نبی کی بیٹی اور باغ فدک

اسلام کے مسلم اصولوں میں سے ایک قانون یہ ہے کہ ہر وہ زمین جو بغیر جنگ اور بغیر فوجیوں کے غلبہ کے مسلمانوں کے ذریعے فتح ہو، وہ حکومت اسلامی کے اختیار میں ہوتی ہے اور عمومی مال میں اس کا شمار ہوتا ہے اور وہ رسول خدا کا حصہ ہوتی ہے۔

پیغمبر کی بیٹی کے اعتراض اور فدک کو غصب ہوئے چودہ صدیاں گذر گئیں مگر آج بھی بعض لوگ یہ تصور کرتے ہیں کہ شاید اس واقعہ کا فیصلہ کرنا دشوار ہے ،کیونکہ اتنا عرصہ گذرنے کے بعد اگر قاضی فیصلہ کرنا چاہے تو فدک کے مسئلہ پر مکمل طریقے سے معلومات فراہم نہیں کرسکتا، اور نہ ہی ان تمام معلومات و شواہد کا دقت سے مطالعہ کرسکتا ہے کہ صحیح فیصلہ کرسکے، ممکن ہے اس واقعہ میں تحریف کردی گئی ہو اور اس کے مفہوم کو خلط ملط کردیا گیا ہو لیکن جو چیز اس مشکل چیز کو آسان کرسکتی ہے وہ یہ کہ قرآن مجید اور پیغمبر کی احادیث اور طرفین کے دعوے اور اختلاف کی طرف رجوع کیا جائے اور نئے انداز سے اس مسئلہ کو منظم کیا جائے اور اسی اساس پر اسلام کے بعض قطعی و محکم اور نہ بدلنے والے اصول کے ذریعے فیصلہ کیا جائے ہم یہاں اس کی وضاحت کر رہے ہیں۔

اسلام کے مسلم اصولوں میں سے ایک قانون یہ ہے کہ ہر وہ زمین جو بغیر جنگ اور بغیر فوجیوں کے غلبہ کے مسلمانوں کے ذریعے فتح ہو، وہ حکومت اسلامی کے اختیار میں ہوتی ہے اور عمومی مال میں اس کا شمار ہوتا ہے اور وہ رسول خدا کا حصہ ہوتی ہے۔
اس طرح کی زمینیں پیغمبر کی ذاتی ملکیتیں نہیں ہوتیں، بلکہ اسلامی حکومت سے مخصوص ہوتی ہیں جس کے رئیس پیغمبر اسلام ہوتے ہیں اور پیغمبر کے بعد اس شخص کے اختیار اورتصرف میں ہوںگی جو پیغمبر کی جگہ اور پیغمبر کی طرح مسلمانوں کے تمام امور کی ذمہ داری اپنے ہاتھوں میں لے، قرآن مجید نے اسلام کے اصلی قانون کو سورۂ حشر کی چھٹی اور ساتویں آیت میں بیان کیاہے
'' وَمَا َفَائَ اﷲُ عَلَی رَسُولِہِ مِنْہُمْ فَمَا َوْجَفْتُمْ عَلَیْہِ مِنْ خَیْلٍ وَلاَرِکَابٍ وَلَکِنَّ اﷲَ یُسَلِّطُ رُسُلَہُ عَلَی مَنْ یَشَائُ وَاﷲُ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیر ہ مَا َفَائَ اﷲُ عَلَی رَسُولِہِ مِنْ َہْلِ الْقُرَی فَلِلَّہِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِی الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِینِ وَابْنِ السَّبِیل''
(تو) جو مال خدا نے اپنے رسول کو ان لوگوں سے بے لڑے دلوادیا اس میں تمہارا حق نہیں کیونکہ تم نے اس کے لئے کچھ دوڑ دھوپ تو کی نہیں، نہ گھوڑوں سے نہ اونٹوں سے، مگر خدا اپنے پیغمبروں کو جس پر چاہتاہے غلبہ عطا فرماتا ہے اور خدا ہر چیز پر قادر ہے تو جو مال خدا نے اپنے رسول کودیہات والوں سے بے لڑے دلوا دیا ہے وہ خاص خدا اور رسول اور (رسول کے) قرابتداروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پردیسیوں کا ہے۔
جو اموال پیغمبر کے اختیار میں تھے وہ دو طرح کا تھے:

١۔ خصوصی
وہ اموال جو پیغمبر کے ذاتی تھے تاریخ اور سیرت کی کتابوں میں ''پیغمبر کے خصوصی اموال'' کے نام سے تفصیل سے درج ہیں(١) پیغمبر کی حیات طیبہ میں اس کا تصرف خود آپ کے ہاتھ میں تھا اور آپ کے بعد اسلام کے میراث کے مسائل کے مطابق آپ کے وارثوں تک منتقل ہونا چاہئے مگر یہ کہ ثابت ہو جائے کہ پیغمبر کے وارث آپ کے شخصی و ذاتی مال سے محروم تھے کہ اس صورت میں آپ کے مال کو بعنوان صدقہ لوگوں میں تقسیم ہونا چاہیئے یا اسلامی امور میں صرف ہونا چاہیئے آئندہ بحث میں ہم اس موضوع پر تفصیلی گفتگو کریں گے اور ثابت کریں گے کہ میراث کے قانون کی رو سے پیغمبر کے وارثوں اور دوسروں کے وارثوں میں کوئی فرق نہیں ہے اور وہ حدیث جو خلیفہ اول نے پیغمبر کی طرف نسبت دے کر پیغمبر کے وارثوں کو میراث سے محروم کیا ہے، اگر فرض کرلیں کہ وہ صحیح ہے تواسکے دوسرے معنی ہیں جس سے خلیفہ اوراراکین خلافت نے غفلت برتی۔

٢۔ خالصہ (٢)
وہ مال او روہ ملکیت جو حکومت اسلامی سے مخصوص ہوتی ہے اور پیغمبر اسلام مسلمانوں اور اسلام کے مفاد و مصلحت میں خرچ کرسکتے ہیںاصطلاح میں اسے ''خالصہ'' کہا جاتا ہے فقہ کی بحث میں ایک باب ''فئی'' کے نام سے ہے جو کتاب جہاد اور کبھی باب ''صدقات'' میں موردبحث قرار پاتا ہے لغت میں فئی کے معنی پلٹنے کے ہیں اور اس سے مراد وہ زمینیں ہیں جو بغیر قتل و غارت گری کے اسلامی حکومت کے تصرف
______________________
(١) کشف الغمہ ج٢ص ١٢٢۔
(٢)وہ چیز جو کسی کی جاگیر نہ ہو۔
میں آئے اور اس میں رہنے والے افراد اسلامی قوانین کے مطابق حکومت اسلامی میں زندگی بسر کریں اور اس طرح کی زمینیں جو اسلام کے فوجیوں کی زحمت ومشقت اور ان کے حملے کئے بغیر حاصل ہوں وہ پیغمبر کے اختیار میں ہوتی ہیں اور اسلامی حکومت کا حق قرار پاتی ہیں اور اور مسلمان سپاہیوں کا اس میں حق نہیں ہوتا،ہے پیغمبر اسلام ان کی آمدنی کو مسلمانوں کے امور میں خرچ کرتے تھے اور کبھی مستحق افرادکو دیتے تھے اوراس سے اور زحمت و مشقت کے ذریعے حاصل شدہ مال سے اپنا خرچ چلا تے تھے ،پیغمبر جو ہدیہ وغیرہ دیتے تھے وہ اسی کی آمدنی سے دیتے تھے او رکبھی مال غنیمت سے حاصل شدہ خمس سے بھی دیتے تھے۔
بہتر ہے کہ اس طرح کی زمینوں کے سلسلے میں پیغمبر اسلام کے طور طریقے کاذکر کیا جائے۔
بنی نضیر ،یہودیوں کے تین طائفے سے مل کر بنے تھے، جو مدینے کے قریب میں زندگی بسر کررہے تھے جن کے پاس باغ اور زمینیں تھیں جس وقت پیغمبر نے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو اوس و خزرج کے قبیلے والے آپ پر ایمان لائے، لیکن یہ تینوں طائفے اپنے دین پر باقی رہے پیغمبر اسلام نے عقدو پیمان کے ذریعے مدینے اور قرب و جوار میں رہنے والوں کے درمیان اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کی بہت کوششیں کیں ،نتیجتاً تینوں طائفوںنے پیغمبر سے عہد کیا کہ مسلمانوں پر ہر طرح کے یلغارو حملے سے پرہیز کریں گے اور ان کے خلاف کبھی بھی قدم نہیں اٹھائیں گے ،مگر تینوں طائفوں نے یکے بعد دیگرے ظاہری اور پوشیدہ طور پر عہد شکنی کی اور ہر طرح کی خیانت اور اسلامی حکومت گرانے کی ہر طرح سے کوششیں اور سازشیں کیں یہاں تک کہ پیغمبر کے قتل سے بھی پرہیز نہیں کیا خلاصہ یہ کہ جب پیغمبر اسلام کسی کام کو انجام دینے کے لئے بنی نضیر کے محلہ میں گئے تو ان لوگوں نے پیغمبر کو قتل کرنے کا ارادہ کیا اور چاہا کہ آپ کو قتل کردیں، یہی وجہ تھی کہ پیغمبر نے ان تمام لوگوں کو مجبور کردیا کہ مدینہ چھوڑ کر چلے جائیں اور ان کی تمام زمینوں اور گھروں کو مہاجروں اور انصار کے بعض حاجت مندوں کے درمیان تقسیم کردیا۔(١)
تاریخ اسلام میں ان لوگوں کا تذکرہ موجود ہے جنہوں نے اس سرزمین سے استفادہ کیاہے اور گھروں میں پناہ لی ہے علی ، ابوبکر ، عبد الرحمن بن عوف اوربلال مہاجرین میں سے او رانصار میں ابودجانہ ،
______________________
(١)مجمع البیان ج٥ ص ٢٦٠ طبع صیدا اور تمام معتبر تاریخی و سیرت کی کتابیں۔
سہل بن حنیف اور حارث بن صمہ تھے۔(١)

