باغ فدک۔۔۔۔ٹی وی شیعہ رپورٹ

اس کے علاوہ انہوں نے آنحضرت ۖ کے حصہ کی زمینوں کی کاشتکاری بھی اپنے ذمہ لی، اپنی کاشتکاری کی زحمت کی اجرت وہ آنحضرت ۖ سے وصول کرتے تھے۔ا

 

تاریخ اسلام کاایک اہم واقعہ ـ واقعہ فدکـ ـ ہے۔اس سلسلے میں گفتگو کرنے سے پہلے ہمیں فدک کے محل وقوع اس کی تاریخ اور شرعی حیثیت کا درست علم ہونا چاہیے۔جغرافیائی اعتبار سے فدک خیبر کے نزدیک ایک آباد قصبہ تھا جس میں یہودی رہتے تھے اور تاریخی اعتبار سے جب سات ہجری میں خیبر کے قلعے یکے بعد دیگرے اسلامی فو جو ں نے فتح کرلئے اور یہودیوں کی مرکزی قوت ٹوٹ گئی تو فدک کے رہنے والے یہودی صلح کے خیال سے خدمتِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں سرتسلیم خم کرتے ہوئے آئے اور انہوں نے اپنی نصف زمینیں اور باغات آنحضرت ۖ کے سپرد کردئیے اور نصف اپنے پاس رکھے رہے۔
اس کے علاوہ انہوں نے آنحضرت ۖ کے حصہ کی زمینوں کی کاشتکاری بھی اپنے ذمہ لی، اپنی کاشتکاری کی زحمت کی اجرت وہ آنحضرت ۖ سے وصول کرتے تھے۔ا
جغرافیہ دانوں اور محقیقین کی تحقیق کی بناء پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ فدک خیبر کی سرزمین پر ایک دیہات تھا اور اس کی ذمینیں بہت زر خیز تھیں اور فدک کو فدک اس لئے کہا گیا ہے کہ اس کی سب سے زیادہ پیداوارروئی تھی ہے 
جیساکہ ہم جانتے ہیں کہ فدک کے یہودیوں نےایک شخص کو پیغمبر اسلام ۖکی خدمت میں روانہ کیا اور یہ پیشکش کی کہ ہم سالانہ پیداوار کا آدھا حصہ آپ کو دینے کے لئے تیار ہیں اور جنگ نہیں کرنا چاہتے لہذا ہماری جان ،مال اور ناموس کی حفاظت کی جائے،پیغمبر اسلام ۖ نےاس پیشکش کو قبول کیا اور صلح نامہ لکھا گیا ۔
اپ آٗئیے خیبر کی شرعی حیثیت کو دیکھتے ہیں ۔ابن عباس اور تمام مفسرین کی نقل کے مطابق جب سورۂ روم کی ٣٨ویں آیت نازل ہوئی ٤ تو پروردگار عالم نے پیغمبر ۖکو حکم دیا کہ فدک حضرت فاطمہ زہرا(سلام اللہ علیہا)کو عطا کردیں ،پیغمبرۖ نے اس حکم کی تعمیل کی اور فدک حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیہا) کوعطا کر دیا٥،اس روز سے حضرت فاطمۂ زہرا(سلام اللہ علیہا)نے فدک کے امور خود اپنے ہاتھ میں لے لئے اورفدک  ان کی ملکیت میں آگیا۔[٦۔وسائل الشیعہ ،ج ٦ ،ص ٣٦٦ ؛بحار الانوار ،ج ٤٨ ،ص ١٤٤؛مناقب ابن شہر آشوب ،ج ٤ ،ص ٣٢٠۔]

یہ ایک ایسی تاریخی حقیقت ہے کہ جسے شیعہ اور سنی محدثین و مفسرین نے مشترکہ طور پر تسلیم کیاہے۔

شیعہ و سنی دونوں فرقوں نے لکھا ہے کہ جب فاطمہ زہرا(سلام اللہ علیہا)نے فدک کا مطالبہ کیا تو ابوبکر نے آپ سے بینہ اور شاہد طلب کیا۔

اب ہم یہاں ہر ایک سوال پوچھنا چاہتے ہیں!!!!

