خطبہ فدک میں دینی واخلاقی معارف
روشن علی
بنت الرسول (ص) حضرت فاطمہ الزہر سلام اللہ علیہا کا خطبہ فدک جہاں سیاسی لحاظ سے اہمیت رکھتا ہے وہاں اس کی دینی واخلاقی معارف وتعلیمات کے لحاظ سے بھی غیرمعمولی حیثیت ہے،ہم نے یہاں اس خطبے کواسی پہلو سے پیش کر نے کی کوشش کی ہے ،اس خطبے کو بہت سے محدثین اور ثقہ راویوں نے کئی اسناد سے نقل کیا ہے ان میں سے ہم صرف چار اسناد کا ذکر کرتے ہیں۔
۱ روایت زینب بنت علی علیہما السلام
ابن ابی الحدید روایت کرتے ہیں:
قال ابوبکر فحدثنی محمد ابن زکریا قال: حدثنی جعفر بن محمد بن عمارہ الکندی قال: حدثنی ابی عن الحسین بن صالح بن حی ، قال : حدثنی رجلان من بنی ہاشم عن زینب بنت علی ابن ابی طالب علیہ السلام
۲ روایت حسن ابن حسن بن علی بن ابی طالب علیہم السلام
جوہری اپنی کتاب السقیفہ و فدک میں روایت کرتے ہیں:
حدثنی احمد بن محمد بن یزید، عن عبد اﷲ بن محمد بن سلیمان، عن ابیہ ، عن عبد اﷲ بن الحسن بن الحسن ، قالوا جمیعا : لما بلغ فاطمۃ علیہا السلام اجماع ابی بکر علی منعہا فدک لاثت خمارہا۔۔۔
۳ روایت زید ابن علی بن الحسین علیہ السلام
ابن طیفور اپنی کتاب : بلاغات النساء ، میں روایت کرتے ہیں:
حدثنی جعفر ابن محمد رجل من اہل دیار مصر لقیتہ بالرافقۃ قال حدثنی ابی قال اخبربا موسی ابن عیسی قال اخبرنا عبد اﷲ ابن یونس قال اخبربا جعفر الاحمر عن زید ابن علی رحمۃ اﷲ علیہ عن عمتہ زینب بنت الحسین علیہما السلام قالت لما بلغ فاطمۃ علیہا السلام اجماع ابی بکر علی منعہا فدک لاثت خمارہا و خرجت فی حشدۃ نساۂا و لمۃ من قومہا
۴ روایت حضرت عائشہ(رضی)
سید شریف مرتضی علم الہدی اپنی الشافی فی الامامۃ میں روایت کرتے ہیں:
اخبرنا ابو عبد اﷲ محمد ابن رمران المرزابانی قال حدثنی محمد ابن احمد الکاتب قال حدثنا احمد ابن عبید ابن ناصح النحوی قال حدثنا الزیادی حدثنا شرقی ابن قطامی عن محمد ابن اسحاق قال حدثنا صالح ابن کیسان عن عروۃ عن عائشۃ قالت لما بلغ فاطمۃ علیہا السلام اجماع ابی بکر علی منعہافدک لآثت خمارہا۔۔۔
اس سے مزید تحقیق کے لیے کتب تاریخ و سیر کا مطالعہ کیا جائے بالخصوص شرح ابن ابی الحدید ، کتاب السقیفہ و فدک ، بلاغات النساء وغیرہ کی طرف رجوع کیا جائے۔
خطبہ فاطمۃ الزہراء (س) کے دینی و اخلاقی معارف :
ہم عربی متن کو بخوف طوالت ترک کرتے ہیں صرف ترجمہ پر اکتفا کرتے ہیں۔ خطبہ کے متن کو لفظ اصل سے بیان کرتے ہیں اور اس کی وضاحت کو مختصر تشریح کے عنوان سے بیان کرتے ہیں۔ خاتون جنت (س) کے اس خطبہ کو ہم نے دینی واخلاقی تعلیمات کے لحاظ سے چند حصوں میں تقسیم کیا ہے، جن کی تفصیل ذیل میں پیش کی جا رہی ہے۔
(ا)اﷲ کی حمد ،توحید اور صفات:
اصل
تمام تعریفیں اﷲ کے لیے ان نعمتوں پر جو اس نے عطا کی ہیں، اس کا شکر ہے ان توفیقات پر جو اس نے عنایت کی ہیں، اس کی ثناء ہے ان عام نعمتوں پر جو اس نے ابتداء میں ہمیں عطا کی ہیں، اور وہ بے حساب آسائشیں جو ہمارے لیے مہیا کی ہیں ، اور وہ پے در پے نعمتیں جو ہمارے شامل حال ہیں، وہ نعمتیں جن کو شمار نہیں کیا جا سکتا، وہ اتنی زیادہ وسیع ہیں کہ ان کا شکر ادا نہیں کیاجا سکتا، اور اس کی انتہا انسان کے ادراک سے خارج ہے، نعمتوں میں اضافہ اور تسلسل کے لیے لوگوں کو شکر کرنے کی ہدایت کی ، ان( نعمتوں )کی تکمیل کے لیے تمام مخلوقات کو اپنی حمد کا حکم دیا، اور ان کو حاصل کرنے کے لیے مکرر دعوت دی۔
میں گواہی دیتی ہوں کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، یہ ایک ایسا کلمہ ہے جس کی روح اخلاص ہے، اس نے اس ( توحید) کے ادراک کو دلوں میں ٹھہرایا، اور اس کے ادراک کے ذریعے ذہنوں میں روشنی بخشی،وہ خدا جس کو آنکھوں سے دیکھا نہیں جا سکتا، نہ زبان سے اس کا وصف بیان کیا جا سکتا ہے، اور نہ ہی عقل و وہم کے ذریعے اس کی کیفیت کو سمجھا جا سکتا ہے۔
مختصر تشریح
جناب فاطمۃ الزہراء علیہا السلام کے اس خطبہ کے ایک ایک جملے میں مفاہیم کا ایک سمندر موجزن ہے، ان تمام مطالب کا تذکرہ اس مختصر سے مقالہ میں ناممکن ہے، لیکن موضوع کی مناسبت سے ان مطالب کی طرف اشارہ کیا جائے گا۔
(الف)خالق کائنات کا شکریہ ادا کرنا:
جناب زہراء علیہما السلام خطبے کی ابتدا خالق کائنات کی بیشمار نعمتوں کا شکریہ ادا کرنے سے کرتی ہیں۔یہ ایک حقیقت ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی نعمتیں ہمارے پورے وجود پر چھائی ہوئی ہیں ۔ ہم سر سے پیر تک ان نعمتوں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اور اپنی محدود عقل کے ذریعے اس لامحدود کی نعمتوں کو شمار نہیں کر سکتے ،کیونکہ اسی منعم نے اپنے پاک کلام میں ارشاد فرمایا ہے:
’’اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اﷲِ لَا تُحْصُوْہَا ۔
اگر تم اﷲ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو شمار نہیں کر سکوگے۔(۱)
یہی احساس شکر گذاری کے جذبہ کو بیدار کرتا ہے اور ہمیں اﷲ کی ذاتِ پاک کی معرفت کی دعوت دیتا ہے کیونکہ نعمتوں کا احساس انسان کو منعم کی شکرگزاری پر آمادہ کرتا ہے، شکر بندگی کی طرف لاتا ہے ۔ شکر کا پہلا درجہ د ل میں نعمتوں کا احساس ہے ،دوسرا زبان سے ان کا اقرار ہے اور تیسرا عمل سے ان کا اظہار ہے، اسی طرح ا نسا ن اپنے پورے وجود سے خالق کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرتا ہے اور مکمل اس کی بندگی میں آجاتا ہے۔