سرزمین فدک اموال خالصہ میں سے تھی
محدثین و مورخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ فدک اموال خالصہ (جو چیز کسی کی جاگیر نہ ہو) سے تھی، کیونکہ فدک وہ زمین ہے جو جنگ کرنے سے حاصل نہیں ہوئی، بلکہ جس وقت خیبریوں کی شکست کی خبرقریہ فدک میں پہونچی تو وہاں کے لوگ آمادہ ہوئے کہ پیغمبر سے صلح کریں اور فدک کی آدھی زمین پیغمبر کے حوالے کریں اوراس کے بدلے میں اپنے مذہبی امور میں مکمل طور پر آزاد رہیں اور حکومت اسلامی ان کے علاقے کی حفاظت کرے۔(٢)
اس مسئلہ میں علمائے اسلام میں سے کسی نے بھی اختلاف نہیں کیا ہے اور پیغمبر کی بیٹی اور ابوبکر کے درمیان فدک کے متعلق ہونے والی گفتگو سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ طرفین نے فدک کے خالصہ ہونے کا اعتراف کیا تھا اور ان لوگوں کا اختلاف دوسری چیز میں تھا جس کی وضاحت بعد میں کریں گے۔
___________________
(١) فتوح البلدان بلاذری ص ٢٧ ٣١ ٣٤، مجمع البیان ج٥ ص ٢٦٠ سیرۂ ابن ہشام ج٣ ص ١٩٤۔ ١٩٣۔
(٢) مغازی واقدی ج٣ ص ٧٠٦سیرۂ ابن ہشام ج٣ ص ٤٠٨ فتح البلدان ٤٤٦۔ ٤١، احکام القرآن جصاص ج٣ ص ٥٢٨ تاریخ طبری ج٣ ص ٩٧۔ ٩٥ ۔

