غيبت امام عليہ السلام

غيبت امام عليہ السلام

 

پھر يہ بھي ضروري نہيں ہے کہ ايک بستي ميں سورج نظرنہ آئے تو دوسري آبادي ميں چھپا رہے بلکہ بيک وقت کسي شہر ميں دھوپ ہوتي ہے کسي ميں گھٹا ہوتي ہے کسي ملک ميں دن ہے کسي ميں رات ہے ، کہيں دھوپ ميں مصلحت ہے -جب آفتاب صاف دکھائي دے رہا ہو توتھوڑي سي ديربھي آنکھيں کھول کر اس کيطرف نظرقائم نہيں رہتي اورايسي صورت سے ہر شخص اس کي روشني کا متحمل نہيں ہو سکتا بلکہ بعض اوقات ايسے عمل سے بينائي جاتي رہتي ہے -اسي طرح يہ ايسا وقت ہے کہ اگر امام عليہ السلام ظاہر ہو جائيں توبہت سے لوگ حضرت کو ديکھنے سے بالکل اندھے اور حق سے منحرف ہوسکتے ہيں کيونکہ ان ميں اپني بد اعماليوں کي وجہ سے وہ کمزورياں پيد ہو چکي ہيں کہ حقيقت حق کے تحمل کي قوت باقي نہيں رہي حالانکہ وہ بظاہر اس زمانہ غيبت ميں اسلام پر قائم ہيں -اس وقت حضرت حجت عليہ السلام کي مثال آفتاب کي مثال ہے جب کہ وہ بادل ميں پوشيدہ کہ ايسي حالت ميں بھي اس کي روشني سے دنيا فائدہ اٹھاتي ہے اگرچہ بے بصارت آدمي محروم رہتا ہے -
اسي طرح امام عليہ السلام کے فيوض سے ايمان کي بينائي والے مستفيض ہو  رہے ہيں ليکن بے بصيرت لوگ محروم ہيں اور اس  کہ باوجود ابر کے بھي بعض اہل نظر سورج کو اسي طرح ديکھ ليتے ہيں کہ يکايک ذرا بادل ہٹا اور ان کي نگاہ اس پر پڑگئي مگر دوسروں کو ديکھائي نہيں ديتا -آفتاب کے مقابل ابر کا حصہ دفعتا ہلکا ہوا اور تيز نظر لوگوں نے قرص آفتاب کو ديکھ ليا ليکن عام طور پر سب لوگوں کي نظريں اس پر نہ پڑ سکيں اسي طرح کچھ  خوش قسمت لوگ موجودہ  زمانہ غيبت ميں بھي امام عليہ السلام کي زيارت سے مشرف ہوتے ہيں اور ان کو شرف ملاقات ہو سکتا ہے -
ايمان بالغيب و انتظار ظہور ضرور  دشوار گزار منزل ہے مگر ايسي مبارک کہ جناب رسالت مآب نے اپنے اصحاب سے ارشاد فرمايا تھا کہ تمہارے بعد ايک ايسي قوم آئے گي جن ميں ايک شخص اجروثواب ميں تمہارے پچاس آدميوں کے برابر ہو گا -انھوں نے عرض کيا کہ ياحضرت ہم نے تو بدر و حنين ميں جہاد کئے ،ہمارے تذکرے قرآن ميں ہيں -فرمايا کہ اگر ان کے جيسے مصائب و صعوبتيں پيش آئيں تو تم ان کي طرح صبرنہيں کرسکتے -
جناب اميرالمومنين عليہ السلام کا ارشاد ہے کہ ظہورکے منتظر رہنا کيونکہ خدا کے نزديک بہترين عمل انتظار ہے اور ہمارے امر کا منتظر مثل اس شخص کے ہے جو راہ خدا ميں شہيد ہو اور اپنے خون ميں لوٹے

نویں کمنٹس