باغ فدک کو غصب کرنے کا مقصد

دوسرے خلفاء کے زمانے میں اگرچہ فدک کے غصب کرنے کی جو علت تھی یعنی خلافت کو مالی اعتبار سے مضبوط کرناوہ ختم ہوگئی تھی لیکن سرزمین فدک اور اس کی آمدنی پھر بھی سیاسی شخصیتوں اور خلیفہ وقت کی ملکیت تھی اور ان کی خاندان پیغمبر سے جیسی وابستگی ہوتی تھی اس لحاظ

 

خلافت کے شروع کے ایام میں پیغمبر کی بیٹی کے باغ فدک کو غصب کرنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ حکومت کے خزانے کو مستحکم اور خلیفہ اصلی کو مال دنیا سے محروم کردیا جائے لیکن اسلامی حکومت کے بننے اور بڑی بڑی جنگوں میں فتح حاصل ہونے کے بعد حکومت کے پاس دولت و ثروت کا ریل پیل ہونے لگااور اب حکومت نے فدک کی آمدنی سے اپنے کو بے نیاز سمجھا دوسری طرف زمانہ گذرنے کے ساتھ ساتھ خلفاء کی خلافت اسلامی معاشرہ میں اور محکم ہوگئی اور کسی کو بھی یہ گمان نہ تھا کہ حقیقی خلیفہ حضرت امیر المومنین فدک کی آمدنی سے خلیفہ کی مخالفت کریں گے اور ان کے مقابلے میں صف آرائی کریں گے۔ 

