حرم حضرت زینب(س) کے محافظ افغانی نوجوان کی شہادت/ بے سر بدن ماں کی آغوش میں لوٹا/ تصاویر +18
حرم حضرت زینب(س) کے محافظ افغانی نوجوان کی شہادت/ بے سر بدن ماں کی آغوش میں لوٹا/ تصاویر +18
جب شہید رضا اسماعیلی کی ماں نے بیٹے کا بے سر بدن اپنی آغوش میں لیا ہو گا تو جناب فاطمہ زھرا(س) کو مخاطب کر کے یہی کہا ہو گا کہ جس طرح کل آپ نے اپنی بیٹے حسین(ع) کا بے سر بدن اپنی آغوش میں لیا تھا اسی طرح آج آپ کی کنیز نے بھی اپنے اس بیٹے کا بغیر سر کے بدن اپنی آغوش میں لیا ہے جو آپ کی لخت جگر بی بی زینب (س) کے روضے کی حفاظت کرنے گیا تھا۔
۲۰۱۱ سے شام میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے ابتک جہاں دھشتگردوں کا ساتھ دینے کے لیے مختلف ممالک کے لوگ جا رہے ہیں وہاں اسلامی مقدسات کی حفاظت کرنے کے لیے بھی عاشقان اہلبیت(ع) شام کا رخ کر رہے ہیں۔ اس دوران مختلف ملکوں کے کئی جوان اس ملک میں روضہ ہائے اقدس کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں۔ حتی بعض ممالک میں اہلبیت(ع) کے چاہنے والوں نے مختلف ناموں سے جوانوں کے لشکر تیار کئے ہیں اور انہیں ابتدائی ٹریننگ دے کر شام بھیجا جا رہا ہے تاکہ شام میں موجود روضوں کی حفاظت کو صرف شامی فوج پر چھوڑ دیا جائے بلکہ اہلبیت(ع) کے چاہنے والے خود ان روضوں کی حفاظت کریں اور تکفیریوں کے شر سے انہیں محفوظ رکھیں۔ اس مقصد کے لیے تیار کئے گئے لشکروں میں سے "کتائب اهل الحق"٬ "فاطمیون"٬ "خدام العقیلة"٬ "ذوالفقار" و "اباالفضل العباس" کا نام لیا جا سکتا ہے۔
فاطمیوں نام کا لشکر افغانستان کے شیعہ جوانوں پر مشتمل ہے جنہوں نے شام میں اسلامی مقدسات کی حفاظت میں کافی قربانیاں پیش کی ہیں گزشتہ مہینے میں ہی ۱۰ افغانی شہیدوں کا مشہد، اصفہان اور قم میں تشییع جنازہ کیا گیا۔ لیکن حالیہ دنوں میں تکفیری دھشتگردوں نے دوبارہ اپنے آباو اجداد کی رسم زندہ کرنا شروع کر دی ہے وحشیانہ انداز میں جوانوں کو شہید کر کے ان کے سر قلم کرنا صرف سن ۶۱ ہجری کے یزید اور ابن زیاد کا کام نہیں تھا بلکہ عصر حاضر کے یزید اور ابن زیاد بھی یہی کام کرتے ہیں۔
شام سے موصولہ اطلاعات کے مطابق اس بار بھی تکفیریوں نے ’’رضا اسماعیلی‘‘ افغانی نوجوان جو لشکر ’’فاطمیون‘‘ کی سرپرستی میں روضۃ حضرت زینب (س) کی حفاظت میں شام گیا ہوا تھا کا سر قلم کر کے اپنے باپ داد کی رسم کے مطابق اسے لکڑی کے ایک طشت میں لا کر رکھ دیا۔
شہید رضا اسماعیلی افغانستان کا ایک شیعہ نوجوان تھا جو ایران کے شہر مشہد میں رہتا تھا جس کی عمر ۱۹ سال تھی اور مشہد کے یونیورسٹی فردوسی میں زیر تعلیم تھا۔ کہا جاتا ہے کہ رضا ایک دلیر اور ورزشکار نوجوان تھا۔
شام میں جب تکفیریوں نے اسلامی مقدسات کی توہین شروع کی تو شہید رضا سے برداشت نہ ہو سکا عشق اہلبیت(ع) نے دل میں انگڑائی لی تو شہید رضا نے لشکر فاطمیوں کا سہارا لے کر خود کو شام پہنچا دیا اور تکفیریوں کے خلاف بندوق اٹھا لی۔
ابنا کو شام سے شہید رضا اسماعیلی کی شہادت کی خبر دینے والے ذرائع نے بتایا کہ گزشتہ ہفتے جب شام کے علاقے غوطہ شرقیہ کے شیعہ نشین گاوں’’ زمانیہ‘‘ میں تکفیریوں کے ساتھ جھڑپ شروع ہوئی تو شدید جنگ کے بعد کچھ دیر کے لیے سیز فائر ہوا تو دیکھا ہماری ٹیم کا ایک آدمی موجود نہیں ہے شہید اسماعیلی اس کی تلاش میں نکلے کہ دشمنوں نے ان پر حملہ کر دیا رضا اسماعیلی شدید زخمی ہو کر گر گئے اور واپس نہیں پلٹ سکے اسی اثنا تکفیریوں کے ہاتھ لگ گئے۔
انہوں نے مزید اطلاع دی کہ اتوار شام کو جب ہم اس شیعہ نشین علاقے کو تکفیریوں سے نجات دلانے میں کامیاب ہو گئے تو اس کے بعد اپنے شہیدوں اور زخمیوں کی تلاش شروع کی۔ اسی دوران ہم نے رضا اسماعیلی کا بدن بغیر سر کے پایا اور تاھم ہمیں رضا کا کٹا ہوا سر نہیں ملا ہے۔ ہم جب واپس زینبہ پہنچے تو دوستوں نے خبر دی کہ رضا اسماعیلی کے کٹے سر کی تصویر تکفیریوں نے شائع کر دی ہے ۔ ہم اس کے سر کی تصویر کو دیکھ کر برداشت نہیں کر پا رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ شہید رضا اسماعیلی کی لاش پیر کو اس کے گھر والوں کے پاس جو ایران میں رہتے ہیں بھیج دی ہے۔
جب شہید رضا اسماعیلی کی ماں نے بیٹے کا بے سر بدن اپنی آغوش میں لیا ہو گا تو جناب فاطمہ زھرا(س) کو مخاطب کر کے یہی کہا ہو گا کہ جس طرح کل آپ نے اپنی بیٹے حسین(ع) کا بے سر بدن اپنی آغوش میں لیا تھا اسی طرح آج آپ کی کنیز نے بھی اپنے اس بیٹے کا بغیر سر کے بدن اپنی آغوش میں لیا ہے جو آپ کی لخت جگر بی بی زینب (س) کے روضہ کا محافظ بننے گیا تھا۔
آخر میں ابنا اپنے تمام قارئین سے معذرت خواہ ہے کہ شیعیان حیدر کرار کی ایسی دلخراش تصویریں شائع کرتی ہے جن کا برداشت کرنا انتہائی سخت ہے لیکن یہ ہماری مجبوری ہے کہ ہم ایسی تصویری شایع کر کے تکفیریوں کے جرائم دنیا والوں کے سامنے ظاہر کریں اور ان کی حقیقت سے پردہ ہٹائیں کہ یہ قوم مسلمان تو دور کی بات انسان بھی نہیں ہے۔
ابنا
نویں کمنٹس