:َ:َ:َ:َگواہ کب طلب کیاجاتاہے؟؟؟

یقینا ہر عقلمند انسان یہی جواب دے گا کہ گواہ تب طلب کیاجاتاہے جب قاضی کو مدعی کی سچائی کا یقین نہیں ہوتا۔

پس جب ابوبکر نے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا سے گواہ طلب کئے تو کیا اس وقت وہ حضرت فاطمہ کی طہارت و پاکیزگی اور صداقت و حقانیت کو نہیں جانتے تھے؟

کیا انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ پیغمبر اکرم(ص)نے فرمایا کہ عالم اسلام میں چار عورتیں سب سے بہتر ہیں

1۔ جناب مریم بنت عمران

2 ۔ جناب فاطمہ(س)بنت حضرت محمد(ص)

3 ۔ جناب خدیجہ بنت خویلد

4 ۔ جناب آسیہ زوجہ فرعون(کشف الغمہ ج 2 ص 76)

" پیغمبر اکرم(ص)نے فرمایا کہ حضرت فاطمہ(س)جنت کی بہترین عورتوں میں ہیں ۔ "(کشف الغمہ ج 2 ص 76)

پیغمبر اکرم(ص)نے فرمایا کہ جس وقت قیامت برپا ہوگی منادی حق عرش سے ندا کرے گا کہ اے لوگوں اپنی آنکھوں کو بند کرلو تاکہ فاطمہ پل صراط سے گزر جاۓ ۔(کشف الغمہ ج 2 ص 83 ۔ ذخائر العقبی ص 48)پیغمبر اکرم(ص)نے حضرت فاطمہ(س)سے فرمایا کہ خدا تمہاری ناراضگی سے ناراض ہوتا ہے اور تمہاری خوشی سے خوش ہوتا ہے ۔(کشف الغمہ ج 2 ص 84 ۔ اسد الغابہ ج 5 ص 522 )

حضرت عایشہ کہتی ہیں کہ رسول خدا(ص)کے بعد میں نے حضرت فاطمہ(س)سے زیادہ کسی کو سچا نہیں پایا ۔(کشف الغمہ ج 2 ص 89)

لیکن اس کے باوجود تاریخی اور حدیثی دلائل کے مطابق حضرت فاطمہ(س) اپنی حقانیت کو ثابت کر نے کے لئے  اپنے ہمراہ اپنے شوہرامام  علی ؑ اور ام ایمن کو گواہ  کے طور پر بھی لے کر گٗیں۔حضرت امام علیؑ اور ام ایمن دونوں نے گواہی دی کہ فدک حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا)کی ملکیت ہے ،لیکن ابو بکر کا جواب یہ تھا کہ ایک مرد اور ایک عورت کی گواہی کافی نہیں ہے۔۔۔۔۔سوال پھر یہ پیدا ہوتاہے کہ کہاں گئی عدالت صحابہ ؟ کیا خلیفہ وقت امام علی ؑ کی عدالت سے ٓگاہ نہیں تھے؟ کیا ان کے نزدیک امام علی ؑ کی صداقت ٓشکار نہیں تھی؟؟؟اور کیا وہ ام ایمن کے فضائل سے آگاہ نہیں تھے۔؟؟؟؟

بہر حال فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) دوسری مرتبہ علیؑ،ام ایمن ،اسماء بنت عمیس ،حضرت امام حسن ؑمجبتیٰ اور حضرت امام حسین ؑکو گواہ کے عنوان سے اپنے ہمراہ لے کر آئیں پھر بھی ابوبکر نے قبول نہیں کیااس لئے کہ حضرت علی  ـ فاطمہ (سلام اللہ علیہا)کے شوہر ،حسن اور حسین  ان کے بیٹے ہیں اور فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا)کی طرفداری کریں گے اور ان کے نفع میں گواہی دیں گے ،لیکن اسماء بنت عمیس کی گواہی اس وجہ سے قبول نہیں ہوئی کہ جعفر بن ابی طالب کی زوجہ تھیں اور بنی ہاشم کے نفع میں گواہی دیں گی اور ام ایمن کی گواہی بھی قبول نہیں ہوئی اس لئے کہ غیر عرب (عجمی)عورت ہیں اور مطالب کو واضح طور پر بیان نہیں کرسکتیں ہیں۔۔۔

ہم یہاں پر یہ بھی پوچھنا چاہیں گے کہ اس وقت ناموس صحابہ کہاں چلی گئی تھی جب ان ہستیوں کی  گواہیوں کو جھٹلایا جارہاتھا؟؟؟کیا یہ ہستیاں رسول کی صحابی اور صحابیات نہیں تھیں۔۔۔۔؟؟؟