دوسرے خلفاء کے زمانے میں اگرچہ فدک کے غصب کرنے کی جو علت تھی یعنی خلافت کو مالی اعتبار سے مضبوط کرناوہ ختم ہوگئی تھی لیکن سرزمین فدک اور اس کی آمدنی پھر بھی سیاسی شخصیتوں اور خلیفہ وقت کی ملکیت تھی اور ان کی خاندان پیغمبر سے جیسی وابستگی ہوتی تھی اس لحاظ سے اس کے بارے میں نظریئے قائم کرتے تھے ،اگر ان کا قلبی رابطہ خاندان پیغمبر نہیں ہوتا تھا تو فدک کو حقیقی مالک (اہلبیت ) نہیں کرتے تھے اوراسے مسلمانوں کی اور حکومت کی جائیداد قرار دیتے تھے لیکن جن کو اہلبیت سے محبت ہوتی تھی یا وقت کا تقاضا تھا کہ اولاد فاطمہ کے ساتھ دلجوئی کی جائے وہ فدک کو اولاد فاطمہ کے حوالے کر دیتے تھے ،ایسا سلسلہ وقت تک رہتا تھا جب تک کہ بعد کے خلیفہ کی سیاست نہ بدلے۔
اسی وجہ سے فدک کبھی ایک حالت پر نہیں رہا، بلکہ ہمیشہ مختلف گروہوں اور متضاد سیاستوں کا شکار رہا کبھی اپنے حقیقی مالکوں کی طرف واپس آتاتو کبھی بلکہ اکثر غصب کیا جاتا تھا۔
خلفاء کے زمانے سے حضرت علی کے زمانے تک فدک اپنی جگہ پر ثابت رہا اور اس کی آمدنی سے تھوڑا سا خاندان پیغمبر کی زندگی کے اخراجات کے طور پر دیا جاتا تھا اور باقی مال دوسرے عمومی مال کی طرح خلفاء کی نگرانی میں خرچ ہوتا تھا۔
لیکن جب معاویہ کے ہاتھ میں حکومت آئی تو اس نے فدک کو تین حصوں میں تقسیم کیا ، ایک حصہ مروان کو اور ایک حصہ عمر و بن عثمان بن عفان کو اور ایک حصہ اپنے بیٹے یزید کو دیا۔
فدک اسی طرح ایک کے بعد دوسرے کے ہاتھ میں جاتا رہا یہاں تک کہ جب مروان بن حکم کی حکومت آئی تو اس نے اپنی خلافت کے زمانے میں باقی دو حصوں کو ان لوگوں سے خرید لیا اور خود اپنا حصہ بنالیا اور پھر اسے اپنے بیٹے عبد العزیز کو دے دیا. اور اس نے بھی اپنے بیٹے عمر بن عبد العزیز کو دیدیا اس کے لئے بطور میراث چھوڑا۔
جب عمر بن عبد العزیز کی خلافت آئی تو اس نے چاہا کہ بنی امیہ کے تمام بدنما دھبوں کو اسلامی معاشرہ کے دامن سے پاک کردے چنانچہ خاندان پیغمبر سے محبت کی وجہ سے سب سے پہلے جس چیز کو اس نے اس کے حقیقی مالک کو واپس کیا وہ فدک ہی تھا اس نے فدک کو حسن بن علی علیہ السلام کے حوالے کیا اور ایک روایت کے مطابق امام سجاد علیہ السلام کے حوالے کیا۔(١)
اس نے مدینہ کے گورنر ابوبکر بن عمرو کے نام خط لکھا اور حکم دیا کہ فدک کو حضرت فاطمہ کے بچوں کو واپس کردے دھوکہ بازحاکم نے خط کا جواب دیتے ہوئے خلیفہ کو لکھا:
مدینے میں فاطمہ کی اولاد بہت زیادہ ہے اور ہر شخص اپنے گھر میں زندگی بسر کر رہا ہے میں فدک کو ان میں سے کس کو واپس کروں؟
عبد العزیز کے بیٹے نے جب حاکم کے خط کو پڑھا تو بہت ناراض ہوا اور کہا:
اگر میں تجھے گائے کو قتل کرنے کا حکم دوں تو تم بنی اسرائیل کی طرح کہو گے کہ اس گائے کا رنگ کیسا ہو جیسے ہی میرا خط تجھ تک پہونچے فوراً فدک کو فاطمہ کے ان بچوں میں تقسیم کردے جو علی کی اولاد ہیں۔
خلافت کے ٹکڑوں پر پلنے والے جو سب کے سب بنی امیہ کے ماننے والے تھے خلیفہ کی اس عدالت سے بہت سخت ناراض ہوئے اور کہا: تو نے اپنے اس عمل سے شیخین کو گناہگار ٹھہرایا ،زیادہ دن نہ گذرے تھے کہ عمر بن قیس اپنے لشکر کے ساتھ کوفہ سے شام پہونچا اور خلیفہ کے اس کام پر تنقید کرنے لگا۔
خلیفہ نے ان سب کے جواب میں کہا:
تم لوگ جاہل و نادان ہو جو کچھ مجھے یاد ہے تم لوگوں نے بھی اسے سنا ہے لیکن فراموش کردیاہے ،میرے استاد ابوبکر بن محمد عمر وبن حزم نے اپنے باپ سے اورانہوںنے اپنے جد سے نقل کیا ہے کہ
______________________
(١) اس دوسرے احتمال کواگرچہ ابن ابی الحدید نے نقل کیا ہے لیکن یہ قول صحیح نہیںہے کیونکہ عمر بن عبد العزیز ٩٩ھ میں خلیفہ ہوا جبکہ امام سجاد کی وفات ٩٤ھ میں ہو چکی تھی یہ ممکن ہے کہ محمد بن علی بن الحسین رہے ہوں اور لفظ محمد چھوٹ گیا ہو۔
پیغمبراسلامۖ نے فرمایا: ''فاطمہ میراٹکڑا ہے جس نے اسے غضبناک کیا اس نے مجھے غضبناک کیا اور جس نے اسے خوش کیا اس نے مجھے خوش کیا'' خلفاء کے زمانے میں فدک اموال عمومی اور حکومت کا حصہ تھا پھر وہ مروان تک پہونچا اور انھوں نے میرے باپ عبدالعزیز کے حوالے کیااور اپنے باپ کے انتقال کے بعدمجھے اور میرے بھائیوں کو بطور میراث حاصل ہوااور میرے بھائیوں نے اپنے حصوں کو مجھے بیچ دیا یا مجھے دیدیا اور میںنے حدیث رسول کے حکم سے زہرا کے بچوں کو واپس کردیا۔
عمر بن عبد العزیز کے انتقال کے بعد، آل مروان ایک کے بعد دوسرے حکومت کی باگ ڈور سنبھالتے رہے اور سب نے عمر بن عبد العزیز کے برخلاف قدم اٹھایااور فدک مروان کے بیٹوں کی خلافت کے زمانے تک ان لوگوں کے تصرف میں تھااور پیغمبر کا خاندان اس کی آمدنی سے بالکل محروم تھا، بنی امیہ کی حکومت ختم ہونے کے بعد جب بنی عباس کی حکومت وجود میں آئی تو فدک کی خاص اہمیت تھی، بنی عباس کے پہلے خلیفہ ''سفاح'' نے فدک عبد اللہ بن حسن کو واپس کردیا اس کے بعد جب منصور آیا تو اس نے واپس لے لیا. منصور کے بیٹے مہدی نے اپنے باپ کی پیروی نہیں کی اور فدک کو حضرت زہراکے بچوں کو واپس کردیا مہدی کے انتقال کے بعد اس کے بیٹے موسی اور ہارون جنھوں نے یکے بعد دیگرے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی فدک کو پیغمبر کے خاندان سے چھین لیا اور اپنے تصرف میں لے لیا یہاں تک کہ ہارون کے بیٹے مامون نے حکومت کی باگ ڈور سنبھال لی۔
ایک دن مامون رد مظالم اور لوگوں کی شکایت وغیرہ سننے کے لئے رسماً بیٹھ گیااور جو خطوط مظلوموں نے لکھے تھے اس کی تحقیق کرنے لگا۔
سب سے پہلا خط جو اس کے ہاتھ میں تھا وہ ایسے شخص کا تھا جس نے اپنے کو حضرت فاطمہ کا وکیل و نمائندہ لکھا تھا اس نے خاندان پیغمبر کے لئے فدک واپس کرنے کا مطالبہ کیا تھا خلیفہ خط پڑھ کر رویا اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اس نے حکم دیاکہ خط لکھنے والے کو بلایاجائے، کچھ دیر کے بعد خلیفہ کے محل میں ایک بوڑھا شخص لایا گیااور مامون سے فدک کے بارے میں بحث کرنے لگا ، تھوڑی ہی دیر مناظرہ ہوا تھا کہ مامون قانع ہوگیا اور حکم دیا کہ رسمی طور پر مدینے کے حاکم کو خط لکھو کہ فدک کو فاطمہ زہرا کے بچوں کو واپس کردے خط لکھا گیا اور خلیفہ نے اس پر مہر لگائی اور مدینہ بھیج دیا گیا۔
خاندان پیغمبر کو فدک مل جانے سے شیعہ بہت خوش ہوئے اور دعبل خزاعی نے اس موقع پر ایک قصیدہ بھی کہا جس کا پہلا شعر یہ تھا:
اصبح وجہ الزمان قد ضحکا
برد مامون ہاشم فدکا(١)
زمانے کے چہرے پر خوشیوں کے آثار نظر آنے لگے کیونکہ مامون نے فدک کو بنی ہاشم کے بچوں (جو واقعی مالک تھے) کو واپس کردیا۔