فدک، پیغمبر اسلام (ص)نے فاطمہ(س) کو دیا تھا
شیعہ علماء اور اہلسنت کے بعض محدثین اس بات پر متفق ہیں کہ جس وقت یہ آیت ''و آت ذا القربیٰ حقہ و المسکین و ابن السبیل'' نازل ہوئی تو پیغمبر نے فدک فاطمہ زہرا کو دیدیا۔
اور اس حدیث کی سند بزرگ صحابی ابوسعید خدری اور ابن عباس پر ختم ہوتی ہے اور اہلسنت کے بعض محدثین نے اس حدیث کو نقل کیا جس کی تفصیل یہ ہے۔
١۔ جلال الدین سیوطی، متوفی ٩١١ھ اپنی مشہور و معروف تفسیر میں لکھتے ہیں :جب آیت ''و آت ذا القربیٰ ...'' نازل ہوئی تو پیغمبر نے فاطمہ کو بلایا اور انھیں فدک دیدیا۔
نیز لکھتے ہیں کہ اس حدیث کو بزرگ محدثین مثلاً بزاز و ابویعلی ،ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے معروف صحابی ابوسعید خدری سے نقل کیاہے۔
نیز لکھتے ہیں کہ ابن مردویہ نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو اس وقت پیغمبر نے فدک کو فاطمہ کی ملکیت قرار دیا۔(١)
٢۔ علاء الدین علی بن حسام مشہور بہ متقی ہندی ، ساکن مکہ متوفی ٩٧٦ھ نے بھی اس حدیث کو نقل کیا ہے۔(٢)
وہ کہتے ہیں : بزرگ محدثین مثلاً ابن النجار اور حاکم نے ا س حدیث کو اپنی تاریخ میں ابوسعید سے نقل کیا ہے۔
٣۔ ابواسحاق احمد بن محمد بن ابراہیم نیشاپوری مشہور بہ ثعلبی متوفی ٤٢٧ ھ یا ٤٣٧ھ نے اپنی تفسیر ''الکشف و البیان'' میں اس واقعہ کو نقل کیا ہے۔
٤۔ مشہور مورخ بلاذری، متوفی ٢٧٩ھ نے مامون کا خط جو حاکم مدینہ کے نام لکھا تھا اسے نقل کیا ہے اس کا متن یہ ہے:
''و قد کان رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم أعطی فاطمة فدک و تصدق بہا علیہا و کان ذالک أمراً معروفاً لااختلاف فیہ بین آل رسول اللہ و لم تزل تدعیٰ''(٣)
پیغمبر خدا نے سرزمین فدک فاطمہ کو دیا، اور یہ بات اتنی واضح و روشن ہے کہ پیغمبر کے قرابتداروں میں کبھی اختلاف نہیں ہوا اور وہ (فاطمہ) زندگی کے آخری لمحہ تک فدک کا دعویٰ کرتی رہیں۔
٥۔ احمد بن عبد العزیزجوہری مولف کتاب ''السقیفہ'' لکھتے ہیں:
جس وقت عمر بن عبد العزیز نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی سب سے پہلے جس غصبی چیز کو ان کے مالکوں کو واپس کیا وہ فدک تھا جس کو حسن بن حسن بن علی کو واپس کیا۔(٤)
_____________________
(١) الدر المنثور ج٤ ص ١٧٧، حدیث کا متن یہ ہے ''لما نزلت ہذہ الآیة، و آت ذا القربیٰ حقہ دعا رسول اللّہ فاطمہ و أعطاہا فدک''
(٢) کنز العمال، باب صلۂ رحم، ج٢، ص ١٥٧۔
(٣) فتوح البلدان، ٤٦، معجم البلدان، ج٤، ص ٢٤٠۔
(٤) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج١٦، ص ٢١٦۔
اس جملے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ فدک صرف پیغمبر کی بیٹی کی ملکیت تھی۔
٦۔ ابن ابی الحدید نے فدک سے متعلق میں آیت کے شان نزول کو ابوسعید خدری سے نقل کیا ہے اگرچہ اس کو نقل کرتے وقت سید مرتضی کے کلام کو کتاب شافی سے لیا ہے لیکن اگر سید مرتضی کا کلام اس کے لئے مورد اعتماد نہ ہوتا تو حتماً اس پر تنقید کرتا۔
اس کے علاوہ ، اپنی شرح نہج البلاغہ میں جس باب کو اس واقعہ سے مخصوص کیا ہے اور اپنے مدرسہ غربی بغداد کے استاد سے جو گفتگو کی ہے اس سے صاف واضح ہوتا ہے کہ وہ اس بات کا معتقد تھا کہ پیغمبر نے فدک اپنی بیٹی کو دیا تھا۔(١)
٧۔ حلبی اپنی کتاب سیرۂ میں فدک کے بارے میں پیغمبر کی بیٹی کے دعوے اور گواہوں کے نام کو بیان کیا ہے ، وہ کہتے ہیں:
خلیفہ وقت نے فدک کی سند زہرا کے نام سے جاری کی لیکن عمر نے اسے لے کر پھاڑ دیا۔(٢)
٨۔ مسعودی اپنی کتاب ''مروج الذہب'' میں لکھتے ہیں:
پیغمبر کی بیٹی نے ابوبکر سے فدک کے سلسلے میں گفتگو کی اور ان سے کہا کہ فدک مجھے واپس کردو. اور علی ، حسنین اورام ایمن کو بطور گواہ اپنے ساتھ لے گئیں۔(٣)
٩۔ یاقوت حموی لکھتا ہے:
فاطمہ ابوبکر کے پاس گئیں اور ان سے کہا کہ پیغمبر نے فدک مجھے دیا تھا خلیفہ نے گواہ طلب کیا...
(مزید آگے لکھتا ہے کہ) عمر (ابن عبد العزیز) کی خلافت کے دوران فدک پیغمبر کے وارثوں کو واپس کردیا گیاتھا کیونکہ اس وقت مسلمانوں کی مالی حالت بہت اچھی تھی۔(٤)
سمہودی نے اپنی کتاب ''وفاء الوفائ'' میں فاطمہ زہرا کی ابوبکر سے گفتگو کو نقل کیا ہے اور کہاہے:
علی او رام ایمن نے فاطمہ کے حق میں گواہی دیا اور دونوں نے کہا : پیغمبر نے اپنی زندگی میں ہی
______________________
(١) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج١٦، ص ٢٦٨ اور ص ٢٨٤۔
(٢) سیرۂ حلبی، ج٣، ص ٤٠٠۔ ٣٩٩۔
(٣) مروج الذہب، ج٢، ص ٢٠٠۔
(٤) معجم البلدان، ج٤، ص ٢٣٨، مادۂ فدک۔
فدک فاطمہ زہرا کو دیا تھا۔(١)عمر بن عبد العزیز نے فدک خاندان زہرا کو واپس کردیاتھا۔(٢)
شام کے ایک شخص نے علی بن الحسین علیھما السلام(امام سجاد) سے ملاقات کی اور کہا کہ اپنا تعارف کرائیے، امام نے فرمایا: کیا تم نے سورۂ بنی اسرائیل میں اس آیت کو نہیں پڑھا ''و آت ذا القربیٰ'' اس شخص نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ رشتہ داری کی وجہ سے خدا نے پیغمبر کو حکم دیا کہ ان کے حق کو واپس کردو۔(٣)
شیعہ دانشوروں کے درمیان بہت سی بزرگ شخصیتیں مثلاً کلینی ، عیاشی اور شیخ صدوق نے اس آیت کے نزول کو پیغمبر کے قرابتداروں کے بارے میں ذکر کیا ہے اور بیان کیاہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد پیغمبر نے فدک اپنی بیٹی فاطمہ کو دیدیا تھا۔
اس سلسلے میں محقق عالی قدر مرحوم سید ہاشم بحرینی نے ١١ حدیث بہترین اسناد کے ساتھ آئمہ معصومین علیھم السلام مثلاً امیر المومنین، امام زین العابدین، اما م جعفر صادق، امام موسٰی کاظم، اور امام علی رضا علیھم السلام سے نقل کیا ہے۔(٤)
جی ہاں، تقریباً تمام افراد کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ آیت خاندان رسالت کے حق میں نازل ہوئی ہے لیکن یہ بات کہ آیت نازل ہونے کے بعد پیغمبر نے فدک اپنی بیٹی زہرا کو دیا تھا اسے شیعہ محدثین اور بعض بزرگان اہلسنت نے نقل کیا ہے۔
طرفین کی شناخت اور ان کے منصب کی شناخت اور اسی طرح اس مسئلے کی تحقیق و جستجو اوران کی اہمیت کا پہچاننا بہت ضروری ہے۔
اس واقعہ میں شکایت اور دعویٰ کرنے والی پیغمبر اسلام کی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا ہیں جن کا مقام و منزلت اور طہارت و عصمت سب پر عیاں ہے، اور جس سے شکایت کی جا رہی ہے حکومت کا رئیس، خلیفہ
_____________________
(١) وفاء الوفاء ج٢ ص ١٦٠۔
(٢) وفاء الوفاء ج٢ ص ١٦٠۔
(٣) تفسیر برہان ج٢، ص ٤١٩، یہ واقعہ تفصیلی ہے۔
(٤ ) تفسیر برہان ج٢، ٤١٩۔
وقت ابوبکر ہے جنہوںنے پیغمبر کے بعد حکومت اپنے ہاتھوں میں لے لی ،کچھ گروہ خوف کے مار ے اور کچھ حرص و لالچ کی وجہ سے ان کے اردگرد جمع رہتے تھے۔
پیغمبر کے انتقال کو دس دن سے زیادہ نہ گذرا تھا کہ حضرت زہرا کو خبر ملی کہ خلیفہ کے سپاہیوں نے ان کے کام کرنے والوں کو سرزمین فدک سے نکال دیا ہے اور تمام کام اپنے اختیار میں لے لیا ہے اسی وجہ سے ہاشم کی عورتوں کے ساتھ اپنا حق لینے کے لئے خلیفہ کے پاس گئیں پھر آپ کے اور ابوبکر کے درمیان اس طرح سے گفتگو کا آغاز ہوا۔
فاطمہ: فدک سے میرے مزدوروں کو کیوں نکالا اور کیوں مجھے میرے حق سے محروم کیا؟
خلیفہ: میںنے آپ کے والدسے سنا ہے کہ انبیاء اپنی چیز کو بطور میراث نہیں چھوڑتے۔
فاطمہ: میرے بابا نے فدک مجھے اپنی زندگی میں دیا تھا اور میں اپنے بابا کی زندگی ہی میں اس کی مالک تھی۔
خلیفہ: کیا اس بات پر آپ کے پاس کوئی گواہ ہے۔
فاطمہ: ہاں میرے پاس گواہ ہیں میرے گواہ علی اور ام ایمن ہیں۔
اور ان لوگوں نے حضرت زہرا کی درخواست پر فدک کی گواہی دی کہ پیغمبر کے زمانے ہی میں حضرت زہرا اس کی مالک تھیں۔
جب کہ بہت سے مورخین نے حضرت فاطمہ کے گواہ کے طور پر علی اور ام ایمن کا نام لیا ہے لیکن بعض حسن و حسین کو بھی شاہد کے طور پرذکر کیا ہے اس بات کو مسعودی(١) اور حلبی(٢) نے بھی نقل کیا ہے بلکہ فخر رازی(٣) کہتے ہیں:
پیغمبر کے غلاموں میں سے ایک نے بھی حضرت زہرا کی حقانیت پر گواہی دیا لیکن ان کے نام کو نہیں تحریر کیا. لیکن بلاذری (٤) نے اس کے نام کو صراحت کے ساتھ لکھا ہے وہ کہتا ہے کہ پیغمبر کے اس غلام کا
______________________
(١) مروج الذہب، باب آغاز خلافت عباسی۔
(٢) سیرۂ حلبی ج٣ ص ٤٠۔
(٣) تفسیر سورۂ حشر ، ج٨ ص ١٢٥، بحار الانوار ج٨ ص ٩٣،منقول از کتاب خرائج سے منقول۔
(٤) فتوح البلدان ص ٤٣۔
نام ''رباح'' تھا۔
تاریخی اعتبار سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ دونوںباتیں آپس میں اختلاف نہیں ، کیونکہ مورخین کے نقل کرنے کے مطابق خلیفہ نے ایک مرد اور ایک عورت کی گواہی کو مدعا ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں جانا ہے، (آئندہ اس سلسلہ میں بحث ہوگی)اس وجہ سے ممکن ہے پیغمبر کی بیٹی گواہ مکمل کرنے کے لئے حسنین اور رسول اسلام کے غلام کو لے کر آئی ہوں۔
شیعہ احادیث کے مطابق حضرت فاطمہ نے ان گواہوں کے علاوہ اسماء بنت عمیس کو بھی بطور گواہ پیش کیا، نیز ہماری حدیثوں میں یہ بھی وارد ہوا ہے کہ پیغمبر اسلام نے اپنے ایک خط میں فدک کو حضرت زہرا کی ملکیت کی تصدیق کی ہے(١) اور یقینا حضرت فاطمہ نے اس سے استناد کیا ہے۔
امیر المومنین علیہ السلام نے گواہی دینے کے بعد خلیفہ کو ان کی غلطی کی طرف انہیںمتوجہ کیا کیونکہ انہوں نے اس سے گواہی طلب کیا جس کے تصرف میںفدک تھا اور مالک سے گواہی طلب کرنا اسلام کے قضاوت کے قانوان کے برخلاف ہے۔
اس لئے آپ نے خلیفہ کی طرف رخ کر کے فرمایا: وہ مال جو مسلمانوں کے ہاتھوں میں ہے اگر میں اس مال کا ادعا کروں تو تم گواہ کس سے طلب کروگے؟ مجھ سے گواہ مانگو گے کہ میں مدعی ہوں یا دوسرے شخص سے کہ مال اس کے تصرف میں ہے؟ خلیفہ نے کہا اس موقع پر میں تم سے گواہ طلب کروں گا۔
علی علیہ السلام نے فرمایا: کافی عرصے سے فدک ہمارے تصرف اور اختیار میں ہے اور یہ مسلمان جو کہہ رہے ہیں کہ فدک عمومی مال ہے تو وہ گواہ و ثبوت پیش کریں نہ یہ کہ ہم سے ثبوت و گواہ طلب کریں۔ خلیفہ امام کے منطقی جواب کو سن کر خاموش ہوگیا۔(٢)
______________________
(١) بحار الانوار، ج٨، ص ٩٣ اور ١٠٥، طبع کمپانی۔
(٢) احتجاج طبرسی، ج١، ص ١٢٢، طبع نجف ۔