خالق کائنات انسان کے شکریہ کا محتاج نہیں ہے اور نہ ہی اس کا شکریہ ادا کرنے سے اس کی ذات میں کوئی فرق آئے گابلکہ اس نے اپنی نعمتوں کا شکریہ ادا کرنے کی دعوت اسی لیے دی ہے کہ بندوں پر اپنی نعمتیں زیادہ سے زیادہ کرے ۔ارشاد ہے:
’’لَءِنْ شَکَرتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ۔‘‘
اگر تم (میری نعمتوں کا) شکریہ ادا کروگے تو مزید عطا کروں گا۔(۲)
بندے اس کا شکر ادا کرنے سے قاصر ہیں ، کیونکہ شکر گذاری کی توفیق بھی خود ایک نعمت ہے اور شکر ادا کرنے کے ذرائع یعنی فکر ،ہاتھ اور زبان وغیرہ سب اسی کی نعمتیں ہیں ۔ اس بنا پر عاجزی کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے ۔
(ب) توحید اور صفات:
جناب زہراء علیہا السلام خالق کائنات کا شکر ادا کرنے کے بعد اس کی توحید کا تذکرہ کرتی ہیں کہ وہ ہی خدائے وحدہ لاشریک ہے اور لائق عبادت ہے۔ توحید کی روح وہی خلوص ہے ، اپنی روح کو غیر خدا سے پاک صاف رکھنا ، دل کی گہرائیوں میں اس کی محبت ، اس کے احکام کے سامنے سراپا سر تسلیم خم کرنا اور ہر وہ چیز جو اس کی مخالفت کا سبب ہو اس کو بھول جانا ، اس کے علاوہ کسی اور کا تصور بھی نہ کرنا ۔
توحید ابتدا ہی سے انسان کی فطرت میں ودیعت کردی گئی ہے۔ اﷲ کا یہ نور وجود کی گہرائیوں میں روشنی دئے رہا ہے لیکن ظاہری حوادث انسان کو غافل بنا دیتے ہیں۔ جب سخت طوفان آتے ہیں ، زندگی کا شیرازہ بکھرنے لگتا ہے ، غفلت کے پردے اٹھ جاتے ہیں ، بے خبر انسان ہوش میں آنے لگتا ہے اور بے اختیار خدا کی جانب بڑھنے لگتا ہے اور اسے ہی وحدہ لاشریک ماننے لگتا ہے ۔
خاتون جنت فرماتی ہیں کہ عقل و فکر کے لیے خالق کائنات کی ذات کی حقیقت سمجھنا محال ہے، اسی طرح ایک حدیث میں امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
کلما میزتموہ باوہامکم فی ادق معانیہ مخلوق مصنوع مثلکم مردود الیکم ۔
اسی طرح کوئی اس کی صفات کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا ہے۔۳
جس کے متعلق ارشاد رسول کریم(ص) ہے
’’ما عرفناک حق معرفتک۔‘‘
ہم تجھ کو اس طرح نہ پہچان سکے جس طرح معرفت کا حق ہے۔ ۴
اسی طرح امام زین العابدین علیہ السلام اپنی دعا میں ارشاد فرماتے ہیں:
’’ما عبدناک حق عبادتک ۔‘‘
اے خدا ! ہم اس طرح تیری عبادت نہ کر سکے جس طرح تیری عبادت کا حق ہے۔۵
(۲)تخلیق کائنات کا مقصد:
اصل
اس نے دنیا کی چیزوں کو ایجاد کیا بغیر اس کے کہ اس سے پہلے کسی چیز کا وجود ہو، ان سب کو پیدا کیا بغیر اس کے کہ اس سے پہلے کوئی مثال رہی ہو، ان کو اپنی قدرت سے بنایا ، اپنے ارادے سے خلق کیا بغیر اس کے کہ اس کو ان کی خلقت کی ضرورت رہی ہو، یا ان کی تخلیق سے اس کی ذات کو کوئی فائدہ پہنچتا ہو ۔ وہ صرف اپنی حکمت کو آشکار کرنا چاہتا تھا،اور طاعت و بندگی کی طرف توجہ دلانا چاہتا تھا، اور اپنی قدرت کا اظہار کرنا چاہتا تھا، مخلوق کو اپنی بندگی کے دائرہ میں لانا چاہتا تھا، اور(پیغمبر وں کے ذریعے) اپنی دعوت کو استحکام دینا چاہتا تھا۔پھر اس نے اپنی اطاعت کو باعث ثواب،اور معصیت کو موجب عذاب قرار دیاتاکہ اس کے بندے اس کے غضب سے بچے رہیں اور اس کی جنت کی طرف گامزن رہیں۔
مختصر تشریح
خاتون جنت نے خطبہ کے اس حصہ میں تخلیق کائنات کے سلسلے میں بہت اہم مسائل کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اختصار کے ساتھ ان کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
(۱لف) تخلیق کائنات کے سلسلے میں اہم مسئلہ یہ ہے کہ ابتدا ء میں کسی مادہ کا وجود نہیں تھا کہ اﷲ تعالیٰ اس مادہ سے دوسری چیزوں کو پیدا کرتابلکہ یہ تخلیق بلکل عدم سے وجود میں آئی ہے، اس طرح کی تخلیق صرف اﷲ کی ذات سے مخصوص ہے۔
(ب) اسی ذات نے اس کائنات کو پیدا کیا بغیر اس کے کوئی دنیا موجود ہویا کوئی تصویر موجود ہو جس کو اس نے دیکھا ہو۔بلکہ اس نے اس کائنات کو اپنی قدرت کاملہ سے بنایا ہے کیونکہ وہ کن فیکون کا مالک ہے ۔
(ج) خالق کائنات کو اِس کائنات کو بنانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی وہ ہر چیز سے بے نیاز ہے، وہ ہر اعتبار سے لا متناہی و لا محدود ہے لہٰذا اسے محدود چیزوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔جناب فاطمہ زہراء 235 نے تخلیق کائنات کا مقصدچند جملوں میں بیان فرمایا ہے، گویا کہ آپ ؑ نے ان میں معانی و مفاہیم کے دریا سمو دئے ہیں:
۱ اپنی بے پناہ قدرت کو ظاہر کرنے کے لیے۔
۲ بندوں کو اپنی اطاعت کی طرف بلانے کے لیے۔
۳ اپنی لامحدود قدرت کو ظاہر کرنے کے لیے ۔
۴ بندوں کو اپنی عبادت کی دعوت دینے کے لیے۔
۵ پیغمبروں کو تقویت پہنچانے کے لیے ۔
آخر میں فرماتی ہیں:اس کے بندوں میں سے جو بھی اس کی اطاعت کرے گا وہ ثواب کا مستحق ہو گا اور جنت اس کا ٹھکانا ہوگا۔ اگر کسی نے اس کی نافرمانی کی تو اس کو عذاب دیا جائے گااور وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں پائے گا۔
(۳)پیغمبر اکرم کی عظمت اور خصوصیات:
اصل
میں گواہی دیتی ہوں کہ میرے والد محمد(ص) اﷲ کے عبد اوراس کے رسول ہیں۔ اﷲ نے آپ(ص) کو رسول بنانے سے پہلے آپ ؐ کو برگزیدہ کیا تھا۔ اور آپ(ص) کو خلق کرنے سے پہلے یہ منصب عطا کیا اور مبعوث کرنے سے پہلے منتخب کیا۔جب مخلوقات ابھی پردہ غیب میں پوشیدہ تھیں ، ہولناک تاریکی میں گم تھیں اور عدم کی آخری سرحدوں سے متصل تھیں۔ اﷲ کو( اس وقت بھی) آنے والے امور کا علم تھا، اور رونما ہونے والے ہر واقعہ پر احاطہ تھا، اور وہ چیزوں کے مقدرات سے باقاعدہ واقف تھا۔
