اتحاد امت کا طریقہ کار
اتحاد امت کا طریقہ کار
ثاقب اکبر
’’اتحاد امت‘‘ کے لیے مختلف لوگوں کے پاس مختلف فارمولے ہیں۔ ہماری رائے میں جب تک فارمولا ایک نہ ہو، یہ عظیم اور خوبصورت خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ بعض لوگوں کی رائے یہ ہے کہ جن گروہوں یا مکاتب فکر کو وہ مسلمان نہیں سمجھتے انھیں امت کی صفوں سے نکال دیا جائے اور اس طرح ’’باقی ماندہ‘‘ امت کے مابین اتحاد قائم ہوجائے گا۔ بعض افراد کا اصرار ہے کہ ’’قرآن و سنت‘‘ کی جو تعبیر ان کے ہاں معتبر ہے اسے ساری امت قبول کرلے، اس طرح امت ایک پلیٹ فارم پر اکٹھی ہو جائے گی اور یوں اتحاد و اتفاق ظہور میں آجائے گا۔
وہ بھی ہیں جو اپنے بعض ’’اسلاف‘‘ کی تعبیر و تشریح کو معتبر جانتے ہیں اور دوسروں کے ’’اسلاف‘‘ کی تعبیر و تشریح کو مسترد کرتے ہیں۔ اپنے شیخ کو ہی ’’شیخ الاسلام‘‘ قرار دیتے ہیں اور ذہنی طور پر یہ حق دوسروں کو دینے کے لیے تیار نہیں کہ وہ اپنے اکابر کو شیخ الاسلام قرار دیں۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو قدم اس سے بھی آگے بڑھاتے ہیں، وہ اپنی تعبیر و فہم کی تبلیغ کے لیے تمام تر وسائل کو بروئے کار لاتے ہیں۔ مزید برآں دوسروں کو تبلیغ و اظہار سے روکنے کے لیے بھی کمربستہ ہیں۔ وہ دوسروں کو زیادہ سے زیادہ یہ حق دیتے ہیں کہ وہ دل میں کوئی عقیدہ رکھ لیں، اپنے گھر میں کوئی رائے رکھ لیں لیکن اگر انھیں معلوم ہوگیا کہ ان کے دل میں کچھ مختلف عقیدہ ہے تو پھر ’’دما دم مست قلندر‘‘ ہوگا۔
ہماری رائے میں ’’اتحاد امت‘‘ کے لیے ایسے فارمولے کار آمد نہیں ہوسکتے۔ ان سے فساد فی الارض پھیلنے اور بڑھنے کا اندیشہ ہے، ان سے امن و سلامتی کا ماحول پیدا نہیں ہوسکتا۔ ’’اتحاد امت‘‘ کے نظریے سے پہلے ’’لا اکراہ فی الدین‘‘ اور ’’لکم دینکم ولی دین‘‘ کا نظریہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ جیو اور جینے دو، اپنا عقیدہ بھلے نہ چھوڑو، کسی کا عقیدہ ہرگز نہ چھیڑو اور پرامن بقائے باہم جیسے اصولوں پر یقین رکھنے اور انھیں عملی زندگی میں اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ عقیدے اور رائے کی آزادی پر یقین و ایمان کے بغیر اتحاد امت کی منزل کی طرف پیش رفت نہیں کی جاسکتی۔
بعض لوگ اسلحے اور پراپیگنڈا کی طاقت سے اپنی بات منوانے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ اس سے پورا معاشرہ خوفزدہ ہو کر رہ جائے گا، جبکہ خوف وحشت کی فضا پیدا کرکے ایک مفید کردار کا حامل انسانی معاشرہ تشکیل نہیں دیا جاسکتا۔ انبیائے الٰہی ایسا معاشرہ پیدا کرنے کے لیے تشریف نہیں لائے تھے۔ ہر کوئی حکیمانہ طریقے سے اپنا نقطۂ نظر اپنے دلائل کے ساتھ پیش کرے اور’’وما علینا الا البلاغ‘‘ کہہ کر اپنا راستہ لے۔ زبردستی اور دھونس کے ذریعے فرعون و نمرود جیسے انسان دشمن اپنا نظریہ منوانے کے درپے ہوتے ہیں۔
ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ مشرکین مکہ آنحضرتؐ کو عقیدے اور رائے کی آزادی دینے کے لیے تیار نہ تھے۔ شعب ابی طالب میں کئی برس تک آنحضرتؐ اور آپ کے ہمراہ دیگر بنی ہاشم کو بھوکا پیاسا محصور رکھا گیا، تاکہ انھیں ترک عقیدہ پر مجبور کیا جاسکے۔ جب کچھ مسلمان اپنی جان اور عقیدے کی حفاظت کے لیے حبشہ چلے گئے تو وہاں بھی ان کا پیچھا کیا گیا۔ یہ تو بادشاہ حبشہ کا خدا بھلا کرے، جس نے مشرکین مکہ کے نمائندوں کے ہمراہ ان پردیسیوں کو بھیجنے سے انکار کر دیا، ورنہ یہ ستمگر نہ جانے ان پر ظلم و بربریت کے کیا کیا پہاڑ توڑتے۔ ہجرت کی رات انہی وحشیوں نے آنحضرتؐ کو (نعوذباللہ) قتل کرنے کا منصوبہ بنا رکھا تھا۔ پھر مدینہ پر بھی انھوں نے بار بار چڑھائی کی، جبکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی پر اپنا عقیدہ زبردستی مسلط نہ کرنا چاہتے تھے اور نہ انھوں نے کبھی ایسا کیا۔ میثاق مدینہ پر دستخط کرنے والوں میں مدینے کے یہودی اور بت پرست بھی شامل تھے۔ یہاں تک کہ اس تاریخی دستاویز میں ان سب کو ’’ایک امت‘‘ قرار دیا گیا ہے۔
ہمیں فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ قرآن حکیم نے ایک مشترکہ کلمے پر اہل کتاب کو اتحاد کی دعوت دی ہے۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ اہل کتاب آنحضرتؐ کی نبوت پر ایمان نہیں رکھتے، قرآن حکیم کو سچی آسمانی کتاب تسلیم نہیں کرتے اور کعبہ کو قبلہ نہیں مانتے۔ ایسے گروہ جو اللہ کی توحید پر ایمان رکھتے ہیں، آنحضرتؐ اور آپؐ سے پہلے آنے والے سب نبیوں پر ایمان رکھتے ہیں، قرآن پاک کو اللہ کی سچی کتاب سمجھتے ہیں اور کعبہ کو اپنا قبلہ مانتے ہیں، کیا ہم ان کے ساتھ مل جل کر نہیں رہ سکتے۔؟
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ دنیا کے مختلف ملکوں میں بسنے والے مسلمان دین کی بنیادی تعلیمات پر تو ایک جیسا ایمان رکھتے ہیں، لیکن ان تعلیمات کی مختلف تعبیرات و تشریحات کو اپنائے ہوئے ہیں۔ ایران میں اثناء عشری شیعہ اکثریت میں ہیں تو یمن میں زیدی شیعوں کی اکثریت ہے۔ پاکستان میں حنفی اکثریت میں ہیں تو مصر میں شوافع کی تعداد زیادہ ہے۔ سعودی عرب میں حنابلہ کا تناسب زیادہ ہے تو لیبیا میں مالکیوں کی اکثریت ہے۔ پاکستان اور بھارت میں خود حنفی بھی بریلوی اور دیوبندی میں تقسیم ہیں۔ اسی طرح اہل حدیث اور ظاہری مسلک کے مسلمان بھی دنیا کے مختلف ملکوں میں بستے ہیں۔ سلطنت عمان میں اباضیہ کی اکثریت ہے جسے ہمارے الفاظ میں ’’خوارج کی اصلاح یافتہ شکل‘‘ کہہ سکتے ہیں۔
بعض گروہ کسی فقہی مسلک سے منسوب ہونے سے زیادہ اپنے سلسلۂ تصوف سے وابستگی پر زور دیتے ہیں۔ ممالک و اوطان کی تقسیم اس پر مستزاد ہے۔ اس کے علاوہ بھی مسلمانوں میں تقسیم اور پھر تقسیم در تقسیم کی کئی صورتیں ہیں۔ بہتر یہی ہے کہ جو گروہ بھی دین اسلام کی بنیادی تعلیمات پر ایمان کا اظہار کرتا ہے اسے مسلمان تسلیم کر لیا جائے اور اپنی تشریح و فہم کو زبردستی دوسرے پر مسلط کرنے کی فکر کو ذہن سے نکال دیا جائے۔ اگرچہ اپنا نظریہ اچھے انداز سے اور دوسرے کا احترام ملحوظ رکھ کر بیان کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہونا چاہیے۔ ہماری رائے میں اتحاد امت کا مقصد اسی فارمولے سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔
عالم اسلام کے اکابر علماء اور دانشور جو تمام مسلمان گروہ میں محبوبیت و احترام رکھتے ہیں، اسی حکمت عملی کو اختیار کیے رہے۔ آج بھی ان اکابر کی آواز اور نام مسلمانوں میں موثر ہے۔ گذشتہ صدی میں سید جمال الدین افغانی، امام حسن البنا، سید قطب شہید، آیت اللہ بروجردی، مولانا مودودی، امام خمینی اور علامہ اقبال جیسی عظیم اسلامی شخصیات یہی بصیرت عام کرتی رہیں۔ انہی کا مخلصانہ پیغام اور طرز عمل آج بھی ہمارے لیے فکر کشا اور راہنما ہوسکتا ہے۔
نویں کمنٹس