تھر کی صورتحال اور حکمرانوں کی غفلت۔پیشکش ٹی وی شیعہ

تھر کی صورتحال اور حکمرانوں کی غفلت۔پیشکش ٹی وی شیعہ


ٹی وی شیعہ[ریسرچ ڈیسک]خبر یہ ہے کہ جب پچھلے دِنوں صوبہ سندھ کے ضلع تھرپارکرمیں آئی خشک سالی اور اِس قحط سالی کے باعث وہاں کے عوام پر ٹوٹنے والی قیامت سے بے خبری پر سندھ اور وفاقی حکومتوں کو شدیدتنقیدوںکا نشانہ بنایاگیاتوسندھ اور وفاقی حکومتوں کے کانوں پر کچھ کچھ جوں تو رینگنی شروع ہوئی مگر اِس طرح یہ پھربھی نہ رینگ سکی ہے جس کی توقع کی جارہی تھی ۔
اگر چہ آج ( یعنی اِن سطورکے رقم کرنے تک)بھی میڈیامسلسل تھرپارکرکی صورتحال کو فوکس کیا ہواہے مگرپھربھی حکمرانوں کی بے خبری کی بھی انتہاہے کہ وہ اَب بھی اِس سے بے خبرہی رہنے اور عوام کو تھرپارکر کی صُورتحال پربے خبررکھنے کوہی اپنی عافیت سمجھ رہے ہیں ، تھرپارکرکی سنگین ہوتی صورتحال پر سندھ کے ایک صوبائی وزیربرملایہ کہتے پھر رہے ہیں کہ تھرپارکر کے سانحہ خشک سالی پر میڈیاجس قدربچوں کی ہلاکت کی تعدادبڑھاچڑھا کر بتاکرویلاکررہاہے.
آج درحقیقت بچوں کی اتنی بڑی تعدادبھوک اور گندم نہ ملنے کی وجہ سے ہلاک نہیں ہوئی ہے بلکہ بچوں کی زیادہ تراموات سردی کی وجہ سے ہوئی ہے اور دوسری طرف جب میڈیاپر تھرپارکرکی خشک سالی اور 200سے زایدبچوں کی ہلاکت سے متعلق خبرنشرہوئی تو (طنزاََ تُرنت) چارروز گزرجانے کے بعدہمارے سندھ کے انتہائی متحرک اور برق رفتار وزیراعلیٰ سائیں سیدقائم علی شاہ نے تھرپارکرکا سیاسی دورہ کیا اور جب یہ چندعلاقوں اور دیہاتوں کا دورہ اور فوٹوسیشن کرواچکے تو اِن سمیت اِن کے ہمراہ آئے وزرا اور دیگرمہمانوں کے لئے سرکٹ ہاو ¿س آمد پر قومی خزانے سے منوں کوفتوں، مچھلی ،بریانی، مرغی کی دیگوںسمیت دیگر کھانوں سے کسی شاہی خاندان کی شادی جیسااہتمام کرکے سندھ کی تاریخ کا تاریج ساز تواضع کا انتظام کیاگیا،یوںہمارے وزیراعلیٰ سندھ جنہیں عوامی دُکھ دردکا شدت سے ہر وقت احساس رہتاہے ، پتہ نہیں کیوں ...؟
اِنہیںاپنی ایک وقت کی بھی بھوک برداشت نہ ہوسکی اور اُن سمیت اِن کے ہمراہ(تھرپارکرکے دورے پر) آئے مہمانوں نے اپنی اعزاز میں رکھے گئے کھانوں پر ایسے ہاتھ صاف کیا جیسے کہ یہ یہی تھرپارکرکے سب سے زیادہ متاثرین میں سے ہیں،اِن سب کو کھاناکھاتے دیکھ کر ایسامحسوس ہواکہ جیسے آ ج اگراِنہیں کھانہ نہ ملتااور یہ کسی ننگے بھوکے کی طرح اِس کھانے پر ٹوٹ کر اِسے نہ کھاتے توممکن تھاکہ کچھ سے کچھ ہوجاتا..مگر وہ تو اچھاہواکہ اِنہوں نے اپنے مہمانوں کے ہمراہ کوفتے، مچھلی، بریانی اور دیگر کھانے کھالیئے اور کئی اقسام کے ٹھنڈ ے مشروبات سے اپنی پیاس بجھائی تو اِن کی جان میں جان آئی ورنہ پتہ نہیں کیا ہوجاتا...؟؟؟؟
بہرحال ...!آج حکمرانوکے لئے تو یہ کوئی بات نہ ہو...؟مگرتھرپارکر کے بھوکے پیاسے عوام کے لئے تو موجودہ لمحات قیامت بن کر گزررہے ہیں...!!کوئی اُن سے پوچھے جن کے لختِ جگربھوک کی وجہ سے تڑپ تڑپ کر مرچکے ہیں یا مرنے کے قریب تر ہیں،آج اُن پر کیا گزررہی ہے..؟مگریہ دردوہ کیا جانیں گے...؟ جن(حکمران ، وزراءاور بیورکریٹس) کی اولادیں منہ میں سُونے کا چمچہ لے کرپیداہوئی ہیں ، ارے اِن حکمرانو، سیاستدانوں، وزرااور امیرزادوں کی اولادیں تو اُولادیں اِن کے تو کُتے بھی غریبوں کے بچوں سے اچھی خوراک کھاتے ہیں، اَب یہاں مجھے یہ کہنے دیجئے کہ اِن حکمرانوں، سیاستدانوں ، وزراءاور امیرزادوں کو تواپنے بنگلوں کی چوکیداری پر معمور کُتوں کے بھوکنے کی آوازیں تو بھلی لگتی ہیںکیوں کہ یہی کُتوں کی بھوکنے کی آوازیںاِنہیں چین کی نیندیں سُلانے کاذریعہ جو بنتی ہیں مگرجب کوئی غریب تھرپارکر یا کسی اور جگہہ بھوک کی وجہ سے بلک بلک کر مرتاہے توہمارے حکمرانوں کو اِس کی آہ وفغاں بھی زہر لگتی ہے .