خلیفہ کے جوابات
خلیفہ نے جو حضرت زہرا کو جوابات دیئے تھے تاریخ نے اسے مختلف انداز سے نقل کیا ہے فدک کے مسئلہ کو مرتبہ حضرت زہرا نے چھیڑا ہے اور خلیفہ نے ہر مرتبہ طرح طرح کے جوابات دیئے ہیں ان کے
دیئے ہوئے جوابات کو ہم یہاں ذکر کر رہے ہیں۔:
١۔ جب جناب زہرا (س)کے گواہوں نے ان کے حق میں گواہی دی توعمر اور ابوعبیدہ نے خلیفہ کے حق میں گواہی دی اور کہا کہ پیغمبر اسلام نے اپنے خاندان کے اخراجات کو نکال کر فدک کی باقی آمدنی کو مسلمانوں کے امور میں خرچ کیاتھا اگر فدک پیغمبر کی بیٹی کا حق تھا تو کیوں پیغمبر نے بقیہ اموال کو دوسرے امور میں خرچ کیا۔
گواہوں کے متضاد بیانوں کی وجہ سے خلیفہ اٹھا اور سب کے بیانوں کو صحیح بتایا اور کہا دونوں طرف کے گواہ صحیح اور سچی بات کہہ رہے ہیں اور ہم نے سب کی گواہی کو قبول کیا ،علی اور ام ایمن بھی صحیح کہہ رہے ہیں اور عمر اور ابوعبیدہ بھی، کیونکہ فدک جو زہرا کے قبضہ میں تھا وہ پیغمبر کی ملکیت تھی جس کی آمدنی سے آپ اپنے خاندان کا خرچ چلاتے تھے اور اضافی مال کو مسلمانوں میں تقسیم کرتے تھے اس لئے میں بھی پیغمبر کی روش پر عمل کروں گا۔
پیغمبر کی بیٹی نے فرمایا: میں بھی حاضر ہوں کہ باقی اموال کو اسلامی امور میں صرف کروں۔
خلیفہ نے کہا: تمہارے بدلے ، میں یہ کام انجام دوں گا۔(١)
٢۔ خلیفہ نے حضرت فاطمہ کے ان گواہوں کو جو اپنے حق کے ثابت کرنے کے لئے پیش کیا تھا قبول نہیں کیا اورکہا میں ہرگز ایک مرد اور ایک عورت کی گواہی قبول نہیں کروں گا بلکہ ضروری ہے کہ دو مرد یاایک مرد اور دو عورتیں گواہی دیں۔(٢)
شیعہ حدیث کے مطابق فاطمہ زہرا کے گواہوں پر تنقید کرنا بڑا دردناک المیہ ہے کیونکہ اس نے علی اور حسنین علیھم السلام کو اس نظر سے کہ فاطمہ کے شوہر اور حسنین ان کے بچے ہیں ان کی گواہی کو قبول نہیں کیا اور ام ایمن کی شہادت کو اس لئے قبول نہیں کیا کہ وہ زہرا کی کنیز تھیں، اور اسماء بنت عمیس کی گواہی کو اس لئے ٹھکرادیا کہ وہ جعفر ابن ابیطالب کی پہلے بیوی تھیں اور فاطمہ کو فدک واپس کرنے سے انکار کردیا۔(٣)
______________________
(١) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج١٦ ص ٢١٦۔
(٢) سیرۂ حلبی ج٢ ص ٤٠٠، فتوح البلدان ج٤٣ معجم البلدان ج٤ مادہ فدک
(٣) بحار الانوار ج٨ ص ١٠٥۔
٣۔ خلیفہ نے پیغمبر کی بیٹی کے پیش کئے ہوئے گواہوں کی گواہی کو قبول کرلیا اورایک سند ان کے نام تحریر کیا لیکن عمر کے اصرار کرنے پر اسے نظر انداز کر دیا۔
ابراہیم بن سعید ثقفی اپنی کتاب ''الغارات'' میں تحریر کرتے ہیں:
خلیفہ نے گواہی سننے کے بعد چاہا کیا کہ فدک فاطمہ زہرا کو واپس کردے چنانچہ کھال کے ایک ٹکڑے پر فدک کی سند کو حضرت فاطمہ کے نام لکھ دیا فاطمہ اس کے گھر سے باہر آئیں راستے میں عمر ملا اور تمام واقعات سے باخبر ہوا اور فاطمہ زہرا سے سند مانگی اور خلیفہ کے پاس آیا اور اعتراضاً کہا : تم نے فدک فاطمہ کو دیدیا جب کہ علی نے خود اپنے فائدے کے لئے گواہی دیا ہے اورام ایمن ایک عورت کے علاوہ کچھ نہیں، پھر اس نے سند پر تھوکا اور اسے پھاڑ ڈالا۔(١)یہ واقعہ خلیفہ کے نفس کی سلامتی کی حکایت کرنے کے بجائے اس کے ضعیف ہونے کی حکایت کرتا ہے اور واضح کرتا ہے کہ اس کی قضاوت کتنی حد تک دوسرے کے مزاج کے تابع تھی۔
لیکن حلبی اس واقعہ کو دوسرے انداز سے نقل کرتا ہے وہ کہتا ہے:
خلیفہ نے فاطمہ (س)کی ملکیت کی تصدیق کی ، اچانک عمر وارد ہوا اور کہا: یہ نامہ کیسا ہے؟
اس نے کہا: اس نامہ میں، میں نے فاطمہ کی ملکیت کی تصدیق کیا ہے اس نے کہا: تمہیں فدک کی آمدنی کی ضرورت ہے کیونکہ اگر کل مشرکین عرب مسلمانوں کے خلاف جنگ کا اعلان کریں تو جنگ کے اخراجات کہاں سے پورا کرو گے؟ پھر اس نے نامہ لے کر پھاڑ دیا۔ (٢)
فدک کے متعلق تحقیق اب یہاں اختتام کو پہونچی اور جس واقعے کو ہوئے چودہ سو سال گزر گئے اس کو منظم طریقے سے پیش کیا ہے اب یہ دیکھنا ہے کہ اسلام اپنے اصول و سنن کے اعتبار سے کس طرح اس واقعہ کا فیصلہ کرتا ہے۔
______________________
(١) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج١٦ ص ٢٧٤۔
(٢) سیرۂ حلبی ج٣ ص ٤٠٠۔

مسئلہ فدک کے بارے میں آخری فیصلہ
فدک کے سلسلے میں آخری فیصلہ اس کے بعد کی فصل میں پیش کیا جائیگا وہاں ہم ثابت کریں گے کہ
پیغمبر کی بیٹی کو فدک نہ دینا سب سے پہلی اور بڑی حق تلفی ہے جو اسلام کی قضاوت کی تاریخ میں درج ہے ہم یہاں چند نکات بیان کر رہے ہیں:
ہم نے پچھلی بحثوںمیں واضح اور روشن دلیلوں سے ثابت کردیاکہ ''و آت ذا القربیٰ'' کی آیت نازل ہونے کے بعد پیغمبر نے فدک اپنی بیٹی کو دیدیا تھا اور اس سلسلے میں اہل سنت کے بہت سے دانشوروں کے علاوہ شیعہ علماء نے بھی اس مطلب کو صراحت سے بیان کیا ہے اور بزرگ محدثین مثلاًعیاشی، اربلی، اور سید بحرینی نے اس کے متعلق شیعہ احادیث کواپنی اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے، بطور نمونہ یہاں ایک حدیث نقل کرتے ہیں:
صادق آل محمد حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: جب آیت ''و آت ذا القربیٰ'' نازل ہوئی تو پیغمبر نے جبرئیل سے پوچھا: ''ذا القربیٰ سے مراد کون ہے؟ جبرئیل نے کہا: آپ کے قرابتدار، اس وقت پیغمبر نے فاطمہ اور ان کے بچوں کو بلایا اور فدک ان کو دیدیا اور فرمایا کہ خداوند عالم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ فدک تم لوگوں کو دیدوں۔(١)
______________________
(١) تفسیر عیاشی ج٢ ص ٢٨٧۔