یہاں پر ضروری ہے کہ ہم اس واقعہ کو بیان کریں جسے شرح نہج البلاغہ میں ابن ابی الحدید نے بیان کیا ہے ،وہ کہتے ہیں ؛میں نے مدرسۂ بغداد کے مدیر علی بن فارقی سے پوچھا :کیا فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا)اپنے دعوے میں سچی تھیں ؟انھوں نے جواب دیا :ہاں،میں نے دوبارہ پوچھا:پس ابوبکر نے انھیں فدک واپس کیوں نہیں کیا ؟جب کہ وہ جانتے تھے کہ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا)سچ کہہ رہی ہیں ؟استاد مسکرائے اس کے بعد ایک لطیف اورطنزیہ جملہ کہاجب کہ وہ اس طرح کا مذاق نہیں کرتے تھے انھوں نے کہا :اگر پہلے دن صرف حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا)کے دعویٰ کرنے کی بناء پرفدک واپس کردیتے تو کل کے دن حضر ت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا)اپنے شوہر علی ـ کی خلافت کا دعویٰ پیش کرتیں تو ابوبکر کو مقام خلافت چھوڑنا پڑتا اور اس مقام پر ز مامدار خلافت کا عذر قابل قبول نہ تھا اور چونکہ پہلے انھوں نے خود پیغمبرۖ کی بیٹی کی صداقت اور سچائی کا اقرار کرلیا تھا اس لئے اب اس کے بعد جو بھی دعویٰ کرتیں اسے بغیر بینہ اور گواہ کے قبول کرنا ضروری ہوجاتا ۔

ابن ابی الحدید مزید کہتے ہیں کہ یہ بات صحیح ہے اگر چہ استاد نے اسے مذاق اور شوخی کے عنوان سے بیان کیا ہے ۔
[ابن ابی الحدید ،شرح نہج البلاغہ ،ج ١٦ ،ص ٢٠٨ ؛بحار ،ج ٢٩ ،ص ٣٥٠ ۔]

اور اب بھی اگر کسی کو بی بی دوعالم پر کئے گئے ظلم کا یقین نہ ہوتو وہ جا کر  ''صحیح مسلم'' کو اٹھاکر دیکھ لے جس میں اہل سنت کے نامور محدث مسلم بن حجاج نیشاپوری نے جناب فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کا خلیفہ اول سے فدک کے مطالبہ کا واقعہ تفصیل سے بیان کیا ہے، اور جناب عائشہ ر کی زبانی نقل کیا ہے کہ جب خلیفۂ اول نے جناب فاطمہ کو فدک نہیں دیا تو بی بی ان سے ناراض ہوگئیں اور آخر عمر تک ان سے کوئی گفتگو نہیں کی۔

(صحیح مسلم، کتاب جہاد ، جلد ٣ ص١٣٨٠ حدیث ٥٢)۔۔۔۔۔

مورخین نے لکھا ہے کہ رسول خدا(ص)کی وفات کے دس دن کے بعد جناب ابوبکر نے اپنے آدمی بھیجے اور فدک پر قبضہ کرلیا ۔(شرح ابن ابی الحدید ج 16، ص 263 )۔

ہم اس افسوسناک واقعے کو ۱۴ سو برس کے بعد بھی یہ کہہ کر دہرارہے ہیں کہ آخر کیوں رسول ص کی بیٹی پر ظلم کیا گیا؟

ہم ۔۔۔۔۔۔۔کھلے دماغوں اور زندہ ضمیر انسانوں سے چند سوال پوچھنا چاہتے ہیں::::::::::::

کیا نعوز باللہ فدک رسول خدا [صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم] نے حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کو نہیں دیا تھا اور آپ جھوٹ بول رہی تھیں؟

کیا معاذاللہ امام علی ؑ،امام حسنؑ اور امام حسینؑ اپنی جائیداد بنانے کے لئے جھوٹی گواہی دینی کے لئے چلے گئے تھے؟؟؟

کیا نعوز باللہ نعوز باللہ نعوز باللہ اسمائ بنت عمیس اور ام ایمن کو حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) ورغلاکر جھوٹ گواہی دینے کے لئے لے گٗی تھیں؟؟؟؟

::::::::::::::::::ہمارا آخری سوال دنیا کے ہر مسلمان سے ہے کہ وہ کتاب و سنت کی روشنی میں بتائے کہ اگر یہ گواہ اس کی عدالت میں پیش کئے جائیں تو کیا وہ انہیں جھٹلا دے گا اور ان کی گواہیوں کو قبول نہیں کرے گا۔۔۔۔بلکہ اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ اگر حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کسی چیز کو اپنا حق کہیں تو کیا ان سے گواہ مانگنے کی ضرورت ہے؟؟؟

:::::::::::::::: ٹی وی شیعہ رپورٹ:::::::::::::::

Add new comment