اﷲ نے آپ ؐ کو مبعوث کیا تاکہ اس کے احکام کی تکمیل کریں اس کے قوانین کو نافذ کریں اور حتمی ارادوں کو عملی شکل دیں۔جب آپ ؐ مبعوث ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ اقوام عالم نے مختلف مذاہب اختیار کر رکھے ہیں،کچھ اپنے آتشکدوں میں منہمک ہیں اور کچھ بتوں کی پوجا پاٹ میں مصروف ہیں ، انہوں نے اﷲ کو پہچاننے کے باوجوداس کا انکارکرلیا۔
پس اﷲ تعالیٰ نے میرے والد گرامی محمد ؐ کے ذریعے اندھیروں کو اجالا کردیا ،اور دلوں سے ابہام کو دور کر دیا، اور آنکھوں سے تیرگی کوختم کردیا۔
آپ ؐ نے لوگوں کی ہدایت کے لیے قیام کیا ، ان کو گمراہی و ضلالت سے نجات دلائی ، ان کی آنکھوں کو روشن کیا، دین (اسلام) کے محکم قوانین کی طرف ان کی ہدایت کی اور ان کو راہ راست کی طرف بلایا۔
اس کے بعد اﷲ تعالیٰ نے آپ ؐ کو اپنے پاس بلا لیا شوق و محبت اور اخیتار و رغبت کے ساتھ نیز (آخرت کی) ترغیب و ترجیح کے ساتھ۔ اور آپ ؐ کو اس دنیا کے رنج و غم سے آسودہ کیا ، اب مقرب فرشتہ آپ ؐ کے گرد حلقہ بگوش ہیں ، اور آپ ؐ رب غفار کی خوشنودی اور خدائے جبار کے جوارِ قرب میں ہیں۔اﷲ کی رحمت ہو اس نبی ؐ اور امین پر جو ساری مخلوقات سے منتخب و پسندیدہ ہیں ۔ اﷲ کا سلام اور اس کی رحمت اور برکتیں ہوں آپ ؐ پر۔
مختصر تشریح
جناب فاطمہ زہراء علیہا السلام نے خطبہ کے اس حصہ میں نہایت پر معانی اشارے کئے ہیں اور رسول اکرم ﷺ کے متعلق اہم مباحث کا تذکرہ کیا ہے۔ان میں سے چند کا تذکرہ پیش کیا جا رہا ہے۔
(الف)آپ ؐ کا وجود مقدس:
جناب زہراء علیہا السلام نے اس حصہ کی ابتدا میں رسول اکرم ؐ کے گوہر ممتاز کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے آپ ؐ کو کائنات کی تخلیق سے پہلے پیدا کیا ہے اور آپ ؐ ہی کی خاطر اس کائنات کو وجود ملا ہے۔ جس کی طرف قرآن و روایات میں اشارے کئے گئے ہیں۔
’’وَمَا اَرْسَلْنَاکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ ۔‘‘
ہم نے آپ ؐ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ۔۶
اسی طرح توریت و انجیل میں بھی اشارے کئے گئے ہیں۔ بہت سی احادیث ایسی ہیں کہ جن میں آپ ؐ کے گوہر ممتاز کو تخلیق کائنات سے پہلے بتایا گیا ہے۔ جیساکہ:
’’اول ما خلق اﷲ نوری۔‘‘
سب سے پہلے اﷲ نے میرے نور کو خلق کیا۔ ۷
اس حدیث میں نور مصطفی صلّی اﷲعلیہ و آلہ وسلّم کو تمام مخلوقات سے اول قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح ایک اور حدیث میں ارشاد ہے:
’’کنت اول الناس فی الخلق و آخرہم فی البعث۔‘‘
میں تمام لوگوں سے تخلیق میں سب سے پہلے ہوں اور آخر میں مبعوث ہوا ہوں۔۸
بلکہ یہاں تک کہ وجہ خلائق بھی آپ ؐ کی ہی ذات گرامی ہے:
’’لو لاک لما خلقت الافلاک۔‘‘
(اے پیغمبر ؐ) اگر آپ ؐ نہ ہوتے تو میں کائنات کو بھی خلق نہ کرتا۔۹
اﷲ تعالیٰ نے آپؐ کو اس وقت نبی ؐ بنایا تھا جب آدم علیہ السلام کا وجود ہی نہیں تھا۔ ارشاد ہے:
’’کنت نبیا اذا آدم بین الماء و الطین۔‘‘
میں اس وقت بھی نبی تھا جب آدم ؑ مٹی اور پانی میں تھا ۔۱۰
( یعنی پانی پانی تھا مٹی مٹی تھی ابھی آدم ؑ کا مجسمہ بھی نہیں بنا تھاتو اس وقت بھی اﷲ نے آپؐ کو نبی بنایا تھا۔)اسی طرح ایک اور حدیث میں ارشاد ہے:
’’کنت نبیا اذا آدم بین الروح و الجسد۔‘‘
میں اس وقت بھی نبی تھا جب آدم ؑ روح اور جسم کے درمیان تھا۔۱۱
(ب) آپ ؐ کی بعثت کا مقصداور بعثت سے پہلے لوگوں کی حالت:
جناب زہرہ علیہا السلام اس حصہ میں آپ ؐ کی بعثت کا مقصدبیان کرتی ہیں کہ آپ ؐ احکام خدا کی تکمیل اورالٰہی قوانین کا نفاذکرنے کے لیے مبعوث ہوئے۔ یہ اشارہ اس طرف ہے کہ آپ ؐ آخری نبی ؐ ہیں آپ ؐ کی شریعت کامل ہے۔ جس کی گواہی قرآن کریم میں اس طرح ہے :
’’ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وََ رضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا۔‘‘
آج میں نے تمہارا دین مکمل کردیا او ر تم پر اپنی نعمتیں تمام کردیں، اور تیرے دین اسلام سے راضی ہوا۔ ۱۲
بعثت سے پہلے لوگ مختلف مذاہب اور گروہوں ،قبیلوں اور قوموں میں بٹے ہوئے تھے ہر طرف گمراہی کی تاریکیاں چھائی ہوئی تھیں انسانیت کا کہیں کوئی نام و نشان تک نہیں تھا ۔
اسی طرف حضرت علی علیہ السلام نے اشارہ کیا ہے کہ:
’’اس وقت کرہ ارض کے باشندے متفرق قوموں میں بٹے ہوئے تھے، منتشر خیالات اور مختلف راہوں میں سرگراداں تھے ،کچھ اﷲ کو مخلوق کی مانند سمجھتے تھے اور کچھ غیر اﷲ کی طرف رجوع کرتے تھے۔ ایسے حالات میں اﷲ نے محمد ؐ کے ذریعے ان کو گمراہی سے ہدایت بخشی او آپ ؐ کے ذریعے انہیں جہالت سے بچالیا۔‘‘(نہج البلاغہ)
آپ ؐ نے ایسے حالات میں آکر لوگوں کو بیدار کیا انسانیت کو زندہ کیا اور تاریکیوں کے پردے چاک کر کے نور کا اجالا کیا۔ جس کی طرف قرآن میں یوں بیان کیا گیا ہے:
’’اآرٰ کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ بِاِذْنِ رَبِّھِمْ اِلٰی صِرَاطِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِ ۔‘‘
ا آر یہ عالی شان کتاب ہم نے آپ کی طرف اتاری ہے کہ آپ لوگوں کو اندھیروں سے اجالے کی طرف لائیں ان کے پروردگار کے حکم سے ،زبردست اور تعریفوں والے اللہ کی طرف۔۱۳