ایک سوال کا جواب
ممکن ہے کہ کوئی یہ کہے کہ سورۂ اسراء مکی سوروں میں سے ہے اور فدک ٧ھ میں مسلمانوں کے قبضے میں آئی تو جو آیت مکہ میں نازل ہوئی ہے وہ کس طرح اس واقعے کے حکم کو بیان کر رہی ہے جو کئی سال بعد رونما ہوا ہے؟
اس سوال کا جواب بالکل واضح ہے اور وہ یہ کہ مکی او رمدنی سورہ ہونے کا معیار یہ ہے کہ اگر اس سورہ کی اکثر آیتیں مکہ میں نازل ہوئیںتو وہ مکی سورہ ہے اوراگر اس سورہ کی اکثر آیتیں مدینہ میں نازل ہوئیں تو وہ مدنی سورہ ہے مگر کیونکہ بہت سے مکی سوروں میں مدنی آیتیں موجود ہیں اسی طرح بہت سے مدنی سوروں میں مکی آیتیں موجود ہیں، تفسیروں اور آیت کے شان نزول کے مطالعہ کے بعد یہ بات واضح ہو جاتی ہے۔
اس کے علاوہ خود آیت کے مفہوم سے واضح ہے کہ یہ آیت مدینے میں نازل ہوئی ہے کیونکہ مکہ میں پیغمبر کے پاس اتنے امکانات موجود نہ تھے کہ رشتہ داروں اور غریبوں اور محتاجوں کا حق دیتے، اور مفسرین کے نقل کی بنا پر نہ صرف سورہ اسراء کی ٢٦ویں آیت مدینے میں نازل ہوئی بلکہ ٣٢ ٣٣ ١٥٧ اور ٧٣ ویں تا ٨١ ویں آیتیں بھی مدینے میں نازل ہوئیں ہیں(١) اس لئے سورہ کے مکی ہونے اور آیت کے مدینے میں نازل ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔

فدک سے متعلق دیگر باتیں
جب فدک کا مسئلہ بالکل واضح تھا تو پھر کیوں پیغمبر کی بیٹی کے حق میں فیصلہ نہیں ہوا؟
گذشتہ فصل میںفدک کے متعلق معتبر حوالوں اور طرفین کی دلیلوں کو بیان کیا ہے اواور اب ضرورت ہے کہ اسکے بارے میں صحیح فیصلہ کیا جائے
فدک کے مسئلہ کو جس عدالت میں بھی پیش کیا جائے اور جس منصف مزاج قاضی کی نگاہوں سے گذرے گا اس کا فیصلہ پیغمبر کی بیٹی کے ہی حق میں کرے گا اب ہم اس واقعہ کا تجزیہ کرتے ہیں۔
١۔ خلیفہ کے ہم خیال افرادکی گفتگو سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان لوگوں کا فدک غصب کرنے کا مقصد اپنی خلافت اور حکومت کی بنیاد کو مخالفین کے مقابلے میں مضبوط کرنا تھا اور یہ بات کہ ''پیغمبر میراث نہیں چھوڑتے'' فقط ایک بہانہ تھا تاکہ فدک کا مسئلہ دینی مسئلہ شمار ہو جائے، اور اس دعوے کی دلیل یہ ہے کہ جب خلیفہ پر جناب فاطمہ کی گواہی اور دلیل اثر انداز ہوئی تو انہوںنے چاہا کہ فدک ان کو واپس کردیں چنانچہ انہوں نے حضرت فاطمہ کے نام سند لکھ دی لیکن اچانک عمر وارد ہوے اور جب اس خبر سے آگاہ ہوے تو انہوں نے خلیفہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا اگر کل تمام عرب تمہاری حکومت کے خلاف قیام کریں تو جنگ کے اخراجات کہاں سے پورا کرو گے؟ پھر انہوں نے سند لیا اور پھاڑ ڈالا۔(٢)
______________________
(١) الدر المنثور ج٤ ص ١٧٧۔ ١٧٦۔
(٢) سیرۂ حلبی ج٣ ص ٤٠٠ ،منقول از سبط ابن جوزی ۔
یہ گفتگو فدک کے غصب کرنے کی علت کو واضح و آشکار کرتی ہے اور ہر طرح کے تاریخی خٰالیافیوں کی راہ کو مسدود کرتی ہے۔
٢۔ اسلامی محدثین اور مورخین نقل کرتے ہیں کہ جب یہ آیت ''و آت ذا القربیٰ...'' نازل ہوئی تو پیغمبر خدا (ص) نے فدک فاطمہ زہرا کودیا اور اس حدیث کی سند بزرگ صحابی ابوسعید خدری پر ختم ہوتی ہے ،کیا خلیفہ کے لئے لازم نہیں تھا کہ وہ ابوسعید خدری کو بلاتے اور ان سے اس کی حقیقت دریافت کرتے؟
ابو سعید گمنام آدمی نہیں تھے جنہیں خلیفہ نہیں پہچانتے تھے یا ان کی پاکیزگی کے بارے میں شک و تردید میں تھے۔
ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ تاریخ اسلام کے موثق محدثین نے ابوسعید خدری پر جھوٹا الزام لگایا ہوگا کیونکہ اس سے ہٹ کر کہ حدیث کے نقل کرنے والے پاک و پاکیزہ ہیں ان کا شمار ان افراد میں ہوتا ہے جنہیں درو غ پر سازش کرنے کو عقل بعید سمجھتی ہے ۔
ابو سعید خدری ان میں تھے جن کی طرف حدیث کے سلسلے میں رجوع کیا جاتا تھا، اور بہت زیادہ ان سے حدیثیں نقل ہوئی ہیں اور ایک گروہ مثلا ابو ہارون عبدی اور عبد اللہ علقمہ جو خاندان رسالت کے دشمن تھے ،نے جب ابوسعید خدری کی طرف رجوع کیا تو خاندان رسالت سے عداوت سے باز آگئے۔(١)
٣۔ اسلام اور دنیا کی قضاوت کے قانون کے مطابق اگر کوئی کسی ملکیت میں تصرف کرے تو وہ اس کا مالک شمار ہوگا، مگر یہ کہ ثابت ہو کہ وہ مالک نہیں ہے، اور جب بھی کوئی شخص کسی غیر کی ملکیت میں تصرف نہ رکھنے کے باوجود اسے اپنی ملکیت ہونے کا دعوی کرے اور وہ دوسرے کے تصرف میں ہو تو ضروری ہے کہ دو شاہد عادل اس کے مالک ہونے پر گواہی دیں، ورنہ عدالت تصرف کرنے والے کو اس کا مالک قرار دیتی ہے۔
اور یہ بات حقیقت پر مبنی ہے کہ فدک کی سرزمین پیغمبر کی بیٹی کے تصرف میں تھی، جس وقت خلیفہ نے فدک پر قبضہ کرنے کا حکم جاری کیا اس وقت حضرت زہرا کے مزدور اس میں کام کر رہے تھے۔(٢)
______________________
(١) قاموس الرجال ج١٠ ص ٨٥۔ ٨٤۔
(٢)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج١٦ص٢١١
کئی سال تک جناب زہرا کا فدک میں تصرف کرنا اور اس میں مزدوروں کا رکھنا اس بات کی دلیل ہے کہ فدک آپ کی ملکیت تھی اسکے باوجود خلیفہ نے حضرت زہرا کے تصرف اور اصطلاحی طور پر ''ذوا لید'' ہونے کو نظر انداز کردیا تھا اور ان کے مزدوروں کو فدک سے نکال دیا۔
اور اس سے بھی بدتر یہ کہ خلیفہ بجائے تصرف نہ کرنے والوں سے گواہ و شاہد طلب کر نے کے حضرت فاطمہ زہرا سے جو کہ فدک پر تصرف کرتی تھی اور دوسرے کی ملکیت ہونے سے انکار کر رہی تھیں ،گواہ طلب کیا جب کہ اسلام کی قضاوت کا قانون یہ ہے کہ جو زبردستی اور جھوٹا ملکیت کا دعوی کر رہا ہو اس سے گواہ طلب کرے نہ یہ کہ مالک سے۔(١)
امیر المومنین نے جیساکہ ہم نے پہلے بھی ذکر کیاہے کہ اسی وقت خلیفہ کو اس کی غلطی پر متوجہ کیا تھا۔(٢)
خود تاریخ، حضرت فاطمہ کے فدک میں تصرف کرنے کی گواہی دیتی ہے، امیر المومنین نے اپنے ایک خط میں بصرہ کے حاکم عثمان بن حنیف کو اس طرح لکھا :
''ہاں آسمان نے چیزوں پر اپنا سایہ کیا تھاان میں سے صرف فدک ہمارے ہاتھ میں تھا''۔
ایک گروہ نے اسے لینے کی کوشش کی اور ایک گروہ نے (خود امام اور آپ کا خاندان) اس سے چشم پوشی کرلی اور خداوند عالم کتنا بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔(٣)
اب بھی ایک سوال باقی ہے وہ یہ کہ جب پیغمبر کی بیٹی کا اس میں تصرف تھا اور وہ دوسرے کی ملکیت ہونے سے انکار کر رہی تھیں اس وقت صرف آپ کا فریضہ یہ تھا کہ مدعی کے سامنے رسوا کرنے والی قسم کھاتیں ، پس جب خلیفہ نے ان سے گواہ طلب کیا تو کیوں شہزادی چند افراد کو بطور گواہ عدالت میں اپنے ساتھ لے گئیں؟
اور اگر یہ مان لیا جائے کہ شہزادی نے خلیفہ کے گواہ طلب کرنے سے پہلے گواہوں کو جمع کرلیا تھا، تو
______________________
(١) البینة علی المدعی و الیمین علی المنکر۔
(٢) احتجاج طبرسی، ج١، ص ١٢٢۔
(٣) نہج البلاغہ عبدہ، نامہ ٤٠۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ فدک مدینہ کے نزدیک کوئی چھوٹی زمین یا چھوٹا علاقہ نہ تھا جو مسلمان اس کے مالک اور وکیل سے باخبر ہوتے، بلکہ مدینہ سے ١٤٠ کیلو میٹر کے فاصلے پر تھا، شاید یہی وجہ رہی ہو کہ شہزادی کو اطمینان تھا کہ خلیفہ ملکیت اور تصرف ثابت کرنے کے لئے گواہ طلب کرے گا اسی لئے گواہوں کو جمع کرلیا تھا اور پھر عدالت میں پیش کیا۔
٤۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پیغمبر کی بیٹی بہ حکم آیۂ تطہیر (١) ہر طرح کے گناہ و معصیت سے محفوظ تھیںاور خلیفہ کی بیٹی عائشہ نے آیت کے شان نزول کو خاندان پیغمبر کے بارے میں نقل کیا ہے، اور اہلسنت کے دانشمندوں نے بھی اپنی اپنی کتابوں میں آیت کے شان نزول کو حضرت فاطمہ(س) ،ان کے شوہر اور ان کے بچوں کے بارے میں نقل کیا ہے اور اس بات کی تصدیق کی ہے کہ یہ آیت الٰہی کی شان میں نازل ہوئی ہے احمد بن حنبل اپنی کتاب ''مسند'' میں نقل کرتے ہیں:
اس آیت کے نازل ہونے کے بعد جب بھی پیغمبر نماز صبح پڑھنے کے لئے اپنے گھر سے نکلتے اور حضرت زہرا کے گھر کے پاس سے گذرتے توکہتے تھے ''الصلاة'' پھر اس آیت کو پڑھتے تھے اور یہ سلسلہ چھ مہینے تک جاری رہا۔(٢)
ان تمام باتوںکے بعد، کیا یہ صحیح تھا کہ خلیفہ، پیغمبر کی بیٹی سے گواہ و شاہد طلب کرے؟ اور وہ بھی ایسی چیز میں جس میں زہرا کے علاوہ کوئی اور مدعی نہ تھا تنہا دعویدار خلیفہ تھا۔
کیا یہ خلیفہ کے لئے سزاوار تھا کہ جناب فاطمہ کی پاکیزگی کے بارے میں قرآن کی تصریح چھوڑ دے اور ان سے گواہ طلب کرے؟
ہم نہیں کہتے کہ قاضی نے اپنے علم کے مطابق عمل کیوں نہیں کیا، کیونکہ یہ درست ہے کہ علم ،گواہ سے زیادہ اہمیت و عظمت کا حامل ہے لیکن علم بھی گواہ کی طرح غلطی و اشتباہ کرتا ہے اگرچہ یقینی غلطی ظن و گمان سے کم ہوتی بلکہ ہمارایہ کہنا ہے کہ کیوں خلیفہ نے قرآن کی اس صراحت کو کہ جناب زہرا گناہوںاور خطائوں سے محفوظ ہیں کو چھوڑ دیا؟ اگر قرآن خصوصی طور پر زہرا کی ملکیت کو صراحت سے بیان کرتا تو کیا خلیفہ پیغمبر کی
______________________
(١) سورۂ احزاب، آیت ٣٣ِنَّمَا یُرِیدُ اﷲُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ َہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیرًا
(٢) مسند احمد ج٣ ص ٢٩٥۔
بیٹی سے گواہ طلب کرتا؟ حقیقتاً گواہ طلب نہیں کرتا کیونکہ وحی الہی کے مقابلے کوئی بھی بات سننے کے لائق نہیں ہوتی ہے۔
اسی طرح عدالت کے قاضی کو عصمت زہرا پر قرآنی تصریح ہونے کے بعد، حق نہیں تھا کہ وہ گواہ طلب کرے کیونکہ وہ آیت تطہیر کے اعتبار سے معصوم تھیں اور کبھی بھی جھوٹ نہیں بولتی تھیں۔
ہم ابھی اس سلسلے میں بحث نہیں کریں گے کہ حاکم اپنے ذاتی علم پر عمل کرے یا نہ کرے، کیونکہ یہ ایک وسیع موضوع ہے اور فقہاء اسلام نے اس بارے میں کتاب قضا میں بحث کی ہے۔
اگر خلیفہ چاہتا تو مندرجہ ذیل دو آیتوں کے ذریعے مسئلہ فدک کو ختم کردیتا اور پیغمبر اسلام کی بیٹی کے حق میں رائے دیتا وہ دونوں آیتیں یہ ہیں:
١۔ ' وَِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ َنْ تَحْکُمُوا بِالْعَدْلِ '' سورۂ نساء آیت ٥٨۔
اور جب لوگوں کے باہمی جھگڑوں کا فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کرو۔
٢۔ ''وَمِمَّنْ خَلَقْنَا ُمَّة یَہْدُونَ بِالْحَقِّ وَبِہِ یَعْدِلُونَ'' سورۂ اعراف آیت ١٨١۔
او رہماری مخلوقات ہی سے وہ قوم بھی ہے جو حق کے ساتھ ہدایت کرتی ہے اور حق ہی کے ساتھ انصاف کرتی ہے۔
ان دو آیتوں کے حکم کے مطابق عدالت کے قاضی کے لئے ضروری ہے کہ ہمیشہ حق و عدالت کے ساتھ فیصلہ کرے، اس بنا پر جب پیغمبر کی بیٹی گناہوں سے پاک و منزہ تھیں او رکبھی بھی ان کی زبان پر جھوٹ جاری نہیں ہواتو لہذا ان کا دعوی کرنا عین حقیقت اور واقعی عدل تھا اور عدالت کو چاہیئے تھا کہ اس کے سامنے سر تسلیم خم کرتی لیکن خلیفہ نے ان دو آیتوں کے بعد جو کہ اسلامی قضاوت کے اصولوں میں سے ہے کیوں فاطمہ زہرا کے حق میں فیصلہ نہیں کیا؟
بعض مفسرین کا احتمال یہ ہے کہ ان دو آیتوں سے مراد یہ ہے کہ قاضی (جج) پر لازم ہے کہ وہ قضاوت کے اصول و قوانین کی رعایت کرتے ہوئے صحیح اور عادلانہ فیصلہ کرے اگرچہ حقیقت میں عدالت کے خلافت ہی کیوں نہ ہو، لیکن یہ تفسیردرست نہیں ہے ،ان دونوں آیتوں سے مراد وہی ہے جسے ہم نے بیان کیا ہے۔
٥۔ خلیفہ کی سوانح حیات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بہت سے مواقع پر لوگوں کے دعووں کو بغیر دلیل کے قبول کیا ہے مثلاً جب علاء حضرمی کی طرف سے کچھ مال بیت المال کے نام پر مدینہ لایا گیا تو ابوبکر نے لوگوں سے کہا اگر پیغمبر کے پاس کسی کا مال ہے یا حضرت نے اس سے کچھ وعدہ کیا ہے تو وہ آئے اور اپنا مال لے جائے۔
جناب جابر خلیفہ کے پاس گئے اور کہا کہ پیغمبر(ص) نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ میں تمہاری فلاں مقدار میں مدد کروں گا اسی وقت ابوبکر نے انہیں تین ہزار پانچ سو (٣٥٠٠) درہم دیا۔
ابوسعید کہتا ہے جب ابوبکر کی طرف سے یہ اعلان ہوا تو کچھ لوگ ان کے پاس گئے اور ان سے درہم و دینار لئے کہ انھیں میں سے ایک ابوبشر مازنی تھا اس نے خلیفہ سے کہا کہ پیغمبر نے مجھ سے کہا تھا کہ جب بھی میرے پاس کوئی مال لے کر آئے گا تو تم میرے پاس آنا اس وقت ابوبکر نے اسے ایک ہزار چار سو (١٤٠٠) درہم دیا۔(١)
اب سوال یہ ہے کہ خلیفہ نے کس طرح سے ہر مدعی کے دعوے کو قبول کرلیا اور ان سے گواہی طلب نہیں کیا، لیکن پیغمبر کی بیٹی کے مقابلے اپنی ضد پر اڑے رہے اور اس بہانہ سے کہ چونکہ ان کے پاس دلیل اور گواہ نہیں ہیں لہذاان کی بات کو قبول نہیں کیا؟ جو قاضی عمومی مال کے متعلق اتنا سخی ہے کہ پیغمبر کے احتمالی قرضوں اور وعدوں کا اس پر اتنا اثر ہوتا ہے کہ سائل کو فوراً ادا کردیتا ہے تو پھر جناب فاطمہ کے سلسلے میں اتنا کیوں بخل سے کام لے رہا ہے؟
جس چیز نے خلیفہ کو پیغمبر کی بیٹی کی صداقت قبول کرنے پر روک دیا وہ وہی چیز ہے جسے ابن ابی الحدید نے اپنے استاد بزرگ اور بغداد کے مدرس علی بن الفار سے نقل کیا ہے وہ کہتا ہے:
میں نے اپنے استاد سے کہا کیا زہرا اپنے دعوے میں سچی تھیں؟ انہوںنے کہا: ہاں۔
میں نے کہا: کیا خلیفہ جانتا تھا کہ وہ ایک سچی عورت ہیں؟ انہوںنے کہا: ہاں۔
میں نے کہا : تو پھر خلیفہ نے ان کے پورے حق کو ان کے سپرد کیوں نہیں کیا؟
اس وقت استاد ہنسے اور بڑے اطمینان سے کہا:
______________________
(١) صحیح بخاری، ج٣ ص ١٨٠، طبقات ابن سعد ج٤ ص ١٣٤۔
اگر خلیفہ ان کی بات کو قبول کرلیتایہ سوچ کر کہ وہ ایک سچی عورت ہیں اور بغیر گواہ طلب کئے ہوئے فدک ان کے حوالے کردیتاتو آئندہ اپنی سچائی سے اپنے شوہر کے حق میں استفادہ کرتیں اور کہتیں کہ خلافت حضرت علی کا حق ہے اور اس وقت خلیفہ مجبور ہوتا کہ خلافت کو حضرت علی کے حوالے کرے کیونکہ انہیں (اپنے اس اقدام سے) وہ سچا مانتالہٰذا تقاضے اور مناظرے کا راستہ بند کرنے کے لئے انھیں ان کے مسلم حق سے محروم کر دیا۔(١)
______________________
(١) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج١٦، ص ٢٨٤۔

