہ(ع)سے فرمایا کہ فدک تمہارا مال ہے۔(کشف الغمہ،ج 2ص 102 ۔ در منشور، ج 4 ص 177)
عطیہ نے روایت کی ہے کہ جب یہ آیت(وآت ذالقربی حقہ ) نازل ہوئی تو جناب رسول خدا(ص)نے جناب فاطمہ کو اپنے پاس بلایا اور فدک آپ کو دے دیا ۔(کشف الغمہ،ج 2ص 102)
جناب امام جعفر صادق(ع)نے فرمایا ہے کہ جب یہ آیت(وآت ذالقربی حقہ )نازل ہوئی تو پیغمبر(ص)نے فرمایا کہ مسکین تو میں جانتا ہوں یہ(ذالقربی)کون ہیں ؟ جبرئیل نے عرض کی یہ آپ کے اقرباء ہیں پس رسول خدا(ص)نے امام حسن(ع)اور امام حسین(ع)اور جناب فاطمہ(ع)کو اپنے پاس بلایا اور فرمایا کہ اللہ تعالی نے دستور اور حکم دیا ہے کہ میں تمہارا حق دوں اسی لۓ فدک تم کو دیتا ہوں ۔(تفسیر عیاشی ج 2 ص 276)
ابان بن تغلب نے کہا ہے کہ میں نے امام جعفر صادق(ع)کی خدمت میں عرض کیا کہ آیا رسول خدا(ص)نے فدک جناب فاطمہ(ع)کو دیا تھا ؟ آپ(ع)نے فرمایا کہ فدک تو خدا کی طرف سے جناب فاطمہ(ع)کے لۓ معین ہوا تھا ۔(تفسیر عیاشی ج 2 ص 276)
حضرت زہرا(س)
امام جعفر صادق(ع)نے فرمایا کہ جناب فاطمہ(ع)حضرت ابوبکر کے پاس آئیں اور ان سے فدک کا مطالبہ کیا ۔ جناب ابوبکر نے کہا اپنے مدعا کے لۓ گواہ لاؤ توجناب ام ایمن گواہی کے لۓ حاضر ہوئیں تو ابوبکر نے ان سے کہا کہ کس چیز کی گواہی دیتی ہو انہوں نے کہا کہ میں گواہی دیتی ہوں کہ جبرئیل جناب رسول خدا(ص)کے پاس آۓ اور عرض کی کہ اللہ تعالی فرماتا ہے(وآت ذالقربی حقہ )پیغمبر(ص)نے جبرئیل سے فرمایا کہ خدا سے سوال کرو کہ ذی القربی کون ہیں ؟ جبرئیل نے عرض کی کہ فاطمہ(ع)ذی القربی ہیں پس رسول خدا(ص)نے فدک فاطمہ(ع)کو دیدیا ۔(درمنشور، ج 4 ص 177)
اس قسم کی روایات سے جو اس آیت کی شان نزول میں وارد ہوئی ہیں مستفاد ہوتا ہے کہ جناب رسول خدا(ص)اللہ تعالی کی طرف سے مامور تھے کہ فدک کو بعنوان ذوالقربی فاطمہ(ع)کے اختیار میں دے دیں تاکہ اس کے ذریعے سے حضرت علی(ع)کی اقتصادی حالت(جس نے اسلام کے راستے میں جہاد اور فداکاری کی ہے )مضبوط رہے۔ ممکن ہے کہ کوئی یہ اعتراض کرے کہ ذوالقربی والی آیت کہ جس کا ذکر ان احادیث میں وارد ہوا ہے سورہ اسراء کی آیت ہے اور سورہ اسراء کو مکی سورہ میں شمار کیا جاتا ہے حالانکہ فدک تو مدینے میں اور خیبر کی فتح کے بعد دیا گیا تھا لیکن اسکے جواب میں دو مطالب میں سے ایک کو اختیار کیا جاۓ گا اور کہا جاۓ گا کہ اگرچہ سورہ اسراء مکی ہے مگر پانچ آیتیں اس کی مدینہ میں نازل ہوئیں ہیں ۔ آیت(ولا تقتلواالنفس )اور آیت(ولا تقربوا الزنا )اور آیت(اولئک الذین یدعون )اور آیت(اقم الصلو ۃ )اور آیت(ذی القربی )۔(تفسیر المیزان تالیف استاد علامہ طباطبائی )
دوسرا جواب یہ ہے کہ ذی القربی کا حق تو مکہ میں تشریع ہوچکا تھا لیکن اس پر عمل ہجرت کے بعد کرایا گیا۔
Add new comment