آج تھرپارکرکے حوالے سے میڈیا پر خبر نشر ہونے کے بعد جس طرح سندھ حکومت کے بے حس حکمرانوں میں ذراسی زمبیش آگئی ہے اگراِن میں یہی حرارت کچھ دن پہلے آچکی ہوتی کہ جب ماہرین خوراک بتارہے تھے کہ سندھ کا صحرائی علاقہ تھرپارکرخشک سالی کا شکار ہونے کو ہے حکومت الوقت جلد اِس کے تدارک کے لئے حکمتِ عملی واضح کرلے....یوںاُس وقت ہی ہمارے یہی حکمران تھرپاکرکے غریب اور بھوکے عوام کا رونا سُن لیتے تو آج ممکن تھاکہ صوبہ سندھ کے ضلع تھر پارکرمیں غذائی قلت کی وجہ سے تقریباََ200بچوں کی ہلاکت کا سانحہ نہیں گزرتامگر افسوس ہے کہ اُس وقت تو یہ سب کے سب ہی ا قتدار کی بھنگ پی کر اپنی اپنی مستیوں میں مست تھے، اورتب تو ہمارے حکمران سندھ ثقافت کی اجاگرکی آڑ میں قومی خزانے سے اربوں روپے خرچ کرکے صدیوں سے تباہ حال موہن جوڈروکے قبرستان کے مُردوں کو انگلش وسندھی اور قومی زبان میں گانے سُناناکر اِن کے آرام میں خلل ڈال رہے تھے اور خود بھی انگریزی گانوں کی دہنوں کے مزے لوٹ رہے تھے
جبکہ یہاں یہ امرافسوس ناک ہے کہ جوں جوںوقت گزرتاجارہاہے تھرمیں حکومتی بدانتظامی اور بے حسی کے باعث خشک سالی کے شکار اِنسانوں کی زندگیاں خطرے سے دوچار ہوتی جارہی ہےں ،اَب تک 2400سے زائد دیہاتوں میں کوئی امدادی کارروائی شرو ع نہیں ہوسکی ہے،تھرمیں صُورتحال سنگین سے سنگین ترہوتی جارہی ہے، لگ بھگ 3000مریض اسپتال میں داخل ہیں،اِن میں سے بیشترایسے بھی ہیں جو بھوک و افلاس کے باعث موت کی وادی میں جانے کے منتظر ہیں،صحرائی علاقے تھرپارکرکے خشک سالی سے بدحال... مگر موت سے بچ جانے والے سیکٹروں دیہات کے مکین نقل مکانی کرنے پر مجبورہیں ، حکومت کی زبانی جمع خرچ ختم توکیا کم ہی ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے۔اِس پر بھی سندھ اور وفاقی حکومت میں سیاسی اسکورنگ اور نمبر آف گیم جاری ہے،سندھ حکومت نے تھرپارکرکے سانحہ خشک سالی پرکسی کھسیانی بلی کے مافق اپنی مظلومیت اور وفاقی حکومت کے عدم تعاون کا زور شورسے روناشروع کردیاہے، اور عوام الناس پر یہ تاثرپیداکرناشروع کردیاہے کہ جیسے وفاقی حکومت سانحہ تھرپارکرپر سندھ حکومت کو ذمہ دارٹھیراکر اِس سے کسی قسم کا تعاون نہیں کررہی ہے،جبکہ موجودہ حالات میں ہوناتویہ چاہئے کہ صوبائی اور وفاقی حکومت اپنی اپنی سیاست چمکانے کے بجائے تھرکے متاثرین کی دادرسی کرے لڑنے اور سیاست کرنے کا بہت وقت ہے ابھی تو ضرورت صر ف اِس امر کی ہے کہ سندھ حکومت وفا ق سے فوری مددکی درخواست کرے اور وفاقی حکومت بھی وقت اور حالات کی نزاکت کو سمجھتے اور سندھ حکومت کی فوری مددکرے ایسے میں وفاقی حکومت کو بھی کسی سیاسی گیم سے اجتناب برتناچاہئے اور بس ....!!کیوں کہ عوام کی نظرمیں سانحہ تھرپارکی جتنی ذمہ داری سندھ حکومت ہے تو اُتنی ہی وفاقی حکومت بھی ہے ،اَب یہ بات سندھ اور وفاقی حکومت کو خود سمجھ لینی چاہئے کہ عوام سب سمجھتے ہیں کہ اِس معاملے میں کون کتناذمہ دارہے اور کتنانہیں....؟؟؟؟؟؟
بقلم: محمداعظم عظیم اعظم
بشکریہ::::::::::::http://www.aalmiakhbar.com/index.php?mod=article&cat=azeemazam&article=4...
 

نویں کمنٹس