فدک کے مسئلہ میں کوئی ابہام نہیں تھا
ان تمام واضح اور روشن دلیلوں کے بعد، کیوں اور کس دلیل سے فدک کے بارے میں صحیح فیصلہ نہیںکیا گیا؟ خلیفۂ مسلمین کے لئے ضروری ہے کہ امت کے حقوق کی حفاظت اور ان کے منافع کی حمایت کرے، اگر حقیقت میں فدک عمومی مال میں سے تھا اور پیغمبر نے اسے وقتی طور پر اپنے خاندان کی ایک فرد کو دیا تھا تو ضروری تھا کہ پیغمبر کی رحلت کے بعد مسلمانوں کے رہبر کو دیدیا جاتا، تاکہ اس کے زیر نظر مسلمانوں کے صحیح امور میں خرچ ہوتا، اور یہ ایسی بات ہے جس پر سبھی متفق ہیں لیکن قوم کے حقوق کی حفاظت اور لوگوں کے عمومی منافع کی حمایت کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ کسی شخص کی فردی آزادی اورذاتی ملکیت کو نظر انداز کردیا جائے اور لوگوں کے ذاتی مال کو عمومی مال کے طور پر جمع کیا جائے اور پھر اسے عمومی مال قرار دیا جائے۔
اسلامی قانون جس طرح سے اجتماعی چیزوں کو محترم جانتا ہے اسی طرح کسی کے ذاتی و شخصی مال کو جو شرعی طریقے سے حاصل ہو اسے بھی محترم سمجھتا ہے ،اور خلیفہ جس طرح سے عمومی اموال کی حفاظت میں کوشاں رہتا ہے اسی طرح لوگوں کے ذاتی مال اور حقوق کی جن کا اسلام نے حکم دیاہے ان کی بھی حفاظت کرتا رہے کیونکہ جس طرح عمومی مصالح کی رعایت کے بغیر عمومی مال کو کسی شخص کو دینا لوگوں کے حقوق کے ساتھ ناانصافی ہے ، اسی طرح کسی کی ذاتی ملکیت کو جواسلامی قانون کے اعتبار سے مالک ہے اس سے چھین لینا لوگوں کے حقوق سے نا انصافی ہے اگر پیغمبر کی بیٹی کا اپنی ملکیت فدک کے بارے میں دعوی کرنا
قانون قضاوت کے مطابق تھا اور اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لئے گواہوں کو جمع کیا تھا اور عدالت کے قاضی کی نظر میں مسئلہ فدک میں کوئی نقص نہ تھا تو ایسی صورت میں قاضی کا صحیح نظریہ دینے سے پرہیز کرنا یا حقیقت مسئلہ کے برخلاف نظریہ پیش کرنا لوگوں کی مصلحتوں کے خلاف اقدام کرنا ہے اور یہ ہے ایسا سنگین جرم جس کی اسلامی قانون میں سخت مذمت کی گئی ہے۔
مسئلہ فدک کا بعض حصہ اس بات پر شاہد ہے کہ ا سکے اندر نقص نہ تھا اور اسلام کے قضائی قانون کی بنیاد پر خلیفہ پیغمبر کی بیٹی کے حق میں اپنا نظریہ پیش کرسکتا تھا، کیونکہ :
پہلے یہ کہ، مورخین کے نقل کے مطابق جیسا کہ گذر چکا ہے خلیفہ نے حضرت زہرا کی طرف سے گواہ پیش کرنے کے بعدچاہا کہ فدک کو اس کے حقیقی مالک کو واپس کردے اور اسی وجہ سے انہوںنے ایک کاغذ پر فدک کو حضرت زہرا کی ملکیت قرار دے کر ان کے سپرد کردیا، لیکن جب عمر اس بات سے آگاہ ہوے تو خلیفہ پر غصہ ہوئے اور نامہ لے کر پھاڑ ڈالا۔
اگر حضرت زہرا کے گواہ ،مدعا کو ثابت کرنے کے لئے کافی نہ تھے ،اور فدک کی سند میں کوئی کمی تھی تو خلیفہ کبھی بھی ان کے حق میںرائے نہیں دیتا اور حقیقی طور پر ان کی ملکیت کی تصدیق نہ کرتا۔
دوسرے یہ کہ ، جن لوگوں نے پیغمبر کی بیٹی کی حقانیت پر گواہی دی تھی وہ یہ افراد تھے:
١۔ حضرت امام امیر المومنین ۔
٢۔ حضرت امام حسن ۔
٣۔ حضرت امام حسین ۔
٤۔ رباح، پیغمبر کا غلام۔
٥۔ ام ایمن۔
٦۔ اسماء بنت عمیس۔
کیا ان افراد کی گواہی حضرت زہرا کے مدعا کو ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں تھی؟
اگر فرض کریں کہ حضرت زہرا اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لئے سوائے حضرت علی اور ام ایمن کے کسی کو عدالت میں نہیں لائیں تو کیا ان دو افراد کی گواہی ان کے مدعا کو ثابت کرنے کے لئے کافی نہ تھی؟
ان دو گواہوں میں سے ا یک گواہ حضرت امیر المومنین ـ ہیں کہ جن کی عصمت و طہارت پر آیت تطہیر کی مہر لگی ہوئی ہے اور پیغمبر کے فرمان کے مطابق ''علی حق کے ساتھ ہیں اور حق علی کے ساتھ ہے اور وہ حق کا محور ہیں اور حق انہی کے اردگرد طواف کرتا ہے'' ان تمام چیزوں کے باوجو دخلیفہ نے امام کی گواہی کو یہ بہانہ بنا کر قبول نہیں کیا کہ ضروری ہے کہ دو آدمی یا ایک آدمی اور دو عورتیں گواہی دیں۔
تیسرے یہ کہ، اگر خلیفہ نے حضرت زہرا کی گواہی اس لئے قبول نہیں کیا کہ تعداد معین افراد سے کم تھی تو ایسی صورت میں قضاوت اسلام کا قانون یہ ہے کہ وہ مدعی سے قسم کا مطالبہ کرے کیونکہ اسلامی قوانین میں مال و دولت اور قرض کے مسئلوں میں ایک گواہ کی گواہی کو قسم کے ساتھ قبول کرکے فیصلہ کرسکتے ہیں ،تو پھر خلیفہ نے اس قانون کے جاری کرنے سے کیوں پرہیز کیا اور جھگڑے کو ختم نہیں کیا؟
چوتھے یہ کہ، خلیفہ نے ایک طرف حضرت زہرا کی گفتگو اور ان کے گواہوں (حضرت علی اور ام ایمن) کی تصدیق کی اور دوسری طرف عمر او رابوعبیدہ کی (ان لوگوں نے گواہی دیا تھا کہ پیغمبر نے فدک کی آمدنی کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم کردیا تھا) تصدیق کی۔ اور پھر فیصلہ کرنے کے لئے اٹھے او رکہا کہ سب کے سب صحیح اور سچے ہیں، کیونکہ فدک عمومی مال میں سے تھا اور پیغمبر اس کی آمدنی سے اپنے خاندان کی زندگی کی ضرورتوں کو پورا کرتے تھے اور باقی اموال کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم کرتے تھے جب کہ ضروری تھا کہ خلیفہ عمر او رابوعبیدہ کی گفتگو پر سنجیدگی سے غور کرتے کیونکہ ان دونوں نے یہ گواہی نہیں دی تھی کہ فدک عمومی مال میں سے تھا بلکہ صرف اس بات کی گواہی دی تھی کہ پیغمبر نے بقیہ اموال کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم کیا تھا، اور یہ بات حضرت زہرا کے مالک ہونے کے ذرہ برابر بھی مخالف نہ تھی کیونکہ پیغمبر اسلام کواپنی بیٹی کی طرف سے اجازت تھی کہ بقیہ اموال کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم کردیں۔
خلیفہ کا وقت سے پہلے فیصلہ اورفدک لینے کا اس کا باطنی رجحان سبب بنا کہ خلیفہ ان دونوں کی اس گواہی کے بہانے کہ پیغمبر اسلام بقیہ مال مسلمانوں کے درمیان تقسیم کرتے تھے حضرت زہرا کی ملکیت ہونے سے انکار کردے جب کہ ان دونوں کی گواہی پیغمبر کی بیٹی کے دعوے کے مخالف نہیں تھی۔
اہمبات یہ کہ خلیفہ نے حضرت فاطمہ زہرا(س) سے وعدہ کیا تھا کہ فدک کے سلسلے میں ہمارا طریقہ وہی رہے گا جو پیغمبر کا طریقہ تھا اگر حقیقت میں فدک عمومی مال میں سے تھا تو پھر کیوں انہوں نے حضرت زہرا سے رضایت چاہی؟ اور اگر ذاتی ملکیت تھی یعنی پیغمبر کی بیٹی کی ملکیت تھی تو اس طرح کا وعدہ جب کہ مالک اپنی ملکیت سپردکرنے سے ا نکار کرے اس میں تصرف کے جواز باعث نہیں بن سکتا۔
ان تمام چیزوں کے علاوہ اگر فرض کریں کہ خلیفہ کے پاس یہ اختیارات نہیں تھے مگر وہ مہاجرین اور انصار سے رائے مشورہ اور ان کی رضایت حاصل کرنے کے بعد فدک پیغمبر کی بیٹی کے حوالے کرسکتا تھا، توکیوں انہوںنے یہ کام نہیں کیا اور حضرت زہرا کے شعلہ ور غضب کا اپنے کو مستحق قرار دیا؟
پیغمبر کی زندگی میں بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیاتھا اور پیغمبر نے مسلمانوں کی رضایت کو حاصل کر کے مشکل کو حل کردیاتھا جنگ بدر میں پیغمبر کا داماد ابو العاص (جو پیغمبر کی پروردہ بیٹی زینب کا شوہر تھا:مترجم) گرفتار ہوا تو مسلمانوں نے اس کے علاوہ اس کے ستر افراد کو بھی گرفتار کرلیا، پیغمبر کی طرف سے اعلان ہوا کہ جن کے رشتہ دار گرفتار ہوئے ہیں وہ کچھ رقم دے کر اپنے اسیروں کو آزاد کرسکتے ہیں۔ ابو العاص ایک شریف انسان اور مکہ کا تاجر تھا او رزمانہ جاہلیت میں اس کی شادی پیغمبر کی پروردہ بیٹی سے ہوئی تھی، لیکن بعثت کے بعد اپنی بیوی کے برخلاف اسلام قبول نہیں کیا اور جنگ بدر میں مسلمانوں کے مقابلے میں شریک ہوااور گرفتار ہوگیا اس کی بیوی ان دنوں مکہ میں تھی زینب نے اپنے شوہر کی رہائی کے لئے اپنے اس ہار کو فدیہ قرار دیا جو آپ کی(پرورش کرنے والی ) ماں خدیجہ نے شادی کی رات دیا تھا جب پیغمبر کی نظر زینب کے ہار پر پڑی تو بہت زیادہ گریہ کیا اور ان کی ماں خدیحہ کی فدا کاری و قربانی یاد آگئی جنھوں نے سخت مشکلات کے زمانے میں آپ کی مدد کی تھی اور اپنی تمام دولت کو اسلام کی کامیابی و ترقی کے لئے خرچ کیا تھا۔
پیغمبر اسلام (ص) عمومی اموال کے احترام کی رعایت کرنے کے لئے اپنے صحابیوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: یہ ہار تمہارا ہے اور اس پر تمہارا ہی اختیار ہے اگر دل چاہے تو اس ہار کو واپس کردو اور ابوالعاص کو بغیر فدیہ لئے ہوئے رہا کردو آپ کے صحابیوں نے آپ کی درخواست کو قبول کرلیا۔
ابن ابی الحدید لکھتے ہیں:(١)
''میں نے زینب کے واقعہ کو اپنے استاد ابوجعفر بصری علوی کے سامنے پڑھا تو انھوں نے اس کی
______________________
شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج١٤، ص ١٦١۔
تصدیق کی اور کہا:کیا فاطمہ کی عظمت و منزلت زینب سے زیادہ نہ تھی ؟کیا بہتر نہیں تھا کہ خلیفہ فاطمہ کو فدک واپس کر کے ان کے قلب کو خوشحال کردیتا؟اگرچہ فدک تمام مسلمانوں کا مال تھا۔
ابن ابی الحدید مزید لکھتے ہیں:
میں نے کہا کہ فدک اس روایت کے مطابق کہ ''گروہ انبیاء بطور میراث کچھ نہیں چھوڑتے'' مسلمانوں کا مال تھا تو کس طرح ممکن تھا کہ مسلمانوں کا مال حضرت زہرا کو دیدیتے؟
استاد نے کہا: کیا زینب کا وہ ہار جو اس نے اپنے شوہر ابوالعاص کی رہائی کے لئے بھیجا تھا وہ مسلمانوں کا مال نہ تھا؟ میں نے کہا:
پیغمبر صاحب شریعت تھے اور تمام امور کے نفاذ او راجراء کا حکم ان کے ہاتھوں میںتھا لیکن خلفاء کے پاس یہ اختیار نہیں تھا۔
استاد نے میرے جواب میں کہا: میں یہ نہیں کہتا کہ خلفاء زبردستی مسلمانوں سے فدک چھین لیتے اور فاطمہ کے ہاتھوں میں دیدیتے، بلکہ میراکہنا یہ ہے کہ کیوں حاکم وقت نے فدک دینے کے لئے مسلمانوں کو راضی نہیں کیا؟ کیوں پیغمبر کی طرح نہ اٹھے اوران کے اصحاب کے درمیان نہیں کہا کہ اے لوگو! زہرا تمہارے نبی کی بیٹی ہیں وہ چاہتی ہیں کہ پیغمبر کے زمانے کی طرح فدک کا نخلستان (کھجور کا باغ) ان کے ہاتھ میں رہے کیا تم لوگ خود اپنی مرضی سے راضی ہو کہ فدک فاطمہ کے حوالے کردیا جائے ؟
آخر میںابن ابی الحدید لکھتے ہیں:
ہمارے پاس استاد کی باتوں کا جواب نہ تھا اور صرف بطور تائید کہا: ابوالحسن عبد الجبار بھی خلفاء کے بارے میں ایساہی اعتراض رکھتا ہے اور کہتا ہے کہ اگرچہ ان کاطور طریقہ شرع کے مطابق تھا لیکن جناب زہرا کا احترام اور ان کی عظمت کا پاس و لحاظ نہیں رکھا گیا ۔

 

 

Add new comment