(ج) آپ ؐ کا انتقال:
اس حصہ میں جناب خاتون جنت نے پیغمبر اکرم ﷺکے انتقال کو فخریہ انداز میں پیش کیا ہے کہ آپ ؐ کی یہ شان ہے کہ آپ ؐ اپنی مرضی اور شوق و محبت سے بارگاہ الٰہی میں جانے کو ترجیح دی۔ ملک الموت بھی آپ ؐ کی اجازت کے بغیر گھر میں داخل نہ ہو سکا اجازت ملنے پر گھر داخل ہوئے اور روح قبض کرنے کی اجازت طلب کی، یہ شرف صرف نبی اکرم ﷺ کو ہی ملا ہے۔پس آپ ؐ کی روح کا طائر بلند پرواز ،جو مدتوں سے اس قفسِ بدن میں اور اس دار فانی میں مقید تھا اس نے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے بعداور کار رسالت کو انجام دینے کے بعد اس قفس کو توڑ کر محبوب کی فضا میں ابدیت کی طرف پرواز کی اور رحمت خدا میں آرام فرما ہوا اور آسمان کے بلند منزلت فرشتوں میں جلوہ افروز ہوا۔
(۴)مسلمانوں کی ذمہ داریاں اوراﷲ کی کتاب :
اصل
پھر اہل مجلس کی طرف متوجہ ہوئیں اور فرمایا:
اے اﷲ کے بندو ! تم ہی اﷲ کے اوامر و نہی کے مخاطب ہو، اس کے دین اور اس کی وحی کے حامل ہو، تم اپنے نفسوں پر اﷲ کے امین ہو، اور دوسری اقوام کی طرف اس کے مبلغ ہو، اس کی طرف سے برحق رہنما تمہارے درمیان موجود ہے اور اﷲ کا عہد و پیما ن جو تم سے پہلے ہی لیا جا چکا ہے۔
آپؐ نے ایک (گرانبہا) ذخیرے کو تمہارے درمیان جان نشین بنایاہے۔ اور اﷲ کی کتاب بھی ہمارے درمیان موجود ہے، یہ اﷲ کی ناطق کتاب ہے، یہ سچا قرآن ہے، یہ چمکتا نور ہے، یہ روشن چراغ ہے۔ ایسی کتاب جس کی دلیلیں روشن ، جس کے اسرار و رموز آشکار، جس کا ظاہر پر نور اور اس کی پیروی کرنے والے قابل رشک ہیں۔
ایسی کتاب جو اپنے عمل کرنے والے کو جنت میں لے جاتی ہے اور سننے والوں کو ساحل نجات تک رہنمائی کرتی ہے۔ اس کے ذریعے اﷲ کی روشن دلیلوں کو پایا جاسکتا ہے۔ اس کے واجبات کی تفسیر معلوم کی جا سکتی ہے۔ اس کے محرمات کی شرح حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس کی واضح دلیلیں روشن اور اس کے براہین کافی ہیں۔ مستحبات پر مشتمل اس کے فضائل کو اور جائز مباحات کو اور اس کے واجب دستور پایا جا سکتا ہے۔
تشریح
(الف)لوگوں کو اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ کرنا:
اس حصہ میں جناب زہراء علیہا السلام مسلمانوں سے مخاطب ہوتی ہیں کہ تم لوگ ہی سب سے پہلے ذمہ دار ہو اﷲ کے احکام پر عمل کرو ان کو دوسروں تک پہنچاؤ ، تم نے وحی الٰہی کو سنا ، اس کی تشریح رسول ﷺ نے تمہارے سامنے کی لہٰذا تمہاری ذمہ داری بنتی ہے کہ تم اس پیغام کو دوسری قوموں اور ملتوں کی طرف پہنچاؤ۔ جیسا کہ قرآن حکیم کی آیت ہے :
’’ کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ‘‘
تم بہترین امت ہو، لوگوں کی ہدایت کے لیے نکالے گئے ہو، تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائیوں سے روکتے ہو۔ اب اگر تم لوگوں نے کوتاہی کی اور تساہلی سے کام لیا تو اﷲ کے سخت عذاب کا انتظار کرو۔ ۱۴
تمہارے درمیان اﷲ کی طرف سے برحق رہنما (علی علیہ السلام) موجود ہے اور کچھ دن پہلے غدیر کے میدان میں اس کا تم سے عہد و پیمان بھی لیا جا چکا ہے کہ:
’’من کنت مولاہ فہٰذا علی مولاہ ۔‘‘
جس کا میں مولا ہوں علی اس کا مولا ہے۔ ۱۵
اس کے باوجود تم کہاں جا رہے ہو، کیوں سرگراداں ہو، راہ راست کو کیوں ترک کررہے ہو، تفرقہ و انتشار اور ضد وتعصب کے پھندوں کو اتار پھینکو، آؤ میدان غدیر میں اپنے کئے ہوئے عہد و پیمان پر عمل کرو اور اسی منتخب نمائندہ کے ساتھ مل کر اﷲ کے اوامر و نواہی کی تبلیغ کرو، اس کا ساتھ دو اور دین اسلام کو سربلند کرو وہی زعیم برحق تمہیں کامیابیوں کی بلندیوں کی طرف لے جائے گا۔
(ب) قرآن کی عظمت:
خاتون جنت نے خطبہ کے اس حصہ میں حدیث ثقلین کی طرف اشارہ کیا کہ پیغمبراکرم ﷺنے تمہارے درمیان قرآن و اہل بیت کو اپنا جان نشین بنایا ہے لہٰذا تمہیں چاہیے کہ ان دونوں کے ساتھ متمسک رہو۔ اس کے بعد قرآن کے فضائل بیان کرتی ہیں کہ یہ قرآن ناطق ہے جو ایک سچی کتاب ہے واضح روشنی دینے والی کتاب ہے، یہ ایک چمکتا ہوا نور ہے اس سے اپنے دلوں کو منور کرو، یہ ایک روشن چراغ ہے اسی سے راہ راست کی ہدایت حاصل کرو ، اسی سے درس عبرت حاصل کرو، اس کا ظاہر بہت خوبصور ت اور پُر نور ہے۔ جس کا باطن واضح اور ثمر بار ہے ۔ جس کی دلیلیں اطمینان بخش اور نجات دینی والی ہیں۔ یہ ایک ایسی بابرکت کتاب ہے جو اپنے پیروکار کو جنت کی طرف لے جاتی ہے۔
(۵)احکام شریعت اور ان کا فلسفہ:
اصل
اﷲ نے ایمان کو تمہیں شرک سے پاک کرنے کا ذریعہ قرار دیا۔نماز کو فرض کیا تمہیں تکبر و غرور سے محفوظ رکھنے کے لیے۔زکوٰۃ کو نفس کی پاکیزگی اور رزق میں اضافے کا سبب بنایا۔ روزہ کو اخلاص کے اثبات کا ذریعہ بنایا۔حج کو فرض کیا دین کو تقویت دینے کے لیے۔ عدل و انصاف کو واجب قرار دیا دلوں کو جوڑنے کے لیے۔ہماری اطاعت کو ملت کے نظام کا وسیلہ قرار دیا۔ اختلافات سے محفوظ رہنے کے لیے ہماری امامت کو واجب قرار دیا۔جہاد کو اسلام کی سربلندی کا ذریعہ بنایا، صبر کو حصول ثواب کا سبب بنایا۔امر بالمعروف کو عوام کی بھلائی کا ذریعہ بنایا۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک کو قہر الٰہی سے بچنے کا ذریعہ بنایا۔ صلہ رحمی کو واجب قرار دیاعمر کی دارزی اورافرادی کثرت کے لیے۔قصاص کو قرار دیا جان کی حفاظت کے لیے۔وفائے عہد کو لازم قرار دیا گناہوں کی مغفرت کے لیے۔ کم بیچنے کو حرام قرار دیا کمی سے محفوظ کرنے کے لیے، شراب کو حرام کیا نجاستوں سے دور رہنے کے لیے، تہمت کو ناجائز کیا لعنت (اﷲ کے عذاب ) سے محفوظ رہنے کے لیے ، چوری کو حرام کیا عفت نفس کے لیے، شرک کو حرام کیا اپنی ربوبیت کو خالص بنانے کے لیے۔
