باغ فدک ایک مسلمہ حقیقت
تحریر آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
''فدک '' اطراف مدینہ میں تقریباً ایک سو چالیس کلو میٹر کے فاصلہ پر خیبر کے نزدیک ایک آباد قصبہ تھا۔
جب سات ہجری میں خیبر کے قلعے یکے بعد دیگرے اسلامی فو جو ں نے فتح کرلئے اور یہودیوں کی مرکزی قوت ٹوٹ گئی تو فدک کے رہنے والے یہودی صلح کے خیال سے خدمتِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں سرتسلیم خم کرتے ہوئے آئے اور انہوں نے اپنی نصف زمینیں اور باغات آنحضرت ۖ کے سپرد کردئیے اور نصف اپنے پاس رکھے رہے۔
اس کے علاوہ انہوں نے آنحضرت ۖ کے حصہ کی زمینوں کی کاشتکاری بھی اپنے ذمہ لی، اپنی کاشتکاری کی زحمت کی اجرت وہ آنحضرت ۖ سے وصول کرتے تھے،(سورۂ حشر ، آیت ٧)کے پیش نظر یہ زمینیں رسول اکرم ص کی ملکیت تھیں ، ان کی آمدنی کو آپۖ اپنے مصرف میں لاتے تھے یا ان مقامات میں خرچ کرتے تھے جن کی طرف سورہ حشر ، آیت نمبر٧ میں اشارہ ہوا ہے ۔
رسول اکرم ص نے یہ ساری زمینیں اپنی بیٹی حضرت فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کوعنایت فرمادیں، یہ ایسی حقیقت ہے جسے بہت سے شیعہ اور اہل سنت مفسرین نے صراحت کے ساتھ تحریر کیا ہے، منجملہ دیگر مفسرین کے تفسیر در منثور میں ابن عباس سے مروی ہے :
جس وقت آیت (فاتِ ذَا القُربیٰ حَقّہُ)(١) نازل ہوئی تو رسول اکرم صلی الله علیه و آله نے جناب فاطمہ س کو فدک عنایت فرمایا:(اقطَعَ رَسُول اﷲ فا طمةَ فَدَکاً)(٢)
کتا ب کنزالعمال، جو مسند احمد کے حاشیہ پر لکھی گئی ہے،میں صلہ رحم کے عنوان کے تحت ابوسعید خدری سے منقول ہے کہ جس وقت مذکورہ بالاآیت نازل ہوئی تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فاطمہ سلام اللہ علیہا کو طلب کیا اور فرمایا:
'' یا فاطمہ لکِ فدک''''اے فاطمہ فدک تمہاری ملکیت ہے''۔ (٣)
حاکم نیشاپوری نے بھی اپنی تاریخ میں اس حقیقت کو تحریرکیا ہے۔(٤)
ابن ابی الحدید معتزلی نے بھی نہج البلاغہ کی شرح میں داستان فدک تفصیل کے ساتھ بیان کی ہے اور اسی طرح بہت سے دیگر مورخین نے بھی۔(٥)
لیکن وہ افراد جو اس اقتصادی قوت کو حضرت علی علیہ السلام کی زوجہ محترمہ کے قبضہ میں رہنے دینا اپنی سیاسی قوت کے لئے مضر سمجھتے تھے،انہوں نے مصمم ارادہ کیا کہ حضرت ع کے یاور وانصار کو ہر لحاظ سے کمزور اور گوشہ نشیں کردیں، ایک جعلی حدیث (نَحْنُ مُعَاشَرَ الأنْبِیَائِ لَا نُورِّث) (ہم گروہ انبیاء میراث نہیں چھوڑتے) کے بہانے انہوں نے اسے اپنے قبضہ میں لے لیا اور باوجود یہ کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا قانونی طور پر اس پر متصرف تھیں اور کوئی شخص ''ذوالید''(جس کے قبضہ میں مال ہو)سے گواہ کا مطالبہ نہیں کرتا،جناب سیدہ سلام اللہ علیہا سے گواہ طلب کئے گئے ، بی بی نے گواہ پیش کئے کہ رسول اکرم ص نے خود انہیں فدک عطا فرمایا ہے لیکن انہوں نے ان تمام چیزوں کی کوئی پرواہ نہیں کی، بعد میں آنے والے خلفا میں سے جو کوئی اہل بیت علیہم السلام سے محبت کا اظہار کرتا تو وہ فدک انہیں لوٹا دیتا تھا لیکن زیادہ دیر نہیں گزرتی تھی کہ آنے والہ دوسرا خلیفہ اسے چھین لیتا تھا اور دوبارہ اس پر قبضہ کرلیتا تھا، خلفائے بنی امیہ اور خلفائے بنی عباس نے بارہا ایسا ہی کیا.
(١)سورۂ روم ، آیت ٣٨. (٢)در منثور ، جلد ٤صفحہ ١٧٧.
(٣)کنز العمال ، جلد ٢صفحہ ١٥٨. (٤) دیکھئے: کتاب فدک صفحہ ٤٩ کی طرف .
(٥)شرح ابن ابی الحدید ، جلد ١٦، صفحہ ٢٠٩ اور اس کے بعد .
واقعہ فدک اور اس سے متعلق مختلف واقعات جو صدراسلام میں اور بعد میں پیش آئے،زیادہ دردناک اورغم انگیز ہیں اور وہ تاریخ اسلام کا ایک عبرت انگیز حصہ بھی ہیں جو محققانہ طور پر مستقل مطالعہ کا متقاضی ہے تا کہ تاریخ اسلام کے مختلف واقعات نگاہوں کے سامنے آسکیں۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ اہل سنت کے نامور محدث مسلم بن حجاج نیشاپوری نے اپنی مشہور و معروف کتاب ''صحیح مسلم'' میں جناب فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کا خلیفہ اول سے فدک کے مطالبہ کا واقعہ تفصیل سے بیان کیا ہے، اور جناب عائشہ ر کی زبانی نقل کیا ہے کہ جب خلیفۂ اول نے جناب فاطمہ کو فدک نہیں دیا تو بی بی ان سے ناراض ہوگئیں اور آخر عمر تک ان سے کوئی گفتگو نہیں کی۔
(صحیح مسلم، کتاب جہاد ، جلد ٣ ص١٣٨٠ حدیث ٥٢)۔۔۔۔۔
دیگر تفصیل ۔ ۔
تفسیر نمونہ ، جلد ٢٣، صفحہ ٥١٠.
Add new comment