حیرت انگیزوہ خط ہے جو مامون نے ٢١٠ھ میں فدک کے سلسلے میں مدینہ کے حاکم قیم بن جعفر کو لکھا جسکا خلاصہ یہ ہے:
''امیر المومنین جس کی خدا کے دین اور خلافت اسلامی میں بہت زیادہ اہمیت ہے اور خاندان نبوت سے رشتہ داری کی بنا پر بہترین و شائستہ شخص ہے جس کے لئے ضروری ہے کہ پیغمبر کی سنتوں کی رعایت کرے اور جو کچھ بھی انھوں نے دوسروں کودیا ہے اس کو ان کے حوالے کردے پیغمبر اسلام نے فدک فاطمہ زہرا کو دیا ہے اور یہ بات اتنی زیادہ واضح و روشن ہے کہ پیغمبر کے بیٹوں میں سے کسی نے بھی اس سلسلے میں اختلاف نہیں کیا ہے اور کسی نے اس سے زیادہ کا بھی دعوی نہیں کیا ہے کہ تصدیق کی ضرورت ہوتی''
اسی بنا پر امیر المومنین مامون نے مصلحت سمجھا کہ خدا کی مرضی حاصل ہونے اور عدالت جاری کرنے اور حق کو حقدار تک پہونچانے کے لئے فدک کو ان کے وارثوں کے حوالے کردے اور اس کے لئے حکم جاری کرے ، اسی لئے اس نے اپنے مشیروں اور کاتبوں کو حکم دیا کہ اس مطلب کو حکومتی رجسٹر میں تحریر کریں پیغمبر کے انتقال کے بعد جب بھی حج کی بجا آوری کے موقع پر یہ اعلان کیا گیا کہ جس شخص کا پیغمبر کے پاس صدقہ یا ہدیہ یا اور کوئی چیز ہو وہ مجھے مطلع کرے تو مسلمانوں نے اس بات کو قبول کرلیا تو پھر پیغمبر کی بیٹی کا کیا مقابلہ، ان کی بات کی تو یقیناتصدیق و تائید ہونا چاہئیے۔
امیر المومنین نے مبارک طبری کو حکم دیاکہ فدک کو تمام حدود و حقوق کے ساتھ فاطمہ کے وارثوں کو واپس کردو اور جو کچھ بھی فدک کے علاقے میں غلام، غلے اور دوسری چیزیں ہیں وہ سب محمد بن یحییٰ بن حسن بن زید بن علی بن الحسین اور محمد بن عبد اللہ بن حسن بن علی بن الحسین کو واپس کردو، تم جان لو یہ وہ فکر و نظر ہے
______________________
(١) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج١٦ ص ٢١٨۔ ٢١٦۔
جو امیر المومنین نے خدا سے الہام کے ذریعے حاصل کیا ہے اور خدا نے ان کو کامیاب کیا ہے کہ خدا اور پیغمبر سے توسل و تقرب کریں۔
اس مطلب کو جو افراد بھی تمہاری طرف سے کام کر رہے ہیں ان تک پہونچا دو اور فدک کی تعمیر و آبادی میں ترقی کے لئے ہمیشہ کوشش کرتے رہو۔(١)
فدک حضرت زہرا کے بچوں کے ہاتھ میں رہا یہاں تک کہ متوکل کو خلافت کے لئے منتخب کیا گیاوہ خاندان رسالت کا بہت سخت دشمن تھا لہذا فدک کو حضرت زہرا کے بچوں سے چھین لیا اور عبد اللہ بن عمر بازیار کی جاگیر قرار دیا۔
سرزمین فدک پر ١١ کھجور کے درخت تھے جنہیں خود پیغمبر اسلام نے اپنے مبارک ہاتھوں سے لگائے تھے لوگ حج کے زمانے میں ان درختوں کی کھجوروں کو بطور تبرک اور مہنگی قیمت پر خریدتے تھے جس سے خاندان نبوت کی شایان شان مدد ہوتی تھی۔
عبداللہ اس مسئلہ سے بہت زیادہ ناراض تھا . لہذا ایک شخص کو جس کا نام بشیران تھا اسے مدینہ روانہ کیا تاکہ کھجور کے ان درختوں کو کاٹ دے، اس نے بھی شقاوت قلبی کے ساتھ اس کے حکم پر عمل کیا لیکن جب بصرہ پہونچا تو مفلوج ہو گیا۔
اس دور حکومت کے بعد فدک خاندان پیغمبر سے چھین لیا گیا اور پھرظالم حکومتوں نے وارثان زہرا کو فدک واپس نہیں کیا۔
______________________
(١) فتوح البلدان ٤١۔ ٣٩ تاریخ یعقوبی ج٣ ص ٤٨۔

 

http://www.shiastudies.com/library/Subpage/Book_Matn.php?syslang=4&id=51...

Add new comment