مختصر تشریح
احکام کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے مختصر عبارت میں مفاہیم کے دریا سمو دیئے ہیں ۔ ایمان سے نذر کی وفا تک ، توحید سے کم فروشی تک ہر ایک کو ایک ایک جملہ میں اس طرح بیان کردیا کہ گویا کوزے میں سمندر کو بند کردیا ہے۔
(۱)ایمان:
کتنا عظیم جملہ ہے یہ کہ اﷲ نے ایمان کو تمہیں شرک سے پاک کرنے کا ذریعہ قرار دیا۔ یہ جملہ اس حقیقت کو بیان کر رہا ہے کہ توحید کی حقیقت اور اﷲ کی معرفت ہر انسان کی فطرت میں موجود ہے۔یعنی انسان فطری طور پر موحد ہے لیکن حالات اسے بدل دیتے ہیں۔ ایک حدیث میں اس کی طرف اشارہ ہے کہ :
’’ کل مولود یولد علی الفطرۃ فابواہ یہودانہ او ینصرانہ او یمجسانہ۔‘‘
ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے پس اس کے والدین اسے بنا دیتے ہیں یہودی ، عیسائی یا مجوسی اور شرک کی کثافت ایک عارضی نجاست ہے ۔
اسلام آیا ہی اسی لیے ہے کہ دلوں کو پاکیزہ بنائے اور زمین کو کفر و شرک کی نجاستوں سے پاک کرے۔
(۲)نماز:
نماز اﷲ تعالیٰ کی کبریائی کا عملی اعتراف ہے ۔ جب بندہ اﷲ کی کبریائی کا معترف ہو جائے تو وہ تکبر و غرور کا تصور بھی نہیں کر سکتا اور عاجزی و انکساری اس کے وجود میں شامل ہو جائے گی ۔
(۳)زکوٰۃ:
زکوٰۃ اسی لیے فرض کی گئی تاکہ انسان کا مال پاکیزہ ہو جائے یہی تعبیر قرآن کریم میں بھی موجود ہے کہ :
’’خُذْمِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُمْ وَ تُزَکِّیْہِمْ۔‘‘
ان کے اموال میں سے صدقہ (زکوٰۃ ) لیجئے اس کے ذریعے آپ ؐ ان کے اموال کو پاکیزہ اور بابرکت بنائیں۔ ۱۷
زکوٰۃ انسان کو مالی غلامی سے آزاد کراتی ہے اور دنیا کی قید و بند سے نجات دلاتی ہے اور اس طرح معاشرے کے محروم افراد اقتصادی استحکام پاکر ترقی کرنے لگتے ہیں۔
(۴)روزہ:
عبادات میں روزہ اخلاص کی خصوصی علامت اس لیے ہے کہ باقی عبادات کا مظاہرہ عملاً ہوتا ہے ، جن میں ریاکاری کا امکان رہتا ہے مگر روزہ دار کے بارے میں صرف اﷲ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ اس نے روزہ کی حالت میں کچھ کھایا یا پیا نہیں ہے۔حدیث قدسی میں ارشاد ہے کہ:
’’ الصوم لی و انا اجزی علیہ۔‘‘
روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔ ۱۸
(۵)حج:
حج کی عظیم الشان اور عالمی کانفرنس اسلام کے استحکام اور تقویت کے لیے قرار دی تاکہ فکری، ثقافتی ، عسکری اور سیاسی میدان میں مسلمان ایک دوسرے کو تقویت پہنچا سکیں ۔ جب مسلمان طاقتور ہوں گے تو خود بخود اسلام طاقتور بن جائے گا۔
(۶)عدل:
عدل و انصاف کے ذریعے دلوں سے دیرینہ دشمنی بغض و عناد کو دور کیا ،بد امنی کو امن میں تبدیل کر دیاکیونکہ جب ہر انسان کو اس کا حق ملے گا اور اس کے ساتھ عدل و انصاف کیا جائے گا تو یقیناًپورا معاشرہ امن کا گہوارہ بن جائے گا اور تمام لوگ دلی اعتبار سے ایک دوسرے سے محبت کریں گے۔
(۷، ۸)اطاعت و امامت اہل بیت (ع):
اﷲ تعالیٰ نے اہل بیت اطہار علیہم السلام کومسلمانوں کا رہبر قرار دے کرمعاشرتی نظام کی سلامتی کی ضمانت لی تاکہ لوگ توحید کے راستے پر چل سکیں اور ہر طرح کے نفاق و افتراق سے دور رہیں۔اگر امت اسلامیہ اہل بیت ؑ کی امامت پر مجتمع ہوجاتی تو اس امت میں تفرقہ و انتشار وجود میں نہ آتا اور امت محمدیہ ؐ میں جو بھی تفرقہ وجود میں آیا ہے وہ اہل بیت اطہار(ع) کے ساتھ محض حسدو عداوت کی وجہ سے آیا ہے۔
(۹)جہاد:
خاتون کائنات فرماتی ہیں کہ اﷲ نے جہاد کو فرض کیا تاکہ اسلام سربلند ہو ۔ کیونکہ جہاد کے ذریعے دشمنان اسلام اور ظالموں کو نیست و نابود کیا جاتاہے ۔ جہاد کے متعلق حضرت علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:
’’واﷲ ما صلحت دین و دنیا الا بہ۔‘‘
اﷲ کی قسم دین اور دنیا کی فلاح و بہبود صرف جہاد کے ذریعے ممکن ہے۔۱۹
(۱۰)صبر:
صبر کے متعلق جناب زہرہ علیہا السلام فرماتی ہیں کہ اﷲ نے صبر کو اسی لیے قرار دیا ہے تاکہ اس کے ذریعے زیاہ سے زیادہ اجر و ثواب حاصل کیا جائے۔
(۱۱)امر بالمعروف و نہی عن المنکر:
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اصلاح معاشرہ کے لیے اسلام کا ایک زرین اصول ہے جس پر عمل پیرا ہونے والے کی صورت میں ایک متوازن سوچ کا حامل باشعور معاشرہ وجود میں آتا ہے۔جس میں کسی ظالم کو ظلم کرنے اور کسی استحصالی کواستحصال کرنے کا موقعہ نہیں ملتا کیونکہ ایک آگاہ اور باشعور معاشرہ ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ اگر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک کیا گیا تو ہر قسم کے ظلم و استحصال کو کھلی چھوٹ مل جائے گی۔
(۱۲)والدین کے ساتھ نیکی:
والدین کے ساتھ حسن سلوک کو جناب زہرہ علیہا السلام نے غضب الٰہی سے بچنے کا ذریعہ کہا ہے۔ اسی طرح ایک حدیث میں بھی ارشاد ہے کہ:
’’من اسخط والدیہ فقد اسخط اﷲ و من اغضبہما فقد اغضب اﷲ۔‘‘
جس نے والدین کو ناراض کیا اس نے اﷲ کو ناراض کیا اور جس نے والدین کو غصہ دلایا اس نے اﷲ کو غصہ دلایا۔۲۰.
(۱۳) صلہ رحم:
صلہ رحمی کرنے سے انسان کی عمر میں اضافہ ہوتو مال میں کثرت ہو تی ہے اور اس سے افرادی قوت بھی بڑھ جاتی۔
(۱۴) قصاص:
خاتون جنت نے قصاص کو خونریزی کو روکنے کا ذریعہ کہا ہے۔ یہی گواہی قرآن مجید میں بھی موجود ہے کہ :
’’وَ لَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوۃٌ یَّاُولِی الْاَلْبَابِ۔‘‘
اے صاحبانِ عقل ! تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے ۔۲۱
(۱۵) ناپ تول:
ناپ تول میں کمی عذاب الٰہی کا باعث بنتی ہے اس لیے جناب زہراء 235 نے اس سے منع فرمایا ہے ۔
اسی طرح قرآن میں بھی حکم ہے کہ:
’’وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَ۔‘‘
تباہی و بربادی ہے ان لوگوں کے لیے جو کم فروشی کرتے ہیں۔ ۲۲
اور کم فروشی کی ہی وجہ سے حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم پر عذاب نازل ہوا ۔
(۱۶) شراب نوشی:
اﷲ تعالیٰ نے شراب نوشی کی حرمت کو گناہ کی آلودگیوں سے بچنے کا ذریعہ بنایا ہے۔امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں رسول ؐاﷲ نے شراب نوشی کے متعلق دس افراد پر لعنت بھیجی ہے ۔وہ یہ ہیں:
اس کی زراعت کرنے والا، اس کی حفاظت کرنے والا، اس کوبیچنے والا، اس کو خرید کرنے والا، اس کو پینے والا، اس کا مالی فائدہ اٹھانے والا، اس کو نچوڑنے والا، اس کو اٹھاکر لے جانے والا اور وصول کرنے والا اور اس کو پلانے والا۔۲۳
(۱۷) بہتان تراشی:
بہتان تراشی کے متعلق قرآن کریم میں ارشاد ہے:
’’اِنَّ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ الْغٰفِلٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ لُعِنُوْا فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ وَلَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ۔‘‘
جو لوگ بے خبر پاک دامن عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں ان پر دنیا و آخرت میں لعنت ہے اور ان کے لیے عذاب عظیم ہے۔۲۴
(۱۸) چوری:
چوری کے بارے میں قرآن میں حد بیان ہوئی ہے کہ:
’’وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْٓا اَیْدِیَہُمَاجَزَآءً بِمَا کَسَبَا نَکَالًا مِّنَ اﷲِ وَا ﷲُ۔‘‘
چوری کرنے والے مرد اور عورت کا ہاتھ کاٹ ڈالو ، یہ ان کے کئے کی سزا ہے اور اﷲ کی طرف سے تنبیہ ہے۔۲۵
(۱۹)شرک:
شرک ایک ناقابل معافی گناہ ہے ، جس کی کوئی بخشش نہیں ہے اس کے علاوہ تمام گناہ بخشے جا سکتے ہیں ۔ لہٰذا اس سے بچنے والا انسان توحید پرست ہوتا ہے وہ اﷲ تعالیٰ کو اس کی ذات اور صفات تمام میں واحد و یکتا مانتا ہے۔
(۶۰) حکومت کے مقابلے میں اپنا موقف :
اصل
لوگو! تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ میں فاطمہ ؑ ہوں اور میرے بابا محمد ؐ ہیں اﷲ کا درود و سلام ہو ان پر، جو کچھ میں کہہ رہی ہوں اس کا آغاز و انجام ایک ہے (میں متضاد باتیں نہیں کہتی ہوں ) جو کچھ میں کہہ رہی ہوں وہ غلط نہیں ہے ، اور نہ میرے عمل میں خطا و لغزش کی آمیزش ہے۔
ب
بتحقیق تمہارے پاس خود تم ہی میں سے ایک رسول آیا ، تمہیں تکلیف میں دیکھنا اس پر شاک گزرتا ہے ، وہ تمہاری بھلائی کا نہایت خواہاں ہے اور مؤمنین کے لیے نہایت شفیق و مہربان ہے۔(سورۃ توبہ ۱۲۸)
اگر تم اس کا نسب تلاش کرو تو تمہیں معلوم ہوگا کہ میرے والد تھے تمہاری عورتوں میں سے کسی کے نہیں ،وہ میرے چچا کے فرزند کے بھائی تھے نہ کہ تم لوگوں کے، کتنا لائق افتخار ہے یہ سلسلہ نسب ۔ خدا کا درود و سلام ہو ان پر اور ان کے خاندان پر۔
ہاں وہ تشریف لائے اور انہوں نے اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی انجام دیا۔لوگوں کو خطرات سے آگاہ کیا۔آپ ؐ نے مشرکین کی روش کو پس پشت ڈال دیا ، ان پر کمر شکن ضرب لگائی اور ان کی گردنوں کو مروڑ دیا، ان کے گلوں کو گھوٹا تاکہ وہ شرک سے دستبردار ہوجائیں اور توحید کے راستے پر آجائیں۔
پھر حکمت اور موعظہ حسنہ کے ساتھ اپنے رب کی طرف بلایا ۔ بتوں کو پاش پاش کردیا اور طاغوتوں کو اس طرح سرنگوں کیا کہ وہ شکست کھا کر راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہو گئے۔یہاں تک کہ رات کی تاریکی دور ہو گئی اور صبح امید کی روشنی پھیل گئی، حق واضح ہوگیا اور دین کے پیشوا نے زبان کھولی۔شیطان کی زبان کو لگام دے دی۔منافق جماعت کی ہلاکت یقینی ہو گئی۔ کفر و شقاوت کے بند ٹوٹ گئے۔ چند معزز فاقہ کش ہستیوں کی معیت میں تم کلمہ توحید کا اقرار کرنے لگے۔
ہاں اس وقت تم آگ کے گھڑے کے دہانے پر تھے، اتنے مختصر تھے جیسے پیاسے کے لیے ایک گھونٹ پانی ، یا بھوکے کے لیے ایک نوالہ ، یا جلدی میں اٹھائی جانے والی چنگاری ، یاقدموں کے نیچے پاما ل ہونے والے خس و خاشاک تھے۔ان دنوں تمہارا پینے کا پانی گندا اور بدبو دار تھا ، تمہاری غذا درختوں کے پتے تھے ، تم (اس طرح)ذلت و خوار میں زندگی بسر کرتے تھے۔ تم ہمیشہ اس بات سے ڈرتے رہتے تھے کہ کہیں تمہارا طاقتور دشمن تم پر حملہ نہ کردے اور تم کو اچک نہ لیں۔
پھراﷲ تعالیٰ نے ایسے حالات میں تمہیں محمد ؐ کے ذریعے نجات دلائی۔انہوں نے بہادروں اور زور آورں ، عرب کے بھیڑیوں اور سرکش اہل کتاب کا مقابلہ کیا۔انہوں نے جتنازیادہ جنگ کی آگ کو بھڑکانا چاہا اﷲ تعالی نے اس کو بجھا دیا۔جب بھی شیطان ظاہر ہوتا تھا اور مشرکین کا فتنہ پھیلنے لگتا تھا اس وقت میرے والد اپنے بھائی (علیؑ ) کو ان کے مقابلے میں بھیجتے تھے۔ وہ ان لوگوں کے غرور کو اپنے پیروں تلے پامال کئے بغیر اور اپنی تلوار سے اس آتش کو فرو کئے بغیر واپس نہیں لوٹتے تھے۔وہ راہ خدا میں جان فشاں تھے، اﷲ کے معاملے میں مجاہد تھے، رسول اﷲ کے نہایت قریبی تھے اور اولیاء اﷲ کے سردار تھے۔ وہ (جہاد کے لیے) ہمہ وقت کمر بستہ ، امت کے خیر خواہ ، محکم عزم کے مالک اور راہ حق میں جفاکش تھے۔وہ راہ خدا میں کسی ملامت کرنے والی کی پرواہ نہیں کرتے تھے۔ مگر تم ان دنوں عیش و آرام کی زندگی بسر کرتے تھے ، نیز سکون اور خوشی میں امن و امان کے ساتھ رہتے تھے۔ تم اس انتظار میں رہتے تھے کہ ہم پر مصیبتیں آئیں اور تمہیں بری خبریں سننے کو ملیں، تم جنگ کے وقت پسپائی اختیار کرتے تھے اور لڑائی میں راہ فرار اختیار کرتے تھے۔
مختصر تشریح
(الف)اپنا تعارف:
حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلام نے خطبہ کے اس حصہ میں سب سے پہلے اپنا تعارف کرایا حالانکہ ان لوگوں کو علم تھا کہ فاطمہ کون ہیں۔ یہ وہی فاطمہؑ ہیں کہ جس کی شان میں آیت تطہیر، آیت مباہلہ اور سورۃ الدہر وغیرہ نازل ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ ان لوگوں نے رسول پاک صلّی اﷲ علیہ و آلہ وسلم سے جناب زہراء ﷺ کی منزلت و عظمت اور فضائل کے بارے میں بہت سے فرامین سن چکے تھے جن میں سے چند یہ ہیں :
’’الفاطمۃ سیدۃ نساء العلمین و سیدۃ نساء اہل الجنۃ۔‘‘ ۲۶
فاطمۃ بضعۃ منی من اغضبہا اغضبنی۔‘‘۲۷
’’انما فاطمۃ بضعۃ منی یوذینی ما آذاہا۔‘‘ ۲۸
’’فاطمۃ بضعۃ منی یوذینی ما اذاہا و ینصبنی ما انصبہا۔‘‘۲۹
پس جناب خاتون جنت نے اپنا تعارف اس لیے کرایا کہ ان لوگوں پر حجت تمام ہوجائے اور بہانے تراشنے کی کوئی گنجائش نہ رہے۔ اور یہ بھی واضح کردیا کہ حضرت علی ۔اور رسول اکرم ﷺ ایک دوسرے سے کتنے قریب ہیں اور ساتھ ہی اپنی گفتگو کی اہمیت بھی بتلا دی کہ میں کوئی غلط بات نہیں کر رہی ہوں لہٰذا تم میری بات کو غور سے سنو اور اپنی عظیم ذمہ داریوں کا احساس کرو۔
(ب) رسول ؐ اﷲ کی غیر معمولی ہمدردی:
اس کے بعد جناب خاتون جنت علیہا السلام رسول اﷲ صلّی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کی ان لوگوں کے ساتھ غیر معمولی ہمدردی کا تذکرہ کرتی ہیں کہ آپ ؐ نے کس قدر تمہارے لیے زحمتیں برداشت کیں ،تمہارے رنج و غم میں شریک رہے، ہمہ تن تمہاری ہدایت کے خواہاں تھے اور تمہارے لیے نہایت مہربان اور رحم دل تھے لہٰذا آج اسی رسول ؐ کی بیٹی تکلیف میں ہے اور تمہیں مدد کے لیے پکار رہی ہے اور تم امداد کو نہیں پہنچ رہے ہو۔
(ج) رسول ؐ اﷲ کی غیر معمولی زحمتیں:
پیغمبر اکرم صلّی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلّم طاقت و ہمت کے بارے میں فرماتی ہیں کہ آپ ؐ تن تنہا اس عظیم کام کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ، ذرہ برابر بھی گھبرائے نہیں، ظالموں کو سرنگوں کیا، تکبر کرنے والوں کو خاک میں ملا دیا ،دشمنوں کی طاقت کو توڑدیا، ان کے بت خانوں کو ویران کردیا ، دشمنان خدا کو پریشان کردیا ، ظلمتوں کو ختم کر کے نور کا اجالا کر دیا ، حق کو نمایاں کیا ، شمع حقیقت کو فروزاں کیا جس کی وجہ سے دشمنوں نے راہ فرار اختیار کی اور لوگوں میں اتنی ہمت ہوئی کہ انہوں نے کفر کے دریا میں کلمہ لا الہ الا اﷲ کے چراغ کو روشن کیا۔
(د)اسلام سے پہلے اور ابتدا میں لوگوں کے حالات:
خاتون جنت علیہا السلام ان لوگوں کو وہ وقت یاد دلا رہی ہیں جب ان کی تعداد تھوڑی تھی۔ ہر طرف وحشتوں کا طوفان تھا ایک طرف پرانی بت پرستی اور شرک کے وسوسے تھے جو کبھی کبھی تمہارے ذہنوں میں فتور پیدا کرتے تھے ، تم شک و تردید میں مبتلا ہو جاتے تھے، تمہیں جہنم کے کنارے کی طرف کھینچ کر لے جاتے تھے ۔ دوسری طرف طاقتور ، بے رحم اور سنگ د ل دشمن تھے اور ہر طرف سے تم کو گھیرے ہوئے تھے، ایسا لگتا تھا کہ پلک جھپکتے ہی تم کو نیست و نابود کر دیں گے اور تمہیں کچل ڈالیں گے۔
اس وقت تمہارا پینے کا پانی گندا ، بدبو دار اور متعفن تھا کوئی چیز تمہیں میسر نہیں آتی تھی تم ہمیشہ اپنے مستقبل کے متعلق خوفزدہ رہتے تھے ۔ ان واقعات کی طرف حضرت علی علیہ السلام نے یو ں اشارہ کیا ہے:۔ ’’ اے گروہ عرب ! اس وقت تم بد ترین دین پر تھے اور بدترین گھروں میں تھے ۔ کھر درے پتھروں اور زہریلے سانپوں میں تم بود و باش رکھتے تھے۔ گدلا پانی پیتے تھے اور بدترین غذا کھاتے تھے اپنا خون بہاتے تھے اور قطع رحمی کیا کرتے تھے۔‘‘ ۳۰
لیکن زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ فتنہ کی آگ خاموش ہو گئی ، طوفان ختم ہو گیا ظالموں نے راہ فرار اختیار کی اسلام سر بلند ہو گیا۔مختصر اور کمزور طبقا مسلط ہو گیا اور طاقتور طبقہ نیست و نابود ہوگیا۔
خاتون کائنات علیہا السلام نے اس حساس دور کو یاد دلایا جس میں مؤمنین کے لیے ایک دن ایک صدی کے برابر تھاتاکہ وہ اﷲ تعالیٰ کی ان بے پناہ نعمتوں کو یاد کریں ، ا ن کی ناشکری نہ کریں ، ہمیشہ خداکے معین کردہ راستوں پر چلیں اور حکومت وقت کی طرف سے ایجاد کردہ فضا میں حواس باختہ نہ ہوجائیں۔
(ھ)حضرت علی علیہ السلام کی قربانیاں:
خطبہ کے اس حصہ کے آخر میں خاتون جنت ؑ حضرت علی علیہ السلام کی بے پناہ قربانیوں کا تذکرہ کرتی ہیں کہ انہوں نے خطرناک ترین مواقع پر اسلام کی مدد کی جب بھی آپ ؐ انہیں بھیجتے تھے تو وہ غیر معمولی جاں نثاری ، وفاداری اور قربانی کے ساتھ دشمنوں کا مقابلہ کرتے تھے۔وہ ان کی بھڑکائی ہوئی آگ میں جا کر اس کو بلکل ٹھنڈا کر کے خاموش کرتے تھے۔سرکشوں کے سروں کو اپنی تلوار سے کاٹ دیتے تھے۔ ان کے غرور کو خاک میں ملا دیتے تھے۔ لہٰذا ایسا ہی شخص اس انقلاب کو ادھر ادھر منحرف ہونے سے روک سکتا ہے۔ تم اسے ہی اپنا پیشوا بنا لو گمراہی سے بچ جاؤ گے ۔ کیونکہ وہ راہ خدا میں جانفشانی کرنے والے مجاہد اور رسول ؐاﷲ کے قریبی ، اولیاء اﷲ کے سید و سردار ہیں اور وہ اﷲ کے معاملہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرتے اور نہ شرماتے ہیں۔
*****
حوالہ جات
(۱)القرآن ،البراہیم ، ۳۴)
(۲)القرآن ،البراہیم ، آیت:۷)
(۳)بحار الانوار،ج ۱۱۰، ص۳۴)
(۴)بحار الانوار، ج ۱۱۰، ص۳۴)
(۵)صحیفہ کاملہ : دعا نمبر ۳، ص ۳۵)
(۶)القرآن ،الانبیاء، آیت: ۱۰۷)
(۷)بحارالانوار، ج ۱ ، ص ۹۷)
(۸)جامع الصغیر ، ج۲ ، ص۲۹۶)
(۹)مناقب ابن شہر آشوب، جلد ۱، صفحہ۱۸۶)
(۱۰)مناقب ابن شہر آشوب، جلد ۱، صفحہ۱۸۳)
(۱۱)المصنف ۔ ابن ابی شعبہ ، ج ۸، ص۴۳۸)
(۱۲)القرآن ،المائدہ، آیت: ۳)
(۱۳)القرآن،البراہیم ، آیت: ۱)
(۱۴) القرآن آلعمران: آیت: ۱۱۰)
(۱۵)الکافی ، جلد ۱، صفحہ ۲۸۷)
(۱۶)صحیح البخاری، جلد۲، صفحہ۱۰۴ )
(۱۷)القرآن ،التوبہ ، آیۃ ۱۰۳)
(۱۸)کافی، جلد، ۴ صفحہ ۶۳)
(۱۹)بحار الانوار، جلد ۳۲، صفحہ ۵۶)
(۲۰)مستدرک الوسائل ، جلد ۱۵، صفحہ۱۹۳)
(۲۱)القرآن،البقرۃ ، آیۃ ۱۷۹)
(۲۲)القرآن،المطففین، آیۃ: ۱)
(۲۳)الکافی، جلد ۶، صفحہ ۴۲۹)
(۲۴)القرآن،النور، آیۃ ۲۳)
(۲۵)القرآن،المائدہ : آیۃ ۳۸)
( ۲۶)صحیح البخاری، جلد ۴ ، باب المناقب ، صفحہ ۱۸۳و ۲۰۹)
(۲۷) ایضا ،ص ۲۱۰
(۲۸)صحیح المسلم ، جلد ۷، صفحہ ۱۴۱)
(۲۹)سنن الترمذی، جلد ۵، صفحہ ۳۶۰)
(۳۰)نہج البلاغہ ، خطبہ :۲۶، جلد ۱، ص ۶۶، تحقیق شیخ محمد عبدہ، طبع: دارالمعرفت بیروت)
المراجع والمصادر
(۱) ابو الفضل احمد ابن ابی طاہر المعروف بابن طیفور (المتوفی ۲۸۰ھ) ’’بلاغات النساء‘‘
المطبعۃ دار الشریف الرضی ،قم المقدس ایران ۔
(۲) احمد ابن ابی یعقوب بن جعفر ابن وہب ابن واضح بن الکاتب العباسی (المتوفی۲۸۴ھ )
’’ تاریخ یعقوبی ‘‘ طبع : دار الصادر بیروت ، لبنان ۔
(۳) ابوبکر احمد ابن عبد العزیز الجوہری البصری البغدادی (المتوفی ۳۲۳ ھ) ’’ السقیفہ و فدک ‘‘
طبع الثانی ، شرکۃ الکتبی بیروت ، لبنان ۔
(۴) ابو الحسن علی ابن حسین المسعودی الشافعی (المتوفی ۳۴۶ھ ) ’’مروج الذہب‘‘ ،
المطبعۃ البہیۃ المصریۃ مصر ۱۹۲۷ ء
(۵) ابو الفرج علی ابن حسین الاصبہانیالاموی المتوفی (۳۵۶ ھ): ’’مقاتل الطالبین ‘‘،
طبع ثانی: مکتبۃ الحیدریۃ نجف،۔
(۶) احمد ابن علی ابن ابی طالب الطبرسی(متوفی ۵۶۰ ھ) نے اپنی کتاب : ’’احتجاج طبرسی‘‘،
طبع : نجف الاشرف، سال ۱۹۶۶ع،
(۷) ابو جعفر محمد ابن علی المعروف شیخ صدوق ؒ (متوفی ۳۸۱ھ): ’’علل الشرئع ‘‘، طبع نجف اشرف ،
سال ۱۳۸۶ھ ۱۹۶۶ع ،
(۸) ابو جعفر محمد ابن علی المعروف شیخ صدوق ؒ (متوفی ۳۸۱ھ): ’’معانی الاخبار ‘‘ ،طبع ،
انتشارات اسلامی قم ایران ۔
(۹) القاضی ابو حنیفہ النعمان بن محمد التمیمی المغربی (۳۶۳ ھ): ’’شرح الاخبار فی فضائل ائمہ الطہار‘‘
التحقیق : السید محمد الحسینی الجلالی، الناشر : موسسۃ النشر الاسلامی التابعۃ لجماعۃ من المدرسین قم
(۱۰) ا بن طاؤس رضی الدین ابو القاسم علی ابن موسی الحلی (المتوفی ۶۶۴ ھ)اپنی کتاب:
’’ الطرائف فی معرفۃ مذاہب الطوائف‘‘، طبع اول ، سال ۱۳۷۱ھ مطبعۃ الخیام ، قم ۔ ایران۔
(۱۱) الامام الحافظ رشید الدین ابو عبد اﷲ محمد ابن علی ابن شہر آشوب ابن ابی نصر ابن ابی حبیش السروی
المازندرانی (المتوفی ۵۸۸ ھ) : ’’مناقب آل ابی طالب‘‘ ، طبع نجف ، ۱۳۷۶ھ ۱۹۵۶ع
(۱۲) امام محمد بن اسماعیل بخاری(المتوفی ۲۵۶ھ) :’’صحیح البخاری‘‘،ناشردار الفکربیروت،سنۃ ۱۴۰۱ھ
(۱۳) امام مسلم بن حجّاج ا لقشیری : ’’صحیح مسلم ،‘‘ ناشر دار الفکر بیروت ۔ لبنان۔
(۱۴) البلاذری احمد ابن یحیی بن جابر :’’فتوح البلدان‘‘،طبع ثانی ۱۳۷۹ھ ، مکتبۃ النہضۃ المصریۃ القاہر ہ ۔
(۱۵) الترمذی محمد ابن عیسی (متوفی ۲۷۹ ھ): ’’سنن الترمذی‘‘، دار الفکر بیروت ، سنۃ ۱۴۰۳ھ
(۱۶) الشریف مرتضی علی ابن حسین الموسوی (المتوفی ۴۳۶ ھ) : ’’الشافی فی الامامۃ ‘‘
طبع ثانی ۱۴۱۰ھ، موسسہ اسماعیلیان، قم۔ ایران
(۱۷) شمس الدین ابو البرکات محمد ابن احمد الدمشقی الباعونی الشافعی(المتوفی ۸۷۱ھ) :
’’ جواہر المطالب فی مناقب الامام الجلیل علی ابن ابی طالب‘‘،
طبع اول سال ۱۴۱۵ھ ناشر مجمع احیاء الثقافۃ الاسلامیۃ ،قم المقدس ،ایران،
(۱۸) الشیح محمد باقر المجلسی (المتوفی۱۱۱۱ھ )’’بحار الانوار‘‘، ناشر مؤسسۃ الوفاء بیروت لبنان،
الطبع الثانیہ ، سنۃ ۱۹۹۳ع
(۱۹) علامہ عز الدین ابن ابی الحدید المعتزلی البغدادی(المتوفی ۶۵۶ھ) : ’’شرح نہج البلاغہ‘‘،،
طبع ثانی، دارالاحیاء الکتب العربیہ مصر ۱۹۶۷ ء
(۲۰) علی ابن عیسی اربلی (المتوفی ۶۹۳ھ) :’’ کشف الغمۃ فی معرفۃ الائمۃ‘‘، طبع ثانی،
سال ۱۴۰۵ ھ ۱۹۹۸ع دارالاضواء، بیروت لبنان۔
(۲۱) محمد ابن جریر ابن رستم الطبری الشیعی (متوفی۵ ھ):’’ دلائل الامامۃ‘‘، طبع اول ۱۴۱۳ھ
ناشر مؤسسۃ البعثۃ ، قم ۔ ایران
(۲۲) محمد یعقوب کلینی(المتوفی ۳۲۹ھ) :" اصول کافی " ناشر دارالکتب اسلامیہ طہران،
طبع چہارم ،سال ۱۳۶۵ھ ش
http://nmt.org.pk/nooremarfat/item/67-%D8%AE%D8%B7%D8%A8%DB%81-%D9%81%D8...
Add new comment